مقالاتنہج البلاغہ مقالات

امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف

سید فرحت عباس رضوی

تمہید:
دنیا میں پھیلا ہوا ظلم و ستم ہر طرف تباہی اور بربادی ،انائیت کا بول بالا اور دوسری طرف نیکیوںکی پامالی سے تنگ آکر آخر وہ کون سا انسان ہے جو اپنے معبود کی بارگاہ میں دست دعا بلند نہ کرتا ہو اور کسی منجی کے ظہور کا انتظار نہ کرتا ہو ۔ہر قوم اور ہر مذہب کسی نہ کسی منجی بشریت کے منتظر ہیں ،اور اس کے آنے کی راہیں دیکھ رہے ہیں ۔لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اجمال کے اعتبار سے کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن جب ہم ان مطالب کی گہرائیوں میں اترتے ہیںتوپھر ہمیں مختلف افکارنظر آتے ہیں جو اپنے اپنے اعتبار سے اس مفہوم کی تحلیل کرتے ہیںاوراپنے اپنے بیان سے اس کی اہمیت اجاگر کرتے ہیں ۔
امام زمانہ عجّل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف اور ان کی غیبت :
ہمارے پاس مستند حدیثوں اور معتبر روایتوںکے ذریعہ یہ مسلّم ہے کہ ہادیوں میں سے ایک ہادی کافی عرصہ تک لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہنے کے بعد ظہور کریں گے جن کا نام رسول کے نام پر ہوگا اورجن کی سیرت بھی رسول کریم کی سیرت ہوگی وہ اس وقت ظہور کریں گے جب یہ دنیا ظلم و جور سے بھری ہوگی اور اس وقت آپ اسے عدل و انصاف سے بھر دیں گے جیسا کہ حذیفہ روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں ’’اگر چہ دنیا کے تمام ہونے میں ایک ہی دن باقی کیوں نہ ہو،خدا اسی روز کواتنا طولانی کر دیگا یہاں تک کہ خدا میری اولاد میں سے ایک مرد کو بھیجے گا،جس کا نام میرا نام ہوگا ،جناب سلمان نے دریافت کیااے رسول خدا !وہ آپ کے کون سے بیٹے کی نسل سے ہوںگے،آپ نے امام حسین ؑکے شانے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا ’’ان کی نسل سے‘‘۔ ۱؎ امیر المومنین حضرت علیؑ، امام آخر ؑکے بارے میں فرماتے ہیں’’ تم لوگ یہ جان لو …کہ حضرت مہدی اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف طولا نی عرصہ تک لوگوں سے پوشیدہ طور پر اس طرح زندگی بسر کریں گے کہ ماہرین آثارافراد بھی ان کے آثار تک نہیں پہنچ پا ئیں گے اگر چہ وہ اس راہ میں بے پناہ کوشش کر ڈ الیں۔۲؎ عقل و خرد رکھنے والا ہر آدمی اس حقیقت کو ضرور تسلیم کر ے گا کہ زمانہ دن بہ دن ، روز بہ روز خراب سے خراب تر اور بد سے بد تر ہوتا جا رہا ہے ،ملتیں اسیر ہو رہی ہیں ، تہذیبیں برباد ہو رہی ہیں ، اچھا اخلاق رخصت ہو رہا ہے ، عوام بھوکوں مر رہی ہے ۔اورقومیں نا امنی کی زندگی گزار رہی ہیں ، ان تمام چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف مکاتب فکر نے انسان کے لئے منجی بشریت کا نظریہ پیش کیا ہے ،لیکن دین اسلام نے اس مسئلہ کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے اور اسلام کے احکام کا دوسرا گراں قدر منبع (احادیث)منجی بشریت کے ظہور کے نوید سے مالامال ہے ۔اور ہما رے پاس اس کی دلیل موجود ہے جو قرآن سے بھی ثابت ہے اور قول رسولؐ سے بھی۔ ہما رے مذ ہب کا بھی یہ ماننا ہے کہ ایک روشن زمانہ آئیگا جب کو ئی کسی پر ظلم نہیں کرے گا اور سب ہی امن و چین کی زندگی گذاریں گے ، خدا ئے واحد کی پرستش کریں گے اور اس کی عبا دت میں کسی کو شریک نہیں کر یں گے ۔جیسا کہ امیر المومنین علیؑ فرماتے ہیں کہ ’’ وہ پیغمبر اسلام ؐ اور ائمہ ؑ کی روش پر عمل کریں گے ، یہاں تک کہ پریشانیاں دور ہوجا ئیںگی ، وہ غلام اور اسیر ملتوں کو آزاد کر یں گے ،گمراہ اور ظالم لوگوں کو تتر بتر اور حق کے متلا شی لوگوں کوایک جگہ جمع کردیں گے۔۳؎
