لائبریری

صدائے علی علیہ السلام

نامِ کتاب: صدائے علی علیہ السلام
تالیف: حجت الاسلام والمسلمین مولانا مقبول حسین علوی
اشاعتِ اول: مارچ ۲۰۱۶
ناشر: مرکزِ افکارِ اسلامی
کتاب ملنے کا پتہ: جامعہ جعفریہ جنڈ ضلع اٹک
فون: 0302-5230406

ابتدائیہ:

بسم اللہ الرحمن الرحیم
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡكُم مَّوۡعِظَةٞ مِّن رَّبِّكُمۡ وَشِفَآءٞ لِّمَا فِي ٱلصُّدُورِ وَهُدٗى وَرَحۡمَةٞ لِّلۡمُؤۡمِنِينَ (سورہ یونس آیہ ۵۷)
اے لوگو! تمہارے پروردگار کی طرف سے یہ قرآن تمہارے لئے موعظہ اور تمہارے دلوں کی بیماری کے لئے شفا اور مومنین کے لئے ہدایت ورحمت بن کر آیا ہے۔
اس آیہ مجیدہ میں قرآن کی پہلی صفت اس کا موعظہ ہونا بیان ہوا ہے۔ موعظہ یعنی نیکیوں کا تذکر اور یاد دہانی، غفلت سے مقابلہ اور بیداری۔ ہر وہ پند و نصیحت جو مخاطب سے محبت کی وجہ سے اسے برائیوں سے ڈرائے اور اس کے دل کو نیکیوں کی طرف متوجہ کرے اُسے وعظ اور موعظہ کہتے ہیں۔ موعظہ غفلت میں ڈوبے ہوئے افراد کو جگا کر علم و حکمت کا چراغ تھما کر قرآن و عترت کی راہ پر چلانے کا نام ہے۔
اللہ سبحانہ تعالی کو یہ عمل اتنا پسند ہے کہ ایک طرف پورے قرآن کو موعظہ قرار دیا ہے اور دوسری طرف جب جناب لقمان جیسوں نے اپنی قوم یا بیٹوں کو نصیحتیں کیں تو انہیں نمونے کے طور پر قرآن کا حصہ بنا دیا۔ جناب لقمان محبتِ پدری کے تقاضے نبھاتے ہوئے اپنے بیٹے کے عقیدے و عمل اور اخلاق و اخلاص کی اصلاح کرتے ہیں تو رب اسے یوں بیان فرما تا ہے:
وَإِذۡ قَالَ لُقۡمَٰنُ لِٱبۡنِهِۦ وَهُوَ يَعِظُهُۥ يَٰبُنَيَّ لَا تُشۡرِكۡ بِٱللَّهِۖ إِنَّ ٱلشِّرۡكَ لَظُلۡمٌ عَظِيمٞ
(سورہ لقمان:۱۳)
’’اس وقت کو یاد کرو جب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا جب وہ اسے وعظ کر رہے تھے۔ بیٹا! کسی چیز کو خدا کا شریک قرار نہ دو کیونکہ شرک بہت بڑاظلم ہے‘‘۔
توحید کی گفتگو سے شروع ہونے والی ان آیات میں جناب لقمان کے پند و نصائح کو موعظہ کہا گیا۔ اس موعظہ میں باپ کا پیار اور محبت بھی جھلک رہی ہے اور مہربان باپ کےفرائض و واجبات کا بھی پتہ چل رہا ہے۔ موعظہ وتبلیغ کی روش بھی پیش کی جا رہی ہے اور جوان اولاد کے ساتھ کس لہجہ میں بات کی جائے اس کا سلیقہ بھی سکھایا جا رہا ہے۔ موعظہ کی بنیاد توحید کو قرار دیا گیا اور والدین سے سلوک و برتاؤ کو اس کا اثر بتایا گیا ہے۔
قرآن مجید میں اس اندازِ موعظہ کو بار بار بیان کیا گیا ہے۔ کبھی انبیا اپنی قوم کو موعظہ فرماتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور جس طرح نوح جیسا باپ اپنے گناہ گار بیٹے کو بلاتا ہوا سنائی دیتا ہے۔ کبھی جناب یوسف ظلم و زیادتی کرنے والے بھائیوں سے نصیحت آمیز باتیں کرتے نظر آتے ہیں اور کبھی قرآن کریم میں جناب شعیب کا اپنی بیٹیوں سے گفتگو کرنا بیان ہوتا ہے۔
قرآن کو خالق نے موعظہ بنا کر بھیجا ہے۔ قرآن اول سے آخر تک موعظہ و نصیحت ہے۔ قرآن اللہ تک پہنچنے کے قوانین و ضوابط بتاتا ہے۔ قرآن رضائے خدا کی راہیں دکھاتا ہے۔
مگر پروردگارا! سوال یہ ہے کہ اس موعظہ کی وضاحت و تفسیر اور علمی و عملی مثال کہاں سے ملے گی؟ خداوندا اس راہ پر چل کر ہمیں منزلِ مقصود پر کون پہنچائے گا؟ اس راہ کے راہزنوں سے بچنے کی راہنمائی کون کرے گا؟
خلوصِ قلب سے یہ سوال دہرانے والے کو یقینا اس ہستی کی ، جس ہستی کے قلب پر یہ قرآن اترا تھا اس صداکی گونج سنائی دے گی:
’’عَلِیٌّ مَعَ القَرآنِ وَ القُرآنُ مَعَ عَلِیّ‘‘
علی قرآن کے ساتھ اور قرآن علی کے ساتھ ہے۔
اس موعظہ کی علمی تفصیل جاننی ہے یا عملی تصویر دیکھنی ہے تو خود یہ شاگرد عظیمِ مصطفیٰ جناب علی مرتضی کہتے نظر آتے ہیں:
’’ فَتَأَسَّ بِنَبِيِّكَ الْأَطْيَبِ الْأَطْهَرِ ( صلى الله عليه وآله ) فَإِنَّ فِيهِ أُسْوَةً لِمَنْ تَأَسَّى وَ عَزَاءً لِمَنْ تَعَزَّى وَ أَحَبُّ الْعِبَادِ إِلَى اللَّهِ الْمُتَأَسِّي ‘‘ (نہج البلاغہ خطبہ۱۵۸)
تم اپنے پاک و پاکیزہ نبی کی پیروی کرو چونکہ ان کی ذات اتباع کرنے والے کے لئے نمونہ اور صبر کرنے والے کے لئے ڈھارس ہے۔ ان کی پیروی کرنے والا اور ان کے نقش قدم پر چلنے والا ہی اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔
موعظہ الہی قرآن سے اپنا تعلق بتاتے ہوئے جناب امیر المومنین ؑ فرماتے ہیں:
’’ فَاسْتَنْطِقُوهُ وَ لَنْ يَنْطِقَ وَ لَكِنْ أُخْبِرُكُمْ عَنْهُ ‘‘ (نہج البلاغہ خطبہ۱۵۶)
ترجمہ: اس قرآن سے پوچھو لیکن یہ بولے گا نہیں البتہ میں تمہیں اُس کی طرف سے خبر دیتا ہوں۔
