مکتوب (۲۸)
(٢٨) وَ مِنْ كِتَابٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
مکتوب (۲۸)
اِلٰى مُعَاوِیَةَ جَوَابًا
معاویہ کے نام
وَ هُوَ مِنْ مَّحَاسِنِ الْكُتُبِ
یہ مکتوب امیرالمومنین علیہ السلام کے بہترین مکتوبات میں سے ہے:
اَمَّا بَعْدُ! فَقَدْ اَتَانِیْ كِتَابُكَ تَذْكُرُ فِیْهِ اصْطِفَآءَ اللهِ مُحَمَّدًا ﷺ لِدِیْنِهٖ، وَ تَاْیِیْدَهٗ اِیَّاهُ بِمَنْ اَیَّدَهٗ مِنْ اَصْحَابِهٖ، فَلَقَدْ خَبَّاَ لَنَا الدَّهْرُ مِنْكَ عَجَبًا، اِذْ طَفِقْتَ تُخْبِرُنَا بِبَلَآءِ اللهِ عِنْدَنَا وَ نِعْمَتِهٖ عَلَیْنَا فِیْ نَبِیِّنَا، فَكُنْتَ فِیْ ذٰلِكَ كَنَاقِلِ التَّمْرِ اِلٰی هَجَرَ، اَوْ دَاعِیْ مُسَدِّدِهٖ اِلَی النِّضَالِ.
تمہارا خط پہنچا [۱] ۔ تم نے اس میں یہ ذکر کیا ہے کہ اللہ نے محمد ﷺ کو اپنے دین کیلئے منتخب فرمایا اور تائید و نصرت کرنے والے ساتھیوں کے ذریعہ ان کو قوت و توانائی بخشی۔ زمانہ نے تمہارے عجائبات پر اب تک پردہ ہی ڈالے رکھا تھا جو یوں ظاہر ہو رہے ہیں کہ تم ہمیں ہی خبر دے رہے ہو، ان احسانات کی جو خود ہمیں پر ہوئے ہیں اور اس نعمت کی جو ہمارے رسول ﷺ کے ذریعہ سے ہمیں پر ہوئی ہے۔ اس طرح تم ویسے ٹھہرے جیسے ہجر کی طرف کھجوریں لاد کر لے جانے والا، یا اپنے استاد کو تیر اندازی کے مقابلے کی دعوت دینے والا۔
وَ زَعَمْتَ اَنَّ اَفْضَلَ النَّاسِ فِی الْاِسْلَامِ فُلَانٌ وَّ فُلَانٌ، فَذَكَرْتَ اَمْرًا اِنْ تَمَّ اعْتَزَلَكَ كُلُّهٗ، وَ اِنْ نَّقَصَ لَمْ یَلْحَقْكَ ثَلْمُهٗ، وَ مَاۤ اَنْتَ وَ الْفَاضِلَ وَ الْمَفْضُوْلَ، وَ السَّآئِسَ وَ الْمَسُوْسَ! وَ مَا لِلطُّلَقَآءِ وَ اَبْنَآءِ الطُّلَقَآءِ وَ التَّمْیِیْزَ بَیْنَ الْمُهَاجِرِیْنَ الْاَوَّلِیْنَ، وَ تَرْتِیْبَ دَرَجَاتِهِمْ وَ تَعْرِیْفَ طَبَقَاتِهِمْ!. هَیْهَاتَ لَقَدْ حَنَّ قِدْحٌ لَّیْسَ مِنْهَا، وَ طَفِقَ یَحْكُمُ فِیْهَا مَنْ عَلَیْهِ الْحُكْمُ لَهَا!
تم نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اسلام میں سب سے افضل فلاں اور فلاں (ابو بکر و عمر) ہیں۔ یہ تم نے ایک ایسی بات کہی ہے کہ اگر صحیح ہو تو تمہارا اس سے کوئی واسطہ نہیں اور غلط ہو تو اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ اور بھلا کہاں تم اور کہاں یہ بحث کہ کون افضل ہے اور کون غیر افضل؟ اور کون حاکم ہے اور کون رعایا؟! بھلا آزاد کردہ لوگوں اور ان کے بیٹوں کو یہ حق کہاں سے ہو سکتا ہے کہ وہ مہاجرین اولین کے درمیان امتیاز کرنے، ان کے درجے ٹھہرانے اور ان کے طبقے پہچنوانے بیٹھیں۔ کتنا نامناسب ہے کہ جوئے کے تیروں میں نقلی تیر آواز دینے لگے اور کسی معاملہ میں وہ فیصلہ کرنے بیٹھے جس کے خود خلاف بہرحال اس میں فیصلہ ہونا ہے۔
اَ لَا تَرْبَعُ اَیُّهَا الْاِنْسَانُ عَلٰی ظَلْعِكَ وَ تَعْرِفُ قُصُوْرَ ذَرْعِكَ؟ وَ تَتَاَخَّرُ حَیْثُ اَخَّرَكَ الْقَدَرُ! فَمَا عَلَیْكَ غَلَبَةُ الْمَغْلُوْبِ، وَ لَا لَكَ ظَفَرُ الظَّافِرِ! وَ اِنَّكَ لَذَهَّابٌ فِی التِّیْهِ، رَوَّاغٌ عَنِ الْقَصْدِ.
