لائبریری

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے سو کلمات

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ‏
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ‏ وَ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَيِّدِ الْاَنْبِيَاءِ وَ الْمُرْسَلِيْنَ وَ آلِهِ الطَّيِّبِيْنَ الطَّاهِرِيْنَ
نعمت خلقت کے بعد اللہ سبحانہ نے انسان کو قوتِ نطق و بیان سے نوازا اور سورۃ رحمن میں﴿ عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ﴾:’’اسی نے انسان کو بولنا سکھایا‘‘ کہہ کر اس نعمت کی یاد دہانی کرائی ۔ انسان کا مافی الضمیر سمجھانے کا دوسرا طریقہ تحریر ہے تو اللہ سبحانہ نے اس کی اہمیت بتانے کے لئے﴿ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَ﴾:’’قسم ہے قلم کی اور اُس کی جس سے وہ لکھتے ہیں‘‘ کو آیت قرآن بنایا۔ یہ تحریر و تقریر انسان کو باقی مخلوقات سے بلند کرتی ہے۔
بیان و کتابت میں سب کو برابر نہیں بنایا۔ حضرت سلیمانؑ کے مختصر سے خط کو قرآن کی آیات بنا کر اس کی اہمیت روشن کی اور توحید کی دعوت کا ذریعہ قرار دیا۔ حضرت موسی علیہ السلام کی دعا ﴿ وَ اَخِیْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَرْسِلْهُ مَعِیَ رِدْاً یُّصَدِّقُنِیْۤ﴾:’’ اور میرے بھائی ہارون کی زبان مجھ سے زیادہ فصیح ہے لہٰذا اسے میرے ساتھ مددگار بناکر بھیج کہ وہ میری تصدیق کرے‘‘ میں فصاحت کو نبوت کی مدد کا ذریعہ ظاہر کیا۔ قرآن کی اس خط و دعا سے جہاں فصاحت و بلاغت کی اہمیت معلوم ہوتی ہے وہیں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اللہ کی اس عطا میں سب برابر نہیں۔ رسول اللہﷺ نے اس عطا ئے الہی پر فخر کیا کہ’’ اُعْطِيْتُ‏ جَوَامِعَ‏ الْكَلِم‘‘‏ یعنی مجھے یہ کمال عطا ہوا ہے کہ کم سے کم لفظوں میں زیادہ سے زیادہ مفاہیم ومطالب پہنچا سکوں۔
افصح العرب محمد مصطفیﷺ کے بعد آپ کے آغوش میں پلنے والے اور آب وحی میں دُھلی ہوئی زبان چوس کر پروان چڑھنے والے علی ابن ابی طالبؑ نے بلاغت کلام کی نعمت الہی کا یوں اظہار فرمایا: وَ اِنَّا لَاُمَرَآءُ الْكَلَامِ؛ کلام وبیان کی سلطنت کے امیر و حکمران ہم ہیں(نہج البلاغہ خ ۲۳۰)۔ اس امیربیانؑ کی زبان ذیشان سے نکلنے والے کلمات کو ماہر فن موتیوں کی طرح تولتے ہیں۔ البتہ فن کونسا ہو اُس کی کوئی حد نہیں۔ فصاحت و بلاغت اور لغت و ادب کا ماہر کہتا ہے یہ میرے فن کی بلندیوں کی نشانی ہے موحّد اسے توحید کے اظہار کا، عاشق رسولﷺ اسےنعت کے بیان کا، خطیب اپنی خطابت کے طریقہ گفتگو کا، مفسر انداز تفسیر کا بہترین نمونہ سمجھتا ہے۔
سپاہی اس کلام کو اپنے لئے اور جرنیل خود کے لئے رہنما سمجھتا ہے، حکمران و سیاستدان کہتا ہے میرے مقصد کا مددگار کلام ہے، بہادر و شجاع اِس کلام سے جرات و ہمت سیکھتا ہے۔ زاہد اسے زہد کی بلندیوں تک پہنچنے کی سیڑھی سمجھتا ہے۔ عادل اسے بے مثال نمونہ قرار دیتا ہے۔گویا جیسے امیرالمومنینؑ کی ذات جامع الاضداد تھی اسی طرح آپ کا کلام بھی متضاد صفتیں اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے۔ کبھی دُنیا کو طلاقیں دیتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کبھی اسی دُنیا کو اللہ کے ولیوں کی تجارت گاہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔
امیربیانؑ کے کلام کے انتخاب میں سب سے قدیمی مجموعہ اہل سنت کے مشہور عالم اور فصاحت و بلاغت کے استاد ابو عثمان عمرو بن بحر الجاحظ البصری متوفی ۲۵۵؎ ھ کا ہے۔ یہ سو کلمات امیر المومنینؑ ہیں جو’’مائۃ کلمہ‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ ہیرے کی قیمت جوہری اور پھول کی اہمیت و قدر مالی جانتا ہے۔ تو کلام علی علیہ السلام کی قدر و قیمت بھی کسی حد تک جاحظ جیسے استاد فن جان سکتے ہیں۔ جاحظ کی علم ادب پر شاہکار اور اپنے فن میں حوالہ و ماخذ کے طور پر استعمال ہونے والی کتاب ’’البیان والتبیین‘‘ کو مقدمہ ابن خلدون میں علم ادب کے چار ارکان میں سے ایک رکن حساب کیا گیا ہے۔ جامع نہج البلاغہ سید رضیؒ کے بڑے بھائی سید مرتضی علم الہدیؒ نے اپنی کتاب ’’امالی‘‘ جلد۱ ص ۱۶۴ میں لکھا ہے کہ مبرد نے کہا کہ علم میں تین افراد بہت حریص تھے اُن میں سے ایک نام جاحظ کا ہے۔