پیغمبر اکرم ؐ نے فرمایا تھا علی مع القرآن تو خود جناب امیر المومنینؑ ارشاد فرماتے ہیں:
’’ وَ إِنَّ الْكِتَابَ لَمَعِي مَا فَارَقْتُهُ مُذْ صَحِبْتُهُ ‘‘ (نہج البلاغہ خطبہ ۱۲۰)
ترجمہ: اور کتابِ خدا میرے ساتھ ہے اور جب سے میرا اس کا ساتھ ہوا ہے میں اس سے الگ نہیں ہوا۔
قرآن مجید کی عظمت کے لئے خطبہ بیان فرمایا اور اس کی ابتداء میں اسے موعظہ کے نام سے یاد فرمایا:
’’ انْتَفِعُوا بِبَيَانِ اللَّهِ وَ اتَّعِظُوا بِمَوَاعِظِ اللَّهِ ‘‘ (خطبہ:۱۷۴)
ترجمہ: خدا وند ِ عالم کے ارشادات سے فائدہ اٹھاؤ اور اس کے مواعظ سے نصیحت حاصل کرو۔
قرآن مجید یعنی اس موعظہ الہی کی باریکیوں کو لسان علوی سے سننے کے لئے ان اوراق میں نہج البلاغہ سے کچھ فرامین کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اس امید کے ساتھ کہ یہ کلمات نہج البلاغہ سے آشنائی کا ذریعہ بنیں گے اور اما م ؑکی ذات کی طرح آپ کا کلام بھی مظلوم ہے وہ عام ہو گا اور ان مواعظ سے کمالِ انسانیت کی راہیں بھی روشن ہوں گی۔
امیر المومنین کے کلام کا جو حصہ سید رضی نے جمع کیا اور نہج البلاغہ کا نام دیا، اس کا آدھے سے زیادہ حصہ موعظہ پر مبنی ہے۔ امام عالی مقامؑ کبھی ھمام کے سوال کے جواب میں، کبھی حارث ہمدانی کو تلقین کی صورت میں، کبھی جناب سلمان فارسی کو ہدایت کے انداز میں، کبھی مالک اشتر کی راہنمائی میں، کبھی ابوذر کی حوصلہ افزائی میں۔ کبھی حسان مجتبیٰؑ کو تحریر میں، کبھی محمد حنفیہ کو ہنر ِجنگ کے انداز میں، کبھی کمیل کے ساتھ راز و نیاز میں، کبھی حسنین شریفین ؑ کو وصیت کی صورت میں، کبھی عثمان بن حنیف کو تنبیہ کے طریقے سے، کبھی افراد کو اور کبھی پوری قوم کو خطاب کی صورت میں موعظہ فرماتے ہیں۔
ان رقت آمیز نصیحتوں اور دلسوزی کی روح پرور صداؤں کو کبھی نوف بکالی نقل کرتے ہیں کہ ’’کوفہ میں پتھر پر کھڑے تھے، جسم مبارک پر اونی جبہ تھا، تلوار کا نیام کھجور کے پتوں کا تھا، پیروں میں جوتے بھی کھجور کی پتیوں کے تھے، پیشانی پر سجدوں کے نشان تھے، نوف کہتے ہیں ایک مقام پر پہنچ کر امام نے اپنا ہاتھ ریش مبارک پر پھیرا اور دیر تک روتے رہے اور پھر فرمایا:
أَيْنَ إِخْوَانِيَ الَّذِينَ رَكِبُوا الطَّرِيقَ وَ مَضَوْا عَلَى الْحَقِّ أَيْنَ عَمَّارٌ وَ أَيْنَ ابْنُ التَّيِّهَانِ وَ أَيْنَ ذُو الشَّهَادَتَيْنِ وَ أَيْنَ نُظَرَاؤُهُمْ مِنْ إِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ تَعَاقَدُوا عَلَى الْمَنِيَّةِ وَ أُبْرِدَ بِرُءُوسِهِمْ إِلَى الْفَجَرَةِ۔ (نہج البلاغہ :خطبہ ۱۸۰)
آہ! کہاں ہیں؟ وہ میرے بھائی کہ جو سیدھی راہ پر چلتے رہے۔ اورحق پر گزرگئے کہاں ہیں؟ عمار اور کہاں ہیں؟ ابن تیہان اور کہاں ہیں؟ ذوالشہا دتین او رکہاں ہیں ان کے ایسے دوسرے بھائی کہ جو مرنے پر عہد و پیمان باندھے ہوئے تھے اور جن کے سروں کو فاسقوں کے پاس روانہ کیا گیا۔
کبھی ضرارجیسے اصحاب ان موعظوں کو حاکم شام کے سامنے بیان کرتے ہیں۔ ضرار بن ضمرہ کہتے ہیں:
’’رات اپنے دامنِ ظلمت کو پھیلا چکی تھی، علی علیہ السلام محرابِ عبادت میں کھڑے ریش مبارک کو ہاتھوں میں پکڑے ہوئے سانپ کے ڈسے ہوئے کی طرح تڑپ رہے تھے اور غم رسیدہ کی طرح رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے:
’’ اے دنیا ! اے دنیا دور ہو مجھ سے۔ کیامیرے سامنے اپنے کو لاتی ہے؟ یا میری دلدادہ و فریفتہ بن کر آئی ہے۔ تیرا وہ وقت نہ آئے (کہ تو مجھے فریب دے سکے)بھلا یہ کیونکر ہو سکتا ہے ,جاکسی اور کو جل دے مجھے تیری خواہش نہیں ہے۔ میں تو تین بار تجھے طلاق دے چکا ہوں کہ جس کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں۔ تیری زندگی تھوڑی , تیری اہمیت بہت ہی کم اور تیری آرزو ذلیل و پست ہے افسوس زادِ راہ تھوڑا , راستہ طویل سفر دور دراز اور منزل سخت ہے ‘‘
ان مواعظ سے سوئی ہوئی عقلوں کو بیدار کر کے علی علیہ السلام صدائیں دیتے ہیں:
’’ أَعِينُونِي بِوَرَعٍ وَ اجْتِهَادٍ وَ عِفَّةٍ وَ سَدَادٍ ‘‘ (نہج البلاغہ خط ۴۵)
پرہیز گاری، سعی و کوشش، پاکدامنی اور سلامت روی میں میری مدد کرو۔
خدا وند متعال ہمیں اس قابل بنائے کہ ان مقدس صداؤں کو، امام مظلوم کے نالوں کو، ہدایت کے ان اصولوں کو سن سکیں اور پھر عمل سے لبیک کہہ سکیں۔ جہاں ان فرامین کو اپنی زندگیوں میں اپنانا ضروری ہے اسی طرح دوسروں کو ان فرامین سے مطلع کرنا بھی لازم ہے۔ اگر ہم ان فرامین کو عام کر سکیں تو معصوم خود فرماتےہیں کہ ان میں اتنی تأثیر ہے کہ لوگ ہماری طرف رجوع کریں گے۔

