مظلومیت امام علی (علیہ السلام)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کنت احسب أن المامراء یظلمون الناس ،فاذا الناس یظلمون الامراء
میں خیال کرتا تھا کہ حکمران لوگوں پر ظلم کرتے ہیں، جبکہ اب لوگ حکمرانوں پر ظلم کرتے ہیں۔
امام علی علیہ السلام
مظلومیت امام علی (علیہ السلام)
مقالہ نگار: شائستہ بتول
قم المقدسہ ایران
مقدمہ
عدل اور ظلم مفہوما بھی متضاد ہیں اور مصداقا بھی،ظلم دوسروں پر تجاوز کرنے کا نام ہے چاہے مال پر ہو یا کسی کے حق پر، کسی کی آزادی پر ہو یا کسی کی آسایش پر ،کسی کے مقام پر ہو یا کسی کے منصب پر لیکن عدل ان تجاوزات سے پرہیز کا نام ہے۔
انسان پرہیز بھی اس وقت کرسکتا ہے جب تماوز کرنے پر قادر ہو۔ظالم اور عادل دونوں قدرت رکھتے ہیں لیکن ظالم صرف دوسروں پر قدرت رکھتا ہے جبکہ عادل دوسروں پر بھی قدرت رکھتا ہے اور اپنے اوپر بھی عادل کرسکتا ہے لیکن نہیں کرتا جبکہ ظالم اس شرف و بزرگی سے محروم ہوتا ہے ۔عدل نفسانی خواہشات پر حکمرانی کا نام ہے جبکہ ظلم ان خواہشات کو عملا انجام دینے کا ۔ظالم اپنے دل کا اسیر ہے جبکہ عادل اپنے دل کا امیر۔
ہر کوئی ظلم پر قادر ہے لیکن عدل وہ نایاب گوہر ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا بدترین ظلم وہ ہوتا ہے جو عدل وا نصاف کے نام پر کیا جائے، ظالم کا ظلم کرنا ایک مصیبت ہے لیکن اس بری مصیبت یہ ہے کہ ظالم اپنے آپ کو مظلوم کہلوانے لگ جائے۔
جس طرح معاشرہ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فقدان ایک مصیبت ہے لیکن اس سے بری مصیبت یہ ہے کہ نیکی کو برائی سمجھا جانے لگے اور برائی کو نیکی تو پھر اس ظلم کو شکست دینے کیلئے کربلا والوں کی فداکاری چاہیے۔
حضرت علی علیہ السلام پر جو مظالم کیے گئے وہ دوسری قسم سے ہیں جس سے علیؑ کی مظلومیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔اگر ایک قاتل،قتل کرکے مقتول کے خون کا وارث بن جائے تو اس سے بڑی مصیبت کیا ہو سکتی ہے۔
اس مختصر سی تحریر کا عنوان بھی ’’مظلومیت امام علی علیہ السلام ‘‘ ہے لیکن ضروری ہے کہ اگرچہ مختصرا لیکن پھر بھی خود علی علیہ السلام کا تعارف کرایا جائے تاکہ اس کی شخصیت سے آشنائی کے بعد ان کی مظلومیت کا اندازہ لگایا جا سکے۔
شخصیت امام علی علیہ السلام
کیا کہا جاسکتا ہے اس عظیم ہستی کے بارے میں کہ جس کے بارے میں آب وحی سے دھلی زبان سے جاری ہوا ’’یا علی تجھے کسی نے نہیں پہچانا مگر خدا وند متعال اور میں نے‘‘
ون علیؑ!