سید رضیؒ نے نہج البلاغہ کے خطبہ۳۲ کے خطبہ امیر المومنینؑ ہونے کی دلیل کے طور پر جاحظ کی کتاب ’’البیان والتبیین‘‘ کا حوالہ دیا سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ: بعض لوگوں نے اپنی لاعلمی کی بنا پر اس خطبہ کو معاویہ کی طرف منسوب کیا ہے، حالانکہ یہ امیر المومنین ؑ کا کلا م ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ بھلا سونے کو مٹی سے کیا نسبت؟ اور شیریں پانی کو شور پانی سے کیا ربط؟۔ چنانچہ اس وادی میں راہ دکھانے والے ماہرِ فن اور پرکھنے والے با بصیرت عمر و ابن بحر جاحظ نے اس کی خبر دی ہے،اور اپنی کتاب “البیان والتبین” میں اس کاذکر کیا ہے اور ان لوگوں کا بھی ذکر کیا ہے، جنہوں نے اسے معاویہ کی طرف منسوب کیا ہے، اس کے بعد کہا ہے کہ: یہ کلام علیؑ کے کلام سے ہُو بہُو ملتا جلتا ہے اور اس میں جو لوگوں کی تقسیم اور ان کی ذلت و پستی اور خوف و ہراس کی حالت بیان کی ہے، یہ آپؑ ہی کے مسلک سے میل کھاتی ہے۔ ہم نے تو کسی حالت میں بھی معاویہ کو زاہدوں کے انداز اور عابدوں کے طریقہ پر کلام کرتے ہوئے نہیں پایا۔
– البيان و التبيين – میں جاحظ نے امیر بیان علیؑ کے بہت سے کلام کو درج کیا ہے ۔جلد ۱ ص ۸۳ پر لکھتے ہیں :
و قَالَ عَلِیٌ رَحِمَهُ اللّٰهُ: (قِیْمَةُ كُلِّ امْرِئٍ مَّا یُحْسِنُهٗ) فَلَوْ لَمْ نَقِفْ مِنْ هَذَا الْكِتَابِ اِلَّا عَلَى هَذِهِ الْكَلِمَةِ لَوَجَدْنَاهَا شَافِيَةً كَافِيَةً وَ مُجْزِئَةً وَ مُغْنِّيَةً بَلْ لَوَجَدْنَاهَا فَاضِلَةً عَنِ الْكِفَايَةِ وَ غَيْرِ مُقَصِّرَةٍ عَنِ الْغَايَةِ وَ اَحْسَنُ الْكَلَامِ مَا كَانَ قَلِيْلُهُ يُغْنِيْكَ عَنْ كَثِيْرِهِ وَ مَعْنَاهُ فِیْ ظَاهِرِ لَفْظِهِ وَ كَأَنَّ اللّٰهَ عَزَ وَ جَل قَدْ أَلْبَسَهُ مِنَ الْجَلَالَةِ وَ غَشَّاهُ مِنْ نُوْرِ الحِكْمَةِ عَلَى حَسَبِ نِيَّةِ صَاحِبِهِ وَ تَقْوَى قَائِلِهِ فَاِذا كَانَ الْمَعْنَى شَرِيْفًا وَ الَلَّفْظُ بَلِيْغًا وَ كَانَ صَحِيْحُ الطَّبْعِ بَعِيْدًا مِنَ الْاِسْتِكْرَاهِ وَ مُنَزَّهًا عَنِ الْاِخْتِلَالِ مَصُوْنًا عَنِ التَّكْلِيْفِ صَنَعَ فِى الْقُلُوْبِ صَنِيْعَ الْغَيْثِ فِى التُّرْبَةِ الْكَرِيْمَةِ وَ مَتَى فَصَلَتِ الْكُمَّةُ عَلَى هَذِهِ الشَّرِيْطَةِ وَ نَفَذَتْ مِنْ قَائِلِهَا عَلَى هَذِهِ الصِّفَةِ اَصْبَحَهَا اللّٰهُ مِنَ التَّوْفيْقِ وَ مَنحَهَا مِنَ التَّأْيِيْدِ مَا لَا يَمْتَنِعُ مَعَهُ مِنْ تَعْظِيْمِهَا صُدُوْرَ الْجَبَابِرَةِ وَ لَا يَذْهَلْ عَنْ فَهْمِهَا مَعَهُ عُقوْلُ الْجَهَلَةِ۔
علی علیہ السلام نے فرمایا: ’’ہر شخص کی قیمت وہ ہنر ہوتا ہے جو اُس میں پایا جاتا ہے‘‘۔ اگر اس کتاب میں اس کلمہ کے علاوہ کچھ نہ ہوتا تو ہم اسے اطمینان بخش ،کافی، حق ادا کرنے والا اور بے نیاز کندہ سمجھتے۔ بلکہ اُسے کفایت سے بھی بڑھ کر پاتے اور مقصد کے حصول کے لیے کم نہ جانتے۔ اور بہترین کلام وہی ہوتا ہے جس کی تھوڑی مقدار آپ کو اُس کی بڑی مقدار سے بے نیاز کردے اور اس کا معنی و مفہوم الفاظ سے ظاہر و واضح ہو۔ اور اللہ عزوجل صاحب کلام کی نیت اور کہنے والے کی پرہیزگاری کے مطابق اُسے عظمت و جلالت کا لباس پہنا دے اور نورِ حکمت سے ڈھانک لے۔ جب معنی بلند اور لفظ بلیغ ہو اور صحیح وسالم مزاج و فطرتیں نفرتوں سے دور، کوتاہی وسستی سے پاک اور تکلف سے محفوظ ہوں تو یہ دلوں پر وہی اثر کرتے ہیں جو بارش زرخیز مٹی پر کرتی ہے۔ جب کلام ان شرائط سے صادر ہو اور ان اوصاف سے کہنے والے سے جاری ہو تو اللہ اسے ایسی توفیق عطا کرتا ہے اور ایسی تائید نصیب فرماتا ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے جابروں کے دل بھی اس کی تعظیم میں رکاوٹ نہیں بنتے اور جاہل عقلیں بھی اُس کو سمجھنے سے غافل نہیں رہتیں۔
