قرآن مجید نے ایمان کی بہت سے فضیلتیں بیان فرمائی ہے ۔ اور ایمانیات کی بنیادخدا وند عالم پر ایمان رکھنا ہے اوروہ ایمان کار آمد ترین ایمان ہے جو علمی اور استدالا لی اصولوں پر مبتنی ہو البتہ علماء عقائد نے معرفت الہی کے حصول کے مختلف راستے بیان فرمائے ہیں جیسے حس وعقل ، استدلالات عقلی اور اصول عرفانی ، لیکن کامل ترین معرفت کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے کو اتنا پاک کرے کہ خود خداوند اس کو اپنی معرفی کردے البتہ یہ مقام حاصل ہونا بہت مشکل ہے کیونکہ اس مقام پر جائز ہونے کے لے انبیاء کی طرح زحمت کرنا پڑتا ہے ۔ جب یہ بات ہمارے لئے شبہ محال ہے تو اس کے بعد والا منزل کا سہارا لینا ہوگا اور وہ ایسے شخص سے خدا شناسی کا سبق لینا ہے جو اس مقام پر فائز ہوئے اوروہ رسالت کے بعد امامت کا عظیم منصب ہے ۔
ممکن ہے آپ یہ فرمائیں کہ اصحاب سے بھی خد اکی معرفت حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ ان ہستیوں کی تربیت بھی رسالت مآب نے فرمائی ہے اورکیسے ممکن ہے کہ رسول کی تربیت ناقص ہوپس وہ یقینا کامل ترین مربی ہیں۔
مؤدبانہ گذارش کرتا ہوں کہ یہ حقیقت ہے کہ نبی اکرم کی تربیت میں کوئی نقص نہیں ہوسکتا لیکن یہ بات کافی نہیں بلکہ تربیت کے تین اہم عناصر ہیں :
۱۔مربی
۲۔ اصول تربیتی
۳۔ تربیت لینے والوں کی آمادگی ۔
پہلے دو عناصر بے عیب ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اصحاب تربیت پذیر ی کے لحاظ سے مختلف تھے وہ سب ایک درجے پر فائز نہیں تھے اس بات کی واضح دلیل آیات نفاق ہیں اسی بنا پر عالم اسلام میں خدا کی توحید کے علاوہ دوسرے اوصاف جیسے جسم ، حرکت اور عدالت جیسے اہم اوصاف الہی میں اختلاف کرنا اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ تمام علماء اسلام یا آصحاب کی باتیں قابل اعتماد نہیں ہیں۔
اس بات کی ایک دلیل حضرت علی – کا یہ جملہ بھی ہے :
’’ آخر تم لوگ کدھر جارہے ہو اورتمہیں کس طرح موڑا جارہا ہے ؟ جب کہ نشانیاں قائم ہیں اورآیات واضح ہیں ۔ منارے نصب کیے جاچکے ہیں اورتمہیں بھٹکایا جارہا ہے اورتم بھٹکے جارہے ہو ۔‘‘ (۱)
حضرت علی کے اس کلام سے معلوم ہوتا ہے لوگ اسی زمانے ہی میں جان بوجھ کر گمراہی کی طرف جارہے تھے کیا اس صورت میں وہ لوگ قابل اعتماد ہوسکتے ہیں ۔
ہاں صرف ایسے صحابی کے ذریعے خدا کی معرفت حاصل کرسکتے ہیں جو ذاتی لیاقت کے ساتھ ساتھ نبی اکرم کے تربیت کو دل وجان سے قبول کرتا رہا ہو۔ اورآثار معرفت الہیٰ ان کے وجو د سے ظاہر ہو۔ ایسی شخصیت علی بن ابی طالب – کے سوا اصحاب نہیں مل سکتے ۔ کیونکہ رسول ﷺ نے حضرت علی – کی تعلیم وتربیت اپنے ذمے لیا۔ حضرت علی ؑ کو بچپنے میں اپنے گھر لے گئے اپنے دامن میں تربیت دی چنانکہ لقمے چبا کر حضرت علی ؑ کو کھلائے تھے ۔ ہرروز اپنے محاسن اخلاقی سے ایک علم آپ کو سکھاتے تھے ۔
اسی طرح آپ کی تربیت کرتے رہے کہ آپ نے نور وحی ورسالت کا مشاہدہ کیا شیطان کی فریاد کی آواز سنی اورنبی اکرم ﷺ نے آپ کو اپنی وزیری کی خوشخری سنادی ۔(۲)اس طرح آپ باب علم نبی ﷺ اور منبر سلونی کا خطیب نبے۔ رسول اکرم ﷺ کے ساتھ آپ کے رابطے کی حد یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا قبض روح اس حالت میں ہوئی کہ آپ ﷺ کا سرحضرت علی -کے سینے پر تھا۔
