بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین وعلی سیدنا محمد وآلہ الطیبین الطاہرین و لعنۃ اللہ علی اعدائہم اجمعین اما بعد فقد قال اللہ تبارک وتعالی فی کتابہ المجید بسم اللہ الرحمن الرحیم وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر
سورہ مبارکہ والعصر پر ایک سرسری نظر ڈالنے کے بعد ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انسان کا یہ تصور کے روز بروز اس کی عمر میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اس کے برخلاف گزرنے والے ہر دن کے ساتھ اس کی پونجی گھٹتی جا رہی ہے ، بوڑھے حقیقت میں بچے ہوتے ہیں اور نومولود ، جن کے سامنے ایک عمر ہوتی ہے ، سب سے زیادہ سرمایہ عمر کےمالک ہوتے ہیں۔ زمانے کی قسم کہ انسان برف کی طرح ہر لمحہ پگھل رہا ہے۔ (والعصر ان الانسان لفی خسر)لہذا اس ضائع ہوتی ہوئی عمر کے بدلے میں اس سے بہتر کوئی چیز ہاتھ آنی چاہئے ۔ مال و مقام اور تمغے عمر سے بہتر نہیں ہیں ۔جوچیزہماری عمرسے بہتر ہے ، وہ ایمان اور عمل صالح ہے۔(الا الذین آمنوا وعملواالصالحات) ایمان اورنیک عمل اگر روز بروز ترقی نہ کرے تو اسکی کوئی قدر وقیمت نہیں ۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ دوسروں کو بھی ایمان و عمل صالح کی طرف ہدایت کریں اور دعوت دیں ۔ (وتواصوا بالحق ) البتہ اس راہ کو طےکرنے میں چند مشکلات کا سامنا کرنا ہوتا ہے ۔ یعنی اگر ہم لوگوں کو خیر ونیکی کی طرف دعوت دیں اور برے کاموں یا انحرافات سے روکنا چاہیں تو ممکن ہے ہمیں نا مناسب برتاؤسے دوچار ہونا پڑے ۔ لیکن بہر حال ہمیں ثابت قدمی کے ساتھ راہ کو طے کرنا چاہئے(وتواصوا بالصبر ) ۔
مختصر یہ کہ موجودات کو ہمارے لئے تخلیق کیا گیا ہے اور ہر دن جو ہماری عمر میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے ۔ اس کے پیش نظر اگر ہم کچھ حاصل نہ کریں گے تو گویا موجودات کہ اس بازار میں ہم نے نقصان اٹھایا ہے اور سب سے بہتر ذخیرہ ایمان ، عمل صالح اور لوگوں کو حق وصبر کی طرف دعوت دینا ہے ۔ حق کی طرف ہدایت ہی امر بمعروف ہے جس میں فکر حق ، کلمہ حق ، قانون حق، رہبر حق ، حکومت حق شامل ہیں یعنی ہمیں چاہئے کہ نیک اعمال کو ہرروز وسعت بخشیں اور فاسد ومنکرات کو پھیلنے سے روکیں ۔
تاریخ بشر سے پتہ چلتا ہے کہ تمام ماں باپ اپنے بچوں کو کچھ کام انجام دینے کی ترغیب اور کچھ کاموں سے منع کرتے رہتے ہیں ۔ اس لحاظ سے امر ونہی ، تشویق وتہدید ہر انسان کی فطرت میں موجود ہے اور کسی خاص زمان ومکان یا کسی خاص نسل وعلاقہ سے مخصوص نہیں ہے پس جو مسئلہ اس طرح وسعت رکھتاہو، یہی اس کے فطری ہونے کی نشانی ہے ۔
امر بالمعروف ونہی عن المنکر ایک عقلی ضرورت ہے ۔ یہ مسئلہ اتنا واضح وروشن ہے کہ مجھے ڈر ہے کہ اگر اسکی وضاحت کروں تو خود یہ وضاحت سورج کے سامنے ابر کی طر ح ہوگی کہ جو اس کی شفافیت کوکم کردے ۔
کونسا عقلمند ہے جو خطرے اور گمراہی کے مقابلہ میں خاموشی اختیار کرنے کو پسند کرتا ہے اور اسکی مذمت نہیں کرتا ۔ کونسی عقل ہے جو راہنمائی ، ہمدردی نیک کام کے لئے حوصلہ افزائی اور سب برے کاموں سے روکنے کوضروری نہیں سمجھتی؟
چونکہ دین اسلام عقل وفطرت کےمطابق ہے اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر سے متعلق تمام روایات ہمیں اسی عقلی فیصلہ کی طرف راہنمائی اور ہدایت کرتی ہیں۔