مقبول حسین علوی
(جنوری ۲۰۱۶)

۱۔ حقِ پروردگار

أَقَلُّ مَا يَلْزَمُكُمْ لِلَّهِ أَلَّا تَسْتَعِينُوا بِنِعَمِهِ عَلَى مَعَاصِيهِ۔ (حکمت ۳۳۰)
ترجمہ: اللہ کا کم سے کم حق جو تم پر عائد ہوتا ہے یہ ہے کہ اس کی نعمتوں سے گناہوں میں مدد نہ لو۔
مفتی جعفر حسین صاحب اس کے ذیل میں لکھتےہیں:
کفران نعمت وناسپاسی کے چند درجے ہیں۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان نعمت ہی کی تشخیص نہ کرسکے، جیسے آنکھوں کی روشنی، زبان کی گویائی، کانوں کی شنوائی اور ہاتھ پیروں کی حرکت کہ جو سب اللہ کی بخشی ہوئی نعمتیں ہیں۔ مگر بہت سے لوگوں کو ان کے نعمت ہونے کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان میں شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہو۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ نعمت کو دیکھے اور سمجھے۔ مگر اس کے مقابلہ میں شکر بجا نہ لائے۔ تیسرادرجہ یہ ہے کہ نعمت بخشنے والے کی مخالفت و نافرمانی کرے۔ چوتھا درجہ یہ ہے کہ اسی کی دی ہوئی نعمتوں کو اطاعت و بندگی میں صرف کر نے کے بجائے اس کی معصیت و نافرمانی میں صرف کرے یہ کفران نعمت کا سب سے بڑا درجہ ہے۔

۲۔ اللہ پر اعتماد

لَا يَصْدُقُ إِيمَانُ عَبْدٍ حَتَّى يَكُونَ بِمَا فِى يَدِ اللَّهِ أَوْثَقَ مِنْهُ بِمَا فِى يَدِهِ (حکمت ۳۱۰)
ترجمہ: کسی بندے کا ایمان اس وقت تک سچا نہیں ہوتا جب تک اپنے ہاتھ میں موجود ہونے والے مال سے اس پر زیادہ اطمینان نہ ہو جو قدرت کے ہاتھ میں ہے۔
مادی وسائل ہوں یا معنوی ذرائع ان کا عطا کرنے والا اللہ ہے۔ انسان کو مادی امور میں اللہ پر بھروسہ ہو گا تو وہ اس کے بتائے ہوئے طریقوں پر سخاوت مندانہ انداز سے خرچ کرے گا اور خدا کی راہ میں خرچ کر کے مطمئن ہو گا کہ میں نے اپنے مال کو مضبوط ہاتھوں میں دے دیا ہے۔ اس لئے کہ اللہ سبحانہ کا قرآن مجید میں وعدہ ہے کہ:
’’ مَا عِندَكُمۡ يَنفَدُ وَمَا عِندَ ٱللَّهِ بَاقٖۗ ‘‘(سورہ نحل :۹۶)
جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہو جائے گا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔
اور معنوی طور پر بھی وہ بڑے سے بڑے کارِ خیر کو انجام دے کر مطمئن نہیں ہو گا اور نہ اس پر مغرور ہو گا بلکہ جناب ابراھیمؑ کی طرح رب کا گھر بنا کر بھی ہاتھ پھیلا کر دعا مانگے گا:
وَإِذۡ يَرۡفَعُ إِبۡرَٰهِ‍ۧمُ ٱلۡقَوَاعِدَ مِنَ ٱلۡبَيۡتِ وَإِسۡمَٰعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّآۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلسَّمِيعُ ٱلۡعَلِيمُ (بقرہ:۱۲۷)
اے ہمارے رب !ہم سے یہ عمل قبول فرما کہ تو خوب سننے والا اور جاننے والا ہے۔