لہذا اصحاب جن باتوں پر اتفاق رکھتے ہیں وہاں کوئی مسئلہ نہیں اور جہاں وہ حضرت علی – کے نظریے کے خلاف کوئی بات کرے وہاں پر صرف حضرت علی – ہی کی بات حقیقت کے عین مطابق ہوگا اور ہمیں انہی کی پیروی کرنی چاہئیے۔
ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ اگر بات ایسی ہے تو نبی ﷺ نے حضرت علی – کو اپنا جانشین معرفی کیوں نہیں کیا؟ تاکہ گمراہی اورضلالت کا راستہ بالکل بند ہوجائے ۔اس بات کا جواب خود امام نے نہج البلاغہ کے پہلے خطبے میں یوں فرمایا ہے : ’’ رسول گرامی نے تم لوگوں کے درمیان اپنا جانشین انتخاب فرمایا ہے جیسا کہ تمام انبیاء نے اپنے امتوں کے لئے انتخاب فرمایا کیونکہ انہوں نے لوگوں کو ہرگز سرگردان نہیں چھوڑا ۔ روشن راستہ اور استوار نشانیاں بتائے بغیر لوگوں کے درمیان سے نہیں گئے ۔‘‘
مذکورہ باتوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ نبی اکرم ﷺ کے بعد خدا کی معرفت کا بہترین اورمطمئن ترین ذریعہ حضرت علی ؑ کی ذات ہے ۔ اب سوال پیش آتا ہے کہ حضرت علی -کے بعد کی معرفت الہیٰ کا بہترین ذریعہ کون ہیں ؟
اس سوال کا جواب بھی حضرت علی – نے نہج البلاغہ میں مختلف انداز میں دیا ہے ۔ خطبہ ۸۷ میں فرماتے ہیں :
’’ دیکھو تمہارے درمیان نبی کی عترت موجود ہے ، یہ سب حق کے زمام دار ،دین کے پرچمدار اورصداقت کے ترجمان ہیں ۔ انہیں قرآن کریم کی بہترمنزل پر جگہ دو اوران کے پاس اس طرح واردہو جس طرح پیاسے اونٹ چشمہ پر وارد ہوتے ہیں ۔
لوگو! حضرت خاتم النبیین کے ارشاد گرامی پرعمل کرو کہ ’’ہمارا مرنے ولا میت نہیں ہوتا اورہم میں سے کوئی مرور زمانہ سے بوسیدہ نہیں ہوتاہے ۔‘‘
امام نے کلمات قصار میں اسی حقیقت کو یوں بیان فرمایا ہے :
’’ ہم اہل بیت ہی وہ نقطہ اعتدال ہیں جن سے پیچھے رہ جانے والے اگے بڑھ کر مل جاتا ہے اورآگے بڑھ جانے والا پلٹ کر ملحق ہوجات ہے ‘‘۔(۳)
علامہ ذیشان جوادی علیہ الرحمہ نے شیخ محمد عبدہ سے اس جملے کی یہ وضاحت نقل کی ہے :
’’ اہل بیت ؑ اس مسند سے مشابہت رکھتے ہیں جس کے سہارے انسان کی پشت مضبوط ہوتی ہے اوراسے سکون حاصل ہوتا ہے ’’ وسطیٰ‘‘ کے لفظ سے اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تمام مسندیں اسی سے اتصال رکھتی ہیں اور سب کا سہارا وہی ہے اہل بیتؑ اس صراط مستقیم پر ہیں جن سے آگے بڑھ جانے والوں کو بھی ان سے ملنا پڑتا ہے اور پیچھے رہ جانے والوں کو بھی ۔‘‘
خطبہ ۱۵۴ میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’ہم (اہل بیت پیغمبر ) ان کی قمیص ، سچے اصحاب خازنِ علوم ومعارف اوران کے علوم کے دروازے ہیں سوائے دروازے کے کوئی گھر میں داخل نہیں ہوسکتا اورجو بغیر دروازے داخل ہوجائے اسے چور کہا جاتا ہے ۔ ان کے بارے میں قرآن کریم کے آیات نازل ہوئے ، یہی لوگ خدای رحمن کے علوم کے خزانے ہیں ۔ اگر بات کرے تو شچ بولے اور اگر خاموش رہے تو ان سے سبقت مت کرو۔‘‘(۴)