امر بالمعروف کامسئلہ سرکاردوعالم (ص) کی ابتدائے بعثت سے ہی مکہ میں اسلام کی توجہ کا مرکز تھامثال کے طور پر سورہ والعصر کی وہ آیہ کہ جس کو ہم نے سرنامہ کلام کے لئے انتخاب کیا ہے۔(وتواصوا بالحق وتواصوابالصبر )میں امر بالمعروف کی طرف اشارہ ہے ۔
پیغمبر اسلام ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:امر بالمعروف کرنے والے زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں([1] )۔
ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا: خدائے تعالی بے دین مومن کا دشمن ہے ، سوال کیا گیا : کیا مومن بھی بے دین ہوسکتا ہے؟ فرمایا: وہ مسلمان جو امر بالمعروف نہ کرے بے دین ہے ،،۔
بے شک امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا شمار نماز ،روزہ ،و حج سے جدا ہے ، کیونکہ یہ امور کسی دوسرے کو ضرر یا نقصان نہیں پہنچاتے لہذا کسی کو ان سے اختلاف نہیں ہے ۔
لیکن نہی عن المنکر ، لوگوں کی گمراہیوں اور نفسانی خواہشات سے ایک ٹکر ہے، لہذا خود بخود کچھ لوگ اس کے مقابل کھڑے ہوجاتے ہیں ۔
اس لئے مولائے کائنات ارشاد فرماتے ہیں :
نہی عن المنکر فاسقوں کی ناک زمین پر رگڑنے کے برابر ہے ۔([2])
ایک مقام پر حضرت امیر ارشاد فرماتے ہیں ٫٫امر بمعروف و نہی از منکر مومنوں کی اساس اور ان کا سہارا ہے ا ورکفر کے لئے ذلت ورسوائی کا باعث ہے ،،([3])
منکر ومعروف کی پہچان یہ کسی ایک شخص کا کام نہیں او رمختلف افراد سے روبرو ہونے کے لئے بھی نفسیاتی تبلیغات کی ضرورت ہوتی ہےلیکن امر بالمعروف اسی وقت ثابت ہوتا ہے جب کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے بہترین اخلاق ، کافی معلومات اور ضروری تربیت کے مالک ہوں۔
روایات کے مطابق امر بالمعروف خدا کی راہ میں جہاد سے بھی زیادہ اہم ہے ۔ کیونکہ جہاد پوری عمر میں ایک دوبار واقع ہوتاہے ۔ جبکہ یہ الھی واجب شب وروز لوگوں کے سامنے آتا رہتاہے ۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی عدم موجودگی میں اسلامی معاشرہ کی کوئی ضمانت نہیں ہے اور ہر روز سامری جیسا کوئی فنکار سونے کا ایک گوسالہ بنا کر آسانی کے ساتھ ہماری نوجوان نسل کو ثقافتی یلغار کا شکار بنا سکتا ہے ۔ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر قطعی واجبات میں سے ہیں اور یہ مسئلہ اس قدراہم ہےکہ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: میرا کربلا جانے کا مقصد امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے ۔
امر بالمعروف کی اہمیت کے لئے اتناہی کافی ہے کہ علماء نے اس کے ساتھ انسان کے قلبی ارتباط یعنی منکر اور برے کاموں سے قلبی نفرت)کی بناء پر اسے اصول دین میں اور اسکی عملی اہمیت نیز واجبات میں سے ہونے کی بناء پر اسے فروع دین میں شمار کیا ہے ۔
امر بالمعروف کے ذریعہ معاشرے میں تمام واجبات رائج ہو سکتے ہیں ۔ نہی عن المنکر کے ذریعہ تمام برائیوں پر قابو پایاجا سکتا ہے اگر دنیا بھر کے ایک ارب مسلمان ہر روز صرف ایک نیک کام کا امر اور ایک منکر سے روکیں تو دنیا کا چہرہ بدل سکتا ہے ۔
حضرت مولائے کائنات اپنے بیٹے سے فرماتےہیں :٫٫امر بالمعروف کرو تاکہ تمہارا شمار اھل معروف میں سے ہو،،([4])۔
حقیقت میں جس طرح کپڑے دھونے والے کے ہاتھ خود بخود پا ک ہو جاتے ہیں اسی طرح لوگوں کو نیک کاموں کی طرف دعوت دینے والا بھی فطری طور پر کوشش کرتا ہے کہ وہ خود بھی نیک کاموں پر عمل کرے ، جس کی وہ دوسروں کو تلقین کرتا ہے ۔