امامؑ اور آپؑ کی اصول پسندی :
کا ئنا ت میں جتنی بھی چیزیں موجود ہیں ،سب خدا وند عالم نے انسان کے فا ئدہ اٹھا نے کے لئے بنا ئی ہیں جیسا کہ خود قرآن مجید میںبھی اس مطلب کی طر ف مختلف جگہوں پر اشارہ ملتا ہے ۔ لیکن یہ ہم انسانوں کی کم ظرفی ہے کہ جس کی وجہ سے پوری طرح ان نعمتوں سے استفادہ نہیں کرپاتے ہیں ، اور بعض کا استعمال خود اپنے ہی ضرر میں کر لیتے ہیں ۔ دوسری چیزوںکا کیا ذکر کیا جائے جب کہ قرآ ن میں واضح طور سے خود قرآ ن کے ہی متعلق خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے {یضلّ بہ کثیراً و یھدی بہ کثیراً }۴؎ اللہ اس (قرآن) کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اوراسی کے ذریعہ بہت سے لوگوں کی ہدایت کرتا ہے ۔
تو پتہ چلا کہ تما م موجودات انسان کے فائدہ کے لئے ہیں یہ انسان ہے کہ جو غلط طریقہ سے ان چیزوں کا استعمال کر کے انہیں اپنے لئے مضر بنا لیتا ہے ۔ اس کی ایک واضح اور روشن مثال خود انسان کی توا نائی ، قدرت اور صلا حیت ہے۔ خدا وند عالم نے راہ ہدایت میں ترقی اور تکامل کے لئے انسان کو اس کے بد ن کے مختلف اعضاء و جوارح کی صورت میں بیش بہا تحفے دئے ہیں ، معنوی صلا حیتوں سے نوازا ہے اور امیر المو منین ؑکے قول کے مطابق انسان ہی میں ایک بڑا عالم ہے لیکن یہ بڑا عالم جسے خداوند عالم نے رشد و ہدایت کے لئے بنا یا ہے اور جسے عظمتوں کی چوٹیوں کو پا نے کے لئے خلق کیا ہے جب وہ اپنی توانائیوں اور قدرتوں کو غلط طریقہ سے بروئے کار لاتا ہے تو نہ صرف یہ کہ فا ئدہ نہیں ہوتا بلکہ سنگین نقصان سے اسے روبرو ہونا پڑتا ہے ۔ یہ ضرر اس وقت تک فا ئدہ میں تبدیل نہیں ہو سکتے ہیں جب تک کہ اس کے استعمال کے لئے کو ئی اصول نہ بنایا جا ئے ، اور چونکہ اسلام کے اصول سب سے کامیاب اصول ہیں ، اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کے اصول پر اگر عمل نہ کیا گیا تو رحمتیں زحمت بن جا ئیں گی اور جنت میں لے جا نے کا وسیلہ ہی جہنم میں داخل ہو نے کا سبب بن جا ئے گا ۔
امام زمانہ ؑکی ذمہ داریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپؑ اسلام کے اصولوں کے خود بھی پا بند ہو نگے اور اسی اصول کو دنیا میں رائج بھی کریں گے ۔جیسا کہ خود امیر المو منین علی ؑ فرماتے ہیں کہ : وہ ( امام زمانہ ؑ) دل کی آرزوؤں اور خواہشوں کو ہدایت اور راہنما ئی کے را ستہ پر
چلا ئیں گے جب کہ اس زمانہ میں لوگ ہدا یت اور راہنمائی کو اپنے پیروں تلے کچل رہے ہو نگے اور جس زمانے میں تفسیر کے نام پر مختلف(خود ساختہ) نظر یوں کو قرآن پر تھو پا جا رہا ہو گا ، وہ نظر یوں اور فکروںکو قرآن کے مطابق ڈھال دیں گے ۔ ۵؎
ہمیں تاریخ سے عبرت لینی چا ہئے :
