امر بہ معروف اور نہی از منکر
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
معروف اور منکر کا مفہوم:
کلمہ معروف عرف سے ہے اور اسکے معنیٰ ’’پہچانا ہوا ‘‘کے ہیں اور کلمہ منکر ’نکر‘ سے ہے کہ جسکے معنیٰ ہیں جسے نہ پہچانا گیا ہو اور راغب اصفہانی نے اس کے معنیٰ یوں بیان کئے ہیں امر بہ معروف ایسے عمل کو کہتے ہیں کہ عقل و شرع جس کو اچھا سمجھے اور نہی از منکر ایسے عمل کو کہتے ہیں کہ عقل و شرع جس سے انکار کرے ۔ ۱؎
مجمع البحرین میں معروف کی اس طرح تفسیر کی گئی ہے :
’’معروف ہر اس چیز کو شامل ہوتا ہے کہ جو مصداق اطاعت الٰہی ہو اور انسان کو خدا کے نزدیک کرے اور لوگوں کی خدمت کے حوالے سے مشہور ہو ‘‘۔ ۲؎
معروف و منکر کا دائرہ :
جو تعریف اوپر بیان کی گئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معروف اور منکر کا دائرہ بہت وسیع ہے اور معروف صرف عبادت اور لوگوں سے نیکی کرنے کے معنی ٰ میں نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی زندگی کے ہر پہلو میں اثر انداز ہے ۔
اسلام نے اس امر بہ معروف و نہی از منکر کے امور کو مشخص نہیں کیا یعنی نہیں کہا کہ امر بہ معروف و نہی از منکر فقط عبادات ، معلاملات ، اخلاقیات اور گھریلو زندگی میں ہے بلکہ معروف کے کلمہ کو استعمال کرکے کہا ہے کہ ہر نیکی اور خیر کا کام معروف ہے اور ہر منکر یعنی جو بھی کام غلط ہے منکر کہلاتا ہے ۔ پس معروف سارے واجبات اور مستحبات کو شامل ہوگا البتہ امر بہ واجبات واجب ہے اور امر بہ مستحبات مستحب ہے ۔ اس طرح منکر بھی تمام افعال حرام و مکروہ کو شامل ہوتا ہے اس وضاحت کے ساتھ کہ نہی محرمات واجب او رنہی مکروہات مستحب ہے ۔
امام خمینی ؒفرماتے ہیں : ’’امر بہ معروف اور نہی از منکر میں سے ہر ایک واجب اور مستحب کی طرف تقسیم ہوتے ہیں پس جو کام عقل اور شرع کے مطابق واجب ہے اس کا امر کرنا واجب ہے اور جو کام عقل و شرع کے مطابق نہ ہو تو حرام ہے اس سے نہی کرنا واجب ہے اور ہر وہ کام جس کا انجام دینا لوگوں کو پسند ہے مستحب ہے اور اس پر امر کرنا بھی مستحب ہے اور جو کام ناپسند ہے وہ مکروہ ہے اور اس سے نہی کرنا مستحب ہے ۔ ۳؎
امر بہ معروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت :
نہج البلاغہ کی رو سے امر بہ معروف اور نہی عن المنکر ایسے اصول ہیں کہ جو مکتب کو زندہ کرتے ہیں اور مکتب کے اصولوں میں ایک خاص اہمیت کے حامل ہیں ۔ حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام نے اپنی فرمایشات میں امر بہ معروف اور نہی عن المنکرکا بہت جگہ ذکر فرما یا ہے کہ ان میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں ۔
و ما اعمال البر کلھا و الجھاد فی سبیل اللہ عند الامر بالمعروف و النھی عن المنکر الا کنفثۃ فی بحر لجی ۴؎
’’تمام اعمال نیک کاحتی خدا کی راہ میں جہاد کا مقایسہ اگر امر بہ معروف و نہی از منکر کے ساتھ کیا جائے تو ایسے ہی ہے جیسے لعاب دہن بڑے دریا کے سامنے ‘‘۔
اس بیان علوی ؑ میں تمام اعمال کو رطوبت منہ سے تشبیہ دی گئی ہے اور امر بہ معروف اور نہی عن المنکر کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے ۔ شاید امر بہ معروف اور نہی عن المنکر کی اتنی فضیلت کا سبب یہ ہے کہ تمام عبادات اور نیک کاموں کا دارومدار ان دو فریضوں پر منحصر ہے اور جہاد ایک ایسا فعل ہے جو مفاسد اور موانع خارجی سے مقابلہ کرتاہے لیکن امر بہ معروف اور نہی عن المنکرکا مفاد موانع داخلی سے مقابلہ کرنا ہے اور اگر انسان کا باطن اچھا نہ ہو تو و ہ جہاد کے لئے آمادہ نہیں ہوگا اور امر بہ معروف اور نہی عن المنکر انسان کے باطن کو اچھا کرتے ہیں ۔ اس لئے امر بہ معروف اور نہی عن المنکر کی جہاد سے زیادہ اہمیت ہے ۔
