با سمہ تعالی
آغاز:۔
انسان کا یہ تصور کہ روز بروز اس کی عمر میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اس کے برخلاف گذرنے والے ہر دن کے ساتھ اس کی پونجی گھٹتی جارہی ہے بوڑھے حقیقت میں بچے ہوتے ہیں اور نومولود جن کے سامنے ایک عمر ہوتی ہے سب سے زیادہ سرمایۂ عمر کے مالک ہوتے ہیں زمانے کی قسم !کہ انسان برف کی طرح ہر لمحہ پگھل رہاہے ’’والعصر انّ الانسان لفی خسر ‘‘لہٰذا اس ضائع ہوتی ہوئی عمر کے بدلے میں اس سے بہتر کوئی چیز ہاتھ آنی چاہئے ۔ مال و مقام اور تمغے عمر سے بہتر نہیں ہیں جو چیز ہماری عمر سے بہتر ہے وہ ایمان اور عمل صالح ہے ’’الّاالذین آمنواوعملواالصالحات‘‘ ایمان اور نیک عمل اگر روزبروز ترقی نہ کرے تو اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں لہٰذا ہمیں چاہئے کہ دوسروں کو بھی عمل صالح کی طرف ہدایت کریں اور دعوت دیں ’’وتوا صوا بالحق ‘‘ البتّہ اس راہ کو طے کرنے میں چند مشکلات کا سامناکرنا ہوتاہے یعنی اگر ہم لوگوں کو خیر و نیکی کی طرف دعوت دیں اور برے کاموں یا انحرافات سے روکنا چاہیں تو ممکن ہے ہمیں نا مناسب برتائو سے دوچار ہونا پڑے لیکن بہر حال ہمیں ثابت قدمی کے ساتھ اس را ہ کو طے کرنا چاہئے ’’وتواصوا بالصبر‘‘ ۔
انبیاء کا سب سے پہلا فریضہ
ہم یہاں سے اس موضوع پر چند عنوانات کے ذیل میں گفتگو کریں گے ، قرآن مجید امر بمعروف اور نہی از منکر کو انبیاء کا اولین فریضہ بیان کرتا ہے اور فرماتا ہے : (سورہ ٔ نحل آیت ۳۶)
ہم نے ہر امت میں ایک پیغمبر کو مبعوث کیا ہے اور ان کا سب سے اہم فریضہ دوچیزوں پر مشتمل تھا ،اول یہ کہ خدائے واحد کی عبادت کرنے کا حکم دیں جو سب سے بڑا معروف کا م تھا ، دوم یہ کہ طاغوتوں کی اطاعت کرنے سے منع کریں جو سب سے بڑا منکر ہے ۔ سورۂ اعراف آیت؍ ۱۵۷ میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ (کہ جن کا ذکر تورات و انجیل میں آیا ہے ) کا سب سے پہلا فریضہ امر بمعروف اور نہی از منکر ہے ۔
قرآن میں امر بمعروف اور نہی از منکر : قرآن مجیدانسانوں سے بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے تم لوگ بہتریں امت ہو جو لوگوں پر ظاہر ہوتے ہو اس شرط پر کہ تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو (سورۂ آل عمران آیت ۱۱۰)