اگر ہم حقیقی طور سے اس دنیا کے ذریعہ کا میا بی اور نجات حاصل کر نا چا ہتے ہیں تو سب سے کا میاب نسخہ یہ ہے کہ سیرت رسول اکرم ؐ جو کہ خود اسلام کے اصول و ضوابط کا بنیادی رکن ہے ، پر عمل کریں ۔ صرف اور صرف یہی نجا ت کا راستہ ہے ۔ اگر ہم تا ریخ پر نظر ڈا لیں تو ہمیں رسول اکرم ؐ اور ان کے ارشادات کی اہمیت کا پتہ چلے گا ۔ جب تک مسلمان پیغمبر اسلام ؐ کی اتباع اور پیروی کرتے رہے ، تب تک انہیں کا میا بی اور فتح ملتی رہی اور اسلام بھی پھیلتا رہا لیکن جہا ں مسلما نوں نے پیغمبر اسلام ؐ کی سیرت کو چھوڑ کر اپنی خوا ہشوں کی پیروی کی وہاں وہاں انہیں شکست اور نا کامی کا سامنا کرنا پڑا ،اگر نمو نہ کے طور پر جنگ احد کو دیکھا جا ئے تو یہ ہما ری عبرت کے لئے کا فی ہو گی ۔ اس کے با وجود کہ مسلمانوں کا لشکر کم اور کفار و مشرکین کی تعداد کا فی زیادہ تھی لیکن جس طریقہ سے پیغمبر ؐ اسلام نے مسلما نوں کو مختلف جگہوں پر معین کردیا تھا وہ چھوٹی سی فوج بھی کامیابی کی طرف مسلسل گامزن تھی ، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب کفار و مشرکین کے پیر میدان جنگ سے اکھڑ گئے اور وہ اپنی جان بچا بچا کر بھا گنے لگے ۔ لیکن اس کامیابی کو دیکھ کر کچھ مسلمانوں نے اپنی وہ جگہیں چھوڑدیں جہاں پیغمبر اسلامؐ نے انہیں رکھا تھا اور اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہو ئے غنا ئم جنگی لوٹنے کے لئے دوڑ پڑے ۔ بس اتنا سا ہی موقع اسلام دشمنوں کے لئے کا فی تھا ، انہوں نے اسی طرف سے حملہ کر دیا اور پھر حالت یہ ہو گئی کہ مسلمانوں کی کا میابی شکست میں تبدیل ہو گئی ۔ اس ہو نے وا لی کا میا بی کا شکست میں تبد یل ہو جا نا، یہ کس وجہ سے تھا؟ ہم جتنا بھی اس با رہ میں فکر کر لیں نتیجہ صرف یہی نکلے گا کہ رسول ؐ کے حکم کو نہ ما نا ، ادھرآپ ؐ کاقول فرا موش ہوا اور ادھر شکست نے بڑھ کر گلے سے لگا لیا ۔دین اسلا م جس طرح اوائل میں تیزی سے پھیل رہا تھا ، اگر اس میں کسی طرح کا فرق نہ آتا تو آج پوری دنیا کا صرف ایک اکیلا مذہب اسلام ہوتا ، لیکن کیا سبب ہے کہ رسولؐ کے زمانہ میں ترقی کرنے والاا سلام پچھڑتا چلا گیا ؟ وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ مذہب کا نا م تو رہ گیا لیکن خود مسلمانوںنے رسول اکرمؐ ،اور دین و شریعت کی پیروی چھوڑ کر اپنے خیال اور وہم کی پیروی کرنے لگے ۔
امیر المومنینؑ فرماتے ہیں کہ : وہ ( امام زمانہ ؑ ) دل کی آرزؤں اور خو اہشوں کوہدایت کے راستے پر چلا ئیں گے جب کہ اس زمانہ میں لوگ ہوس کی پیروی کر رہے ہو ں گے اور ہدا یت اور نصیحت پر توجہ نہ دیتے ہونگے۶؎۔ اور اگر تا ریخ سے عبرت لی جا ئے تواس وقت پتہ چلے گا کہ ہدا یت کے اعتبار سے لوگوں کوچلا نا ہی اسلام کی سب سے بڑی فتح ہے ۔
اسلام کی نئی زندگی :
کسی بھی پودے کے رشد کر نے کے لئے یہ ضروری ہو تا ہے کہ اس کی جڑوں کو مٹی میں چھپادیا جا ئے لیکن جڑ کا چھپ جا نا اس کے رشد کے لئے کا فی نہیں ہے بلکہ اسے سورج کی روشنی بھی چا ہیئے ، مناسب اندازہ سے پا نی بھی چا ہیئے … اسی طرح اگر پو دا لگا نے والا کچھ دن تک اس کا خیال رکھے تو یہ تھوڑے دن کی محنت اس کی سلامتی کے لئے کا فی نہیں ہو تی ہے چونکہ اس کی رشد اور سلامتی کے ساتھ ساتھ دوسرے مضر عوامل سے اس کی حفا ظت بھی ضروری ہو تی ہے۔ یہی کچھ حال اسلام کے پودے کے ساتھ بھی ہوا، پیغمبر اسلام ؐنے اس پودے کو لگایا ،اس کی جڑیں بھی مضبوط کر دیں اور تا حیات اس کی خبر گیری بھی کرتے رہے اس وجہ سے جب تک پیغمبر اسلام ؐ با حیات رہے شجر اسلام پر ہمیشہ بہار نظرآئی ،لیکن آپ ؑکے بعد جب محسن اسلام پر بھی پا بندیاں لگ گئیں تو اسلام کی ترقیاں بھی رک گئیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جس طرح درخت کے رشد و نمو کے عوامل ہو تے ہیں اسی طرح دین اسلام کے رشد کے بھی مختلف عوا مل ہیں، جس میں قرآن پر عمل ،اورسنت و سیرت پیغمبرؐ کی اتباع کا ایک اہم کردار ہے، جیسا کہ پیغمبرؐ اسلام نے کئی موقعوں پر ان کی محوریت کا اعلان کیا ’’ انی تارک فیکم الثقلین ‘‘ کا جملہ اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن لوگوں نے نہ قرآن پر عمل کیا اور نہ ہی سنت پیغمبرؐ کی اتباع کی اور تو اور اسلام کے حاکموں نے ہی الگ اپنا راستہ ڈھونڈ لیا تو پھر اسلام کیسے ترقی کرتا ؟یہ تو ہما رے ائمۂ ہداۃ کی جاںفشانی کا نتیجہ ہے جو اسلام زندہ ہے ۔ورنہ اسلام بھی دوسرے تحریف شدہ ادیان کی فہرست میں شامل ہو چکا ہوتا ۔

قرآن و سنّت کا احیائ:
چونکہ اسلام کو زندہ کرنے ، اور زندہ رکھنے کے دو ہی عوامل ہیں، (۱) قرآن کو زندہ رکھنا اور(۲) سنت پیغمبر اسلام ؐ پر عمل کرنا ، لہٰذا امام زمانہ ؑ ظہور کے بعد جن طریقوں پر اعتبا ر کر کے عمل کر یں گے ان میں بنیاد اور اصالت ، قرآن کی اتباع کرنا ہے جیسا کہ امیرالمو منینؑ فرما تے ہیں کہ ’’ جب لوگ اپنے نظریہ کو قرآن پر تھوپ رہے ہونگے ،اس وقت وہ (امام زمانہ ؑ) نظریوں اور افکار کو قرآن کے تابع کریںگے،۷؎ یعنی پھر کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اپنے خیال اور اپنی فکر کے اعتبا ر سے عمل کرے بلکہ سب کے لئے ضروری یہ ہو گا کہ قرآن کے اعتبار سے عمل کریں اور اسی طرح ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں : ’’وہ حقیقی اور واقعی حکومت میں عادلانہ روش کو ظاہر کریں گے اور کتاب خدا اور سنت پیغمبر اکرمؐ جنہیں اس وقت تک ترک کردیا گیاہو گا اسے زندہ کریں گے‘‘ ۸؎جو کہ پیغمبر اسلام ؐ کی وصیت بھی ہے اور اسلام کی کامیابی و کا مرانی کا راز بھی ہے ۔ جیسا کہ پیغمبر اسلام ؐفرما تے ہیں(انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ وعترتی و انھما لن تفترقا حتیٰ یردا علیّ الحوض)۹؎ بیشک میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک کتاب خدا اور دوسرے میری عترت ہیں،اور یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے جدا نہ ہونگی ،یہاں تک کہ حوض کو ثر پر مجھ سے ملاقات کریں‘‘
اللہ آپ ؑکے ذریعہ ہدایت کرے گا :
رسول کریم ؐ کے مبعوث بہ رسالت ہو نے سے پہلے پوری دنیا چونکہ و حی سے دور تھی لہٰذا جاہلیت کی زندگی بسر کررہی تھی ۔ اس زمانہ کے لوگوں کی یہ حالت تھی کہ حرام اور حلال میں کبسی امتیاز کے قائل نہیں تھے، ان کے نزدیک سارے حرام ،حلال ہو چکے تھے اور ان میں بدی اور خوبی کی شناخت دم توڑ چکی تھی، جب ظلم و جور اور ضلالت و گمراہی پوری زمین پر حکم فرما تھی خداوند عالم نے قرآنی وحی کا رسول اکرم ؐ پر آغاز کیا اور پھر دنیا میں نورکا سلسلہ چل پڑا،تاریکی چھٹنے لگی ،گمراہیاں ہدایت میں تبدیل ہو نے لگیں، ظلم و جور کی جگہ عدالت نے لے لی ، شیطان پریشان ہوکرچیختا رہا… ،لیکن اب ایمان کی چمک دمک مومنین کے چہروںسے جھلکنے لگی تھی اور ہدایت کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا ۔ظاہری طور سے تو یہ رسول خدا ؐتھے جو لوگوں تک پیغام حق کو پہنچا رہے تھے ۔ لیکن در اصل خدا وند عالم آپ ؐکے ذریعہ وحی کو وسیلہ بنا کر لوگوں کو صحیح راستہ کی طرف متوجہ کررہا تھا ۔ ترسٹھ سال کی مختصر سی زندگی کے بعد جب پیغمبر اسلام ؐ نے رحلت کی ،تویہ ہدایت کی ذمہ د اری آپ ؐکے بعد مسلسل ایک کے بعد ایک ائمہ علیہم السلام نے سنبھالی اور انہیںکے ذریعہ خدا وند عالم ہدایت کرتا تھا ،لیکن گیارہوں امامؑ کی شہادت کے بعد جب امام زمانہ ؑ نے غیبت اختیار کرلی، تو یہ سلسلہ گویا کہ منقطع ہو گیا ۔ وحی کا سلسلہ منقطع ہو جا نا پوری امت کے لئے بہت بڑی مشکل اور پریشانی بن گئی اور دوران جاہلیت کی جہالتیں گویا کہ پھر سے پلٹنے لگیں اس وجہ سے واقعی طور پر پھرسے اسی ہدایت کی ضرورت آگئی جس کی بنا پر لوگوں نے ہدایت پا ئی تھی ، جس طریقہ سے خدا نے پہلی با ر اپنی ہدایت کے ذریعہ رہنمائی کی تھی اسی طرح ایک بار پھر خدا نے امام زمانہ ؑ کو ہدایت کا وسیلہ بنایا،جیسا کہ مو لا ئے کا ئنا ت ؑ فرما تے ہیں کہ : ’’یہ جان لو کہ وہ جو ہم سے ہے ( امام مہدی ؑ) آیندہ فتنہ کے وقت موجود ہوگا وہ روشن چراغ کے ذریعہ ا س میں قدم رکھے گا ،اور گتھیوں کو سلجھا نے کے لئے اسی راہ اور اسی اصول پر عمل کریگا جس پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور ائمہ علیہم السلام عمل کر تے تھے ۔‘‘۱۰؎
وجود حضرت حجّت ؑ قرآن وا حادیث کی روشنی میں:
اللہ نے دنیا کا نظام کچھ اس طرح رکھا ہے کہ یہ دنیا کبھی بھی حجت خدا کے وجود سے خالی نہیں رہ سکتی ہے جیسا کہ احمد بن حنبل رسول اکرم ؐ سے روایت کرتے ہیں’’یہ زمانہ اور یہ ایام نہیں گزریں گے یہاں تک کہ ایک (اہل) عرب کے ہا تھو ں میں اقتدا ر آجا ئے ۔ ۱۱؎
اس کے علا وہ قرآن مجید نے بھی اپنی تمام عظمتوں کے ساتھ امام زمانہ ؑ کا مختلف انداز میں تعارف کروایا ہے، جیسا کہ ارشاد با ریٔ تعالیٰ ہو تا ہے کہ ’ خدا وند عالم نے ایسے لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان لائے ا ور نیک عمل انجام دیتے ہیں کہ انہیں آئندہ زمانہ میں ضرورزمین پر اپنا جا نشین بنا ئے گا …‘‘ ۱۲؎اور ایک دوسرے مقام پر فرما تا ہے’’ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ ہما رے لا ئق بندے ہی زمین کے وارث ہونگے ‘‘۱۳؎ اس کے علا وہ روا یتوں میں بھی ہم پڑ ھتے ہیں کہ ’’لولا الحجۃ لساخت الارض باہلھا‘‘۱۴؎ اگر خدا کی حجت نہ ہوتی تو زمین تمام چیزوں کے سا تھ فنا ہو جا تی اس بنا ء پر خود اس دنیا کا باقی رہنا اس دعوے کی بہترین دلیل ہے کہ ابھی بھی حجت خدا با قی اور موجود ہے ۔
استقرار حکومت اور عدل الٰہی:
یہ مسلم ہے کہ صحیح معنوں میں اسلامی حکومت جب بھی تشکیل پا ئے گی توعدالت اسلا می کی بھی پا بندی ہوجا ئے گی ۔ ہم تاریخ میں بخوبی مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ اسلام کے نا م پر بہت سے حاکم بنے، بہت سی حکومتیں بنیں ، انتقام خون حسین ؑ کے نام پرکتنی جنگیں لڑی گئیں اور کتنے حاکموں سے ان کی حکومت چھین لی گئی ،المختصر یہ کہ گر چہ اسلام کے نام پر حکو متیں بنی لیکن چونکہ وہاں عدالت اسلامی کا خیال نہ رکھا گیا لہٰذا انہیں حقیقی معنوں میں اسلامی حکومت نہیں کہا جاسکتا ہے۔ حکو مت اسلامی ،فساد پھیلا نے والی جنگ کے نتیجہ میں ہا تھ آئی حکومت کا نام نہیں ہے ۔ بلکہ وہ تو آپس میں صلح و صفا ئی اور امنیت و امان کی ضامن ہے ، جیسا کہ ہمیں رسول کریم ؐ کی حیات طیبہ کے متعلق ملتا ہے کہ ’’ مدینہ میں رہنے وا لے تمام قبا ئل آپس میں اختلافات اورجھگڑوں میں ہی دن بسر کرتے تھے اور ان اختلافا ت کا غلط فا ئدہ اٹھا تے ہو ئے یہود ی ، سیاسی طور پر ان پر مسلط ہو گئے تھے ۔پیغمبر اکرمؐ نے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد لو گوں کی رہبری قبول کرکے ان کے درمیان پیمان اخوت ( بھا ئی چارگی) کے ذریعہ ان کے در میان آپسی میل و محبت کو قا ئم کر دیا ۔۱۵؎
