بسم اللہ الرحمن الرحیم
غایۃ الذین الامر بالمعروف والنھی عن المنکر واقامۃ الحدود
امر بمعروف و نہی از منکر حدود الہی کا نفاذ اور دین کا قلعہ ہیں ([1])
امر بمعروف ، انسان کے اپنے مکتب سے عشق کی علامت ہے ۔
امر بمعروف لوگوں سے انسان کے عشق کی پہچان
امر بمعروف ، معاشرے کی سلامتی سے متعلق انسان کی ہمدردی ، وفاداری اور دلچسپی کی علامت ہے ۔
امر بمعروف ، تولی وتبری کی علامت ہے۔
امر بمعروف ، لوگوں میں اک دوسرے کے ساتھ رابطہ کی علامت ہے
امر بمعروف ، بیدار فطرت کی علامت ہے ۔
امر بمعروف ، واجبات کی حاضری وغیر حاضری ہے ، یعنی نماز کیوں نہ پڑھی؟روزہ کیوں نہ رکھا ؟حج کیوں نہ کیا ؟زکات کیوں نہ دی؟
امر بمعروف۔ تمام واجبات کے نفاذ کی ضمانت ہے اور نہی از منکر تمام محرمات کے ترک کی ضمانت ہے ۔
امر بمعروف ، جاہل انسان کو آگاہ ومتوجہ کرنا ہے ۔
اور نہی از منکر ، بد کرداروں کا قافیہ حیات تنگ کرنا ہے ۔
امر بمعروف ضعیف الارادہ لوگوں کے لئے اطمینان وتقویت کا سبب ہے ۔
امر بمعروف خدا کی طرف سے اہل ایمان کو دیا گیا وہ حق واختیارہے جس سے وہ ایک دوسرے کے اعمال وکردار پر نظر رکھ سکیں اور نہی از منکر معاشرے کے بعض افراد کے تقوی کی کمی کو پورا کرنے کا سبب ہے ۔
امر بمعروف انسانوں کی حدود کا محافظ ہے ، خاموش معاشرہ ایک مردہ معاشرہ ہے اور خاموش انسان سانس لینے والے جمادات کے مانند ہیں ۔
امر بمعروف و نہی از منکر ایک قسم کا سماجی نظم و ضبط ہے یعنی شخصی اور نفسانی خواہشات کو اجتماعی مصلحتوں کے پیش نظر محدود کرنا اورحقیقت میں یہ لا پرواہ افراد کے لئے ایک قسم کی پابندی ہے ۔
امر بمعروف ونہی از منکر ، بالیدگی کی علامت ہے ، جیسے حضرت لوط علیہ السلام نے گناہگاروں کے گروہ سے پوچھا : الیس منکم رجل رشید([2])
ترجمہ :کیا تم لوگوں میں ایک آدمی بھی رشید یعنی ہدایت یافتہ نہیں ہے جو تمہیں ان برے کاموں سے روک سکے ؟
اور امر بمعروف و نہی از منکر کے ذریعہ معاشرے کے اندرونی مشکلات کو حل کرکے بیرونی دشمنوں کےساتھ مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔
روایات کے مطابق امر بمعروف خدا کی راہ میں جہاد سے بھی اہم ہے کیونکہ جہاد پوری عمر میں ایک دو بار واقع ہوتا ہے جبکہ یہ الہی واجب شب وروز لوگوں کی نگاہوں کے سامنے آتا رہتا ہے ۔
امر بمعروف اور نہی از منکر کی عدم موجودگی میں اسلامی معاشرہ کی کوئی ضمانت نہیں ہے اور ہر روز سامری جیساکوئی شکار سونے کا ایک گولہ بنا کر آسانی کے ساتھ ہماری نوجوان نسل کو ثقافتی یلغار کا نشانہ بنا سکتا ہے اور علماء کا اتفاق ہے کہ امر بالمعروف و نہی از منکر قطعی واجبات میں سے ہے اور یہ مسئلہ اس قدر اہم ہے کہ امام حسین نےفرمایا : ٫٫میرا کربلا جانے کا مقصد امر بمعروف اور نہی از منکر ہے ،،
امر بمعروف کے ذریعہ معاشرے میں تمام واجبات رائج ہوسکتے ہیں نہی از منکر کے ذریعے تمام برائیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔
اگر دنیا بھر ایک ارب مسلمان ہر روز صرف ایک نیک کام کا امر اور ایک منکر سے روکیں تو دنیا کا چہرہ ہی بدل سکتا ہے ۔
جس دن امریکہ اور اسرائیل مسلمانوں کے کسی علاقہ پر بمباری کرتے ہیں اگر ایک ارب مسلمان اسکے خلاف آواز بلند کریں تو وہ ایسا کرنے کی جرائت نہیں کریں گے ۔