یہ فرمان: « قِیْمَةُ كُلِّ امْرِئٍ مَّا یُحْسِنُهٗ»جاحظ نے سو کلمات میں سے پانچویں نمبر پر اور سید رضی نے نہج البلاغہ کے کلمات قصار میں نمبر ۸۱ پر درج کیا ہے جاحظ اپنے رسائل جلد ۳ صفحہ ۲۹ پر اس فرمان کے بارے میں لکھتے ہیں:
اَجْمَعُوْا عَلَى اَنَّهُمْ لَمْ يَجِدُوْا كَلِمَةً اَقَلَّ حَرْفًا، وَ لَا اَكْثَرَ رَيْعًا، وَ لَا اَعَمَّ نَفْعًا، وَ لَا اَحُثُّ عَلَى بَيَانٍ، وَ لَا اَدعَى اِلٰى تَبْيِيْنٍ، وَ لَا اَهْجَیٰ لِمَن تَرَكَ التَّفَهُّمَ وَ قَصَّرَ فِی الْاَفْهَامِ مِنْ قَوْلِ اَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْہِ:« قِیْمَةُ كُلِّ امْرِئٍ مَّا یُحْسِنُهٗ»
سب اس پر متفق ہیں کہ حروف کے اعتبار سے کم، معانی کے اعتبار سے زیادہ، فوائد کے لحاظ سے عام، بیان و کلام پر اُبھارنے والا، فصاحت و اظہار کی دعوت دینے والا،سوچ بچار نہ کرنے والے اور سمجھانے میں کوتاہی کرنے والے کی مذمت و ہجو کرنے والا کوئی جملہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب رضوان اللہ علیہ کے قول’’ہر شخص کی قیمت وہ ہنر ہوتا ہے جو اُس میں پایا جاتا ہے‘‘ جیسا نہیں ہے۔
جاحظ کے نزدیک کلمات امیرالمؤمنین ؑکی اہمیت کے بارے میں مشہور اہل سنت عالم الموفق بن احمد الحنفی الخوارزمی المتوفی ۵۶۸ھ اپنی کتاب (المناقب)کے صفحہ 375 پر لکھتے ہیں:
وَ اخْبَرْنَا الْفَقِيْهُ اَبُوْ سَعِيْد الْفَضْلُ بْنُ مُحَمَّدٍ اَلْاِسْترُ آبَادِىُ، حَدَّثَنَا اَبُوْ غَالِبٍ اَلْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ قَاسِمٍ، حَدَّثَنَا اَبُوْ عَلِيٍ اَلْحَسَنُ بْنُ اَحْمَدُ الْجَھْرُمِیُّ بِعَسْكَرِ مُكْرَّمٍ، حَدَّثَنَا اَبُوْ اَحْمَد اَلْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيْدٍ، حَدَّثَنَا ابُوْ بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ اَلْحَسَنِ بْنِ دُرَيْدٍ: قَالَ:قَالَ اَبُو الْفَضْلِ اَحْمَدُ بْنَ اَبِیْ طَاهِرٍ۔ صَاحِبِ اَبِیْ عُثْمَانَ الْجَاحِظُ ۔ كَانَ الْجَاحِظُ يَقُوْلُ لَنَا زَمَانًا: اِنَّ لِاَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَؑ مِائَةُ كَلِمَةٍ كُلُّ كَلِمَةٍ مِنْهَا تَفِیْ بِأَلْفِ كَلِمَةٍ مِنْ مَحَاسِنِ كَلَامِ الْعَرَبِ۔ قَالَ: وَ كُنْتُ اَسْأَلُهُ دَهْرًا بَعِيْدًا اَنْ يَجْمَعَهَا لِیْ وَ يُمْلِيْهَا عَلَیَّ وَ كَانَ يَعِدُنِیْ بِهَا وَ يَتَغَافَلُ عَنْهَا ضَنًّا بِهَا ۔ قَالَ: فَلَمَّا كَانَ آخِرُ عُمُرِهِ اَخْرَجَ جُمْلَةً مِنْ مُسَوَّدَاتِ مُصَنَّفَاتِهِ فَجَمَعَ مِنْهَا تِلْكَ الْكَلِمَاتِ وَ اُخْرُجْهَا اِلَيَّ بِخَطِّهِ فَكَانَتِ الْكَلِمَاتُ الْمِائَةُ هَذِهِ: لَوْ كُشِفَ‏ الْغِطَاءُ مَا ازْدَدْتُ يَقِيْنًا۔۔۔
ہمیں ابوسعید الفضل نے بتایا، انہوں نے ابو غالب حسن بن علی سے انہوں نے ابو علی حسن بن احمد سے انہوں نے ابو احمد حسن بن عبداللہ سے انہوں نے ابو بکر محمد بن حسن درید سے نقل کیا کہ وہ کہتے ہیں کہ ابو عثمان الجاحظ کے دوست ابوالفضل احمد ابن ابی طاہر نے کہا کہ جاحظ ہمیشہ ہمیں کہتے تھے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے سو کلمات ہیں، ان میں سے ہر کلمہ کلام عرب کی اچھائیوں اور خوبیوں کے اعتبار سے ہزار کلمہ کے برابر ہے۔ میں بڑی مدت تک ان سے کہتا رہا کہ وہ کلمات جمع کریں اور مجھے لکھوا دیں۔ وہ ہمیشہ مجھ سے وعدہ کرتے مگر بخل کرتے ہوئے اُن سے غفلت کر جاتے تھے۔ جب اُن کی عمر کے آخری ایام تھے تو ایک دن اپنی تمام تصنیفات کے مسودے نکالے اور اُن میں سے وہ کلمات جمع کیے اور اپنے ہاتھ سے لکھ کر مجھے دیے وہ سو کلمات یہ تھے۔ (لَوْ كُشِفَ‏ الْغِطَاءُ مَا ازْدَدْتُ يَقِيْنًا۔۔۔).