اے شخص! تو اپنے پیروں کے لنگ کو دیکھتے ہوئے اپنی حد پر ٹھہرتا کیوں نہیں؟ اور اپنی کوتاہ دستی کو سمجھتا کیوں نہیں؟ اور کیوں نہیں پیچھے ہٹ کر رکتا؟ وہیں جہاں قضا و قدر کا فیصلہ تجھے پیچھے ہٹا چکا ہے۔ آخر تجھے کسی مغلوب کی شکست سے اور کسی فاتح کی کامرانی سے سر و کار ہی کیا ہے؟ تمہیں محسوس ہو نا چاہیے کہ تم حیرت و سرگشتگی میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہو اور راہ راست سے منحرف ہو۔
اَلَا تَرٰی ـ غَیْرَ مُخْبِرٍ لَّكَ وَ لٰكِنْۢ بِنِعْمَةِ اللهِ اُحَدِّثُ ـ اَنَّ قَوْمًا اسْتُشْهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ مِنَ الْمُهَاجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ، وَ لِكُلٍّ فَضْلٌ، حَتّٰۤی اِذَا اسْتُشْهِدَ شَهِیْدُنَا قِیْلَ: “سَیِّدُ الشُّهَدَآءِ”، وَ خَصَّهٗ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِسَبْعِیْنَ تَكْبِیْرَةً عِنْدَ صَلٰوتِهٖ عَلَیْهِ!
آخر تم نہیں دیکھتے؟ اور یہ میں جو کہتا ہوں تمہیں کوئی اطلاع دینا نہیں ہے، بلکہ اللہ کی نعمتوں کا تذکرہ کرنا ہے کہ: مہاجرین و انصار کا ایک گروہ خدا کی راہ میں شہید ہوا اور سب کیلئے فضیلت کا ایک درجہ ہے، مگر جب ہم میں سے شہید نے جامِ شہادت پیا تو اسے ’’سیّد الشہداء‘‘ کہا گیا اور پیغمبر ﷺ نے صرف اسے یہ خصوصیت بخشی کہ اس کی نماز جنازہ میں ستر (۷۰) تکبیریں کہیں۔
اَوَ لَا تَرٰۤی اَنَّ قَوْمًا قُطِعَتْ اَیْدِیْهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ ـ وَ لِكُلٍّ فَضْلٌ ـ حَتّٰۤی اِذَا فُعِلَ بِوَاحِدِنَا مَا فُعِلَ بِوَاحِدِهِمْ، قِیْلَ: “الطَّیَّارُ فِی الْجَنَّةِ” وَ “ذُو الْجَنَاحَیْنِ”!
اور کیا نہیں دیکھتے؟ کہ بہت لوگوں کے ہاتھ خدا کی راہ میں کاٹے گئے اور ہر ایک کیلئے ایک حد تک فضیلت ہے، مگر جب ہمارے آدمی کیلئے یہی ہوا جو اَوروں کے ساتھ ہو چکا تھا تو اسے ’’اَلطَّیَّارُ فِی الْجَنَّۃِ‘‘ (جنت میں پرواز کرنے والا) اور ’’ذُو الْجَنَاحَیْنِ‘‘ (دو پروں والا) کہا گیا۔
وَ لَوْ لَا مَا نَهَی اللهُ عَنْهُ مِنْ تَزْكِیَةِ الْمَرْءِ نَفْسَهٗ، لَذَكَرَ ذَاكِرٌ فَضَآئِلَ جَمَّةً، تَعْرِفُهَا قُلُوْبُ الْمُؤْمِنِیْنَ، وَ لَا تَمُجُّهَا اٰذَانُ السَّامِعِیْنَ. فَدَعْ عَنْكَ مَنْ مَّالَتْ بِهِ الرَّمِیَّةُ، فَاِنَّا صَنَآئِعُ رَبِّنَا، وَ النَّاسُ بَعْدُ صَنَآئِعُ لَـنَا.
اور اگر خدا وند عالم نے خود ستائی سے روکا نہ ہوتا تو بیان کرنے والا اپنے بھی وہ فضائل بیان کرتا کہ مومنوں کے دل جن کا اعتراف کرتے ہیں اور سننے والوں کے کان انہیں اپنے سے الگ نہیں کر نا چاہتے۔ ایسوں کا ذکر کیوں کرو؟ جن کا تیر نشانوں سے خطا کر نے والا ہے۔ ہم وہ ہیں جو براہ راست اللہ سے نعمتیں لے کر پروان چڑھے ہیں اور دوسرے ہمارے احسان پروردہ ہیں۔
لَمْ یَمْنَعْنَا قَدِیْمُ عِزِّنَا وَ لَا عَادِیُّ طَوْلِنَا عَلٰی قَوْمِكَ اَنْ خَلَطْنَاكُمْ بِاَنْفُسِنَا، فَنَكَحْنَا وَ اَنْكَحْنَا فِعْلَ الْاَكْفَاۗءِ، وَ لَسْتُمْ هُنَاكَ! وَ اَنّٰی یَكُوْنُ ذٰلِكَ كَذٰلِكَ وَ مِنَّا النَّبِیُّ وَ مِنْكُمُ الْمُكَذِّبُ، وَ مِنَّاۤ اَسَدُ اللهِ وَ مِنْكُمْ اَسَدُ الْاَحْلَافِ، وَ مِنَّا سَیِّدَا شَبَابِ اَهْلِ الْجَنَّةِ وَ مِنْكُمْ صِبْیَةُ النَّارِ، وَ مِنَّا خَیْرُ نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنِ وَ مِنْكُمْ حَمَّالَةُ الْحَطَبِ، فِیْ كَثِیْرٍ مِّمَّا لَنَا وَ عَلَیْكُمْ!