اس آیت کے ضمن میں علامہ جوادی فرماتے ہیں کہ پروردگار عالم نے امت اسلامیہ کو بہترین امت بناکر پیدا کیا ہے لیکن اس کی بہتری کی تین علامتیں قرار دی ہیں ۱؎ لوگوں کے فائدے کے لئے کام کرے ۲؎ نیکیوں کا حکم سے ۳؎ برائیوں سے منع کرے اور ان سب کے پیچھے جذبۂ ایمان باللہ کاموجود ہونا ۔ اب اگر ایسا نہیں ہے توامت خیر امت کہے جانے کے قابل نہین ہے اور جو اس قانون پر جس قدر شدت سے عمل پیرا رہے گا وہ اسی قدر خیر اور بہتری کا حامل ہوگا اور اسی لئے بعض روایات میں ائمۂ معصومین ؑ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ان کی تمام تر زندگی امر بمعروف اور نہی از منکر میں بسر ہوئی ہے اور انھوں نے قاتلوں کو بھی نیکی کا حکم دیا ہے اور قریب ترین دوست کو بھی برائی سے روکا ہے اور اس کے علاوہ قرآن مجید میں بعض لوگوں کے ایمان ، آیات الٰہی کی تلاوت اور امر بمعروف اور نہی از منکر کرنے والوں کی تعریف کی گئی ہے اس کے علاوہ قرآن میں متعدد مقامات پر امر بمعروف اور نہی از منکر کی تأکید کی گئی ہے جن میں سے چند مورد آپ کے سامنے آنے والے صفحات مین پیش کروں گا لیکن اس وقت قرآن میں اس کی اہمیت کو ذکر کررہا ہوں ۔
قرآن میں اس کی اہمیت :امر بمعرو ف و نہی از منکر کی اہمیت کے بارے میں یہ کم نہیں ہے کہ قرآن مجید میں آمر بمعروف کانام انبیاء کے ساتھ لیا گیا ہے اور ان کے قاتلوں کی سزا انبیاء کے قاتلوں کے برابر ہے (سورۂ آل عمران ؍۲۱)
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کامیابی ، خاموشی اور گوشہ نشینی میں ہے حقیقت میں یہ درست نہیں ہے بلکہ اس کے بر عکس قرآن مجید ان لوگوں کو کامیاب و کامران جانتا ہے جو دوسروں کو نیکی کی دعوت دیتے اور امر بمعروف کرتے ہیں (سورہ ٔآل عمران ؍ ۱۰۴ )اگرچہ علماء اور متقی و پرہیزگار لوگون کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں لیکن امربمعروف ونہی از منکر تمام لوگوں پر فرض ہے کہ ایک دوسرے کو حق اور صبر کی طرف دعوت دیں ایک دوسرے کو منکرات سے روکیں اور اس راہ میں مشکلات اور سختیاں برداشت کرنے کے لئے آمادہ رہیں۔
نہج البلاغہ :۔ امر بمعروف اور نہی از منکر امامت کی نگاہ میں :۔ اسی لئے تو مولائے کائنات نے نہج البلاغہ کے اندر کلمات قصار میں فرمایا ہے کہ اے اہل ایمان ! جو شخص دیکھے کہ ظلم و عدوان پر عمل ہورہا ہے اور برائی کی طرف دعوت دی جارہی ہے اور وہ دل سے اسے برا سمجھے ، تو وہ (عذاب سے ) محفوظ رہے گااور گناہ سے بری ہوگیا اور جو زبان سے اسے برا کہے وہ مأجورہے اور صرف دل سے برا سمجھنے والے سے افضل ہے اور جو شخص شمشیر بکف ہوکر اس برائی کے خلاف کھڑا ہو تا کہ اللہ کا بول بالاہو ، اور ظالموں کی بات گرجائے تو یہی وہ شخص ہے جس نے ہدایت کی راہ کو پالیا اور سیدھے راستے پر ہولیا اور اسکے دل میں یقین نے روشنی پھیلادی ۔(کلمات قصار؍۳۷۳)
اگرچہ انسان میں خدا کی روح پھونکی گئی ہے وہ زمین پر خدا کا جانشین ہے اور خصوصی کرامت اور فضیلت کا حامل ہے ، لیکن خواہشات کی سرکشیوں، شیطانی وسوسوں اور طاغوتوں کی استکبار یت کو قابو میں رکھنے کی شدید ضرورت ہے اور خدائے تعالیٰ نے اسے قابومیں رکھنے کے لئے مختلف طریقے معین کئے ہیں جیسے :۔