۳۔ رب سے تعلق

مَنْ أَصْلَحَ سَرِيرَتَهُ أَصْلَحَ اللَّهُ عَلَانِيَتَهُ، وَ مَنْ عَمِلَ لِدِينِهِ كَفَاهُ اللَّهُ أَمْرَ دُنْيَاهُ، وَ مَنْ أَحْسَنَ فِيمَا بَيْنَهُ وَ بَيْنَ اللَّهِ، أَحْسَنَ اللَّهُ مَا بَيْنَهُ وَ بَيْنَ النَّاسِ.(حکمت:۴۲۳)
ترجمہ: جو اپنے اندرونی حالات کو درست رکھتا ہے خدا اس کے ظاہر کو بھی درست کر دیتا ہے۔ اور جو دین کے لیے سرگرم عمل ہوتا ہے، اللہ اس کے دنیا کے کاموں کو پورا کر دیتا ہے اور جو اپنے اور اللہ کے درمیان خوش معاملگی رکھتا ہے۔ خدا اس کے اور بندوں کے درمیان کے معاملات ٹھیک کر دیتا ہے۔ ۔
ایک ضعیف وکمزور اور محتاج و مجبورانسان اُس قادر ِمطلق اور غنی و بے نیاز ذات سے کیسے تعلق رکھے؟ قرآن مجید میں ربِ کریم نے اس تعلق کی راہیں تفصیل سےبیان فرمائی ہیں اور جناب امیر المؤمنینؑ نے باربار اس کی وضاحت فرمائی، اس تعلق ورابطہ کا سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ انسان اپنی کمزوری کو پہچانے اور اس کے کرم کو سمجھے۔ امام علیؑ حمدِ الہی انجام دیتے ہوئے اس مرحلہ کو طے کراتے ہیں، کوئی شخص چاہتا ہے کہ اللہ کو پہچانے تاکہ اس سے تعلق قائم کر سکے تو علیؑ کی حمد الہی کی صدائیں سنے۔
پہلے خطبہ میں ارشاد فرمایا ’’تمام حمد اس اللہ کے لیے ہے‘‘ فورا دوسرے جملے میں فرمایا:’’جس کی مدح و ثنا تک بولنے والے کی رسائی نہیں ہے‘‘(خطبہ:۱)
اُس کی حمد وثنا ءمیں بھی بے بسی کا اقرار خود اس سے تعلق قائم کرنے کا سبب بن جاتا ہے، پھر کریم اللہ حمد و ثناء کے طریقے بتانے کے بہانے بندے سے تعلق قائم کرتا ہے اور حمد کا پورا سورہ نازل فرما دیتا ہے۔ پھر فرماتا ہے مجھ سے تعلق رکھنا چاہتا ہے تو یہ جو حمد کا میں نے طریقہ بتایا ہے اسے نماز کی صورت میں ہر روز دہراتا رہا کر میرا اور تیرا تعلق قائم رہے گا۔
مولاعلیؑ فرماتے ہیں:
دینے پر بھی تیری ہی حمد، دے کر لے لینے پر بھی تیری حمد، صحت و شفا پر بھی تیری حمد اور مرض و ابتلا پر بھی تیری حمد۔ (خطبہ:۱۵۸)
اس رب سے تعلق رکھنا بڑا آسان ہے۔ ہر کام سے پہلے اس سے پوچھ لیں کیا اس پر تو راضی ہےاگر فرمائے ہاں تو کر لیں اگر روک دے تو رک جائیں، جو وہ فیصلہ کرے اس پر راضی رہےیہی اس سے تعلق کا راز ہے۔
امامؑ فرماتے ہیں:
رَضِينَا عَنِ اللَّهِ قَضَاءَهُ، وَ سَلَّمْنَا لِلَّهِ أَمْرَهُ (خطبہ:۳۷)
ترجمہ: ہم اللہ کے فیصلوں پر راضی ہیں اور اس کے امر کے سامنے سرِ تسلیم خم ہیں۔
پروردگارا !ہمیں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی صداؤں پر لبیک کہنے کی توفیق دے اور اپنی ذات سے اسی وسیلہ کے ذریعہ تعلق محکم فرما۔ (الہی اٰمین)

۴۔ قرآن سے سبق

اللَّهَ اللَّهَ فِي الْقُرْآنِ لَا يَسْبِقُكُمْ بِالْعَمَلِ بِهِ غَيْرُكُمْ (خط:۴۷)
قرآن کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا ایسا نہ ہو کہ دوسرے اِس پر عمل کرنے میں تم پر سبقت لے جائیں۔
نہج البلاغہ میں قرآن کے جو فضائل بیان ہوئے وہ کہیں اور نہیں ملیں گے، ایک ایک خطبہ میں چالیس چالیس فضائل اور ان میں سے ہر ایک جملے میں اتنی فصاحت و بلاغت جسے علیؑ ہی بیان کر سکتے ہیں۔