وہ علی جو انسان کامل کا مکمل نمونہ ہے۔ وہ علیؑ جس نے آغوش رسالت میں تربیت پائی جس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وہی نسبت تھی جو ہارون کو حضرت موسیؑ سے تھی
14سو سال گزرنے کے بعد بھی پاک و پاکیزہ دلوں پر جس کی حکمرانی کا سکہ چلتا ہے۔
وہ علیؑ، جو محراب میں آتے تو حالت اس انسان کی سی ہوتی جس کو سانپ نے ڈس لیا ہو
لیکن جب میدان کی زینت بنتے تو چہرے پر مسکراہت سجی ہوتی۔
وہ علی جو دروازہ خیبر کو اکھاڑنے کی قدرت و طاقت رکھتے تھے لیکن ایک یتیم کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتے تھے۔
کیا کہا جائے اس انسان کامل کے بارے میں کہ جس نے صرف محبت اور عشق خداوند متعال میں تین دن تک روزہ پانی سے افطار کرکے مسکینوں، یتیموں، اور اسیروں کو سیر کرتے رہے۔
لیکن افسوس کہ قریش صرف اپنے بغض و کینہ کی وجہ سے اور مسلمان اپنی غفلت کی وجہ سے اس عظیم ہستی کو نہ پہچان سکے۔ اور آج بھی منبر کوفہ سے یہ صدا سنائی دے رہی ہے کہ (غدا ترون ایامی و یکشف لکم عن سرائری و تعرفوننی بعد خلو مکانی وقیام غیری مقامی) (نہج البلاغہ خطبہ ۱۴۹)
غصب خلافت
رسول اکرمؐ کی وفات جو مصیبت زدوں کیلئے ایک عظیم مصیبت اور امتحان تھا خصوصا اہل بیت رسول کیلئے اور بالخصوص علیؑ کیلئے کہ جس کو آپ یوں بیان فرماتے ہیں۔ (لو لا انک امرت بالصبر ،و نہیت عن الجزع ،لأنفدنا علیک ماء الشئوون…) یا رسول اللہؐ اگر آپ نے صبر و شکیبائی کا حکم نہ کیا ہوتا اور نالہ و فریاد کرنے سے منع نہ فرمایا ہوتا تو اس قدر گریا کرتا یہاں تک کہ آنسو خشک ہو جاتے (ن، خ۲۳۵)
اس مصیبت کے علاوہ مسلمانوں نے رسول اکرمؐ کی وفات کے چند لمحات بعد ایسا کام کردیا جس کی علیؑ اور اہل بیت رسول کو توقع نہ تھی علیؑ فرماتے ہیں (فواللہ ما کان یلقی فی روعی و لا یخطر ببالی ،أن العرب ترعج ھذا الامر من بعد صلی اللہ علیہ و الہ وسلم عن اہل بیتہ……… ‘‘خدا کی قسم نہ میری فکر و سوچ میں ایسی بات آئی تھی اور نہ میرے ذہن میں ،کہ عرب رسول خدا کے بعد خلافت کو اس کی اہل بیتؑ سے چھین لیں گے یا نبی اکرمؐ کے بعد مجھے خلیفہ نہ بنیں دیں گے……(ن،ج،نامہ ۶۲)
واقعاً ہر گز ایسی توقع نہ تھی کیونکہ رسول اکرمؐ نے اپنی زندگی میں کئی مرتبہ علیؑ کو اپنا بلا فصل خلیفہ معرفی کروایا اور اپنی ۲۳ سالہ زندگی میں جہاں بھی ممکن تھا اس مہم امر کی طرف مسلمانوں کو متوجہ فرماتے رہے۔
کبھی حدیث وزارت کے ذریعے تو کبھی حدیث منزلت کے ذریعے،
کبھی حدیث ثقلین بیان فرما کر تو کبھی حدیث غدیر،
کبھی حدیث سفینہ کو عنوان بنا کر تو کبھی حدیث مئواخات کو،
رسول اکرمؐ اس اہم مسئلہ کو مختلف ذرائع سے مسلمانوں تک پہچاتے رہے لیکن کیا مسلمانوں نے رسول اکرمؐ کی گفتار کا پاس رکھا؟