کئی ایک روایات میں آیا ہے کہ ٫٫جو کوئی لوگوں کو نیک کاموں کی طرف راہنمائی ،دعوت اور تاکید کرتا ہے اور لوگ اسکی اس دعوت کی وجہ سے اس نیک کام کو انجام دیتے ہیں تو دوسروں کے اجر میں کسی قسم کی کمی کہ واقع ہونے کے بغیر ، دعوت دینے والا بھی ان کے ثواب میں شریک ہوتا ہے ۔
جو شخص دوسروں کو بدکرداری و گمراہی کی طرف دعوت دیتا ہے ، وہ اس کی بد کرداری و گمراہی کے گناہ میں بھی شریک ہوتا ہے ۔ اسی طرح امر بمعروف کرنے والا ان تمام نیک کاموں کے ثواب میں شریک ہوتا ہے جو اسکی دعوت پر لوگ انجام دیتے ہیں([5])۔
اگر امر بالمعروف ونہی عن المنکر نہ کیا جائے تو رفتہ رفتہ شر پسند عناصر تم پر مسلط ہو جائیں گے اور نوبت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ تمہارے نیک افراد جتنی بھی فریاد بلند کریں جواب نہ سن پائیں گے ۔([6])۔امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے ذریعہ معاشرہ کے اندرونی مشکلات کو حل کرکے بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اخلاق الہی میں سے دو اخلاق ہیں ، جو بھی ان دو خدا ئی فرائض کی نصرت کرتا ہے خدا ئے تعالی اسے عزت دیتا ہے ۔([7])
ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں : اگر امر بالمعروف و نہی عن المنکر عام لوگوں کے لئے ایک مصلحت ہے (کار خیر کے بارے میں ان کے شوق کو بڑھاتا ہے )اور نہی عن المنکر کم عقل لوگوں کے لئے جن میں گمراہی کے امکانات زیادہ ہیں ، ایک قوی محافظ ہے۔([8])
عبدالرحمن ابن ابی لیلی سے نقل کیا گیا ہے : وہ کہتا ہے کہ جب ہم لوگ شام والوں سے مقابلہ کررہے تھے تو امام نے فرمایا: ایمان والو جو شخص یہ دیکھے کے ظلم وتعدی پر عمل ہورہا ہے اور برائیوں کی طرف دعوت دی جارہی ہے اور اپنے دل سے اسکا انکار کرے تو گویا کہ محفوظ رہ گیا اور بری ہوگیا([9]) اور اگر زبان سے انکار کردے تو اجر کا حقداربھی ہوگیاکہ یہ صرف قلبی انکار سے بہتر صورت ہے اور اگر کوئی شخص تلوارکے ذریعہ اسکی روک تھام کرے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو جائے اور ظالمین کی بات پست ہو جائے تو یہی وہ شخص ہے ۔ جس نے ہدایت کے راستے کو حاصل کرلیا اور صراط مستقیم پر قائم ہوگیا ہےاور اسکے دل میں یقین کی روشنی پیدا ہوگئی ہے ۔([10])
اسی موضوع سے متعلق دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:بعض لوگ منکرات کا انکار دل زبان اور ہاتھ سب سےکرتے ہیں۔تو یہ خیر کے تمام شعبوں کے مالک ہیں اور بعض لوگ صرف زبان اور دل سے انکار کرتےہیں اور ہاتھ سے روک تھام نہیں کرتے ہیں تو انہوں نے نیکی کی دوخصلتوں کو حاصل کیا ہے اور ایک خصلت کو برباد کیا ہے ۔ اور بعض لوگ صرف دل سے انکار کرتے ہیں اور نہ ہاتھ استعمال کرتے ہیں اور نہ زبان تو انہوں نے دو خصلتوں کو ضائع کردیا اورصرف ایک کو پکڑ لیا ہے ۔
اور بعض وہ بھی ہیں جو دل ، زبان اور ہاتھ کسی سے بھی برائیوں کا انکار نہیں کرتے ہیں تو یہ زندوں کے درمیان مردہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔اور یاد رکھوکہ تمام اعمال خیر مع جہاد فی سبیل اللہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے مقابلہ میں وہی حیثیت رکھتے ہیں جوگہرے سمندر میں لعاب دہن کے ذرات کی حیثیت ہوتی ہے ۔ اور ان تمام اعمال سے بلند ترین عمل ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کا اعلان کرنا ہے ۔([11])