مولا علیؑ فرماتے ہیں:
قرآن ایسا چراغ ہے جس کی لَو خاموش نہیں ہوتی، ایسا دریا ہے جس کی تھاہ نہیں لگائی جا سکتی۔ وہ اسلام کا سنگِ بنیاد اور اس کی اساس ہے۔ اللہ نے اسے علماء کی پیاس بجھانے اور فقیہوں کے دلوں کی بہار اور نیک و صالح افراد کے گزرنے کے لیے شاہراہ بنایا ہے۔ (خطبہ:۱۹۶)
ایک مقام پر امیرالمؤمنین حضرت علی ؑفرماتے ہیں:
’’قرآن کے ذریعہ سےرب سے مانگو اور اور قرآن کی محبت سے رب تک پہنچو۔ پروردگار تک پہنچنے کے لیے اسے دلیل ِ راہ بناؤ اور اپنے نفسوں کے لیے اس سے پند و نصیحت حاصل کرو‘‘۔ (خطبہ:۱۷۴)
امیر المؤمنینؑ اپنی آخری وصیت میں ایک تمنا رکھتے ہیں جس کا اظہار یوں فرمایا کہ ’’اس پر عمل کرنے میں آپ سے کوئی بڑھ نہ جائے‘‘
متقی کی صفات بیان کرتے ہوئے امام علیؑ فرماتے ہیں:
’’رات ہوتی ہے تو اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر قرآن کی آیتوں کی ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرتے ہیں، جس سے اپنے دلوں میں غم و اندوہ تازہ کرتے ہیں اور اپنے مرض کا چارہ ڈھونڈھتے ہیں، جب کسی ایسی آیت پر ان کی نگاہ پڑتی ہے جس میں جنت کی ترغیب دلائی گئی ہوتو ا س کے طمع میں ادھر جھک پڑتے ہیں اور اس کے اشتیاق میں ان کے دل تابانہ کھنچتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ (پر کیف )منظر ان کی نظروں کے سامنے ہے اور جب کسی ایسی آیت پر ان کی نظر پڑتی ہے کہ جس میں (دوزخ سے )ڈرایا گیا ہو، تو اس کی جانب دل کے کانوں کو جھکا دیتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ جہنم کے شعلوں کی آواز اور وہاں کی چیخ و پکار ان کے کانوں کے اندر پہنچ رہی ہے‘‘(خطبہ:۱۹۱)
پروردگارا! ہمیں قرآن کی تلاوت میں اندازِ متقی کو اپنانے اور دستور العمل کی پیروی میں علیؑ کی وصیت پوری کرنے کی توفیق عطا فرما۔ الہی اٰمین

۵۔ سیرت النبیؐ

وَ لَقَدْ كَانَ فِي رَسُولِ اللَّهِ(صلى الله عليه وآله) كَافٍ لَكَ فِي الْأُسْوَةِ (خطبہ:۱۵۸)
ترجمہ: تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول و عمل پیروی کے لیے کافی ہے۔
نہج البلاغہ میں امیر المؤمنینؑ نے نبی کی زندگی کے مختلف پہلو بیان فرمائے۔ سب سے زیادہ آپؐ کے سببِ بعثت کو بیان فرمایا اور اسے اللہ سبحانہ کی نعمت و رحمت کے عنوان سے یاد کیا۔ مقصد بعثت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’اللہ سبحانہ نے محمد ؐ کو حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اُس کے بندوں کو محکم و واضح قرآن کے ذریعہ سے بتوں کی پرستش سے خدا کی عبادت کی طرف، اور شیطان کی اطاعت سے خدا کی اطاعت کی طرف نکال لے جائیں(خطبہ:۱۴۵)
اس خطبہ میں امامؑ نے جناب موسیٰ کلیم اللہ ؑکا بیان، جناب داودؑ کا تذکرہ اور جنابِ عیسیٰؑ کی یاد کے بعد تفصیل سے نبی اکرمؐ کی سیرت پر روشنی ڈالی۔

امام علیؑ فرماتے ہیں:
’’تم اپنے پاک و پاکیزہ نبیؐ کی پیروی کرو چونکہ ان کی ذات اتباع کرنے والے کے لیے نمونہ اور صبر کرنے والے کے لیے ڈھارس ہے، ان کی پیروی کرنے والا اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والا ہی اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اگر ہم میں صرف یہی ایک چیز ہو کہ ہم اُس شے کو چاہنے لگیں جسے اللہ اوراس کا رسولؐ برا سمجھتے ہیں اور اس چیز کو بڑا سمجھنے لگیں جسے وہ حقیر سمجھتے ہیں تو اللہ کی نافرمانی اور اس کے حکم سے سرتابی کے لیے یہی بہت ہے۔ پیروی کرنے والے کو چاہیئے کہ آپؐ کی پیروی کرے اور ان کے نشانِ قدم پر چلے اور انہی کی منزل میں آئے ورنہ ہلاکت سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ یہ اللہ کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں ایک پیشرو و پیشوا جیسی نعمتِ عظمیٰ بخشی کہ جن کی ہم پیروی کرتے ہیں اور ان کے قدم بقدم چلتے ہیں‘‘(خطبہ:۱۵۸)
نبی اکرم ؐکی سیرت کی پیروی کا حکم دیتے ہوئے مولا علیؑ صدا دے کر فرماتے ہیں، سنو مجھ علیؑ کی سنو:
پیغمبر ؐ کے وہ اصحاب جو احکامِ شریعت کے امین ٹھہرائے گئے تھے اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ میں نے کبھی ایک آن کے لئے بھی اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام سے سرتابی نہیں کی اور میں نے اس جوانمردی کے بل بوتے پر کہ جس سے اللہ نے مجھے سرفراز کیا ہے، پیغمبر کی دل و جان سے ان موقعوں پر مدد کی جن موقعوں سے بہادر جی چرا کر بھاگ کھڑے ہوتے تھے اور قدم آگے کے بجائے پیچھے ہٹ جاتے تھے۔ (خطبہ:۱۹۵)
امیر المؤمنینؑ اپنے چاہنے والوں سے یہی چاہتے ہیں کہ آپ بھی یونہی نبی ؐکی سیرت کی پیروی کرو یعنی جس طرح میں اتباع کرتا ہوں۔