ہم نے اپنی نسلاً بعد نسل چلی آنے والی عزت اور تمہارے خاندان پر قدیمی برتری کے باوجود کوئی خیال نہ کیا اور تم سے میل جول رکھا اور برابر والوں کی طرح رشتے دیئے لئے، حالانکہ تم اس منزلت پر نہ تھے اور ہو کیسے سکتے ہو؟ جب کہ ہم میں نبی اور تم میں جھٹلانے والا، ہم میں اسداللہ اور تم میں اسد الاحلاف، ہم میں دو سردارانِ جوانانِ اہل جنت اور تم میں جہنمی لڑکے، ہم میں سردارِ زنانِ عالمیان اور تم میں حمالۃ الحطب، اور ایسی ہی بہت باتیں جو ہماری بلندی اور تمہاری پستی کی آئینہ دار ہیں۔
فَاِسْلَامُنَا قَدْ سُمِـعَ، وَجَاهِلِیَّتُنَا لَا تُدْفَعُ، وَ كِتَابُ اللهِ یَجْمَعُ لَنَا مَا شَذَّ عَنَّا، وَ هُوَ قَوْلُهٗ: ﴿وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ ؕ ﴾، وَ قَوْلُهٗ تَعَالٰی: ﴿اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰهِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ وَ هٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ؕ وَ اللّٰهُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾،
چنانچہ ہمارا ظہور اسلام کے بعد کا دور بھی وہ ہے جس کی شہرت ہے اور جاہلیت کے دور کا بھی ہمارا امتیاز ناقابل انکار ہے اور اس کے بعد جو رہ جائے وہ اللہ کی کتاب جامع الفاظ میں ہمارے لئے بتا دیتی ہے، ارشاد الٰہی ہے: ’’قرابتدار آپس میں ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں‘‘۔ دوسری جگہ پر ارشاد فرمایا ہے: ’’ابراہیمؑ کے زیادہ حق دار وہ لوگ تھے جو ان کے پیروکار تھے اور یہ نبیؐ اور وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور اللہ ایمان والوں کا سرپرست ہے‘‘۔
فَنَحْنُ مَرَّةً اَوْلٰی بِالْقَرَابَةِ، وَ تَارَةً اَوْلٰی بِالطَّاعَةِ. وَ لَمَّا احْتَجَّ الْمُهَاجِرُوْنَ عَلَی الْاَنْصَارِ یَوْمَ السَّقِیْفَةِ بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَلَجُوْا عَلَیْهِمْ، فَاِنْ یَّكُنِ الْفَلَجُ بِهٖ فَالْحَقُّ لَنَا دُوْنَكُمْ، وَ اِنْ یَّكُنْۢ بِغَیْرِهٖ فَالْاَنْصَارُ عَلٰی دَعْوَاهُمْ.
تو ہمیں قرابت کی وجہ سے بھی دوسروں پر فوقیت حاصل ہے اور اطاعت کی وجہ سے بھی ہمارا حق فائق ہے۔ اور سقیفہ کے دن جب مہاجرین نے رسول ﷺ کی قرابت کو استدلال میں پیش کیا تو انصار کے مقابلہ میں کامیاب ہوئے۔ تو ان کی کامیابی اگر قرابت کی وجہ سے تھی تو پھر یہ خلافت ہمارا حق ہے نہ کہ ان کا، اور اگر استحقاق کا کچھ اور معیار ہے تو انصار کا دعویٰ اپنے مقام پر برقرار رہتا ہے۔
وَ زَعَمْتَ اَنِّیْ لِكُلِّ الْخُلَفَآءِ حَسَدْتُّ، وَ عَلٰی كُلِّهِمْ بَغَیْتُ، فَاِنْ یَّكُنْ ذٰلِكَ كَذٰلِكَ فَلَیْسَ الْجِنَایَةُ عَلَیْكَ، فَیَكُوْنَ الْعُذْرُ اِلَیْكَ.
اور تم نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ میں نے سب خلفاء پر حسد کیا اور ان کے خلاف شورشیں کھڑی کیں۔ اگرایسا ہی ہے تو اس سے میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے کہ تم سے معذرت کروں، (بقول شاعر:)
وَ زَعَمْتَ اَنِّیْ لِكُلِّ الْخُلَفَآءِ حَسَدْتُّ، وَ عَلٰی كُلِّهِمْ بَغَیْتُ، فَاِنْ یَّكُنْ ذٰلِكَ كَذٰلِكَ فَلَیْسَ الْجِنَایَةُ عَلَیْكَ، فَیَكُوْنَ الْعُذْرُ اِلَیْكَ.
اور تم نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ میں نے سب خلفاء پر حسد کیا اور ان کے خلاف شورشیں کھڑی کیں۔ اگرایسا ہی ہے تو اس سے میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے کہ تم سے معذرت کروں، (بقول شاعر:)
وَ قُلْتَ: اِنِّیْ كُنْتُ اُقَادُ كَمَا یُقَادُ الْجَمَلُ الْمَخْشُوْشُ حَتّٰۤی اُبَایِـعَ، وَ لَعَمْرُ اللهِ! لَقَدْ اَرَدْتَّ اَنْ تَذُمَّ فَمَدَحْتَ، وَ اَنْ تَفْضَحَ فَافْتَضَحْتَ! وَ مَا عَلَی الْمُسْلِمِ مِنْ غَضَاضَةٍ فِیْۤ اَنْ یَّكُوْنَ مَظْلُوْمًا مَّا لَمْ یَكُنْ شَاكًّا فِیْ دِیْنِهٖ، وَ لَا مُرْتَابًۢا بِیَقِیْنِهٖ! وَ هٰذِهٖ حُجَّتِیْۤ اِلٰی غَیْرِكَ قَصْدُهَا، وَ لٰكِنِّیْۤ اَطْلَقْتُ لَكَ مِنْهَا بِقَدْرِ مَا سَنَحَ مِنْ ذِكْرِهَا.