ہم نے ابھی اتحاد وایمان اور متحد آواز اٹھانے کا مزہ صحیح معنوں میں نہیں چکھا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک قطرہ پانی کسی کام کا نہیں ہوتا لیکن جب یہی پانی کے قطرات جمع ہوکر ایک نہر کی صورت میں اور اسکے بعد پھر دریا کی صورت میں اور پھر سمندر کی صورت میں ایک بند کے پیچھے جمع ہوتے ہیں تو ان سے بجلی پیدا ہوتی ہے اور اس بجلی سے ایک علاقہ روشن کیا جا سکتا ہے اسی طرح اگر ہم متحد ہو کر روزانہ اگر ایک امر بالمعروف کی بات اور ایک نہی از منکر سے روکنا شروع کردیں ۔ تو ہمیں اس زمانے میں اک انقلاب نظر آئے گا ہماری نوجوان نسل ہدایت یافتہ ہو گی اور آنے والی نسل ایک روشن فکر ہوگی ۔
امر بمعروف کی اہمیت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ علماء نے ایک ساتھ انسان کے قلبی ارتباط (یعنی منکر اوربرے کاموں سے قلبی نفرت ) کی بنا پر اسے اصول دین میں اور اسکی علمی اہمیت نیز واجبات میں سے ہونے کی بنا پر اسے فروع دین میں شمار کیا ہے ۔ شہید ثانی (رح)
فرماتے ہیں : ٫٫امر بمعروف اور نہی از منکر کے بارے میں آیات وروایات اتنی زیادہ ہیں کہ کمر شکن ہیں،،([3])
آج ہی اگر کوئی بڑی طاقت یا کوئی مغرور جو کسی علاقہ پر بمباری کرکے سب سے بڑے سکہ کا مرتکب ہوتا ہے اگر خود کو تمام دنیا کے لوگوں کے اعتراض اور فریاد کے روبرو پائے تو ہرگز ایسا ظالمانہ قدم اٹھانے کی جرائت نہیں کرے گا ۔ عالمی معاشروں کی خاموشی ، حکام کا خوف و بزدلی اور عوام کی لاتعلقی اور لاعلمی اس بات کا سبب ہوئے ہیں کہ دنیا کی سامراجی طاقتیں بڑے سے بڑے منکرات انجام دینے میں کسی قسم کی رکاوٹ اور خوف وخطر محسوس نہیں کررہی ہیں ۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ :
سب سے اچھا دوست وہ ہے جو تمہیں برے کاموں سے روکے اور بدترین دوست وہ ہے جو تم کو اسکی یاددہانی نہ کرے ۔ امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ٫٫میرا سب سے اچھا دوست وہ ہے جو مجھے میری کوتاہیوں اور عیب کے بارے میں یاددہانی کرے ،،اورمومن ہمیشہ اپنے اعمال کے بارے میں چوکس رہتا ہے یعنی خود اپنے آپ سے حساب وکتاب لیتا رہتا ہے ۔
حقیقت میں اگر ہم خود اپنے آپ سے چوکس اور ہوشیار رہیں اور لوگ باہر سے ہمارے بارے میں محتاط رہیں اور مجموعی طور سے ایک سیاسی وحکومتی نظام لوگوں کی خوبیوں اور نیک اعمال کی حوصلہ افزائی اور برے کاموں سے روکنے کی ذمہ داری سنبھالے تو ہم سب سے اچھی امت بن سکتے ہیں ۔ جیسا کہ قرآن مجید کا فرمان ہے :
کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکرو تومنون باللہ([4])
اور نہج البلاغہ میں بھی جیسا کہ آیا ہے : تمام نیک اعمال حتی خدا کی راہ میں جہاد بھی امر بمعروف کے مقابلے میں سمندر کے پانی کے مقابل دہن کی تری کے مانندہے ۔
اور نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر ١ میں بھی اسی بات کا ذکر آیا ہے کہ خدا کے پیغمبر اور انبیاء بھی امر بمعروف اور نہی از منکر کی غرض سے مبعوث ہوئے ہیں ۔
امر بمعروف اور نہی از منکر سے توحید کا رابطہ :
پیغمبر اسلام سے فرمایا کہ کلمہ لا الہ الا اللہ انسان کو عذاب الہی سے بچاتا ہے بشرطیکہ اس کلمہ مبارکہ کی تحقیر وسبکی نہ کی جائے ۔