مسلمانوں کی نظر میں تو خلیفہ کامعین ہونا اتنا مہم تھا کہ رسول اکرمؐ کے جنازے کو موخر کیا جاسکتا ہے لیکن امت ایک لحظہ کیلئے بھی بغیر خلیفہ اور امام کے نہیں رہ سکتی، تو کیا اس ضرورت کا خداوند متعال اور نبی اکرمؐ کو (نعوذ باللہ) علم نہ تھا؟
جب امامؑ نے مسلمانوں کے ظلم کی اس داستان کو بیان فرمایا تو ابن عباسؓ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔ یا بن عباس :تلک شقیشقۃ ھدرت ثم قرت۔ (ن،خطبہ ۳)
اس خطبہ کا نام بھی شقشقیہ پڑ گیا۔ اسی خطبہ میں امامؑ اپنے اوپر ہونے والے ظلم پر صبر کو یوں بیان فرماتے ہیں۔
’’فرأیت أن الصبر علی ھاتا أحجی ،فصبرت و فی العین قذی و فی الحلق شجا…‘‘
(جب پہلے نے ردا خلافت کو پہن لیا تو) میں نے صبر اور بردباری کو عقلمندانہ امر سمجھا پس میں نے صبر کیا درحالانکہ جیسے آنکھ میں کانٹا اور گلے میں ہڈی رہ گئی ہو اور اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا کہ میری میراث کو مجھ سے چھینا جارہا ہے…‘‘(ن خطبہ ۳)
یقیناً ان جملات کی گہرائی کو سمجھنا ہمارے بس میں نہیں۔ یہ جملات اس ظاہری کرسی کی خاطر نہیں نکلے۔ بلکہ مسلمانوں کے اس ظلم کیوجہ سے ہے جس نے امت اسلامیہ کو ایک عظیم مصیبت اور امتحان میں ڈال دیا یہ وہ بنیاد اور اساس تھی جس پر مسلمانوں کی تاریخ نے رقم ہونا تھا جس کے اثرات آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں اور جس کی وجہ سے علیؑ نے اپنے دکھ و درد کا اظہار ان جملات سے کیا ورنہ ظاہری حکومت اور اقتدار تو علی کے نزدیک حیوان کی ناک کے پانی کے برابر بھی ارزش نہیں رکھتا۔
اصل چیز تو عدل الہی کا قیام اور مسلمانوں کی ہدایت تھی نہ ظاہری مقام و منصب لیکن سوال یہ ہے کہ کون سی چیز سبب بنی کہ وہ تعلیمات رسول اکرمؐ کو پس پشت ڈال دیں؟ یہ کچھ نہ تھا سوائے حب دنیا و ریاست، محبت کرسی و اقتدار، قریش کا بغض و کینہ، وہ قریش جو جنگ بدر میں اپنے رشتہ دار، ذوالفقار علیؑ سے مروا چکے تھے ان کی کوشش ہی یہی تھی کہ خلافت و امامت کو اہل بیتؑ کے حوالے نہ کیا جائے باوجودیکہ یہ اہل بیتؑ کا مسلمہ حق تھا امام علیؑ خطبہ ۱۶۲ میں فرماتے ہیں:
’’امام الستبداد علینا بہذا المقام و نحن الأعلون نسبا،و الاشدون برسول اللہ (ص)لوطا ،فأنہا کانت أثرۃ شحت علیہا نفوس قوم…‘‘
پس جان لے کہ خلافت کے مقابلے میں جو ہم پر ظلم و ستم کیا گیا (حالانکہ نسب ورشتہ داری کے اعتبار سے ہم رسول خداؐ کے نزدیک تر تھے)وہ ظلم و ستم سوائے خود غرضی وانحصار طلبی کے کچھ نہ تھا کہ بعض لوگوں نے حسد بخل کی وجہ سے خلافت کی کرسی کو لپٹ گئے اور بعض نے سخاوتمندانہ ہاتھ اٹھالیا کہ فیصلہ کرنے والا خدا ہے اور سب نے اس کی طرف پلٹ کر جانا ہے‘‘