اور تم نے لکھا ہے کہ مجھے بیعت کیلئے یوں کھینچ کر لایا جاتا تھا جس طرح نکیل پڑے اونٹ کو کھینچا جاتا ہے، تو خالق کی ہستی کی قسم! تم اترے تو برائی کرنے پر تھے کہ تعریف کرنے لگے، چاہا تو یہ تھا کہ مجھے رسوا کرو کہ خود ہی رسوا ہو گئے۔ بھلا مسلمان آدمی کیلئے اس میں کون سی عیب کی بات ہے کہ وہ مظلوم ہو، جبکہ وہ نہ اپنے دین میں شک کرتا ہو، نہ اس کا یقین ڈانواں ڈول ہو۔ اور میری اس دلیل کا تعلق اگرچہ دوسروں سے ہے مگر جتنا بیان یہاں مناسب تھا تم سے کر دیا۔
ثُمَّ ذَكَرْتَ مَا كَانَ مِنْ اَمْرِیْ وَ اَمْرِ عُثْمَانَ، فَلَكَ اَنْ تُجَابَ عَنْ هٰذِهٖ لِرَحِمِكَ مِنْهُ، فَاَیُّنَا كَانَ اَعْدٰی لَهٗ وَ اَهْدٰی اِلٰی مَقَاتِلِهٖ؟! اَ مَنْۢ بَذَلَ لَهٗ نُصْرَتَهٗ فَاسْتَقْعَدَهٗ وَ اسْتَكَفَّهٗ؟ اَمْ مَنِ اسْتَنْصَرَهٗ فَتَرَاخٰی عَنْهُ، وَ بَثَّ الْمَنُوْنَ اِلَیْهِ حَتّٰۤی اَتٰی قَدَرُهٗ عَلَیْهِ؟ كَلَّا! وَاللهِ! لَقَدْ عَلِمَ ﴿اللّٰهُ الْمُعَوِّقِیْنَ مِنْكُمْ وَ الْقَآىِٕلِیْنَ لِاِخْوَانِهِمْ هَلُمَّ اِلَیْنَا ۚ وَ لَا یَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ۱۸﴾
پھر تم نے میرے اور عثمان کے معاملہ کا ذکر کیا ہے، تو ہاں اس میں تمہیں حق پہنچتا ہے کہ تمہیں جواب دیا جائے، کیونکہ تمہاری ان سے قرابت ہوتی ہے۔ اچھا تو پھر (سچ سچ) بتاؤ کہ ہم دونوں میں ان کے ساتھ زیادہ دشمنی کرنے والا اور ان کے قتل کا سر و سامان کرنے والا کون تھا؟ وہ کہ جس نے اپنی امداد کی پیشکش کی اور انہوں نے اسے بٹھا دیا اور روک دیا؟، یا وہ کہ جس سے انہوں نے مدد چاہی اور وہ ٹال گیا اور ان کیلئے موت کے اسباب مہیا کئے، یہاں تک کہ ان کے مقدر کی موت نے انہیں آ گھیرا؟ ہرگز نہیں!۔ خدا کی قسم!(وہ پہلا زیادہ دشمن ہرگز قرار نہیں پا سکتا)۔ اللہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو جنگ سے دوسروں کو روکنے والے ہیں اور اپنے بھائی بندوں سے کہنے والے ہیں کہ آؤ ہماری طرف آؤ اور خود بھی جنگ کے موقع پر برائے نام ٹھہرتے ہیں۔
وَمَا كُنْتُ لِاَعْتَذِرَ مِنْ اَنِّیْ كُنْتُ اَنْقِمُ عَلَیْهِ اَحْدَاثًا، فَاِنْ كَانَ الذَّنْۢبُ اِلَیْهِ اِرْشَادِیْ وَ هِدَایَتِیْ لَهٗ، فَرُبَّ مَلُوْمٍ لَّا ذَنْۢبَ لَهٗ.
بیشک میں اس چیز کیلئے معذرت کرنے کو تیار نہیں ہوں کہ میں ان کی بعض بدعتوں کو ناپسند کرتا تھا۔ اگر میری خطا یہی ہے کہ میں انہیں صحیح راہ دکھاتا تھا اور ہدایت کرتا تھا تو اکثر ناکردہ گناہ ملامتوں کا نشانہ بن جایا کرتے ہیں۔
وَ قَدْ یَسْتَفِیْدُ الظِّنَّةَ الْمُتَنَصِّحُ
’’اور کبھی [۲] نصیحت کرنے والے کو بدگمانی کا مرکز بن جانا پڑتا ہے‘‘۔
وَ مَاۤ اَرَدْتُّ ﴿اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ؕ وَ مَا تَوْفِیْقِیْۤ اِلَّا بِاللّٰهِ ؕ عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَ اِلَیْهِ اُنِیْبُ﴾.
میں نے تو جہاں تک بن پڑا یہی چاہا کہ اصلاح حال ہو جائے اور مجھے توفیق حاصل ہونا ہے تو صرف اللہ سے، اسی پر میرا بھروسا ہے اور اسی سے لو لگاتا ہوں۔
وَ ذَكَرْتَ اَنَّهٗ لَیْسَ لِیْ وَ لِاَصْحَابِیْ عِنْدَكَ اِلَّا السَّیْفُ، فَلَقَدْ اَضْحَكْتَ بَعْدَ اسْتِعْبَارٍ ! مَتٰۤی اَلْفَیْتَ بَنِیْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَنِ الْاَعْدَآءِ نَاكِلِیْنَ، و بِالسُّیُوْفِ مُخَوَّفِیْنَ؟
تم نے مجھے لکھا ہے کہ میرے اور میرے ساتھیوں کیلئے تمہارے پاس بس تلوار ہے۔ یہ کہہ کر تو تم روتوں کو بھی ہنسانے لگے۔ بھلا یہ تو بتاؤ کہ تم نے اولادِ عبد المطلب کو کب دشمن سے پیٹھ پھراتے ہوئے پایا اور کب تلواروں سے خوفزدہ ہوتے دیکھا؟ (اگر یہی ارادہ ہے تو پھر بقول شاعر):
لَبِّثْ قَلِیْلًا یَلْحَقِ الْهَیْجَا حَمَلْ
’’تھوڑی [۳] دیر دم لو کہ حمل میدان جنگ میں پہنچ لے‘‘۔
فَسَیَطْلُبُكَ مَنْ تَطْلُبُ، وَ یَقْرُبُ مِنْكَ مَا تَسْتَبْعِدُ، وَ اَنَا مُرْقِلٌ نَّحْوَكَ فِیْ جَحْفَلٍ مِّنَ الْمُهَاجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ، وَ التَّابِعِیْنَ لَهُمْ بِاِحْسَانٍ، شَدِیْدٍ زِحَامُهُمْ، سَاطِعٍ قَتَامُهُمْ، مُتَسَرْبِلِیْنَ سَرَابِیْلَ الْمَوْتِ، اَحَبُّ اللِّقَآءِ اِلَیْهِمْ لِقَآءُ رَبِّهِمْ، قَدْ صَحِبَتْهُمْ ذُرِّیَّةٌۢ بَدْرِیَّةٌ، وَ سُیُوْفٌ هَاشِمِیَّةٌ، قَدْ عَرَفْتَ مَوَاقِعَ نِصَالِهَا فِیْۤ اَخِیْكَ وَ خَالِكَ وَ جَدِّكَ وَ اَهْلِكَ، ﴿وَ مَا هِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ۠﴾.