ایک شخص نے پیغمبر اکرم (ص) سے پوچھا کیسے ممکن ہے کہ کلمہ توحید کی سبکی کی جائے ؟ آنحضرت نے جواب میں فرمایا : اگر گناہ کھلم کھلے انجام پائیں اور گناہگار کو کوئی منع نہ کرے اور اسے گناہوں سے نہ روکے تو یہی توحید کی بے حرمتی ہے ۔
امر بمعروف نہی از منکر سے امامت کا رابطہ :
ہم سورہ اعراف میں پیغمبر کی ذمہ داریوں کے بارے میں پڑھتے ہیں :
٫٫بامرھم بالمعروف وینھاھم عن المنکر،،([5])
وہ لوگوں کو امر بالمعروف اور نہی از منکر کرتے ہیں ۔
خدائے تعالی کی وحدانیت کی پرستش سے بہتر کون سامعروف اور نیک عمل ہوسکتا ہے اور طاغوت کی اطاعت سے برتر کونسا منکر ہو سکتا ہے ؟
قرآن مجید بیان فرماتا ہے کہ تمام پیغمبروں کافرض یہ ہے کہ لوگوں کو خدا کی بندگی کی
دعوت دیں اور انہیں طاغوت سے دوری اختیار کرنے کی ہدایت کریں ([6])
امربمعروف و نہی از منکر سے امامت کا رابطہ :
امام حسین اپنے قیام کے مقصد کے بارے میں فرماتے ہیں
٫٫کیا تم نہیں دیکھتےہو کہ حق پر عمل نہیں ہورہا اور باطل کو روکا نہیں جارہا ہے ؟،،اور دوسری جگہ فرماتے ہیں: مجھے امر بمعروف اور نہی از منکر کرنا ہے میں اپنے نانا کے دین میں اصلاح کرنا چاہتا ہوں ،،
انبیاء کا سب سے پہلا فریضہ
قرآن مجید امر بمعروف اور نہی ازمنکر کو انبیاء کا اولین فریضہ بیان کرتا ہے اور فرماتا ہے ٫٫ہم نے ہر امت میں ایک پیغمبر کو مبعوث کیا ہے اور ان کا سب سے اہم فریضہ دو چیزوں پر مشتمل تھا : اول یہ کہ خدائے واحد کی عبادت کا حکم دیں جو سب سے بڑا معروف ہے (ان اعبدواللہ ) اوردوسرا یہ کہ طاغوتوں کی اطاعت کرنے سے منع کریں جو سب سے بڑا منکر(اجتنبوالطاغوت)ہے ۔([7])
اور پھر اسی طرح نہج البلاغہ میں حکمت نمبر ٢٥٢ میں اللہ تعالی نے ایمان کو لازم قرار دیا ہے ۔ شرک سے پاک کرنے کے لئے اور امر بالمعروف کو عوام کی مصلحت کے لئے اور نہی از منکر کو بیوقوفوں کو برائیوں سے روکنے کے لئے واجب کیا ہے ۔
اور نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر ١٥٦
یقینا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یہ دو خدائی اخلاق ہیں اور یہ نہ کسی کی موت کو قریب بناتے ہیں اور نہ کسی کی روزی کو کم کرتے ہیں تمہارا فریضہ ہے کہ کتاب خدا سے وابستہ رہو کہ وہی مضبوط ریسمان ہدایت اور روشن نورالہی ہے اس میں منفعت بخش شفاء ہے اور اسی میں پیاس بجھا دینے والی سیرابی ۔ وہی تمسک کرنے والوں کے لئے وسیلہ عصمت کردار ہے اور وہی رابطہ رکھنے والوں کے لئے ذریعہ نجات ہے اسی میں کوئی کجی نہیں ہے که جسے سیدھاکیا جائے اور اس میں کوئی انحراف نہیں ہے کهجسے درست کیا جائے مسلسل تکرار اسے پرانا نہیں کرسکتی ہے اور برابر ہنسنے سے اس کی تازگی میں کوئی فرق نہیں آتا ہے جو اسکے ذریعہ کلام کرے گا وہ سچا ہوگا اور جو اسکے مطابق عمل کریگا وہ سبقت لے جائے گا۔
امر بالمعروف ٫٫روایات کی روشنی میں :
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ امر بمعروف کرنے والے زمین پرخدا کے خلیفہ ہیں([8] )
ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ خدائے تعالی بے دین مؤمن کا دشمن ہے ، سوال کیا گیا یا رسول اللہ کیا مومن بھی دین ہوسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ سلمان جو امر بالمعروف نہ کرے وہ بے دین ہے ۔
حضرت علی نے فرمایا : نہی از منکر فاسقوں کی ناک زمین پر رگڑنے کے برابر ہے ۔ امر بالمعروف اور نہی از منکر اخلاق الہی میں سے دو اخلاق ہیں جو بھی ان دو خدا ئی فرائض کی نفرت کرتا ہے خدا ئے تعالی اسے عزت دیتا ہے ۔([9] )