مولا کے ان فرمیں کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اہل بیت ؑ ہی معارف دینی اومعرفت الہیٰ کا ذریعہ سے جو شخص ان ہستیوں کے علوم کے سرچشمہ سے فیضیاب ہوجائے وہ حقیقتاً حق کے راستے پر گامزن ہوا ہے اورجو لوگ اپنے دینی اعتقادات اور خدا کی معرفت کے لئے کسی اور کے دروازے پر رجوع کرے تو اگر وہ اہل بیت کے علوم کی روشنی میں اس کی رہنمائی کرے تو وہ ہدایت پاجائے گا اوراگر اہل بیت کے نہج سے ہٹ کر اپنے یاکسی اورکے علم کے بل بوتے پر اس کی رہنمائی کرے تووہ رہنمااور اس کا پیروکار دونوں حق اورمعرفت الہیٰ سے کوسوں دور ہوجائے گا کیونکہ یہ علم چوری کا علم ہے جو اس لائق نہیں کہ اپنے عالم کو خدا وند عالم کی پاک معرفت کے حدود تک پہنچاسکے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیسے اہل بیت ؑ اس بلند مقام پر فائز ہوئے کہ ان کے بغیر خدا کی صحیح معرفت ممکن نہیں ہے ؟
اس بات کی وضاحت کے لئے درج ذیل نکات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں ۔
۱۔ خاندان نبوت
نبی اکرم ﷺ انسانوں کی ہدایت اوتربیت کے لئے تشریف لائے ہیں اس ہد ف کو دوسروں کے لئے عملی جامہ پہنانے میں آپ کے لئے بہت سے موانع پیش تھے لیکن اپنے خانوادہ میں اس ہدف کا عملی کرنا مشکل نہ تھا اس لئے آپ نے اپنی پوری طاقت سے اپنے خاندان کو اسلامی تمدن کا گہوارا بنایا اس وجہ سے اس خاندان کے افراد دینی باتوں سے زیادہ آشنائی رکھتے ہیں ایک بات یہ بھی ہے کہ ہرخاندان اپنے بزرگوں کے سرمائے کی مخالفت کرنے کرتے ہیں اسی اصول کے تحت یہ خاندان اپنے جد کے دین کے محافظت کرنے والے ہیں ۔ مولای متقیان – نہج البلاغہ کے دوسرے خطبے میں خاندان نبوت کو ہردوسرے خاندان سے افضل قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :’’یاد رکھو آل محمد % پر اس امت میں کسی کاقیاس نہیں کیا جاسکتا اورنہ ان لوگوں کوان کے برابر قرار دیا جاسکتا ہے جن پر ہمیشہ ان کی نعمتوں کا سلسلہ جاری رہا ہے ۔
آل محمد ﷺ دین کی ا ساس اوریقین کا ستون ہیں ان سے آگے بڑھ جانے والا پلٹ کر انہیں کی طرف آتا ہے اورپیچھے رہ جانے والا بھی انہیں سے آکر ملتا ہے ۔ ان کے پاس حق ولایت کے خصوصیات ہیں اوران کے درمیان پیغمبر کی وصیت اوران کی وراثت ہے ‘‘۔
خطبہ ۱۰۹ میں فضائل اہل بیت ؑ ان الفاظ مین بیان فرماتے ہیں :
’’ ہم رسالت کے ہرے درخت میں سے ہیں اورفرشتوں کے رفت وآمد کا مرکز سے پروان چڑھے ہیں ، ہم علم کے معادن اورحکمت کے جاری چشمے ہیں ہماری مدد کرنے والے اور دوست خد اکی رحمت کے منتظر ہیں اور دشمنی وکینہ توزی کرنے والے خدا کی عذاب اورلعنت کے منتظر ہیں ۔‘‘
۲۔علم
کسی بھی کام اور منصب کو اس کے اشنا اور جاننے والے عالم کے سپرد کیا جاتا ہے ۔ مثلا سیاسی مناصب سیاستدانوں کے حوالے کی جاتی ہے صنعتی مناصب اسی کے ماہرین کے حوالے کی جاتی ہے اوردین امور دینی علماء کو دیا جاتا ہے اس لئے امامت جو رہبری دنیا و آخرت ہے اس کو اسی کے حوالے کیا جانا چاہئے جو امور دنیا وآخرت دونوں کا علم رکھتا ہو نبی اکرم ؐ کے بعد یہ علم اہل بیت ؑ کو وارثت میں ملا اوروہ اس کے علم کا خزانہ دار ہیں اسی حقیقت کی طرف امیر المؤمنین نے نہج البلاغہ میں کئی جگہوں پر اشارہ فرمایا ہے :