عنقریب جسے تم طلب کر رہے ہو، وہ خود تمہاری تلاش میں نکل کھڑا ہو گا اور جسے دور سمجھ رہے ہو وہ قریب پہنچے گا۔ میں تمہاری طرف مہاجرین و انصار اور اچھے طریقے سے ان کے نقش قدم پر چلنے والے تابعین کا لشکر جرار لے کر عنقریب اڑتا ہوا آ رہا ہوں۔ ایسا لشکر کہ جس میں بے پناہ ہجوم اور پھیلا ہوا گرد و غبار ہو گا۔ وہ موت کے کفن پہنے ہوئے ہوں گے۔ ہر ملاقات سے زیادہ انہیں لقائے پروردگار محبوب ہو گی۔ ان کے ساتھ شہدائے بدر کی اولاد اور ہاشمی تلواریں ہوں گی کہ جن کی تیز دھار کی کاٹ تم اپنے ماموں، بھائی، نانا اور کنبہ والوں میں دیکھ چکے ہو، ’’وہ ظالموں سے اب بھی دور نہیں ہیں‘‘۔
۱امیر المومنین علیہ السلام کا یہ مکتوب معاویہ کے اس خط کے جواب میں ہے جو اس نے ابو امامہ باہلی کے ہاتھ حضرتؑ کے پاس کوفہ بھیجا تھا اور اس میں بعض ان باتوں کا بھی جواب ہے جو اس نے ابو مسلم خولانی کے ہاتھ بھجوائے ہوئے خط میں تحریر کی تھیں۔
معاویہ نے ابو امامہ کے خط میں بعثتِ پیغمبرؐ اور ان کے وحی و رسالت پر فائز ہونے کا تذکرہ کچھ اس انداز میں کیا کہ گویا یہ چیزیں امیرالمومنین علیہ السلام کیلئے انجانی اور ان سمجھی ہے اور آپؑ اس کے بتانے اور سمجھانے کے محتاج ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی اجنبی گھر والوں کو ان کے گھر کا نقشہ بتا نے بیٹھے اور ان کی دیکھی بھالی ہوئی چیزوں سے آگاہ کرنے لگے۔ چنانچہ حضرتؑ نے اس کی روش پر تعجب کرتے ہوئے اسے اس شخص کے مانند قرار دیا جو ہجر کی طرف کھجوریں لاد کر لے گیا تھا، حالانکہ خود ہجر میں بڑی کثرت سے کھجور پیدا ہوتی تھی۔
یہ ایک مثل ہے کہ جو ایسے موقع پر استعمال ہوتی ہے جہاں کوئی اپنے سے زیادہ جاننے والے اور واقف کار کو بتانے بیٹھ جائے۔ اس مثل کا واقعہ یہ ہے کہ ’’ہجر‘‘ سے کہ جو بحرین کے نزدیک ایک شہر ہے، ایک شخص بصرہ میں خرید و فروخت کیلئے آیا اور مال فروخت کرنے کے بعد جب خریدنے کیلئے بازار کا جائزہ لیا تو کھجوروں کے علاوہ اسے کوئی چیز ارزاں نظر نہ آئی۔ لہٰذا اس نے کھجوروں ہی کے خریدنے کا فیصلہ کیا اور جب کھجوریں لاد کر ہجر پہنچا تو وہاں کی کثر ت و ارزانی کی وجہ سے اس کے سوا کوئی چارہ نہ دیکھا کہ فی الحال انہیں ذخیرہ کر کے رکھ دے اور جب ان کا بھاؤ چڑھے تو انہیں فروخت کرے۔ مگر ان کا بھاؤ دن بدن گھٹتا گیا یہاں تک کہ اس انتظار میں وہ تمام کی تمام گل سڑ گئیں اور اس کے پلّے گٹھلیوں کے علاوہ کچھ نہ پڑا۔
بہرحال معاویہ نے پیغمبر ﷺ کے مبعوث برسالت ہونے کا تذکرہ کرنے کے بعد خلفائے ثلاثہ کے محامد و فضائل اور ان کے مراتب و مدارج پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے تحریر کیا:
فَكَانَ اَفْضَلَهُمْ مَرْتَبَةً وَّ اَعْلَاهُمْ عِنْدَ اللهِ وَ الْمُسْلِمِيْنَ مَنْزِلَةً الْخَلِيْفَةُ الْاَوَّلُ الَّذِیْ جَمَعَ الْكَلِمَةَ وَ لَمَّ الدَّعْوَةَ وَ قَاتَلَ اَهْلَ الرَّدَّةِ، ثُمَّ الْخَلِيْفَةُ الثَّانِی الَّذِیْ فَتَحَ الْفُتُوْحَ وَ مَصَّرَ الْاَمْصَارَ وَ اَذَلَّ رِقَابَ الْمُشْرِكِيْنَ، ثُمَّ الْخَلِيْفَةُ الثَّالِثُ الْمَظْلُوْمِ الَّذِیْ نَشَرَ الْمِلَّةَ وَ طَبَقَ الْاٰفَاقَ بِالْكَلِمَةِ الْحَنِيْفِيَّةِ.