حضرت امام محمد باقر شکایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ایسے بھی لوگ ہیں کہ اگر نماز ، ان کے مال وجان کو نقصان پہنچائے تو اسے ترک کردیتے ہیں جس طرح امر بمعروف و نہی از منکر کو جو عظیم اور شریف ترین واجبات میں سے ہے ترک کردیتے ہیں( [10] )
منکرات کو نہ روکنے والے کی مثال اس شخص کی جیسی ہے جس نے ایک زخمی کو سڑک کے کنارے چھوڑ دیا ہو تاکہ وہ مر جائے([11] )
اگر تم ایک ڈسنے والے جانور کوکسی سوئے ہوئے شخص کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھو شور نہ مچاؤ تو اس کے قتل میں شریک ہو([12] )
رسول خدا نے فرمایا کچھ لوگ نہ پیغمبر ہیں اور نہ شہیدلیکن جو مرتبہ انہوں نے امر بمعروف کی وجہ سے پایا ہے اس پر لوگ رشک کریں گے([13] )
اگر لوگ منکر کے مقابلہ میں خاموش رہیں توسب کے سب خدا کے غضب کا شکار ہوں اس آیۃ کے متعلق روایت سے پتہ چلتا ہے کہ جہنم کی آگ سے نجات امر بمعروف اور نہی از منکر کے ذریعہ حاصل کی جاسکتی ہے ۔([14] )
امام حسین کے نهی از منکر سے چند سبق
امام حسین (ع) اپنی زندگی کے اخری لمحہ میں جب دیکھا که یزید لشکر اهل بیت کے خیموں کی طرف حملہ آورہورہا ہے تو یہ آخری جملہ ان سے مخاطب ہو کر فرمایا : ٫٫اگر تم لوگ دین نہیں رکھتےہو تو کم از کم اپنی دنیا میں آزاد رہو ،،اس جملہ نے اتنا اثر کیا کہ جب تک امام زندہ تھے فوج نے خیموں پر حملہ کرنے سے اجتناب کیاہم امام کے اس آخری جملہ سے مندرجہ ذیل سبق حاصل کرسکتے ہیں
١: نہی از منکر زندگی کے آخری لمحہ تک واجب ہے
٢: نہی از منکر وحشی ترین افراد کے بارے میں بھی واجب ہے
٣: اگر چند منکرات انجام پاتےہوں اورہم ان میں سے ایک کو روک سکیں تو اسکے بارے میں بھی قدم اٹھانا واجب ہے
٤: ناموس کا تحفظ بڑے واجبات میں سے ہے
امام سجاد کا انتہائی مشکل حالات میں نہی از منکر کرنا
امام سجاد کے سامنے ان کے باپ ، بھائی ، چچا اور پیغمبر کی اولاد کو شہید کیا گیا اور خود ان کو قیدی بنا یاگیا اور کوفہ وشام کے شہروں میں پھرایا گیا ۔ جب آپکو شام کی مسجد میں پہنچایا گیا اور آپنے دیکھا کہ خطیب منبر پر یزید کی تعریفیں کررہا ہے تو آپ نے تن تنہا یزید کے سامنے فریاد بلند کرتےہوئے فرمایا اے خطیب تونے اس چاپلوسی اور ستائش سے یزید کی رضامندی کا خدا کے قہر سے سودا کیا ہے تجھ پر خدا کا غضب ہے مجھے ان لکڑی کے ٹکڑوں (منبر) پر چڑھ کر اس چاپلوس خطیب کی جگہ پر بیٹھنا چاہئے تاکہ سب سے بڑے معروف یعنی حضرت محمد و اہل بیت پیغمبر کے اسلام کو زندہ کروں،،
اسکے بعد امام سجاد منبر پر تشریف لے گئے اور اپنی تقریر کے ذریعہ فکری ، ثقافتی ،جذباتی اور سیاسی طور سے انقلاب برپا کر دیا ۔([15])
و آخر دعوانا عن الحمد للہ رب العالمین
سعی ناچیز: منظور حسین الحسینی
حوالہ جات
[1] :مستدرک جلد٢ ص٣٥٩
[2] :ھود ٧٨
[3] :گفتار ماہ، ص٨٠
[4] :سورہ آل عمران آیہ ١١٠
[5] :سورہ اعراف آیہ ١٥٧
[6] :سورہ نحل آیہ ٣٦
[7] : سورہ نحل آیہ ٣٦
[8]: تفسیر نمونہ ج ٣ ص٣٨
[9]:لئالی الاخبار ص ٢٧٠
[10] : فروع کافی ج ٤ ص٥٥
[11] : کنز ج ٣ ص١٧٠
[12] : مستدرک ج١٢ ص١٨٤
[13] : مستدرک ج٢ ص٣٥٧
[14] : سورہ انفال آیہ ٢٥
[15] لہوف سید ابن طاؤس