’’ ہیکل‘‘ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ اگر یہ فکر کی جا ئے کہ منافقوں نے اوس و خزرج اور مہا جروانصارکو آپس میں لڑا نے کے لئے اور ان کے درمیان تفرقہ اور دشمنی پھیلا نے کے لئے کتنی کوششیں کیںتو ہم خودہی متوجہ ہو نگے کہ اس طرف سے کتنی دقت نظر اور حسن تشخیص اور دور اندیشی سے استفادہ کیا گیا ہے…۱۶؎ اور اس طرح آپ ؐ نے لوگوں کو فتنہ سے بچا لیا ۔
اگر ہم اسی طرح سیرت سے سیرت ملا ئیں تو دیکھیں گے کہ نبی اکرمؐ کی رحلت کے بعد ایک بڑا اختلاف امت میں ظاہر ہوا ، لیکن امام علیؑ نے بلندہمت کا مظاہرہ کرتے ہو ئے،خلافت ظاہری سے بھی بلند ذمہ داری کو سنبھال لیا اور بجائے اس کے کہ جنگ و جدال کی باتیں کریں ، یا خود کو مسلمانوں سے کنارے کرلیں اور سازش کرنے والوں سے مقابلہ کریں آپ ؑنے خدا کے تقوے کے ذریعہ لوگوں کو تفرقہ سے اتحاد کی طرف بلایا اور جو افراد جا نتے بوجھتے ہو ئے یا بغیر سمجھے ہو ئے بیعت کر بیٹھے تھے انہیں نصیحت کی کہ کشتیٔ نجات کے ذریعہ فتنہ کا مقابلہ کریں ۔ (اور اس طرح پیغمبراکرم ؐ کی معروف حدیث کی طرف اشارہ کیا کہ اہل بیت کی مثال کشتیٔ نوح کی طرح ہے ) … پھر آپ ؑنے ایک جملہ فرمایا کہ(فتنہ کے ایسے ماحول میں ) جو تمام قوتیں رکھتے ہو ئے قیام کرے وہ کا میاب ہو گا ، اور جو بحد کا فی قوت نہ رکھنے کے سبب کنا رہ کشی کرلے وہ مومنین کو آرام پہنچائے گا ۔۱۷؎ اور اس طرح آپؑ نے قیام کی مو قعیت کو پوری دنیا کے سامنے واضح کر دیا ،صلح کے موقعوں کو بھی واضح کردیا ،جنگ کے موقعوں کو بھی روشن کردیا ۔ یہیں سے ہم امام زمانہؑ کے قیام کا فلسفہ سمجھ سکتے ہیںچونکہ زمانہ بھی فتنہ کا رہے گا اور آپؑ کے ناصروں کی تعداد بھی کامل رہے گی، اس وجہ سے آپ قیام کریں گے اور کا میابی کے بعد پوری دنیا پر حکو مت کریں گے ۔ جیسا کہ امیر المومنین ؑ فرما تے ہیں کہ ’’جب وہ وقت آئے گا تو دین کا رہبر قیام کرے گا تو مسلمان آپ ؑکے گرد( آپ کی نصرت کے لئے) خزاں کے بادلوں کی طرح جمع ہو جا ئیں گے‘‘ ۱۸؎ اس وقت کے حالات بیان کرتے ہو ئے مو لا امیر المومنین ؑ فرماتے ہیں ’’ کل کا وہ آنے والا دن جس کی تمہیں کو ئی پہچان نہیں ہے ، اس وقت زمامداری ،حاکمیت کی صورت اپنا لے گی جو آج کل کے حکو متی خاندانوں سے الگ ہے وہ مزدوری اور حکومت کا کام کرنے والوں کو ان کے غلط کا موں پر سزا دیں گے ، زمین اپنے تمام خزانے ان کے لئے ظاہر کردے گی اور اس کے مالک بھی آپ ؑہی ہونگے وہ حقیقی حکو مت کی عادلانہ روش تمہارے درمیان ظاہر کریں گے اور کتاب خدا اور سنت پیغمبرؐ کو زندہ کریں گے …۱۹؎ ایک اور مقام پر آپ ؑکے قیام کا ذکر فرما تے ہیں کہ: پھر فتنوں کو نابود کرنے کے لئے ایک گروہ اٹھے گا ، ان کی تلواریں صیقل کی ہو ئی ہونگی ۔ان کی آنکھیں قرآن کے نور سے منور ہونگی اور ان کے کا نوں میں قرآن کی تفسیریں رچی بسی ہونگی اور پھر صبح و شام حکمت کا ماحول رہے گا۔۲۰؎
ظہور امام علیہ السلام سے قبل خوفناک حالات :