صحابہ میں سب سے افضل اور اللہ اور مسلمانوں کے نزدیک سب سے رفیع المنزلت خلیفہ اوّل تھے، جنہوں نے سب کو ایک آواز پر جمع کیا، انتشار کو مٹایا اور اہل ردّہ سے جنگ و قتال کیا۔ ان کے بعد خلیفۂ ثانی کا درجہ ہے جنہوں نے فتوحات حاصل کیں، شہروں کو آباد کیا اور مشرکین کی گردنوں کو ذلیل کیا۔ پھر خلیفۂ ثالث کا درجہ ہے جو مظلوم و ستم رسیدہ تھے، انہوں نے ملت کو فروغ دیا اور کلمۂ حق پھیلایا۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۳، ص۴۴۸)
معاویہ کے اس سازِ بے آہنگ کے چھیڑنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ ان باتوں سے آپؑ کے احساسات کو مجروح اور جذبات کو مشتعل کر کے آپؑ کے قلم یا زبان سے ایسی بات اگلوائے کہ جس سے اصحابِ ثلاثہ کی مذمت و تنقیص ہوتی ہو اور پھر اسے اچھال کر شام و عراق کے باشندوں کو آپؑ کے خلاف بھڑکائے۔ اگرچہ وہ اہل شام کے ذہنوں میں پہلے یہ بٹھا چکا تھا کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے عثمان کے خلاف لوگوں کو اکسایا، طلحہ و زبیر کو قتل کرایا، اُمّ المومنین کو گھر سے بے گھر کیا اور ہزاروں مسلمانوں کا خون بہایا، اور وہ اصل واقعات سے بے خبر ہونے کی وجہ سے ان بے بنیاد باتوں پر یقین کئے بیٹھے تھے۔ پھر بھی محاذ اختلاف کو مضبوط کرنے کیلئے اس نے ضروری سمجھا کہ انہیں یہ ذہن نشین کرائے کہ حضرتؑ اصحاب ثلاثہ کی فضیلت سے انکاری اور ان سے دشمنی و عناد رکھتے ہیں اور سند میں آپؑ کی تحریر کو پیش کرے اور اس کے ذریعہ سے اہل عراق کو بھی ورغلائے، کیونکہ ان کی کثرت ان خلفاء کے ماحول سے متاثر اور ان کی فضیلت و برتری کی قائل تھی۔ مگر امیر لمو منین علیہ السلام نے اس کے مقصد کو بھانپ کر ایسا جواب دیا کہ جس سے اس کی زبان میں گرہ لگ جائے اور کسی کے سامنے اسے پیش کرنے کی جرأت نہ کر سکے۔
چنانچہ اس کی اسلام دشمنی اور بمجبوری اطاعت قبول کرنے کی وجہ سے اس کی پست مرتبگی کو ظاہر کرتے ہوئے اسے اپنی حد پر ٹھہرنے کی ہدایت کی ہے اور ان مہاجرین کے درجات مقرر کرنے اور ان کے طبقات پہچنوانے سے متنبہ کیا ہے کہ جو اس کے مقابلہ میں اس لحاظ سے بہر صورت فوقیت رکھتے تھے کہ انہوں نے ہجرت میں پیش قدمی کی اور یہ چونکہ طلیق و آزاد کردہ اور مہاجرین سے دور کا بھی واسطہ نہ رکھتا تھا اس لئے مسئلۂ زیر بحث میں اس کی حیثیت وہی قرار دی ہے جو جوئے کے تیروں میں نقلی تیر کی ہوتی ہے۔ اور یہ ایک مثل ہے جو ایسے موقعہ پر استعمال کی جاتی ہے،جہاں کوئی شخص ایسے لوگوں پر فخر کرے کہ جن سے اسے کوئی لگاؤ نہ ہو۔
رہا اس کا یہ دعویٰ کہ فلاں اور فلاں افضل ہیں تو حضرت نے لفظ «زَعَمْتَ» سے واضح کر دیا کہ یہ اس کا ذاتی خیال ہے جسے حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں، کیونکہ یہ لفظ اسی موقع پر استعمال ہوتا ہے جہاں کسی غلط اور خلاف واقع چیز کا ادّعا کیا جائے۔
اس دعوائے افضلیت کو زعم باطل قرار دینے کے بعد بنی ہاشم کے ان خصوصیات و امتیازات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جو دوسروں کے مقابلہ میں ان کے کمالات کی بلند حیثیت کو نمایاں کرتے ہیں:
چنانچہ جن لوگوں نے پیغمبر ﷺ کے ساتھ شریک ہو کر شہادت کا شرف حاصل کیا انہوں نے بلند سے بلند درجات پائے، مگر حسنِ کارکردگی کی وجہ سے جو امتیاز حضرت حمزہ علیہ السلام کو حاصل ہوا وہ دوسروں کو حاصل نہ ہو سکا۔ چنانچہ پیغمبر ﷺ نے انہیں ’’سیّد الشہداء‘‘ کے لقب سے یاد کیا اور چودہ مرتبہ ان پر نمازِ جنازہ پڑھی کہ جس سے تکبیروں کی مجموعی تعداد ستر تک پہنچ گئی۔
اسی طرح مختلف جنگوں میں مجاہدین کے ہاتھ قطع ہوئے۔ چنانچہ جنگِ بدر میں حبیب ابن یساف اور معاذابن جبل کے اور جنگ اُحد میں عمرو ابن جموح سلمی اور عبید اللہ ابن عتیک کے ہاتھ کاٹے گئے، مگر جب جنگ موتہ میں حضرت جعفر ابن ابی طالب علیہ السلام کے ہاتھ قطع ہوئے تو پیغمبر ﷺ نے انہیں یہ خصوصیت بخشی کہ انہیں «اَلطَّیَّارُ فِی الْجَنَّۃِ» اور «ذُوالْجَنَاحَیْنِ» کے لقب سے یاد کیا۔
بنی ہاشم کے امتیازِ خصوصی کے بعد اپنے ان فضائل و کمالات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جن سے تاریخ و حدیث کے دامن چھلک رہے ہیں اور جن کی صحت شک و شبہات سے آلودہ نہ ہو سکی۔ چنانچہ محدثین کا قول ہے:
لَمْ يُرْوَ فِیْ فَضَآئِلِ اَحَدٍ مِّنَ الصَّحَابَةِ بِالْاَسَانِيْدِ الْحِسَانِ مَا رُوِیَ فِیْ فَضَآئِلِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ ؑ.