امام علیؑ نے جو خط اپنے بھائی عقیلؓ کو لکھا تھا اس میں فرمایا:
’’بھائی قریش کو چھوڑ دے تاکہ گمراہی کی دلدل میںسرگرداں رہیں۔ یہانتکہ فرمایا تحقیق میرے ساتھ جنگ کرنے میں متحد ہوگئے جس طرح مجھے سے پہلے رسول اکرمؐ کے ساتھ جنگ میں متحد ہوگئے تھے خداوند متعال ان کو ان کے برے کاموں کی وجہ سے دردناک عذاب میں مبتلا کرے انہوں نے میری رشتہ داری کے پیوند کو توڑ دیا اور میرے برادر کی حکومت مجھ سے چھین لی‘‘ (ن۔خط،۳۶)
غصب فدک
خلافت کو غصب کرلیا گیا لیکن مسلمانوں کو سکون نہ ملا اور دن رات ایک ہی فکر تھی کہ جب تک فدک اہل بیت ؑ کے پاس ہے اہل بیت ؑ کی اقتصادی صورت حال اچھی رہے گے اور جس طرح اہل بیتؑ، یتیموں، بیوائوں، مسکینوں اور اسیروں کی پہلے سے پناہ گاہ ہیں اسی طرح رہیں گے اور اس سے ان کا وہ ہدف جس کی خاطر انہوں نے تعلیمات و سفارشات پیامبر اکرمؐ کو پامال کردیا تھا وہ ہدف و مقصد کبھی حاصل نہیں کرسکیں گے۔ لہذا خلافت کو غصب کرنے کے ساتھ ساتھ اہم ترین مسئلہ فدک تھا جس کو غصب کیے بغیر غصب خلافت کا فائدہ نہ تھا اسی لیے انہوں نے بہانہ تراشیوں سے کام لیتے ہوئے اور تار عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور دلائل کے ذریعے فدک کو بھی چھین لیا کہ جس کے بارے میں علیؑ فرماتے ہوئے نظر آتے ہیں (بلی کانت فی أید ینا فدک من کل ما اظلتہ السماء فشحت علی ا قوم و سخت عنہا نفوس قوم آخرین ،و نعم الحکم اللہ)
’’جی ہاں !ہر اس چیز سے جس پر آسمان نے سایہ کیا ہوا ہے فدک ہمارے قبضہ میں تھا کہ بعض لوگوں نے بخیلانہ اور لالچی نظریں جمالیں تھیں (اور فدک کو ہم سے چھین لیا) تو دوسروں نے سخاوتمندانہ آنکھیں بند کردیں اور خداوند متعال بہترین حکم کرنے والا ہے۔‘‘
جس طرح ہم نے پہلے بھی عرض کیا کہ یہ مسئلہ شخصی مسئلہ نہیں تھا بلکہ سیاسی مسئلہ کی صورت اختیار کرچکا تھا۔ غصب خلافت کے ساتھ اس کا گہرا ربط تھا آیت اللہ مکارم شیرازی اپنی الزھراء سیدۃ نساء العالمین میں لکھتے ہیں کہ غصب خلافت کے دن ہی سورج غروب ہونے سے پہلے وہ فدک کی فکر میں تھے (الزھراء سیدۃ نساء العالمینؑ ص۱۳۲)
ایک اور شاہد بھی ہے کہ فدک کا خلافت کے ساتھ گہرا ربط ہے وہ یہ ہے کہ جب ہارون الرشید نے فدک واپس کرنے کا ارادہ کیا تو امام موسی کاظمؑ نے فرمایا تم نہیں دے سکتے تو فدک کی حدود کا جب پوچھا گیا تو امامؑ نے فرمایا اس کی پہلی حد عدن ہے دوسری سمرقند ہے تیسری افریقا ہے اور چوتھی حد ارمینہ ہے تو ہارون نے کہا پھر ہمارے لیے تو کچھ نہ بچے گا (الزھراء سید نساء العالمین ص۹۴)
ناحق خونخواہی