اہل سنت کے مشہور عالم دین عبد الملک بن محمد بن اسماعیل ابو منصور الثعالبی متوفی ۴۲۹؎ ھ نے اپنی کتاب ’’ الاعجاز و الایجاز‘‘ میں مختلف حکمت بھرے اور مختصر اقوال لکھے۔
قرآن مجید سے آیات کے بعد صفحہ 18 سے 30 تک ’’باب الثانی‘‘ ( جوامع الکلم من النبیﷺ) درج کیے پھر ’’باب الثالث‘‘ میں خلفائے راشدین کے اقوال درج کیے خلیفہ اول سے تین اقوال، خلیفہ دوم سے دس اقوال اور خلیفہ سوم سے تین اقوال درج کرنے کے بعد صفحہ 34 سے جاحظ کے ان سو اقوال کو لکھنا شروع کیا اور صفحہ 40 تک یہ اقوال درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
یہ ہیں جاحظ کے سو کلمات اور پھر مزید اقوال لکھے اور صفحہ34 سے صفحہ 47 تک امیر المومنین ؑکے اقوال کو درج کیا البتہ ثعالبی کی ترتیب خوارزمی کی ترتیب سے کچھ فرق کرتی ہے۔
جاحظ کے ان سو کلمات کی شہرت اور اہمیت کی بنا پر بہت سے دانشوروں نے اس کا ترجمہ یا شرح کی ہے۔ ان میں سے ایک مشہور شرح اور ترجمہ اہل سنت کے عالم رشید الدین محمد بن محمد بن عبد الجلیل وطواط متوفی ۵۷۳؎ ھ نے کیا ہے ’’مطلوب کل طالب من کلام علی ابن ابی طالب‘‘ کے نام سے اس کتاب میں انہوں نے جاحظ کے سو کلمات کی عربی میں مختصر شرح کی پھر نہایت ہی ادبی انداز میں فارسی نثر میں ترجمہ کیا اور ہر کلمہ کے آخر میں فارسی اشعار میں بھی مفہوم بیان کیا۔ خود اس کتاب کو بھی بہت اہمیت حاصل ہوئی ، ترکی اور کئی دوسری زبانوں میں اس کا ترجمہ کیا گیا۔
شیعہ علماء میں سے جامع نہج البلاغہ سید رضیؒ نے نہج البلاغہ میں ان سو کلمات میں سے 35 کلمات درج کئے۔ البتہ ان کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ انہوں نے جاحظ ہی سے لیے یا کہیں اور سے انتخاب کیا۔
شیعہ علماء میں سے نہج البلاغہ کی پانچ جلدوں پر مشتمل ایک علمی شرح لکھنے والے عالم کمال الدین میثم بن علی بن میثم البحرانی متوفی ۶۷۹؎ ھ نے ان سو کلمات کی ایک الگ شرح لکھی ہے جو 278 صفحات میں شائع ہو چکی ہے اس شرح کا نام ’’شرح مائۃ کلمۃ‘‘ بھی ہے اور’’ منہاج العارفین‘‘ بھی نام درج کیا گیا ہے۔
شیعہ علماء میں سے میر حیدر علی بن محمد علی حیدر آبادی کی ان کلمات کی ایک شرح ’’ حلیۃ الصالحین فی شرح کلمات امیرالمومنین‘‘ کا ذکر کیا جاتا ہے جو 1294 ھ میں مدارس سے شائع ہوئی ۔ البتہ یہ کتاب اب کہیں موجود ہے یا نہیں کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔
جرمن سکالر Fleischer Heinrichنے 1837 میں یہ سو کلمات وطواط کی شرح کے ساتھ جرمن میں ترجمہ کئے۔ جو Leipzig سے شائع ہوئے۔
امریکہ کی ایک خاتون دانشور طاہرہ قطب الدین کی انگریزی میں، ’’A TREASURY OF VIRTUES‘‘ کے نام سے کتاب نیویارک یونیورسٹی پریس سے 2016 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں انہوں نے قاضی القضاعی متوفی ۴۵۴؎ ھ کی امیرالمومنینؑ کے خطبات و خطوط و کلمات قصار پر مشتمل کتاب’’ دستورمعالم الحکم و ماثور مکارم الشیم‘‘ کے ترجمے کے ساتھ جاحظ کے سو کلمات کا بھی ترجمہ کیا ہے ۔یہ انگریزی کا بہترین ترجمہ ہے۔
ان سو کلمات کے دیگر ترجمے بھی ہوئے اور کئی دیگر دانشوروں نے بھی امیرالمومنینؑ کے سو کلمات کو جمع کیا جن کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔
جاحظ کے ان سو کلمات کے متعلق مشہور عالم ابوالفتح عبدالواحد بن محمد آمدی متوفی۵۱۰؎ ھ لکھتے ہیں ،میں نے یہ سو کلمات دیکھے تو جاحظ جیسے اتنے بڑے عالم پر تعجب ہوا کہ انہوں نے فقط سو کلمات انتخاب کئے تو میں نے امیرالمومنینؑ کے مختصر کلمات کو جمع کرنا شروع کیا اور اس کتاب کا نام ’’غررالحکم و دررالکلم‘‘ رکھا ۔اس کتاب میں اس وقت دس ہزار آٹھ سو بیالیس (۱۰۸۴۲) کلمات شائع ہو رہے ہیں ۔غررالحکم کا اُردو میں مکمل ترجمہ کہیں نظر سے نہیں گزرا البتہ کراچی سے جناب مولانا جاوید جعفری صاحب مرحوم نے ’’حکمت ابو تراب‘‘ کے نام سے دو جلدیں ترجمہ کیں جو شائع ہو چکی ہیں اور مولانا غلام رضا ناصر مرحوم نے بھی کچھ حصے کا ترجمہ کیا جو’’ سرچشمہ حکمت‘‘ کے نام سے لاہور سے شائع ہوا۔