جیسا کہ رسول اکرم ؐفرما تے ہیں ’’ مہدی میری اولاد میں سے ہیں وہ غیبت اختیار کریں گے اور جب وہ ظہور کریں گے تو زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح وہ پہلے ظلم و جور سے بھری ہو ئی تھی ۔ ۲۱؎ اس حدیث کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ وہ زمانہ جب امام ؑکا ظہور قریب ہو گا تو کس حد تک ظلم و جور سے بھرا ہوا ہو گا ۔ اس زمانہ کا اگر مزید جا ئزہ لینا ہو تو مولا ئے کا ئنات کے اس کلام سے بخوبی اندازہ لگایاجا سکتا ہے جس میں آپ ؑفرما تے ہیں:یہ ایسے ایام ہیں جن میں مومن کے لئے تلوار کا وار (برداشت کرنا)حلال چیز حاصل کرنے سے آسان ہے ۔جس میں لینے والے کا اجر دینے والے کے اجر سے زیادہ ہے اور شراب پیئے بغیر ہی تم لوگ مست ہو جا ئو گے ، نعمتوں کی فراوانی کے باوجود بغیرکسی زبردستی کے قسم کھا ئو گے اور بغیر بے چارگی کے جھوٹ بو لو گے یہ ایسے دن ہیں کہ جب بلا ئیں تمہیں ڈسیںگی، جس طریقہ سے پا لان اونٹوں کو زخمی کر دیتے ہیں ۔آہ!وہ رنج اور اندوہ کتنا طولا نی اور گشایش کی امید کتنی دور ہے ۔ ۲۲؎
ساتھ دینے کی وصیت :
جب تک کو ئی قوم خود سے کو ئی تبدیلی نہ چاہے اور خود کو تبدیل نہ کرے اللہ بھی اس کی حا لت نہیں بدلتا ہے ۔۲۳؎ لہٰذا اس سنت خدا کی روشنی میں ہم آسانی سے اس نتیجہ تک پہنچ سکتے ہیں کہ اگر ہم واقعی طور پر اس زمانہ کو بدلنا چاہتے ہیں اور بد بختیوں کو خوش قسمتی میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی کچھ کرنا ہو گا، چونکہ یہ ہما ری ذمہ داری ہے، اور اگر ہم لا پرواہ اور تماشائی کی حیثیت سے کھڑے صرف تماشا دیکھتے رہے تو پھر اس گھٹا ٹوپ اند ھیرے زمانہ کا شر لگا تار پھیلتا ہی چلا جا ئے گا اور اس کے ذمہ دار ہم بھی ہونگے ۔
لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیئے جس کی وجہ سے خدا وند عالم اپنے اس خاص نمایندہ کے ذریعہ ہماری رہنما ئی اور رہبری کرے؟ حضرت سید الاوصیا ؑاس با رے میں فرما تے ہیں کہ : ’’ اے لوگو! گنا ہوں کے بوجھ سے پر ہیز کرواور اپنے امام ؑ کو تنہا نہ چھوڑدو کہ جس کے سبب تمہیں اپنی ملامت کرنی پڑے ،فتنوں سے دور رہو اور سیدھے راستے پر چلو اور وہ راستے جو فتنوں کی طرف کھینچتے ہیں ان سے اجتناب کرو ۔ میری جان کی قسم !مومن فتنہ کی آگ میں پڑکر نابود ہو جا ئے گا ،لیکن اسلام کا جھوٹا دم بھرنے والے امان میں رہیں گے ۔اور بیشک میں تمہارے درمیان اس چراغ کی مانند ہوں جو تاریکیوں میں روشن رہتا ہے اور جو بھی اس کی طرف رخ کرتا ہے وہ اس کے نور سے فائدہ اٹھا تا ہے (اور پھر آپؑ نے فرمایا) اے لوگو! میری باتیں سن لو ،اور اچھے سے یاد کرلو ،اپنے دل کے کانوں کو کھول لو تا کہ میری کہی بات سمجھ سکو۔ ۲۴؎
پرہیز گاری کی سفارش:
پھر امام ؑ زہد کی جانب متوجّہ ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں’’اے لوگو ! تمہیں پر ہیز گاری اور نعمتوں، خداداد تحفوں اور ان احسانوں کی بہ نسبت جو تمہیں حاصل ہو ئے ہیں ،بے حساب شکر بجالانے کی وصیت کرتا ہوں … تم نے اپنے عیبوں (کمیوں) کو ظا ہر کیا اور اس نے پردہ پوشی کی ،تم نے خود کو عذاب پا نے والا بنا دیا اور اس نے تمہیں مہلت دی ہے۔ ‘‘۲۵؎
موت یاد رکھنے کی اہمیت :