جتنی قابل وثوق ذرائع سے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی فضیلت میں احادیث وارد ہوئی ہیں، پیغمبر ﷺ کے صحابہ میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی نہیں آئیں۔ (الاستیعاب، ج۲، ۴۷۹)
ان فضائل مخصوصہ اہل بیتؑ میں سے ایک اہم فضیلت یہ ہے جس کی طرف ان لفظوں میں اشارہ کیا ہے کہ:
اِنَّا صَنَآئِعُ رَبِّنَا، وَ النَّاسُ بَعْدُ صَنَآئِعُ لَنَا.
(ہم وہ ہیں جو براہ راست اللہ سے نعمتیں لے کر پروان چڑھتے ہیں اور دوسرے ہمارے احسان پروردہ ہیں)۔
یہ وہ معراجِ فضیلت ہے کہ جس کی بلندیوں تک بلند سے بلند شخصیت کی بھی رسائی نہیں ہو سکتی اور ہر منزلت اس کے سامنے پست و سرنگوں نظر آتی ہے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید اس جملہ کی عظمت و رفعت کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے معانی و مطالب کے سلسلہ میں تحریر کرتے ہیں:
يَقُوْلُ لَيْسَ لِاَحَدٍ مِّنَ الْبَشَرِ عَلَيْنَا نِعْمَةٌۢ بَلِ اللهُ تَعَالٰى هُوَ الَّذِیْ اَنْعَمَ عَلَيْنَا، فَلَيْسَ بَيْنَنَا وَ بَيْنَهٗ وَاسِطَةٌ وَ النَّاسُ بِاَسْرِهِمْ صَنَآئِعُنَا، فَنَحْنُ الْوَاسِطَةُ بَيْنَهُمْ وَ بَيْنَ اللهِ تَعَالٰى، وَ هٰذَا مَقَامٌ جَلِيْلٌ ظَاهِرُهٗ مَا سِمِعْتَ وَ بَاطِنُهٗ اَنَّهُمْ عَبِيْدُ اللهِ وَ اَنَّ النَّاسَ عَبِيْدُهُمْ.
حضرتؑ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ ہم پر کسی بشر کا احسان نہیں، بلکہ خداوند عالم نے ہمیں تمام نعمتیں براہِ راست دی ہیں اور ہمارے اور اللہ کے درمیان کوئی واسطہ حائل نہیں ہے اور تمام لوگ ہمارے احسان پروردہ اور ساختہ و پرداختہ ہیں اور ہم اللہ اور مخلوق کے درمیان واسطہ ہیں۔ یہ ایک عظیم منزلت اور جلیل مقام ہے۔ ان الفاظ کا ظاہر مفہوم وہی ہے جو تمہارے گوش گذار ہو چکا ہے، لیکن ان کے باطنی معنی یہ ہیں کہ ہم اللہ کے بندے ہیں اور تمام لوگ ہمارے بندے اور حلقہ بگوش ہیں۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۳، ص۴۵۱)
لہٰذا جب یہ فیضانِ الٰہی کی منزل اوّل اور مخلوق کیلئے سرچشمہ نعمات ٹھہرے تو مخلوقات میں سے کسی کو ان کی سطح پر نہیں لایا جا سکتا اور نہ دوسروں کے ساتھ معاشرتی تعلقات کے قائم کرنے سے کسی کو ان کا ہم پایہ تصور کیا جا سکتا ہے، چہ جائیکہ وہ افراد کہ جو ان کے کمالات و خصوصیات سے ایک متضاد حیثیت رکھتے ہوں اور ہر موقعہ پر حق و صداقت سے ٹکرانے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے ہوں۔ چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام معاویہ کے سامنے تصویر کے دونوں رخ رکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
ہم میں سے پیغمبر اکرم ﷺ تھے اور جھٹلانے والوں میں پیش پیش تمہارا باپ ابوسفیان تھا، ہم میں سے حضرت حمزہؑ تھے جنہیں پیغمبر ﷺ نے اسد اللہ کا لقب دیا اور تمہارا نانا عتبہ ابن ربیعہ اسد الاحلاف ہونے پر نازاں تھا۔ چنانچہ جب جنگ بدر میں حضر ت حمزہؑ اور عتبہ ابن ربیعہ آمنے سامنے ہوئے تو حضرت حمزہ ؑنے کہا: «اَنَا حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، اَسَدُ اللّٰهِ وَ اَسَدُ رَسُوْلِهٖ» : (میں حمزہ ابن عبد المطلب ہوں جو اللہ اور اس کے رسولؐ کا شیر ہے)، جس پر عتبہ نے کہا: «اَنَا اَسَدُ الْحُلَفَآءِ» : (میں ہم سوگند جماعت کا شیر ہوں) اور « اَنَا اَسَدُ الْاَحْلَافِ» بھی روایت ہوا ہے[۱]۔