مرکز افکار اسلامی ایک مدت سے نہج البلاغہ سے قوم کو آشنا کرنے کی سعی و کوشش میں مشغول ہے اور اس مقصد کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے جنہیں قوم نے بہت پذیرائی دی ۔بالخصوص علامہ مفتی جعفر حسینؒ کے اردو ترجمہ کی نئی ترتیب و تحقیق کے ساتھ افکار اسلامی کی طرف سے اشاعت کو بہت مقبولیت ملی ۔
جاحظ کے جمع کردہ کلمات امیرالمومنینؑ کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں بھی اردو میں ترجمے کا ارادہ کیا گیا چند علماء سے کہا گیا اور آخر کار جناب حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا غلام حر شبیری صاحب نے اس ذمہ داری کو انجام دیا اور یوں کلمات امیرالمومنین کا یہ انمول خزانہ مرکز افکار اسلامی کی طرف سے اردو دان طبقہ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ پروردگار جناب مولانا صاحب کی توفیقات خیر میں اضافہ فرمائے اور قوم کو ان کی محنت سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کی توفیق عطا فرمائے ۔
ان سو کلمات میں سے جو پینتیس کلمات نہج البلاغہ میں موجود ہیں ان کا حوالہ بھی درج کر دیا گیا ہے۔
امیر المؤمنینؑ کی زندگی بھر یہ حسرت رہی کہ آپ کے سینے میں موجود خزانوں کو لینے والا کوئی مل جائے۔اس لئے کبھی ’’ سَلُوْنِیْ‏ سَلُوْنِیْ‏‘‘ کا اعلان کر کے کچھ حاصل کر لینے کی دعوت دیتے اور کبھی سینہ اقدس کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ’’هَا! اِنَّ هٰهُنَا لَعِلْمًا جَمًّا‘‘ یہاں علم کا ختم نہ ہونے والا ذخیرہ موجود ہے۔ کاش اس کے اٹھانے والے مل جاتے۔
(نہج البلاغہ:حکمت۱۴۷)
امیر بیان علیؑ کی وہ حسرت یقینا آج بھی باقی ہے اور سلونی اور کاش کی صدائیں بھی فضا میں ابھی تک گونج رہی ہیں۔ آئیں ان صداؤں پر لبیک کہتے ہوئے ’’نہج البلاغہ‘‘ کی صورت میں موجود علوم علوی کو عام کریں اور ان تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر اپنی اور معاشرے کی زندگیوں کو کامیاب بنائیں۔اللہ سبحانہ تعالی سب کی توفیقات خیر میں اضافہ فرمائے۔
والسلام
مرکز افکار اسلامی

1. لَوْ كُشِفَ الْغِطَاءُ مَا ازْدَدْتُ يَقِيْنًا
اگر تمام پردے ہٹا دئیے جائیں تو میرے یقین میں اضافہ نہیں ہوگا –
2. اَلنَّاسُ نِيَامٌ فَاِذَا مَاتُوْا اِنْتَبَهُوْا
لوگ گہری نیند میں ہیں جب مریں گے تو اس وقت خبردار ہونگے-
3. اَلنَّاسُ بِزَمَانِهِمْ اَشْبَهُ مِنْهُمْ بِآبَائِهِمْ
لوگ اپنے ماں باپ سے زیادہ اپنے زمانے سےمشابہت رکھتے ہیں
4. مَا هَلَكَ امْرُؤٌ عَرَفَ قَدْرَهٗ
جو شخص اپنی قدرو منزلت کو پہچانتا ہے وہ کبھی ہلاک نہیں ہوتا۔
5. قِیْمَةُ كُلِّ امْرِئٍ مَّا یُحْسِنُهٗ
ہرشخص کی قیمت وہ ہنر ہے جو اس شخص میں پایا جاتا ہے(نہج البلاغہ حکمت81)
6. مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ
جس نے خود کو پہچان لیا اس نے اپنے پروردگار کو بھی پہچان لیا-
7. اَلْمَرْءُ مَخْبُوٌّ تَحْتَ لِسَانِهِ
انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہو ا ہے ۔(نہج البلاغہ حکمت ۱۴۸)
8. مَنْ عَذُبَ لِسَانُهُ كَثُرَ اِخْوَانُهُ
جس نے زبان میں مٹھاس پیدا کر لی اس نے اپنے دوستوں میں اضافہ کر لیا۔ –
9. بِالْبِرِّ يُسْتَعْبَدُ الْحُرُّ
نیکیوں سے ہی آزاد انسان کو غلام بنایا جا سکتا ہے۔
10. بَشِّرْ مَالَ الْبَخِيْلِ بِحَادِثٍ اَوْ وَارِثٍ
بخیل کے مال کو کسی آفت کی یا کسی وارث کی خبر دو۔
11. لَا تَنْظُرْ اِلٰى مَنْ قَالَ، وَ انْظُرْ اِلٰى مَا قَالَ
یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے-
12. اَلْجَزَعُ عِنْدَ الْبَلَاءِ تَمَامُ الْمِحْنَةِ
مصیبت پہ آہ و زاری بڑا امتحان ہے
13. لَا ظَفَرَ مَعَ البَغْی
ظلم و بغاوت سے کوئی کامیابی تک نہیں پہنچتا۔
14. لَا ثَنَاءَ مَعَ كِبْرٍ
تکبر اور بڑائی کے ساتھ کوئی قابل تعریف نہیں بنتا۔
15. لَا بِرَّ مَعَ شُحٍّ
بخل کے ساتھ نیکی کی کوئی حیثیت نہیں ۔
16. لَا صِحَّةَ مَعَ النَهَمِ
زیادہ کھانے میں کبھی صحت نہیں ہو سکتی
17. لَا شَرَفَ مَعَ سُوْءِ الْاَدَبِ
بے ادبی کے ساتھ کوئی عزت و بزرگی نہیں ملتی۔
18. لَا اِجْتِنَابَ مُحَرَّمٍ مَعَ حِرْصٍ
لالچ اور حرص کے ساتھ کسی حرام سے اجتناب نہیں کیا جا سکتا
19. لَا رَاحَةَ مَعَ حَسَدٍ
حسد کے ساتھ کوئی آرام و سکون نہیں ملتا۔
20. لَا سُؤدَدَ مَعَ انْتِقَامٍ