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :
ان الامر باالمعروف و النّھی عن المنکر فریضۃ عظیمۃ بھا تقام الفرائض و تامن المذاھب وتحل المکاسب و ترد المظالم و تعمر الارض و یثعف من الاعداء و یستتقم الامر ۔
امر بہ معروف اور نہی عن المنکر ایک عظیم فریضہ ہے دوسرے واجبات اس کے ذریعہ سے تحقق پاتے ہیں اور اس کی وجہ سے راستوں میں امن ہے اور کاروبار میں حلالیت اور مشروعیت ہے اور اس سے ستم کا راستہ روکا جاتا ہے اور زمین آباد ہوتی ہے اور اپنے دشمنوں سے حق لیا جاتا ہے ۔ امر بالمعروف سے دین و دنیا میں قوام ہے ۔
امام حسین علیہ السلام امر بہ معروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں فرماتے ہیں :
’’انھا اذا ادیت و اقیمت استقامت الفرائض و صعبھا و ذلک ان الامر بالمعروف و النھی عن المنکر دعاء الی الاسلام مع رد المظلام و مخافۃ الظالم و قسمۃ الفی ٗ و الغائم و اخذ الصدقات من مواضعھا و وضعھا فی حقھا ‘‘۔ ۴؎
خدا وند متعال جانتا ہے اگر امر بہ معروف اور نہی عن المنکر انجام پائیں تمام واجبات الٰہی چاہے وہ واجبات آسان ہوں یا مشکل ہوں انجام پائیں گئے کیونکہ اس وظیفہ کے انجام دینے سے تمام لوگ اسلام کی طر ف آئیں گے اور ظلم کا مقابلہ ہوگا اور ظلم کرنے والوں کو روکا جائے گا اس کے وسیلہ سے غنیمت اور دوسری در آمدات بیت المال کو عادلانہ تقسیم کیا جائے گا اور مالیات جمع ہوں گی اور مستحق افراد کو دی جائیں گی ۔
امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں :
و ان الامر بالمعروف و النّھی عن المنکر لخُلقان من خلق اللہ سبحانہ ۵؎
بہ تحقیق امر بہ معروف اور نہی از منکر دو خلق ہیں اخلاق خداوند سے پس مولا کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امر بہ معروف اور نہی از منکر اہمیت کے لحاظ سے دوسرے واجبات کے مقابلہ میں نہیں بلکہ ایک ایسا عمل خیر ہے کہ اس کی برکت سے نیکیاں پروان چڑھتی ہیں اور ایک امر کو بجا لانے والے شخص کے نتیجے میں پورا معاشرہ سعادت کی طرف حرکت کرتاہے اور فساد و گناہ کے گرداب سے نکلتا ہے ۔
امر بہ معروف اور نہ عن المنکر کے شرائط :
امر بہ معروف اور نہی عن المنکر نماز و روزہ کی طرح تعبدی محض نہیں ہے کہ مکلف ان کو انجام دے ایک خاص طریقے سے چاہے نتیجہ نہ بھی دیں پھر بھی اس مکلف کی مسئولیت انجام ہو جائے گی ۔ امر بہ معروف اور نہی عن المنکر مخصوص شرائط رکھتے ہیں ۔
۱۔معروف اور منکر کی شناخت :
امر بہ معروف اور نہی عن منکر بھی ان تکالیف میں سے ہے کہ جن کے بارے میں علم اور آگاہی ہونا واجب ہے کیونکہ ان کی شناخت کے بغیر اس کے بجا لائے جانے کا امکان نہیں یعنی جب انسان کو پتہ نہیں ہوگا کہ معروف کیا ہے اور منکر کیا ہے کس طرح لوگوں کو ان کے انجام دینے کی نصیحت کر ے گا۔ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام سے فرمایا :
وامر بالمعروف تکن من اھلہ و انکر المنکر بیدک و لسانک۔۔۔۔۔۔۔۔ و تفقہ فی الدین۔۶؎
’’امر بہ معروف کرو تا کہ خود اہل معروف ہو اور ہاتھ سے اور زبان سے منکرات کا انکار کرو اور دین کی عمیق شناخت میں کوشش کرو ‘‘۔
۲۔ احتمال تأثیر :
امر بہ معروف اور نہی عن المنکر ایسی تکالیف میں سے ہے کہ یہ تب واجب ہوتے ہیں جب احتمال تاثیر کافی ہے ۔ اور یہ تکلیف فقط اس وقت ساقط ہوتی ہے جب انسان کو علم و قطع ہو کہ اس کا امر بہ معروف اور نہی عن المنکر بے فائدہ ہے اور اس قسم کا فرض واقعاََ نادر ہے خداوند فرماتا ہے :
لعلہ یتذکر او یخشی ٰ
شاید و ہ نصیحت پکڑ لے یاڈر جائے ۔
۳۔گناہوں پر اصرار :