۶۔ اتباعِ اہل بیت

فَأَيْنَ تَذْهَبُونَ وَ أَنَّى تُؤْفَكُونَ وَ الْأَعْلَامُ قَائِمَةٌ وَ الْآيَاتُ وَاضِحَةٌ وَ الْمَنَارُ مَنْصُوبَةٌ فَأَيْنَ يُتَاهُ بِكُمْ وَ كَيْفَ تَعْمَهُونَ وَ بَيْنَكُمْ عِتْرَةُ نَبِيِّكُمْ وَ هُمْ أَزِمَّةُ الْحَقِّ وَ أَعْلَامُ الدِّينِ وَ أَلْسِنَةُ الصِّدْقِ فَأَنْزِلُوهُمْ بِأَحْسَنِ مَنَازِلِ الْقُرْآنِ وَ رِدُوهُمْ وُرُودَ الْهِيمِ الْعِطَاشِ.(خطبہ ۸۵)
ترجمہ: اب تم کہاں جا رہے ہو اور تمہیں کدھر موڑا جا رہا ہے؟ حالانکہ ہدایت کے جھنڈے بلند، نشانات ظاہر و روشن اور حق کے مینار نصب ہیں اور تمہیں کہاں بہکایا جا رہا ہے اور کیوں ادھر ادھر بھٹک رہے ہو؟ جبکہ تمہارے نبیؐ کی عترت تمہارے اندر تمہارے اندر موجود ہے جو حق کی باگیں، دین کے پرچم اور سچائی کی زبانیں ہیں، جو قرآن کی بہتر سے بہتر منزل سمجھ سکو وہیں انہیں بھی جگہ دو اور پیاسے اونٹوں کی طرح ان کے سرچشمۂ ہدایت پر اترو۔
امیر المؤمنینؑ کے ان فرامین کی صدائیں نہج البلاغہ کے ذریعہ ہر ذی شعور قریب سے سن سکتا ہے۔ علیؑ کا موعظہ تو ہر کسی کے لیے ہے۔ اہلسنت عالم شیخ محمد عبدہ نہج البلاغہ کی شرح کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:’’علیؑ ایک صاحب انصاف حاکم، شب زندہ دار عابد، محراب میں گریاں، میدان میں خندان، غضب ناک سپاہی، شفیق و مہربان سرپرست، دور اندیش حکیم، لائق سپہ سالار، معلم، خطیب، قاضی، مفتی، کسان اور ادیب ہےگویا وہ ایک انسانِ کامل ہے جو بشریت کی تمام دنیاؤں پر چھایا ہوا ہے‘‘۔
محمد عبدہ نے صحیح کہا ہےواقعا علیؑ ایک انسانِ کامل ہیں اور انسان کامل کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کو بھی باکمال دیکھنا چاہتا ہے۔
امیر المؤمنینؑ فرماتے ہیں:
وَ أَنَا أَطْمَعُ أَنْ تَلْحَقَ بِي طَائِفَةٌ فَتَهْتَدِيَ بِي وَ تَعْشُوَ إِلَى ضَوْئِي وَ ذَلِكَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَقْتُلَهَا عَلَى ضَلَالِهَا وَ إِنْ كَانَتْ تَبُوءُ بِآثَامِهَا۔ (خطبہ۵۵)
ترجمہ: مجھے تو اس کی طمع ہے کہ شاید کوئی گروہ مجھ سے آ کر مل جائے اور میری وجہ سے ہدایت پا جائے اور اپنی چندھیائی ہوئی آنکھوں سے میری روشنی کو بھی دیکھ لے اور مجھے یہ چیز گمراہی کی حالت میں انہیں قتل کر دینے سے کہیں زیادہ پسند ہے۔ اگرچہ اپنے گناہوں کے ذمہ دار بہر حال یہ خود ہوں گے۔
امامؑ نے بار بار زور دیا کہ آؤ ہمارے ساتھ مل جاؤ تاکہ ہم آپ کو بھی کمالِ انسانی کی منازل طے کرا دیں۔
ایک مقام پر آپؑ کا دعوت الی الحق دینے کا انداز دیکھیں:
انْظُرُوا أَهْلَ بَيْتِ نَبِيِّكُمْ فَالْزَمُوا سَمْتَهُمْ وَ اتَّبِعُوا أَثَرَهُمْ فَلَنْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ هُدًى وَ لَنْ يُعِيدُوكُمْ فِي رَدًى فَإِنْ لَبَدُوا فَالْبُدُوا وَ إِنْ نَهَضُوا فَانْهَضُوا وَ لَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَضِلُّوا وَ لَا تَتَأَخَّرُوا عَنْهُمْ فَتَهْلِكُوا. (خطبہ۹۵)
ترجمہ: اپنے نبیﷺ کے اہل بیت کو دیکھو، ان کی سیرت پر چلو، اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرو۔ وہ تمہیں ہدایت سے باہر نہیں ہونے دیں گے۔ اور نہ گمراہی و ہلاکت کی طرف پلٹائیں گے اگر وہ کہیں ٹھہریں، تو تم بھی ٹھہر جاؤ اور اگر وہ انہیں تو تم بھی اٹھ کھڑے ہو۔ ان سے آگے نہ بڑھ جاؤ، ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے اور نہ (انہیں چھوڑ کر) پیچھے رہ جاؤ ورنہ تباہ ہو جاؤ گے۔