انتقام لینے سے کبھی ریاست یا سیادت نہیں حاصل ہوتی۔
21. لَا مَحَبَّةَ مَعَ مِرَاءٍ
ضدی اور ہٹ دھرمی کے ساتھ محبت نہیں ہو سکتی
22. لَا زِيَارَةَ مَعَ زَعَارَةٍ
تند مزاجی و بد اخلاقی کے ساتھ ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں
23. لَا صَوَابَ مَعَ تَرْكِ الْمَشْوَرَةِ
مشورے کے بغیر کسی کام کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں ہوتا۔
24. لَا مُرُوْءَةَ لِكَذُوْبٍ
جھوٹے کے لئے کوئی شخصیت نہیں
25. لَا وَفَاءَ لِمَلُوْلٍ
رنجیدہ و ناراض شخص سے وفا کی توقع نہیں کی جاسکتی
26. لَا كَرَمَ اَعَزُّ مِنَ التُقَى
تقوی اور پرہیز گاری سے بڑھ کر کوئی بزرگی نہیں ۔
27. لَا شَرَفَ اَعْلٰى مِنَ الْاِسْلَامِ
اسلام سے بلند ترکوئی شرف نہیں۔ (نہج البلاغہ َحکمت۳۷۱)
28. لَا مَعْقِلَ اَحْرَزُ مِنَ الْوَرَعِ
پرہیز گاری سے بہتر کوئی پناہ گاہ نہیں(نہج البلاغہ:حکمت۳۷۱)
29. لَا شَفِيْعَ اَنْجَحُ مِنَ التَّوْبَةِ
توبہ سے بڑھ کرکوئی کامیاب سفارش نہیں-(نہج البلاغہ:حکمت۳۷۱)
30. لَا لِبَاسَ اَجْمَلُ مِنَ السَّلَامَةِ
سلامتی سے بڑھ کر کوئی خوبصورت لباس نہیں
31. لَا دَاءَ اَعْيَى مِنَ الْجَهْلِ
جہالت سے بڑھ کر کوئی لا علاج درد نہیں
32. لَا مَرَضَ اَضْنَى مِنْ قِلَّةِ الْعَقْلِ
کم عقلی سے بڑھ کر کوئی کمزور کرنے والا مرض نہیں
33. لِسَانُكَ يَقْتَضِيْكَ مَا عَوَّدْتَهُ
جن چیزوں کے تم عادی ہو جاتے ہو زبان پھر اسی کا تم سے تقاضا کرتی ہے
34. اَلْمَرْءُ عَدُوُّ مَا جَهِلَهُ
لوگ جس چیزسے جاہل ہوتے ہیں اس کے دشمن ہوتے ہیں-(حکمت۱۷۲)
35. رَحِمَ اللَّهُ امْرَاً عَرَفَ قَدْرَهُ وَلَمْ يَتَعَدَّ طَوْرَهُ
خدا اس شخص پر رحم کرے جو اپنی قدر و قیمت کو جانتا ہو اور اپنے حدود سے تجاوز نہ کرے-
36. اِعَادَةُ الْاِعْتِذَارِ تَذْكِيْرٌ لِلْذَنْبِ
بار بار عذر خواہی گناہ کو یاد دلانا ہے
37. اَلنُّصْحُ بَيْنَ الْمَلاِ تَقْرِيْعٌ
لوگوں کے سامنے نصیحت کرنا ایک قسم کی سرزنش ہے
38. اِذَا تَمَّ الْعَقْلُ نَقَصَ الْكَلَامُ
جب عقل مکمل ہوتی ہے تو باتیں کم ہو جاتی ہیں ۔ (نہج البلاغہ:حکمت۷۱)
39. اَلشَّفِيْعُ جَنَاحُ الطَّالِبِ
سفارش کرنے والا پروبال کی مانند ہوتا ہے ۔(نہج البلاغہ:حکمت۶۳)
40. نِفَاقُ الْمَرْءِ ذِلَّةٌ
انسان کا نفاق اس کے لئے ذلت ہے
41. نِعَمَةُ الْجَاهِلِ كَرَوْضَةٍ عَلٰى مَزْبَلَةٍ
جاہل کے پاس نعمت کوڑے کے ڈھیر پر باغ کی مانند ہے
42. اَلْجَزَعُ اَتْعَبُ مِنَ الصَّبْرِ
آہ و بکا کرنے کی پریشانی صبر کی سختی سے کہیں زیادہ ہے
43. اَلْمَسْؤُوْلُ حُرٌّ حَتَّى يَعِدَ
جس کے سامنے حاجت کے لئے سوال کیا جائے وہ اس وقت تک آزاد ہے، جب تک وعدہ نہ کرے۔( نہج البلاغہ:حکمت۳۳۶)
44. اَكْبَرُ الْاَعْدَاءِ اَخْفَاهُمْ مَكِيْدَةً
سب سے بڑا دشمن وہ ہے جو اپنے مکر و فریب کو پوشیدہ رکھتا ہے
45. مَنْ طَلَبَ مَا لَا يَعْنِيْهِ فَاتَهُ مَا يَعْنِيْهِ
جو شخص کسی بے مقصد چیز کو چاہتا ہے اس کے ہاتھ سے با مقصد چیز نکل جاتی ہے۔
46. اَلسَّامِعُ لِلغِيْبَةِ اَحَدُ الْمُغْتَابِيْنَ
غیبت سننے والا بھی غیبت کرنے والوں میں سے ایک ہوتا ہے
47. اَلذُّلُّ مَعَ الطَمَعِ
ذلت لالچ کے ہمراہ ہوتی ہے-
48. اَلرَّاحَةُ مَعَ الْيَاْسِ
آرام و راحت دوسروں سے مایوسی سے ملتا ہے
49. اَلْحِرْمَانُ مَعَ الْحِرْصِ
محرومی حرص کے ساتھ ہوتی ہے
50. مَنْ كَثُرَ مِزَاحُهُ لَمْ يَخْلُ مِنْ حِقْدٍ عَلَيْهِ، اَوِ اسْتِخْفَافٍ بِهِ
جو شخص زیادہ مذاق کرتا ہے وہ کینے اور کم اہمیت ہو نے سے محفوظ نہیں رہتا
51. عَبْدُ الشَّهْوَةِ اَذَلُّ مِنْ عَبْدِ الرِقِّ
خواہشات کا غلام کسی شخص کی غلامی سے بدتر ہے
52. اَلْحَاسِدُ مُغْتَاظٌ عَلٰى مَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ
حسد کرنے والا ایسے شخص پہ غضبناک ہوتا ہے جس کا کوئی گناہ نہیں ہو تا
53. كَفَى بِالظَّفَرِ شَفِيْعًا لِلْمُذْنِبِ
کامیابی کے لئے کافی ہے کہ خطاکار کے لئے شفیع بن جاؤ۔
54. رُبَّ سَاعٍ فِیْ مَا يَضُرُّهُ
بعض لوگوں کی کوششیں ان کے اپنے نقصان میں ہی ہوتی ہیں (نہج البلاغہ:وصیت۳۱)
55. لَا تَتَّكِلْ عَلٰى الْمُنَى؛ فَاِنَّهَا بَضَائِعُ النَوْكَى.