عقل: کا مقدس لفظ جس کے معنی عقال ہیں اور جو انسان کو قابومیں رکھنے کا وسیلہ ہے اگر عقل کی یہ لگام نہ ہو تو انسان اپنے آپ کو جلد نابود کردے گا ۔
فطرت: یہ بھی انسان کو نیکی کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور برے کاموں سے روکتی ہے ۔
انبیاء : انبیاء علیہم السلام بھی اسی غرض سے مبعوث ہوئے تھے ۔
امر بمعروف و نہی از منکر :بھی لوگوں کے لئے ہدایت کا بہتریں وسیلہ ہے ۔(نہج البلاغہ؍ خطبہ ؍۱۱)
امر بمعروف کرنے والوں کی ذمہ داریاں :۔ میں نہیں چاہتا ہوں کہ اس مقا لے میں باتوں کی تکرار ہو لیکن اس بات کی طرف ضرور توجّہ مبذول کرائوں گا کہ امر بمعروف کرنے والوں کی ذمہ داری کیاہے اور اسکو قرآن کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کروں گا ۔ قرآن مجید کی آیتوں سے مندرجہ ذیل مطالب حاصل ہوتے ہیں ۱؎ امر بمعروف میں وہ لوگ کامیاب ہیں جو خود ، نمایاں اوصاف کے مالک ہوں اور توبہ ، سجدہ اور رکوع کرنے والے ہوں ۔(سورۂ توبہ ؍۱۱۲) ۲؎ ان افراد کو لوگوں سے ہرگز مالی توقعات نہیں رکھنی چاہئے ۔(سورۂ ہود؍۲۹) ۳؎ اجنبیوں کو جذب کرنے کے لئے اپنوں کو ہاتھ سے نہیں کھونا چاہئے ۔ ۴؎ با ت کرنے میں متانت و بردبادی کے حامل ہوں ۔
امر بمعروف ونہی از منکر کے مراحل : امر بمعروف اور نہی از منکر کے چند مراحل ہیں ۔
۱؎ قلبی مرحلہ : ہر مسلمان کو برے کام سے متنفر ہونا چاہئے اور اچھے کام کی تشویق اور حمایت کرنی چاہئے ۔ یہ قلبی ودلی حمایت تمام حالات میں ضروری ہے ۔
۲؎ قولی مرحلہ: عام حالات میں زبان کے ذریعہ اس فریضہ کو ادا کرنا تمام لوگوں کا فرض ہے ۔
۳؎ انقلابی ٹکرائو کا مرحلہ : اس سلسلے میں (سورۂ حج کی آیت نمبر۴۱) میں ارشاد ہورہاہے ’’یہی وہ لوگ ہیں جنھے ہم نے زمین میں اختیار دیاتو انھوں نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی نیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا ‘‘
امر بمعروف کے طریقۂ کار کی اہمیت ۔ پیغبر اسلام ﷺ نے فرمایا ’’امر بمعروف کرنے والے کو اس کے طریقۂ کار سے آگاہ ہونا چاہئے ‘‘ کسی کے گناہ میں مرتکب ہونے میں کوئی نہ کوئی سبب ہوسکتا ہے جس طرح سر درد کے لئے ممکن ہے کئی ایک اسباب ہوں مثال کے طور پر ممکن ہے ایک عورت کی بے حجابی کے مختلف دلائل و وجوہات ہیں من جملہ
۱؎ وہ مسئلہ ٔ حجاب سے واقف نہیں ہے اور خیال کرتی ہے یہ کوئی عیب نہیں ہے ۔
۲؎ فلسفۂ حجاب اور بے راہ روی کے برے اثرات سے نا واقف ہے۔
۳؎ احساس کمتری کا شکار ہے اورا پنی شخصیت کو عیاں کرنا چاہتی ہے