علیؑ کی ظاہری حکومت کے ایام میں فتنہ و فساد کی آگ بھڑک اٹھی تھی کہ جن فتنوں کا بیج بہت پہلے بویا جاچکا تھا اور اس کے ساتھ تیسرے خلیفہ کا قتل بھی فتنہ و فساد کی افزایش کا موجب بنا لیکن ظلم یہ کہ جو خود موجب بنے تاکہ خلیفہ مارا جائے پھر وہی اس کے خون کے وارث بن بیٹھے اور اس سے بھی بدتر یہ کہ جس نے کوشش کی کہ یہ قتل نہ ہو۔ یہ فتنہ ختم ہوجائے اسی کو قتل کا موجب ٹھہرایا گیا اب اس سے بڑا ظلم کیا ہوسکتا ہے؟ حالانکہ جتنی کوشش علیؑ نے خلیفہ کو بچانے کی کی کسی نے نہیں کی۔
خود علیؑ اپنے خطبات میں بارہا اس چیز کو تذکرہ کرتے ہیں خطبہ ۱۶۴ میں فرماتے ہیں: و أنی أنشدک اللہ ألا تکون امام ھذہ الامۃ المقتول…) میں تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں بچ اس بات سے کہ اس امت کا مقتول خلیفہ بنے کہ جس کے قتل سے اس امت پر قتل و غارت اور فتنہ و فساد کا دروازہ کھل جائے گا جو قیامت تک بند نہ ہوگا‘‘ علی کی گفتگو کا خلیفہ پر وقتی طور پر تو اثر ہوا اور کہا: کلم الناس فی أن یوجلونی حتی اخرج الیھم من مظالمھم، خطبہ ۱۶۴
لوگوں سے میرے لیے مہلت لے کر دو تاکہ میں ان کے مطالبات کو پورا کروں… تو علیؑ نے جواب فرمایا جو خود مدینہ میں ساکن ہیں ان کیلئے کیسی مہلت ان کی ضروریات کو تو پورا کرسکتے ہو البتہ دور کے لوگوں کیلئے مہلت لے سکتے‘‘ اگر تعصب اور بغض کی عینک اتار کر کوئی بھی منصف مزاج یہ نہیں کہہ سکتا کہ خلیفہ کے قتل کے علیؑ موجب بنے۔ خود علی نے اس کو راہ نجات بتائی اور یہ مسئلہ حل ہو سکتا تھا لیکن خود خلیفہ کے بعض حواریوں نے اس کو روک دیا تھا (تاکہ فتنہ کی آگ اور بھڑکے) ورنہ اگر خلیفہ مدینہ والوں کے بھی مطالبات پورے کردیتا تو دوسرے لوگ امید رکھ کر چلے جاتے لیکن مروان اور اس کی مثل افراد نے خلیفہ کو قتل کروایا۔ خود اسی خطبے میں خلیفہ کو سمجھا دیا تھا کہ حکومتی امور خود سنبھالو نہ یہ کہ مروان جس طرح چاہے استعمال کرے۔
لیکن خلیفہ پر کوئی اثر نہ ہوا تو نتیجہ یہی نکلنا تھا ۔پھر جب لوگوں نے علیؑ کی بیعت کرلی تو جنگ جمل و صفین کی آگ بھڑکا دی گئی خدا کی قسم انہوں نے مقتول خلیفہ کی محبت میں علیؑ سے جنگ نہ کی تھی تاکہ خون کا بدلہ لے سکیں بلکہ علیؑ سے دشمنی کی وجہ سے کی۔ ورنہ وہ خود جانتے تھے کہ اصل قتل کا موجب کون ہے اور علیؑ نے جو خطوط معاویہ کو لکھے بارہا اس کو اصل مجرم کے طو رپر پہنچنوایا (۲۸ نمبر خط میں فرماتے ہیں) ’’فاینا کان اعدی لہ وأہدی الی مقاتلہ أمن بذل لہ نصرتہ فاستقعدہ و استکفہ أم من استنصرہ… (۲۸ ،خط نہج البلاغہ) اے معاویہ! حقیقتاً ہم میں سے کس کی دشمنی خلیفہ سے زیادہ تھی اور کس نے اس کے قتل کا زمین ہموار کیا؟ کیا اس نے جس نے اس کی مدد کی اور خود خلیفہ نے اس سے مدد طلب کی تھی اور فتنہ ختم کرنے کا کہا (تو اس نے پوری کوشش کی یا وہ، قتل کا ذمہ دار ہے کہ عثمان نے اس سے مدد طلب کی اور اس نے انکار کردیا اور اس انتظار میں بیٹھ گیا تاکہ وہ قتل ہوجائے)