تاریخ اسلام میں اسکی بہترین مثال ابن سکیت کا کردار ہے جہاں ان سے متوکل نے بھرے دربار میں یہ سوال کیا کہ تمہاری نظر میں میرے دونوں بیٹے معز اور مؤید بہتر ہیں یاعلی علیہ السلام کے دونوں فرزند حسن وحسین ۔ تو ابن سکیت نے ظالم بادشاہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرفرمایاکہ حسن وحسین کا ذکر ہی کیا ہے ۔تیرے بیٹےاور تو دونوں مل کر علی کے غلام قنبر کی جوتیوں کے تسمہ کے برابر بھی نہیں ہو۔
جس کے بعد متوکل نے حکم دیا کہ ان کی زبان کو گدی سے کھینچ لیا جائے اور ابن سکیت نے انتہائی سکون قلب سے اس قربانی کو پیش کر دیا ۔([12]
ابو حجیفہ سے نقل کیا گیا ہے کہ میں نے امیر المؤمنین کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے تم ہاتھ کےجہاد سے مغلوب ہوگے اسکے بعد زبان کے جہاد میں اور اسکے بعد دل کے جہاد میں ، مگر یہ یاد رکھنا کہ اگر کسی شخص نے دل سے اچھا ئی کو اچھا اور برائی کو برا نہیں سمجھا تو اسے اسطرح الٹ پلٹ دیا جائے گا کہ پست بلند ہوجائے اور بلند پست ہوجائے ۔([13])
یقینا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یہ دو خدائی اخلاق ہیں اور یہ نہ کسی کی موت کو قریب بناتے ہیں اور نہ کسی کی روزی کو کم کرتے ہیں تمہارا فریضہ ہے کہ کتاب خدا سے وابسطہ رہو کہ وہی مضبوط ایمان ہدایت اور روشن نور الہی ہیں ۔ اسی میں منفعت بخش شفا اور اسی میں پیاس بجھادینے والی سیرابی ہے۔وہی تمسک کرنے والوں کے لئے وسیلہ عصمت کردارہے اور وہی رابطہ رکھنے والوں کے لئے ذریعہ نجات ہے اس میں کوئی کجی نہیں ہے جسے سیدھا کیا جاسکے اور اس میں کوئی انحراف نہیں کہ جسے درست کیا جائے مسلسل تکرار اسے پرانا نہیں کرسکتا ہے اور برابر سننے سے اسکی تازگی میں کوئی فرق نہیں آتا ہے ۔ جو اس کے ذریعے کلام کرے گا وہ سچا ہوگا اورجو اس کے مطابق عمل کرے گا سبقت لے جائے گا ۔([14])
نہج البلاغہ میں مواعظ ونصائح کا بہت بڑا حصہ ہے ۔ تقریبا نصف نہج البلاغہ مواعظہ پر مشتمل ہے ۔ اس کے زیادہ شہرت کے باعث اسکی حکمت عملی ، مواعظ و نصائح ہیں قرآن اور رسول کے مواعظ اگرچہ مختصر ہی باقی بچے ہیں ) لیکن وہ ، نہج البلاغہ کی اساس شمار ہوتے ہیں اس کے باوجود نہج البلاغہ کے مواعظ عربی وفارسی میں بے مثال ہیں ان مواعظ نے ایک ہزار سال سے بھی زیادہ (معاشرہ میں)مؤثر کردار ادا کیا ہے اور آج بھی اسکی وہی شان ہے اب بھی زندہ کلمات میں یہ تاثیر موجود ہے جو دلوں کو گرما دے ، جذبات کو ابھار دے اور آنسوؤں کو جاری کردے اگر کسی میں ذرا بھی انسانیت کی بو ہوگی تو اس پر ان کلمات کا ضرور اثر ہوگا۔
وآخر دعوانا عن الحمد للہ رب العالمین
حاصل مطالعہ
تنویر حسین صدیقی
حوالہ جات
[1] :تفسیرنمونہ ، ج٣ ص٣٨
[2] :غرر الحکم
[3] :نہج البلاغہ حکمت ٣١
[4] :نہج البلاغہ ، نامہ ٣١
[5] بحار ، ج٩٧ص٨٧، نہج الفصاحۃ جملہ ١٠٢٦
[6] :تہذیب،ج٦ص١٧٦
[7] :لئالی الاخبارص٢٧٠
[8] :نہج البلاغہ کلمات قصار٢٥٢
[9] : یعنی ا س فقرہ میں سلامتی اور برائت کا مفہوم یہی ہے کہ منکرات کو برا سمجھنا اوراس سے راضی نہ ہونا انسان کی فطرت سلیم کا حصہ ہے جس کا تقاضا اس کے اندر سے برابر جاری رہتا ہے ۔ لہذا اگر اس نے بیزاری کا اظہار کردیا تو گویا فطرت سلیم ہونے کا ثبوت دےدیا اور اس فریضہ کو ادا کردیا ہے جو اسکے ذمہ تھا۔
حوالہ جات
[10] :نہج البلاغہ کلمات قصار٣٧٣
[11] : نہج البلاغہ کلمات قصار٣٧٤
[12] :سیرہ پیشوایان ص٥٨٩
[13] : نہج البلاغہ کلمات قصار٣٧٥
[14] : نہج البلاغہ کلمات خطبہ ١٥٦