انسان اکثر اس بنا ء پر گناہ کا مرتکب ہوتا ہے کہ وہ موت کو بھول چکا ہوتا ہے ،اور اسے اپناا نجام یاد نہیں ہوتا ہے۔اس بناء پر موت کو یاد رکھنا انسان کو بہت سے گناہوں سے بچا سکتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے ’’وہ کہ جس نے موت و حیات کو اس لئے خلق کیا ہے تاکہ وہ تمہارا امتحان لے سکے (اورجان سکے)کہ تم میں سے کون نیک عمل انجام دینے والاہے …۲۶؎اور اس طرح دوسری آیات بھی ،موت وحیات کا وجود اور اس کا فلسفہ بیان کرتی ہیں جو انسان کی نصیحت اور اسے بیدار کرنے کے لئے کافی ہے ۔اس بنا ء پر مولا ء ِکائنات ؑ نے بھی لوگوں کو اس حقیقت کی یاد دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’لوگو! میں تمہیں موت کو یاد رکھنے کی سفارش کرتا ہوں ،موت سے بہت کم غفلت کرو ۔(تعجب ہے)تم موت کو کیسے بھول جا تے ہو حالانکہ وہ تو تمہیں نہیں بھولتی ہے ؟!اور کس طرح تم لالچ کرتے ہوحالانکہ وہ مہلت بھی نہیں دیتی ہے ؟!!اسلاف کی موتیں تمہارے لئے کا فی ہیں اوروہ جن چیزوں میں مشغول تھے سب چھوٹ گیئں…اب ان کے پاس نہ قدرت ہے کہ برے اعمال سے دوری اختیار کریں اور نہ ہی وہ نیک کا موں میں اضافہ کرسکتے ہیں ۔ وہ دنیا سے ما نوس ہو نا چا ہتے تھے، جس نے انہیں مغرور کردیا۔ وہ اس پر پو راطمینان کرتے تھے آخر کار اس نے مغلوب کر دیا ۔۲۷؎
نیکیوں میں جلدی کرنا :
چونکہ موت کا ایک وقت معین ہے ،لہٰذا وہ اپنے وقت پر ہی آتی ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی تاخیر نہیںہے ،وہ لازم اور ضروری ہے، لہٰذا ٹل بھی نہیں سکتی ہے ،وہ مخفی ہے لہٰذا اس کا وقت بھی معلوم نہیں ہوتا ہے ،ایک حدیث میں سرور کائنات ارشاد فرماتے ہیں’’من مات علیٰ شی ء بعثہ اللہ علیہ ‘‘۲۸؎ جو جس حالت پر مرتا ہے خدا اسی حالت میںاسے محشور کرتا ہے ۔اس وجہ سے ہمیں اور زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت گذر جائے، تواس وقت کفِ افسوس ملنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کارِ خیر میں مشغول رہنا چاہئے اور نصیحت کرنے والے کی نصیحت سننا چاہئے کیونکہ کون سا لمحہ انسان کا آخری لمحہ ہے، اس کا علم اسے بھی نہیں ہے۔
اسی مطلب کی طرف مولا امیر المومنین ؑاشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’خدا تم پر رحمتیں نازل کرے! اپنی اس منزل کی طرف جانے میں سبقت کرو جسے بسانے کا تمہیں حکم دیا گیا ہے ۔ صبر و استقامت سے خدا کی نعمتیں حاصل کرو اور بغاوت اور نافرمانی نہ کرو چونکہ آنے والا کل ، آج سے بہت نزدیک ہے … ۲۹؎
اور اگر ہم ان تمام نصیحتوں پر عمل کر یں اسی صورت میں ہم امام زمانہ ؑکے ظہور کے صحیح انتظار کرنے والوں میں شمار ہو سکتے ہیں ۔
اللہم ارزقنا توفیق الطاعۃ و بعدالمعصیہ و صدق النیۃ
و الحمد للہ رب العالمین
سید فرحت عباس رضوی

حوالہ جات

(۱) ذخائر العقبیٰ:ص،۱۳۶، بحوالہ ٔ فضائل الخمسۃ فی الصحاح الستۃج۳ص۳۸۹
(۲) نہج البلاغہ ،خطبہ ،۱۵۰؍۴ (۳) خطبہ ، ۱۵۰
(۴) بقرہ ؍۲۶ ( ۵)خطبہ، ۱۳۸ /۱
(۶)نہج البلاغہ ،خطبہ ،۱۳۸؍۱) (۷)نہج البلاغہ ،خطبہ ، ۱۳۸؍۱
(۸)خطبہ ۱۳۸؍۳ (۹)نقل از جامع ترمذی، طبق نقل ینابیع المودۃ ،۳۷
(۱۰)خطبہ،۱۵۰؍ ۳ (۱۱) مسند احمد بن حنبل ،ج ۱، ص ۳۷۶
(۱۲)نور ؍۵۵ (۱۳) انبیاء ؍۱۰۵
(۱۴) اصول کا فی، ج ۱ ، باب الحجۃ ( ۱۵)السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ،ج ۱ ص۵۰۱
( ۱۶)زندگی ٔ پیامبر ؐ ، ص ۱۷۷ (۱۷) نہج البلاغہ ۔ خطبہ ۵
(۱۸)نہج البلاغہ ،غریب الکلام /۱ (۱۹)خطبہ ، ۱۳۸/۲
(۲۰)خطبہ ، ۱۵۰/۲ (۲۱)منتخب الاثر ۱؍۲۴۹؍۸
(۲۲)خطبہ؍ ۱۸۸ ؍۱ (۲۳)رعد؍۱۱
(۲۴)خطبہ /۱۸۸ (۲۵)خطبہ/۱۸۸
(۲۶)الملک/۲ (۲۷)خطبہ/۱۸۸
(۲۸)کنز العمّال۴۲۷۲۱ (۲۹)خطبہ ؍۱۸۸

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button