خلیفہ کے ہوا خواہ، علیؑ کے مشورے پر عمل نہیں کرنے دیتے تھے کیونکہ خلیفہ معاویہ سے مدد طلب کرچکا تھا اور خیال تھا کہ وہ پہنچ جائے گا۔ لیکن ادھر معاویہ کیونکہ شخصی حکومت کے خواب دیکھ رہا تھا اور جانتا تھا کہ اب اس خواب کی تعبیر کا وقت آپہنچا ہے اسی لیے خلیفہ کی پے در پے درخواستوں نے اس پر کوئی اثر نہ کیا علیؑ ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں: فانک انما نصرت عثمان حیث کان النصر لک و خذلتہ حیث کان النصر لہ… تو نے عثمان کی مدد اسوقت کی جب تجھے فائدہ تھا اور جب تمہاری مدد کی اس کو ضرورت تھی اور فائدہ تھا تو تو نے نہ کی اور واعثماناہ کی فریاد کرنے لگ گیا۔
’’وانھم لیطلبون حقا ہم ترکوہ و دماھم سفکوہ‘‘
یہ ایسے حق کا مطالبہ کررہے ہیں جو انہوں نے خود ترک کردیا اور ایسے خوک کا قصاص لینا چاہتے ہیں جو انہوں نے خود بہایا ہے‘‘ تاریخ سے بھری کتابیں بھی اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اصل کون مجرم ہے لیکن ان مجرموں نے مظلومانہ لباس اوڑھ لیا خود علیؑ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں طفق یحکم فیہا من علیہ الحکم بہا…(خطبہ نمبر۲۸) اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ جو قصوروار اور مجرم ہے وہی حاکم (خون کا وارث) بن جائے؟ یعنی ظلم کی حد ہوگئی کہ جو قتل کا اصل مجرم تھا وہ آج واہ مقتولا واہ مقتولا کی آوازیں نکال رہا ہے۔
شہادت صدیقہ کبریٰ سلام اللہ علیہا
حضرت علیؑ پر پے در پے جو ظلم کیے گئے ان میں سے ایک صدیقہ طاہرہؑ کی شہادت ہے کہ جس نے امام علیؑ کی زندگی پر گہرا اثر کیا اور خود رسول اکرمؐ سے ان لوگوں کا شکوہ کیا جنہوں نے بنت پیامبرؐ حضرت فاطمہ الزھراءؑ پر ظلم کیے جنوں نے اسلام کو اسلام سمجھ کر قبول ہی نہ کیا اور نہ اسلام کی حقیقت کو سمجھے تھے، جو سختیوں اور جنگوں میں سب سے پیچھے ہوتے تھے اور آسانی و غنیمت کے وقت سب سے آگے۔ علیؑ نے دل میں درد اور آنکھوں میں اشک لیے پیامبرؐ سے شکوہ کرتے ہوئے کہا: فلقد استرجعت الودیعۃ و اخذت الرھینۃ اما حزنی فسرمد …ستنبئک ابنتک بتضافر امتک علی ھضمھا فاحفھا السوال ،واستخبرھا الحال ،ھذا و لم یطل العھد…) پس جو امانت میرے سپرد کی تھی واپس پہنچ گئی اور اپنے صاحب کے پاس پہنچ گئی اب اس کے بعد میرا غم و اندوہ ہمیشگی اور میری راتیں، مثل شب زندہ دار ہیں…ب ہت جلد آپؐ کی بیٹی آپؐ کو بتائے گی کہ آپؐ کی امت نے کیسے مل کر اس پر ظلم و ستم کیا اس تمام روداد کو ان سے سننا اور ہماری خبر بھی ان سے لینا یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب آپ کی وفات کو کچھ عرصہ بھی نہیں گزرا تھا اور آپ کی یاد ابھی تازہ تھی (خطبہ ۲۰۴)