امر بہ معروف اور نہی عن المنکر کے وجوب کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ شخص گنہگار اپنے گناہوں پر اصرار کرے کیونکہ اگر گنہگار اپنے عمل کے بعد ادارہ کرلے کہ گناہ انجام نہیں دے گا یا اس سے وہ گناہ اتفاقی سرزد ہو گیا ہو تو اس صورت میں نہی کرنے کی ضرورت نہیں ہے نہی کی ضرورت اس وقت ہے جب وہ شخص گناہ انجام دینے پر خوش ہو اور ترک کرنے کا ارادہ بھی نہ رکھتا ہو اور اگر ایک شخص گناہوں سے دور ہونا چاہتا ہو اور کوئی نہی کرے تو شاید اس کا نقصان ہوگا فائدہ کے بجائے ۔
امر بہ معروف اور نہی عن المنکر مفسدہ سے خالی ہو :
اگر امر بہ معروف اور نہی عن المنکر میں انسان کو یہ احتمال ہو کہ ان کی وجہ سے اسے جان، مال یا عزت و آبرو کا نقصان ہوگا یا اس کے رشتہ داروں اور دوستوں کو یہ نقصانات ہوں گے تو اس صورت میں امر بہ معروف اور نہی عن المنکر واجب نہیں ہوں گے مگر یہ کہ اصل دین خطرے میں ہو اس صورت میں ان چیزوں کو دین پر قربان کر دینا چاہئے ۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے وصیت نامہ میں فرمایاکہ میں نے امر بہ معروف اور نہی عن المنکر کی خاطر قیام کیا اور اس راہ میں اپنی جان و مال کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کروں گا اور اپنے اہل بیت ؑ کے اسیر ہونے کی بھی پرواہ نہیں کروں گا اور اس پیغام سے امام حسین ؑ نے دنیا والوں کو بتا دیا کہ مال وجان و عزت کو دین کے راستے میں قربان کر دینا چاہئیے اور جب بھی دین کو قربانی کی ضرورت ہو تو کسی قسم کی مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہئیے ۔
مراتب امر و نہی :
فقہ اسلامی میں تین مراتب کلی امر بہ معروف اور نہی عن المنکر کے لئے ذکر کئے گئے ہیں اور ہر مرتبہ مختلف مراتب اور درجات کا حامل ہے اور جو شخص امر بہ معروف اور نہی عن المنکر کرتا ہے اور دیکھتا ہے کہ یہ پائین مرتبہ سے ہو جائیں گے تو اس کے لیے اس سے اوپر والے مرتبہ کی طرف عدول کرنا جائز نہیں ہے ۔
وہ تین مراتب امر بہ معروف اور نہی عن المنکریہ ہیں ۔
۱۔ دل سے راضی ہونا یا نفرت کرنا ۔
۲۔ گفتار کے ذریعہ امر و نہی کرنا ۔
۳۔ اپنے زور بازو سے امر و نہی کرنا ۔
حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
فمنھم المنکر للمنکر بیدہ و لسانہ و قلبہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک گروہ منکر کا زبان سے اور دل سے انکار کرتا ہے پس وہ لوگ تمام اچھی عادتوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں اور جمع کیے ہوئے ہیں ۔ دوسرے گروہ نے منکر کا زبان اور دل سے انکار کیا ہے اور ہاتھوں کا استعمال نہیں کیا یہ وہ ہیں کہ جنہوں نے دو عادتیں اچھی عادتوں سے لی ہیں اور دوسری عادتوں کو ہاتھ سے دے دیا ہے ۔ بعض لوگ منکر کا فقط دل سے انکار کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ اور زبان سے کوئی کام نہیں کرتے۔ انہوں نے دو اچھی عادتوں کو ضائع کیا ہے اور ایک اچھی عادت لی ہے بعض ایسے لوگ ہیں کہ جنھوں نے منکر کو نہ زبان سے ، نہ دل سے اور نہ ہاتھ سے انکار کیا ہے وہ چلتی پھرتی لاش ہیں ۔
یہ تھی امر بہ معروف اور نہی عن المنکر کے بارے مختصر گفتگو۔
میں معترف ہوں کہ اس موضوع کا حق ادا نہیں ہو سکا لیکن پھر بھی یہ مختصر سی کاوش حاضر خدمت ہے کہ اس نیک کام میں میرا نام بھی شامل جائے ۔
و السّلام
منابع تحقیق
۱۔ راغب اصفہانی ، المفردات ص ۳۳۱
۲۔ طریحی ، مجمع البحرین ، ض۴ ص ۱۵۸
۳۔ امام خمینی ، تحریر الوسیلہ ج۱ س ۴۶۳
۴۔نہج البلاغہ ، کلمات قصار ۳۷۴
۵۔ کلینی ِ کافی ج۵ ، ص ۵۶
۶۔ العاملی ، وسائل الشیعہ ج۶ ، ص ۱۳۰
۷۔ نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۵۶
۸۔ نہج البلاغہ ، نامہ ۳۱
۹۔ طہ ؍۴۴
۱۰۔ نہج البلاغہ ، حکمت ۲۷۴