۴؎ ہوا وہو س اور نفسانی خواہشات پر عمل کرناچاہتی ہے
۵؎ بے پردہ لوگوں کے درمیان اپنے آپ کو پیچھے نہیں رکھنا چاہتی
۶؎ اس کی ماں ،بہن اور سہیلیاں بے پردہ ہیں
۷؎ حجاب مخالف پروپیگنڈوں نے اس پر اثر کیا ہے
۸ ؎ حجاب کے طرفدار نظام سے ٹکر لینا چاہتی ہے
۹؎ خیال کرتی ہے کہ بے حجا بی میں ترقی اور نئی زندگی کے راز مضمر ہیں
۱۰؎ دوسروں سے الگ رہنا چاہتی ہے
۱۱؎ خیال کرتی ہے کہ بے پردگی ایک سادہ گناہ ہے اور اس سے کسی کو ضرر نہیں پہنچتا۔
بے پردہ لوگوں کو امر بمعروف کرنے والوں کو چاہئے پہلے مذکورہ بالا تمام عوامل کی تحقیق کرلیں اور ہر ایک مورد کے لئے ایک خاص طریقہ ٔ کار اختیار کریں ۔
یہان معلوم ہوتا ہے کہ امر بمعروف اور نہی از منکر ایک عام فریضہ کے علاوہ ایک مہارت کا نام بھی ہے اور اس سلسلے میں علمی ، نفسیاتی ، اجتماعی ، تبلیغی اور فنی مہارت کی ضرورت ہے امر بمعروف اور نہی از منکر کرنے والے سماج کے عالم و دانشور ، مفکر ،مصلح اور ہمدردافراد ہونے چاہئیں ۔ اگر ہم نے مشاہدہ کیا کہ بعض اوقات نہی از منکر کرنے کا اثر نہیں ہوتا ہے تو ہمیں صرف بدکار کو ہی قصوروار نہیں ٹھہرانا چاہئے کیوں کہ بعض اوقات مختلف دردوں کے لئے ایک ہی طریقۂ کار موثر ثابت نہیں ہوتا جیسے مختلف بیماریوں کے لئے ایک ہی نسخہ کی تجویز شفابخش نہیں ہوتی ہے ۔
اسی لئے تو حضرت علیؑ نے فرمایا : جس نے اپنی قدر و منزلت کو سمجھا ، دنیا اور خواہشات اس کے سامنے حقیر بن جاتے ہیں یعنی وہ اپنی روح کے سبب ہواو ہوس کے طوفان سے آسانی کے ساتھ گذر سکتا ہے مثلاً سائیکل کا ٹائر جو نازک ہوتا ہے سڑک کے جھٹکے سے متأثر ہوجاتا ہے اور اس کی رنگ ٹیڑھی ہوجاتی ہے لیکن اس کے برعکس ٹریکٹر کا ٹائر بڑا مضبوط ہوتا ہے ، ہر سڑک سے آسانی کے ساتھ گذر جاتا ہے اور متأثر بھی نہیں ہوتا ۔ جس قدر روح بلند و بالا ہو اور لامتناہی ذات سے اس کا رابطہ مستحکم تر ہو ، بلائوں اور شہوتوں کے طوفان اس پر اثر انداز نہیں ہوسکتے ۔
امر بمعروف روایات کی روشنی میں : پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا ’’امر بمعروف کرنے والے زمین پر اللہ کے خلیفہ ہیں ‘‘ (تفسیر نمونہ ؍ج۳ ؍ص۳۸) ایک اور حدیث مین فرمایا ’’خدائے تعالیٰ بے دین مومن کا دشمن ہے ۔ سوال کیا گیا یا رسول اللہ! کیا مومن بھی بے دین ہوسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہر وہ مسلمان جو امر بمعروف نہ کرے وہ بے دین ہے ‘‘(بحار ؍ج ۹۷ ؍ص ۸۶) ۔
امیر المومنین علیہ السلامنے فرمایا : ’’نہی از منکر فاسقوں کی ناک زمین پر رگڑنے کے برابر ہے ‘‘(غررالحکم)
ایک دوسری جگہ فرمایا : امر بمعروف اور نہی از منکر اخلاق الٰہی میں سے دواخلاق ہیں جو بھی ان دوخدائی فریضہ کی نصرت کرتا ہے خدائے متعال اسے عزت دیتا ہے ۔(لئالی الاخبار ؍ص۲۷۰) ۔