۷۔ صدائےعلی علیہ السلام

لَنْ يُسْرِعَ أَحَدٌ قَبْلِي إِلَى دَعْوَةِ حَقٍّ وَ صِلَةِ رَحِمٍ وَ عَائِدَةِ كَرَمٍ فَاسْمَعُوا قَوْلِي وَ عُوا مَنْطِقِي (خطبہ:۱۳۷)
ترجمہ: مجھ سے پہلے تبلیغِ حق، صلہ رحم اور جود وکرم کی طرف کسی نے بھی تیزی سے قدم نہیں بڑھایا، لہذا تم میرے قول کو سنو اور میری باتوں کو یاد رکھو۔
بارہا بھری محفلوں میں کھڑے ہو کر امیر المؤمنینؑ اپنے فضائل بیان کرتے ہیں۔ نہج البلاغہ میں ایک سو چھبیس سے زیادہ مقامات پر اپنے فضائل بیان کئے۔ اور شیخ صدوق علیہ الرحمہ اپنی کتاب الخصال میں لکھتے ہیں کبھی تینتالیس تو کبھی ستر فضائل بیان فرما کر قسم دے کر پوچھتے تھے کیا میرے علاوہ بھی کوئی ان فضائل کا حامل ہےاور کبھی طویل تحریروں میں اپنی عظمتیں بیان کرتے ہیں اور پھر خود وضاحت فرماتے ہیں:
میں اپنی تعریف تو نہیں کر رہا بلکہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو بیان کر رہا ہوں اور اللہ نے اپنی نعمات کے بیان کا حکم دیا ہے اور جو فضائل بیان سے رہ گئے وہ اللہ کی کتاب قرآن نے ہمارے لئے بیان کر دئے۔ (خط:۲۸)
امام ؑ نے اس خطبہ ۱۳۷ کے کلمات بھی ایک خاص محفل میں بیان فرمائے۔ ابتدا میں آپؑ نے اپنے فضائل بیان فرمائے اپنا مقام بتایا اور پھر اپنی پیروی و اتباع کی دعوت ان الفاظ میں دی:
’’میرے قول و بات کو سنو اور میری منطق و گفتگو کو یاد اور محفوظ کر لو گویا فضائل کا بیان اس لئے فرما رہے ہیں تاکہ دعوت دیں کہ ایسے ہی صاحب فضیلت کی اطاعت و پیروی ہونی چاہئے۔
امام ؑ بظاہر تو اس مجلس میں موجود افراد کے سامنے فضائل بیان فرما کر انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ میری بات سنو اورمیری نصیحتوں کو قبول کرو اور حقیقت میں قیامت تک انسانوں کو دعوت دی جا رہی ہے کہ ایسے ہی صاحب ِ فضیلت کی بات کو سنا جائے تو کامیابی و کامرانی حاصل ہوتی ہے۔
اسی خطبہ میں امامؑ نے نافرمانی کرنے کا ضرر اورنقصان بھی بیان کیا۔
ایک مقام پر امام ؑ نافرمانی کرنے والوں کو سخت الفاظ میں سرزنش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
أَقُومُ فِيكُمْ مُسْتَصْرِخاً وَ أُنَادِيكُمْ مُتَغَوِّثاً فَلَا تَسْمَعُونَ لِي قَوْلًا وَ لَا تُطِيعُونَ لِي أَمْراً (خطبہ ۳۹)
میرا ایسے لوگوں سے سابقہ پڑا ہے جنہیں حکم دیتا ہوں تو مانتے نہیں۔ بلاتا ہوں، تو آواز پر لبیک نہیں کہتے۔ تمہارا بُرا ہو۔ اب اپنے اللہ کی نصرت کرنے میں تمہیں کس چیز کا انتظار ہے۔ کیا دین تمہیں ایک جگہ اکھٹا نہیں کرتا اور غیرت و حمیت تمہیں جوش میں نہیں لاتی؟میں تم میں کھڑا ہو کر چلاتا ہوں اور مدد کے لیے پکارا ہوں، لیکن تم نہ میری کوئی بات سنتے ہو، نہ میرا کوئی حکم مانتے ہو یہاں تک کہ ان نافرمانیوں کے بُرے نتائج کھل کر سامنے آجائیں۔ نہ تمہارے ذریعے خون کا بدلا لیا جا سکتا ہے، نہ کسی مقصد تک پہنچا جا سکتا ہے۔ میں نے تم کو تمہارے ہی بھائیوں کی مدد کے لیے پکارا تھا مگر تم اس اونٹ کی طرح بلبلا نے لگے جس کی ناف میں درد ہو رہا ہو اور اس لاغر کمزور شتر کی طرح ڈھیلے پڑ گئے جس کی پیٹھ زخمی ہو پھر میرے پاس تم لوگوں کی ایک چھوٹی سی متزلزل و کمزور فوج آئی اس عالم میں کہ گویا اسے اس کی نظروں کے سامنے موت کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔
اس خطبہ میں گویا امام نے اپنا مرثیہ خود پڑھا ہے۔ ایسا عظیم امام اور یوں بے توجہی اور نافرمانی؟وہ امام جس کی اطاعت کو اطاعتِ اولی الامر کے عنوان سے اللہ اور رسول کی اطاعت کے ساتھ قرآن نے بیان کیا ہو، امامت کی تعظیم کا ثبوت تو اطاعت امام ہی ہے، خود امام نے فرمایا:
فَرَضَ اللَّهُ الْإِيمَانَ تَطْهِيراً مِنَ الشِّرْكِ وَ الصَّلَاةَ تَنْزِيهاً عَنِ الْكِبْرِ وَ الزَّكَاةَ تَسْبِيباً لِلرِّزْقِ وَ الصِّيَامَ ابْتِلَاءً لِإِخْلَاصِ الْخَلْقِ وَ الْحَجَّ تَقْرِبَةً لِلدِّينِ وَ الْجِهَادَ عِزّاً لِلْإِسْلَامِ وَ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ مَصْلَحَةً لِلْعَوَامِّ وَ النَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ رَدْعاً لِلسُّفَهَاءِ وَ صِلَةَ الرَّحِمِ مَنْمَاةً لِلْعَدَدِ وَ الْقِصَاصَ حَقْناً لِلدِّمَاءِ وَ إِقَامَةَ الْحُدُودِ إِعْظَاماً لِلْمَحَارِمِ وَ تَرْكَ شُرْبِ الْخَمْرِ تَحْصِيناً لِلْعَقْلِ وَ مُجَانَبَةَ السَّرِقَةِ إِيجَاباً لِلْعِفَّةِ وَ تَرْكَ الزِّنَى تَحْصِيناً لِلنَّسَبِ وَ تَرْكَ اللِّوَاطِ تَكْثِيراً لِلنَّسْلِ وَ الشَّهَادَاتِ اسْتِظْهَاراً عَلَى الْمُجَاحَدَاتِ وَ تَرْكَ الْكَذِبِ تَشْرِيفاً لِلصِّدْقِ وَ السَّلَامَ أَمَاناً مِنَ الْمَخَاوِفِ وَ الْأَمَانَةَ نِظَاماً لِلْأُمَّةِ وَ الطَّاعَةَ تَعْظِيماً لِلْإِمَامَةِ۔ (حکمت:۲۵۲)
ترجمہ: ’’خداوند عالم نے ایمان کا فریضہ عائد کیا شرک کی آلودگیوں سے پاک کرنے کے لیے اور نماز کو فرض کیا رعونت سے بچانے کے لیے اور زکوۃ کو رزق کے اضافہ کا سبب بنانے کے لیے اور روزہ کو مخلوق کے اخلاص کو آزمانے کے لیے اور حج کو دین کو تقویت پہنچانے کے لیے اور جہاد کو اسلام کو سرفرازی بخشنے کے لیے اور امر بالمعروف کو اصلاحِ خلائق کے لیے اور نہی عن المنکر کو سرپھروں کی روک تھام کے لیے اور حقوقِ قرابت کے ادا کرنے کو (یار و انصار کی) گنتی بڑھانے کے لیے اور قصاص کو خونریزی کے انسداد کے لیے اور حدود شرعیہ کے اجراء کو محرمات کی اہمیت قائم کرنے کے لیے اور شراب خوری کے ترک کو عقل کی حفاظت کے لیے اور چوری سے پرہیز کو پاک بازی کا باعث ہونے کے لیے اور زنا سے بچنے کو نسب کے محفوظ رکھنے کے لیے اور اغلام کے ترک کو نسل بڑھانے کے لیے اور گواہی کو انکارِ حقوق کے مقابلہ میں ثبوت مہیا کرنے کے لیے اور جھوٹ سے علیحدگی کو سچائی کا شرف آشکارا کرنے کے لیے اور قیامِ امن کو خطروں سے تحفظ کے لیے اور امانتوں کی حفاظت کو امت کا نظام درست رکھنے کے لیے اور اطاعت کو امامت کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے(فرض قرار دیا) ‘‘
آیئے امام کے حق کو پہچانیں اور امام کی صدا کو سنیں۔ امام ؑ فرماتے ہیں:
أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ لِي عَلَيْكُمْ حَقّاً وَ لَكُمْ عَلَيَّ حَقٌّ فَأَمَّا حَقُّكُمْ عَلَيَّ فَالنَّصِيحَةُ لَكُمْ وَ تَوْفِيرُ فَيْئِكُمْ عَلَيْكُمْ وَ تَعْلِيمُكُمْ كَيْلَا تَجْهَلُوا وَ تَأْدِيبُكُمْ كَيْمَا تَعْلَمُوا وَ أَمَّا حَقِّي عَلَيْكُمْ فَالْوَفَاءُ بِالْبَيْعَةِ وَ النَّصِيحَةُ فِي الْمَشْهَدِ وَ الْمَغِيبِ وَ الْإِجَابَةُ حِينَ أَدْعُوكُمْ وَ الطَّاعَةُ حِينَ آمُرُكُمْ.(خطبہ:۳۴)
ترجمہ: اے لوگو! ایک تو میرا تم پر حق ہے، اور ایک تمہارا مجھ پر حق ہے کہ میں تمہاری خیر خواہی پیشِ نظر رکھوں اور بیت المال سے تمہیں پورا پورا حصہ دوں اور تمہیں تعلیم دوں تاکہ تم جاہل نہ رہو اور اس طرح تمہیں تہذیب سکھاؤں جس پر تم عمل کرو او رمیرا تم پر یہ حق ہے کہ بیعت کی ذمہ داریوں کو پورا کرو اور سامنے او رپسِ پشت خیر خواہی کرو جب بلاؤں تو میری صدا پر لبیک کہو اور جب کوئی حکم دوں تو اس کی تعمیل کرو۔ وَالۡاِجَابَۃُ حِیۡنَ أدۡعُوۡکَمۡ، جب بلاؤں تو میری صدا پر لبیک کہو۔
اگر امام ؑ کی صدا کو نہ سنا تو نتیجہ خود امامؑ نے بیان فرما دیا:
’’ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ مہربان، باخبر اور تجربہ کار ناصح کی مخالفت کا ثمرہ ونتیجہ حسرت و ندامت ہوتا ہے‘‘۔ (خطبہ:۳۵)
خدا وند متعال ہمیں ہمارے امامؑ کی صداؤں کو سننے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق نصیب فرمائے۔ علیؑ کے گلوئے مبارک سے بلند ہونے والی صدائیں ہی آج کے وقت کے امام کی بھی صدائیں ہیں۔