آرزوؤں پہ ہرگز بھروسہ نہ کرو چونکہ یہ احمقوں کا سرمایہ ہے (نہج البلاغہ:وصیت۳۱)
56. اَلْيَاْسُ حُرٌّ، وَالرَّجَاءُ عَبْدٌ.
نا امیدی آزادی ہے اور امید بندگی ہے
57. ظَنُّ الْعَاقِلِ كَهَانَةٌ
عاقل کا ظن و گمان بھی ستارہ شناسوں کی پیشن گوئیوں کی مانند ہوتا ہے
58. مَنْ نَظَرَ اِعْتَبَرَ
جو غور کرتا ہے وہ اس سے عبرت لیتا ہے
59. اَلْعَدَاوَةُ شُغْلُ الْقَلْبِ
دشمنی دل کی مصروفیت ہے-
60. اَلْقَلْبُ اِذَا اُكْرِهَ عَمِیَ
دل کو جب مجبور کیا جاتا ہے تووہ اندھا ہو جاتا ہے (نہج البلاغہ: حکمت۱۹۳)
61. اَلْاَدَبُ صُوْرَةُ الْعَقْلِ
ادب عقل کی تصویر ہے
62. لَا حَيَاءَ لِحَرِيْصٍ
لالچی آدمی میں کوئی شرم نہیں ہوتی
63. مَنْ لَانَتْ اَسَافِلُهُ صَلُبَتْ اَعْالِيْهِ
جس شخص کے ماتحت کمزور و ضعیف ہوتے ہیں اس سے بالاتر اس کےلئے سخت ہو جاتے ہیں ۔
64. مَنْ اُتِیَ فِیْ عِجَانِهِ قَلَّ حَيَاؤُهُ، وَبَذُؤَ لِسَانُهُ
جو گھٹیا پن پر اتر آئے اس کا حیا کم اور زبان فحش گو ہو جاتی ہے
65. اَلسَّعِيْدُ مَنْ وُعِظَ بِغَيْرِهِ
سعادت مند وہ ہے جو دوسروں سے نصیحت حاصل کر لے۔
66. اَلْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ
حکمت مومن کی گمشدہ چیز ہے (نہج البلاغہ:حکمت۸۱)
67. اَلشَّرُّ جَامِعٌ لِمَسَاوِیِ الْعُيُوْبِ
بدکرداری تمام برے عیبوں کا مجموعہ ہے(نہج البلاغہ حکمت:371)
68. كَثْرَةُ الْوِفَاقِ نِفَاقٌ، وكَثْرَةُ الْخِلَافِ شِقَاقٌ
زیادہ موافقت ایک قسم کی منافقت ہے اور زیادہ مخالفت کرنا ایک قسم کی دشمنی ہے
69. رُبَّ اَمَلٍ خَائِبٌ
کبھی امید رکھنے والے مایوس ہوا کرتے ہیں۔
70. رُبَّ رَجَاءٍ يُؤَدِّیْ اِلَى الْحِرْمَانِ
بعض آرزوئیں محرومی کا سبب بنتی ہیں
71. رُبَّ اَرْبَاحٍ تُؤَدِّیْ اِلَى الْخُسْرَانِ
بعض فائدے نقصان کا باعث بن جاتے ہیں۔
72. رُبَّ طَمَعٍ كَاذِبٌ
کبھی لالچ و طمع جھوٹی ہوتی ہے
73. اَلْبَغْیُ سَائِقٌ اِلَى الْحَيْنِ
بغاوت ہلاکت کی طرف کھینچ لے جاتی ہے
74. فِیْ كُلِّ جُرْعَةٍ شَرْقَةٌ، وَمَعَ كُلِّ اَكْلَةٍ غُصَّةٌ
ہر گھونٹ میں اچھو اور ہر لقمے کے ساتھ پھندا ہوتا ہے
75. مَنْ كَثُرَ فِكْرُهُ فِی الْعَواقِبِ لَمْ يَشْجُعْ
جو شخص بہت زیادہ نتائج کی فکر میں رہتا ہے بہادر نہیں ہوتا
76. اِذَا حَلَّتِ الْمَقَادِيْرُ ضَلَّتِ التَّدَابِيْرُ
جب اللہ کے فیصلے وتقدیریں صادر ہوتی ہیں تو سب تدبیریں ناکام ہو جاتی ہیں۔
77. اِذَا حَلَّ الْقَدَرُ بَطَلَ الْحَذَرُ
جب اللہ کا فیصلہ آجائے تو سب ہوشیاریاں بیکار ہو جاتی ہیں
78. اَلْاِحْسَانُ يَقْطَعُ الْلِسَانَ
احسان زبان کو روک لیتا ہے
79. الشَرَفُ الْعَقْلُ وَالْاَدَبُ، لَا الْاَصْلُ وَالنَّسَبُ
بزرگی و شرف عقل و ادب سے ہے خاندان و نسب سے نہیں
80. اَكْرَمُ الْحَسَبِ حُسْنُ الْخُلْقِ
سب سے بہترین حسب اچھا اخلاق ہے ۔( نہج البلاغہ حکمت: 38)
81. اَكْرَمُ النَّسَبِ حُسْنُ الْاَدَبِ
سب سے با عزت نسب اچھے آداب ہیں
82. اَفْقَرُ الْفَقْرِ الْحُمْقُ
سب سے بڑی ناداری حماقت و بے عقلی ہے( نہج البلاغہ حکمت: 38)
83. اَوْحَشُ الْوَحْشَةِ الْعُجْبُ
سب سے بڑی وحشت غرور و خود بینی ہے( نہج البلاغہ حکمت: 38)
84. اَغْنَى الْغِنَى الْعَقْلُ
سب سے بڑی ثروت عقل و دانش ہے( نہج البلاغہ حکمت: 38)
85. اَلطَّامِعُ فِیْ وَثاقِ الذُّلِّ
طمع کرنے والاذلت کی زنجیروں میں گرفتار رہتا ہے۔(نہج البلاغہ:حکمت ۲۲۶)
86. اِحْذَرُوْا نِفَارَ النِّعَمِ، فَمَا كُلُّ شَارِدٍۭ بِمَرْدُوْدٍ
نعمتوں کے زائل ہونے سے ڈرتے رہو کیونکہ ہر بے قابو ہوکر نکل جانے والی چیز پلٹا نہیں کرتی۔( نہج البلاغہ:حکمت۲۴۶)
87. اَكْثَرُ مَصَارِعِ الْعُقُوْلِ تَحْتَ بُرُوْقِ الْاَطْمَاعِ
اکثر عقلوں کا ٹھوکر کھا کر گرنا طمع و حرص کی بجلیاں چمکنے پرہوتا ہے۔(نہج البلاغہ:حکمت۲۱۹ )
88. مَنْ اَبْدٰى صَفْحَتَهٗ لِلْحَقِّ هَلَكَ.