’’ کامیابی اورفلاح اہل بیت ؑ سے حاصل کرلو کیونکہ وہ علم کی زندگی اورجہالت کی موت ہیں۔ ان کے حکم تمہیں ان کے علم کی خبر دیتے ہیں ۔ ان کی خاموشی ان کے بات اورنظریہ کی خبر دیتی ہے ۔ ان کا ظاہر ان کے باطن سے پردہ اٹھاتی ہے وہ ہرگز دین کی مخالفت نہیں کرتے اورنہ اس میں اختلاف کرتے ہیں ۔ دین ہی ان کے سچے گواہ اورخاموش تصدیق کرنے والا ہے ۔(۵)
مولا کے اس فرمان سے معلوم ہوتا ہے کہ خاندان نبوت سے کوئی فرد اختلاف کرے یا امر ولایت میں نزاع کرے تو یہ اس شخص کی اپنی گمراہی اورضلالت کی دلیل ہے ۔
حضرت امیرالمؤمنین خطبہ ۱۲۰ میں ارشاد فرماتے ہیں :
’’ خدا کی قسم ! رسالتوں کی تبلیغ ، وعدوں کی وفاداری اوامر کی تفسیر اورالہٰی تنبیہات مجھے سکھایا گیا ، علم کے دروازے اور( لوگوں کے ) امور کی وضاحت اورتفصیل ہم اہل بیتؑ کے پاس ہیں آگاہ رہو کہ دین کی شریعتیں ایک ہے اوراس کے راستے آسان ہیں۔ جو اس پر گامزن رہے مقصود تک پہنچ گیا اور غنیمت پالیا ۔ اورجو اس سے پھیر گیا وہ گمراہ اور شرمندہ ہوگیا۔(۶)
۳۔ معرفت الہٰی
حضرت امیر المؤمنین کے کچھ جملات سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل بیت اطہار وائمہ معصومین % اللہ تعالیی کے ایسے پاک بندے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی معرّفی کی ہے اوروہ مقام مشہود پر پہنچے ہیں کہ جس کے بعد پھر شبہ کی کوئی گنجایش نہیں پھر لوگوں کے ہدایت کی عظیم ذمہ داری ان ہستیوں کے ہاتھوں سونپا گیا ہے اوراس مدعا پر مولای متقیان کے درج ذیل فرامین دلالت کرتے ہیں جیسا کہ خطبہ ۲۵۲ میں ارشاد گرمی ہے :
’’ائمہ در حقیقت اللہ کی طرف سے مخلوقات کے نگران اواس کے بندوں کو اس کی معرفت کا سبق دینے والے ہیں ۔ کوئی شخص جنت میں قدم نہیں رکھ سکتا ہے جب تک وہ انہیں نہ پہچان لے اوروہ حضرات اسے اپنا نہ کہہ دیں اور کوئی شخص جہنم میں نہیں جاسکتا ہے مگر یہ کہ وہ ان حضرات کا نکار کردے اوروہ بھی اسے پہچاننے سے انکار کردیں ۔‘‘(۷)
اور خطبہ ۱۴۴ میں ارشاد فرماتے ہیں :
’’ کہاں ہیں وہ لوگ جن کا خیال ہے کہ خود راسخون فی العلم اور عالم قرآن ہیں ، نہ ہم جھوٹ کے بل بوتے پریہ ادعا کرتے ہیں ہم پر ظلم کرتے ہیں ۔ خدا نے ہم کو بلند اورانہیں پست کیا ۔ ہمیں عطا اور انہیں محروم کیا ۔ ہمیں( اپنی نعمتوں میں ) داخل اورانہیں خارج کیا۔ ہمارے واسطے سے ہدایت طلب کی جاتی ہے اور (دلوں کی ) تاریکی کا نور ہمارے ذریعے حاصل کی جاتی ہے ۔‘‘(۸)
آخر میں اس بات کی طرف اشارہ بھی ضروری ہے کہ امامت کایہ سلسلہ اہل بیت ؑ میں قیامت تک جاری رہے گی لہذا کسی در پر جھکنے کی ضرورت ہی نہیں جیسا کہ خطبہ نمبر ۱۰۰ میں فرمایاہے :
’’ دیکھو آل محمد کی مثال آسمان کے ستاروں جیسی ہے کہ جب ایک ستارہ غائب ہوجاتا ہے تو دوسرا نکل آتا ہے۔‘‘(۹)
حوالہ جات اور حواشی
۱۔ خطبہ ؍۱۵۵ ، ص۱۵۵
۲۔خطبہ ۱۹۲ خلاصہ
۳۔ کلمات قصار ؍۱۰۹۔
۴۔ خطبہ ۱۵۴
۵۔ خطبہ ؍۱۴۷، ص ؍۲۷۱
۶۔نہج البلاغہ خطبہ ۱۲۰۔
۷۔ نہج البلاغہ ، خطبہ ۲۵۲۔
۸۔ نہج البلاغہ ، خطبہ؍۱۴۴۔
۹۔نہج البلاغہ خطبہ ؍۱۰۰