حضرت علی ؑ فرماتے ہیں : ’’اگر امر بمعروف اورنہی ازمنکر عام لوگوں کے لئے ایک مصلحت ہے (کار خیر کے بارے میں ان کے شوق کو بڑھا تا ہے )اور نہی از منکر کم عقل لوگوں کے لئے جن میں گمراہی کے امکانات بیشتر ہیں، ایک قوی محافظ ہے ‘‘(کلمات قصار ؍۲۵۲)۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام شکایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ایسے بھی لوگ ہیں کہ اگر نماز ان کے مال و جان کو نقصان پہونچائے تو اسے ترک کردیتے ہیں جس طرح امر بمعروف اور نہی از منکر جو عظیم اور شریف ترین واجبات میں سے ہے ترک کردیتے ہیں ۔(فروع کافی ؍ج ۴ ؍ص ۵۵) ۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے رمایا : ’’جو برے کاموں کو روکنے کی طاقت رکھتے ہوئے ایسا کام نہ کرے تو وہ گناہگار ہے اور ایسے شخص نے خدا کے ساتھ دشمنی کا اعلان کیا ہے ‘‘(مستدرک ؍ج۲ ؍ص۳۵۷) ۔
انتہائی مشکل حالات میں نہی از منکر : امام سجاد علیہ السلام کے سامنے ان کے باپ ، بھائی ، چچا اور پیغمبر کی اولاد کو شہید کیا گیا اور خود ان کو قیدی بنایا گیا اور کوفہ و شام کے شہروں میں پھرایا گیا ۔ جب آپ کو شام کی مسجد میں پہونچایا گیا او رآپ نے دیکھا کہ خطیب منبر پر یزید کی تعریفیں کررہاہے تو آپ نے تن تنہا یزید کے سامنے فریاد بلند کرتے ہوئے فرمایا : ’’اے خطیب ! تو نے اس چاپلوسی اور ستائش سے یزید کی رضامندی کا خدا کے قہر سے سودا کیا ہے ۔ تجھ پر خدا کا غضب ہے مجھے ان لکڑی کے ٹکڑوں (منبر)پر چڑھ کر اس چاپلوس خطیب کی جگہ پر بیٹھنا چاہئے تاکہ سب سے بڑے معروف یعنی حضرت محمد ﷺ اور اہلبیت پیغمبر %کے اسلام کو زندہ کروں ‘‘اس کے بعد امام سجادؑ منبر پر تشریف لائے اور اپنی تقریر کے ذریعہ فکری ، ثقافتی ، جذباتی اور سیاسی طور سے انقلاب برپا کردیا(لھوف سیّد بن طاووس)
نہی از منکر کے چند نمونے:۔ ایک روز امام صادق – کسی کے یہا ں دعوت پر گئے ایک مہمان نے میزبان سے اشارتاً پانی مانگا۔ اس نے شراب پیش کی ۔ امام ؑ جوں ہی متوجہ ہوئے محفل سے اٹھ گئے اور فرمایا : جس محفل مین شراب نوشی ہوتی ہو ، نہ یہ کہ شراب کو نہ پیا کریں بلکہ اس محفل کو ہی ترک کردینا چاہئے تاکہ دوسرے لوگ بھی سمجھ لیں کہ شراب پینا ایک برا کام ہے ۔ (بحار الانوار ؍ج۷۹؍ص۱۴)