جو حق سے منہ موڑ تا ہے تباہ ہوجاتا ہے۔(نہج البلاغہ:حکمت۱۸۸)
89. اِذَاۤ اَمْلَقْتُمْ فَتَاجِرُوا اللهَ بِالصَّدَقَةِ.
جب تنگدست ہو جاؤ تو صدقہ کے ذریعےاللہ سے تجارت کرو۔ (نہج البلاغہ:حکمت۲۵۸)
90. مَنْ لَّانَ عُوْدُهٗ كَثُفَتْ اَغْصَانُهٗ.
جس درخت کی لکڑی نرم ہو اس کی شاخیں گھنی ہوتی ہیں۔(نہج البلاغہ:حکمت۲۱۴)
91. قَلْبُ الْاَحْمَقِ فِیْ فِیْهِ
بیوقوف کا دل اس کے منہ میں ہے (نہج البلاغہ:حکمت۴۱)
92. وَ لِسَانُ الْعَاقِلِ فِیْ قَلْبِهٖ
عقلمند کی زبان اس کے دل میں ہے۔ (نہج البلاغہ:حکمت۴۱)
93. مَنْ جَرٰى فِیْ عِنَانِ اَمَلِهٖ عَثَرَ بِاَجَلِهٖ.
جو شخص امید کی راہ میں میں بگ ٹُٹ دوڑتا ہے وہ موت سے ٹھوکر کھاتا ہے( نہج البلاغہ:حکمت۱۸)
94. اِذَا وَصَلَتْ اِلیْكُمْ اَطْرَافُ النِّعَمِ فَلَا تُنَفِّرُوْاۤ اَقْصَاهَابِقِلَّةِ الشُّكْرِ
جب تمہیں تھوڑی بہت نعمتیں حاصل ہوں تو ناشکری سے انہیں اپنے تک پہنچنے سے پہلے بھگا نہ دو ۔(نہج البلاغہ:حکمت۱۲)
95. اِذَا قَدَرْتَ عَلٰى عَدُوِّكَ فَاجْعَلِ الْعَفْوَ عَنْهُ شُكْرًا لِّلْقُدْرَةِ عَلَیْهِ
دشمن پر قابو پاؤ، تو اس قابو پانے کا شکرانہ اس کو معاف کر دینا قرار دو ۔(نہج البلاغہ:حکمت۱۰)
96. مَاۤ اَضْمَرَ اَحَدٌ شَیْئًا اِلَّا ظَهَرَ فِیْ فَلَتَاتِ لِسَانِهٖ، وَ صَفَحَاتِ وَجْهِهٖ
جس کسی نے بھی کوئی بات دل میں چھپا کر رکھنا چاہی وہ اس کی زبان سے بے ساختہ نکلے ہوئے الفاظ اور چہرہ کے آثار سے نمایاں ضرور ہو جاتی ہے(نہج البلاغہ:حکمت۲۵)
97. اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ رَمَزَاتِ الْاَلْحَاظِ، وَ سَقَطَاتِ الْاَلْفَاظِ، وَ شَهَوَاتِ الْجَنَانِ، وَ هَفَوَاتِ اللِّسَانِ
پروردگار! تو آنکھوں کے طنزیہ اشاروں اور لفظوں کی لغزشوں اور دل کی بُری خواہشوں اور زبان کی بیہودہ گوئیوں کو معاف کر دے ( نہج البلاغہ:خطبہ ۷۶)
98. اَلْبَخِيْلُ مُسْتَعْجِلٌ لِلْفَقْرِ؛ يَعِيْشُ فِی الدُّنْيَا عَيْشَ الْفُقَرَاءِ، وَيُحَاسَبُ فِی الْآخِرَةِ حِسَابَ الْاَغْنِيَاءِ
بخیل تیزی سے فقر کی طرف بڑھتا ہے ۔ وہ دنیا میں فقیروں کی سی زندگی بسر کرتا ہے اورآخرت میں دولت مندوں کا سا اس سے محاسبہ ہوگا۔
99. لِسَانُ الْعَاقِلِ وَرَآءَ قَلْبِهِ
عقل مند کی زبان اس کے دل کے پیچھے ہے(نہج البلاغہ:حکمت۴۰)
100. وَ قَلْبُ الْاَحْمَقِ وَرَآءَ لِسَانِهٖ
بے قوف کا دل اس کی زبان کے پیچھے ہے(نہج البلاغہ:حکمت۴۰)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button