یقیناً اس نبی کی بیٹی کو مسلمانوں سے کیا توقع ہوسکتی ہے جس نبیؐ کے ذریعے ان کو درس انسانیت ملا۔ لات اور عزی کی پرستش چھوڑ کر خدا یگانہ کی عبادت کرنا سیکھی۔ تاریکی سے نکل کر نور کی طرف آئے۔ لیکن کیا عملاً یہ تبدیلیاں آئیں؟ اگر آتی تو بنت نبی وصیت نہ فرماتی کہ میرا جنازہ رات کو دفن کرنا۔
نام نہاد اپنوں کی مہربانیاں
اگر دشمنوں کی طرف سے ظلم ہو تو اتنا دکھ نہیں ہوتا جتنا اپنوں کے ظلم سے ہوتا ہے اور خصوصا جب لوگ اپنے رہبر اور پیشوا پر ظلم کرنے لگ جائیں تو اس رہبر کی مظلومیت کا اندازہ ممکن نہیں۔
فرمایا: کل میں تمہارا کمانڈر، رہبر اور حکم دینے والا تھا اور آج مجھ پر حکم چلایا جارہا ہے کل میں روکتا تھا اور آج مجھے روکا جارہا ہے (خطبہ۲۰۸)
اب ایسے رہبر اور پیشوا کے دل کا حل کیا ہوگا؟ لقد ملاتم قلبی قیحا و شحنتم صدری غیظا (خطبہ:۲۷)
خدا تمہیں قتل کرے کہ میرا دل تمہاری وجہ سے خون خون ہو گیا ہے اور میرے سینے میں تمہارے لیے سوائے غصے اور حسرت کے کچھ نہیں۔
یہ ایسا موضوع ہے جو خود ایک مستقل کتاب کا محتاج ہے لیکن کیونکہ اختصار ہمارے مد نظر ہے تو اسی لیے آخر میں علیؑ کے اس جملہ پر تمام کرتے ہیں کہ (لو ددت انی لم ارکم و لم اعرفکم معرفۃ واللہ جرت ندما و اعقبت سدما) (خطبہ۲۷) کتنا اچھا ہوتا کہ میں نے تمہیں دیکھا ہی نہ ہوتا اور تم سے آشنائی نہ ہوئی ہوتی۔ مہاری آشنائی نے سواء پشیمانی کے کچھ نہ دیا اور میرے غم واندوہ کو ابدی کردیا، یہ وہ جملات ہیں جو ایک امام کے ہیں جس نے ان کی مظلومیت کو سمجھا جا سکتا ہے خود نام نہاد ماننے والوں سے جو زخم ملے وہ دوسروں سے نہ ملے اور شام والوں میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ جنگ صفین کو اپنے فائدے میں ختم کرتے۔
حرف آخر
اگر چہ مختصراً علیؑ کی مظلومیت کو بیان کیا ہے لیکن اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اکرمؐ کی وفات کے بعد آپؑ پر کتنے مظالم ڈھائے گئے غصب خلافت ایک طرف تو غصب فدک دوسری طرف، سیدہؑ کے مصائب ایک طرف اور ان کی دردناک شہادت دوسری طرف ا س کے علاوہ دشمنوں کا اتفاق اور اپنوں کا سرکش ہو جانا ایک اور ظلم تھا۔
والسلام
شائستہ بتول
منابع
1:۔ نہج البلاغہ ،ترجمہ آقای محمددشتی ،ناشر موسسۃ فرہنگی تحقیقاتی امیر المومنینؑ
2:۔ الزھراء سیدۃ نساء العالمین، آیۃ اللہ مکارم شیرازی ناشر مدرسہ الامام علی بن ابی طالبؑ
3:۔ علیؑ از نگاہ دانشوران ج۲ مہدی مہر یزی
4:۔ علیؑ از زبان استاد شہید مطہری مؤلف، عباس عزیزی
5:۔ تاریخ اسلام بہ روایت امام علیؑ، محمد حسین دانش کیا، دفتر نشر و پخش معارف