تاریخ میں آیا ہے کہ اسامہ بن زید جو رسول کی رحلت کے زمانے میں ۱۸؍ سال کے تھے اور آنحضرت نے آپ کو جنگ کا سپاہ سالار بنایا تھا ۔ ایک روزامیر المومنین – کی خدمت میں آئے اور آپ سے کسی امر میںمدد چاہی ۔ امام ؑ نے فرمایا : میں تمہاری مدد نہیں کروں گا ! اس نے کہا میں وہی اسامہ ،رسول کا قریبی صحابی ہوں ۔ آپ نے فرمایا: یہ صحیح ہے لیکن یاد ہے کہ جب ہم معاویہ سے نبرد آزما تھے تو تم نے خاموشی اختیار کی اور تمہاری یہ خاموشی معصیت تھی ۔ اگرچہ تم نے معاویہ کا ساتھ نہیں دیا لیکن تمہاری خاموشی نے اس کی مدد کی ہے لہٰذا خاموشی کی منطق چاہے گناہ سے بچائو کے لئے ہو صحیح منطق نہیں ہے ۔(امر بمعروف و نہی از منکر ’’محسن قرائتی‘‘)
امر بمعروف کے خصوصی گروہ:۔ اگرچہ امر بمعروف و نہی از منکر تمام مومن مردوں اور عورتوں پر واجب ہے لیکن بعض گروہوں سے یہ چیز زیادہ تعلق رکھتی ہے ۔
۱؎ انبیائ: ۔انبیاء کے فرائض میں امر بمعروف و نہی از منکر بھی ہے قرآن مجید نے انبیاء کا سب سے پہلا فریضہ امر بمعروف ونہی از منکر جانا ہے ۔الذین یتبعون الرسول النبی الامی الذی یجدونہ مکتوباً عندھم فی التورٰۃ والانجیل یأمرھم بالمعروف وینھٰھم عن المنکر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ(سورہ اعراف ۱۵۷)
۲؎ ائمۂ معصومین % :۔ امام حسین – اپنے بھائی محمد حنفیہ سے عراق کی طرف نہ جانے کی تجویز کے جواب میں فرماتے ہیں: میں امر بمعروف اور نہی از منکر کرنا چاہتا ہوں تا کہ اپنے نانا رسول خدا ﷺ کے نقش قدم پر لوگوں کو چلائوں ’’ارید ان آمر بالمعروف ونہیٰ عن‘ المنکر واسیر بسیرۃجدی ‘‘(بحار ؍ج ۴۴؍ص ۳۳۹)
۳؎ علماء اور دانشور :۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے علماء لوگون کو حرام کھانے اور حرام باتیں کرنے سے کیوں نہیں روکتے (سورۂ مائدہ ؍۶۳)
حضرت علیؑ نے فرمایا گذشہ زمانے میں قوموں کی ہلاکت کاسبب یہ ہوتا تھا کہ کچھ لوگ گناہ کرتے تھے اور علماء خاموش تماشائی بن کر رہتے تھے ’’ولم ینھٰھم الربانیّون والاحبار‘‘(نہج البلاغہ )
حجرت علی ؑ نے اپنے ایک بیان میں ارشاد فرمایا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے تم علماء سے مطالبہ کیا ہے ظالم کی پر خوری اور مظلوم کی فاقہ کشی سے شرم کرو (نہج البالغہ ؍خطبہ ۳)
۴؎ حکومت کے ذمہ دار:۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے : صالح افراد کی حکومت اور جن کو ہم نے طاقت و وسائل عطا کئے ہیں اور ان کی علامت یہ ہے کہ وہ زمین پر نماز قائم کرتے ہیں ، زکوٰۃدیتے ہیں اور امر بمعروف ونہی از منکر کرتے ہیں (سورۂ حج ؍ ۴۱)
بے شک اسلامی حکومت کو امر بمعروف کرنے والوں کی حمایت میں کسی قسم کا تأمل نہیں کرناچاہئے ۔ حکومت کو چاہئے کہ تبلیغات ، ثقافتی ، فنی،اقتصادی اور عسکری وسائل کے ذریعہ برائیوں کی روک تھام کرے اور بدکاری کے اڈوں کو بند کرے مفسدین کو قرار واقعی سزا دے اور گناہ کو بڑھاوا دینے والے قوانین کو حذف کرے ۔