مقصد اس کا یہ تھا کہ وہ حلف اٹھانے والی جماعت کا سردار تھا اس حلف کا واقعہ یہ ہے کہ: جب بنی عبد مناف کو قبائل عرب میں ایک امتیازی حیثیت حاصل ہوئی تو انہوں نے چاہا کہ بنی عبد الدار کے ہاتھوں میں جو خانہ کعبہ کے منصب ہیں وہ ان سے لے لئے جائیں اور انہیں تمام عہدوں سے الگ کر دیا جائے۔ اس سلسلہ میں بنی عبد مناف نے بنی اسد ابن عبد العزیٰ، بنی تمیم، بنی زہرہ اور بنی حارث کو اپنے ساتھ ملا لیا اور باہم عہد و پیمان کیا اوراس عہد کو استوار کر نے کیلئے عطر میں اپنے ہاتھ ڈبو کر حلف اٹھایا کہ وہ ایک دوسرے کی نصرت و امداد کریں گے جس کی وجہ سے یہ قبائل ’’حلفاء مطیبین‘‘ کہلاتے ہیں اور دوسری طرف بنی عبد الدار، بنی مخزوم، بنی سہم اور بنی عدی نے بھی حلف اٹھایا کہ وہ بنی عبد مناف اور ان کے حلیف قبائل کا مقابلہ کریں گے۔ یہ ’’قبائلِ احلاف‘‘ کہلاتے ہیں۔ عتبہ نے حلفاء مطیبین کا اپنے کو سردار گمان کیا ہے۔
بعض شارحین نے اس سے ابو سفیان مراد لیا ہے، چونکہ اس نے جنگ خندق میں رسول ﷺ سے لڑنے کیلئے مختلف قبائل سے حلف لیا تھا اور بعض نے اس سے اسد ابن عبد العزیٰ مراد لیا ہے، لیکن یہ قول چنداں وزن نہیں رکھتا، کیونکہ یہاں روئے سخن معاویہ سے ہے اور اس سے معاویہ پر کوئی زد نہیں پڑتی جب کہ بنی عبدمناف بھی اس حلف میں شامل تھے۔
پھر فرماتے ہیں کہ: ’’ہم میں سے جوانانِ اہل جنت کے سردار ہیں‘‘، اور یہ پیغمبر ﷺ کی حدیث «اَلْحَسَنُ وَ الْحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ» کی طرف اشارہ ہے، اور تم میں سے جہنمی لڑکے ہیں، یہ عتبہ ابن معیط کے لڑکوں کی طرف اشارہ ہے کہ جن کے جہنمی ہونے کی خبر دیتے ہوئے پیغمبر ﷺ نے عتبہ سے کہا تھا کہ: لَكَ وَ لَھُمُ النَّارُ [۲]: (تیرے اور تیرے لڑکوں کیلئے جہنم ہے)۔
پھر فرماتے ہیں کہ: ہم میں سے بہترین زنان عالمیان فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا ہیں اور تم میں سے «حمالۃ الحطب» ۔ اس سے معاویہ کی پھوپھی ام جمیل بنت حرب مراد ہے کہ جو ابو لہب کے گھر میں تھی۔ یہ کانٹے جمع کر کے رسول اللہ ﷺ کی راہ میں بچھایا کرتی تھی۔ قرآن مجید میں ابو لہب کے ساتھ اس کا بھی تذکرہ ان لفظوں میں ہے:
﴿سَيَصْلٰى نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ ۖۚ ﴿۳﴾ وَّامْرَاَ تُهٗ ؕ حَمَّالَةَ الْحَطَبِۚ﴾
وہ عنقریب بھڑکنے والی آگ میں داخل ہو گا اور اس کی بیوی جو لکڑیوں کا بوجھ اٹھائے پھرتی ہے۔[۳]↑
۲مطلب یہ ہے کہ جو شخص پند و نصیحت میں مبالغہ سے کام لیتا ہے تو اس میں اس کے ذاتی اغراض و مقاصد کا لگا ؤ سمجھا جاتا ہے۔ خواہ وہ نصیحتیں کتنی ہی نیک نیتی اور بے غرضی پر مبنی ہوں۔ یہ مصرع ایسے ہی مواقع پر بطور مثل استعمال ہوتا ہے اور پورا شعر اس طرح ہے:
كَمْ سُقْتُ فِیْۤ اٰثَارِكُمْ مِنْ نَّصِيْحَةٍ
وَ قَدْ يَسْتَفِيْدُ الظِنَّةُ الْمُتَنَصِّحَ
’’(میں تمہیں اتنی زیادہ نصیحتیں کر چکا ہوں کہ کبھی نصیحت کرنے والے کو بدگمانی کا مرکز بن جانا پڑتا ہے) ‘‘۔[۴]↑
۳یہ مصرع حمل ابن بدر کا ہے اور پورا شعر اس طرح ہے:
لَبِّثْ قَلِيْلًا يَّلْحَقُ الْهَيْجَآءَ حَمَلْ
مَاۤ اَحْسَنَ الْمَوْتُ اِذِ الْمَوْتُ نَزَلْ
’’تھوڑی دیر دم تو لو کہ حمل میدان جنگ میں پہنچ لے۔ موت وارد ہونے کے وقت کتنی حسین و دلکش ہوتی ہے‘‘۔
[۴]اس کا واقعہ یہ ہے کہ مالک ابن زہیر نے حمل کو جنگ کی دھمکی دی جس کے جواب میں اس نے یہ شعر پڑھا اور پھر مالک پر حملہ کیا اور اسے قتل کر دیا۔ جب مالک کے بھائی نے یہ دیکھا تو اس نے قصاص میں حمل اور اس کے بھائی حذیفہ کو مار دیا۔ چنانچہ اس نے اپنے اس شعر میں اس کا ذکر کیا ہے:
شَفَيْتُ النَّفْسَ مِنْ حَمَلِ بْنِ بَدْرٍ
وَ سَيْفِیْ مِنْ حُذَيْفَةَ قَدْ شَفَانِیْ
’’میں نے حمل ابن بدر سے بدلہ لے کر اپنے نفس کا اضطراب دور کیا اور میری تلوار نے حذیفہ کو قتل کر کے مجھے تسکین دی‘‘۔[۵]↑
[۱]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۴، ص ۱۲۹۔
[۲]۔ ترجمہ و شرح نہج البلاغہ، فیض الاسلام، ج ۵، ص ۸۹۷۔
[۳]۔ سورۂ مسد، آیت ۳-۴۔
[۴]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۰، ص ۴۵۔
[۵]۔ ترجمہ و شرح نہج البلاغہ، فیض الاسلام، ج ۵، ص ۹۰۳۔
[۶]۔ بحار الانوار، ج ۳۳، ص ۷۳۔