۵؎ والدین :۔قرآن مجید فرماتا ہے : اپنے نفس اور اپنے اہل کو اس آگ سے بچائو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہونگے امام ؑ سے سوال کیا گیا ان کو آگ سے کیسے بچایا جائے ؟آپ ؑنے فرمایا انھیں امر بمعروف اور نہی از منکر کرو ۔ (بحار ؍ج۹۷؍ص۷۴)
۶؎ معاشرے کے معزز بزرگ یا شخصیتیں:۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک خط میں اپنے دوستداروں کو مرقوم فرمایا : تمہارے معاشرے کی بزرگ شخصیتیں ، بوڑھے اور بااثر افراد جاہ طلب جاہلوں کی نسبت محبت دکھائیں اور بے تجربہ لوگوں کی راہنمائی کریں ورنہ ان سب پر نفرین و لعنت ہوگی (فروع کافی ؍ج۸ ؍ص۱۵۸ )
چند مسائل پر توجہ :۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : اگر برائیوں کو روکنے اور نیکیوں کو رائج کرنے کے سلسلے میں کسی وقت سختی اور شدت عمل کارگر ہو تو اس صورت میں انسان پر واجب ہے کہ سختی سے پیش آئے اور جہاں کہیں غصہ کرنا یا صرف کہنا موثر نہ ہو تو ہر طاقت کا استعمال کرناچاہئے ۔
پایان :۔ مختصر یہ کہ موجودات کو ہمارے لئے خلق کیا گیا ہے اور ہر دن جو ہماری عمر میں کمی واقع ہوتی جاری ہے اس کے پیش نظر اگر ہم کچھ حاصل نہ کریں گے تو گویا موجودات کا اس بازار میں ہم نے نقصان اٹھا یا ہے ۔اور سب سے بہتر ذخیرہ ایمان ، عمل صالح اور لوگوں کو حق و صبر کی طرف دعوت دینا ہے حق کی طرف ہدایت وہی امر بمعروف ہے جس میں فکر حق ، کلمۂ حق ، قانون حق ، رہبر حق اور حکومت حق شامل ہیں ۔ یعنی ہمیں چاہئے کہ نیک اعمال کو ہر روز وسعت بخشیں اور مفاسد و منکرات کو پھیلنے سے روکیں ۔ عصر حاضر میں امام خمینیؒ کی رہبری و قیادت اور شہیدوں کے خون کے طفیل سب سے بڑا منکر (شہنشاہی طاغوت اور امریکہ کا تسلط ) ٹل گیا ۔ اور سب سے بڑا معروف(استقلال، آزادی،جمہوری اسلامی)وجود میں آیا لیکن اس عمارت کی حفاظت لازم ہے اگر دیوار بناتے وقت سیمنٹ یا چونے کی بھرائی نہ کی جائے تو اسکی اینٹیں اور پتھر ایک ایک کرکے گرجائیں گے بہر حال امام خمینی ؒ اور ہمارے عزیز شہداء ایک نظام کو تشکیل دے کر ہمارے حوالے کرگئے اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس کی رکھوالی اور حفاظت کریں جہاں کہیں بھی فساد اور غلط کام کا مشاہدہ کریں آواز اٹھائیں اس کوبیان کریں اسی طرح معروف یعنی نیک اعمال کو روز بروز وسعت بخشیں ۔
سید زاہد عباس شیرازی، خوابگاہ مصطفی ایران۔
(پاکستانی)
منابع :
۱؎ الدلیل علی موضوعات نہج البلاغہ
۲؎ قرآن مجید’’ترجمہ علامہ ذیشان جودی‘‘
۳؎ نہج البلاغہ’’ترجمہ علامہ مفتی جعفر حسین ‘‘
۴؎ تفسیر نمونہ ’’مکارم شیرازی‘‘
۵؎ غرر الحکم
۶؎ بحار الانوار
۷؎ فروع کافی
۸؎ لہوف ’’سید بن طاووس ‘‘
۹؎ لئالی الاخبار
۱۰؎ مستدرک