۸۔ انسانِ کامل

طُوبَى لِمَنْ ذَلَّ فِي نَفْسِهِ وَ طَابَ كَسْبُهُ وَ صَلَحَتْ سَرِيرَتُهُ وَ حَسُنَتْ خَلِيقَتُهُ وَ أَنْفَقَ الْفَضْلَ مِنْ مَالِهِ وَ أَمْسَكَ الْفَضْلَ مِنْ لِسَانِهِ وَ عَزَلَ عَنِ النَّاسِ شَرَّهُ وَ وَسِعَتْهُ السُّنَّةُ وَ لَمْ يُنْسَبْ إلَى الْبِدْعَةِ۔ (حکمت ۱۲۳)
ترجمہ: خوشا نصیب اس کے کہ جس نے اپنے مقام پر فروتنی اختیار کی جس کی کمائی پاک و پاکیزہ نیت نیک اور خصلت و عادت پسندیدہ رہی جس نے اپنی ضرورت سے بچا ہوا مال خدا کی راہ میں صرف کیا بے کار باتوں سے اپنی زبان کو روک لیا، مردم آزادی سے کنارہ کش رہا، سنت اسے ناگوار نہ ہوئی اور بدعت کی طرف منسوب نہ ہوا۔
اللہ سبحانہ تعالی نے انسان کو خلق کیا اور اسے کمال تک پہنچانے کے لئے خود کتابیں نازل فرمائیں اور انبیا ء و رسل کو بھیجا۔ یہ الہی نمائندے اللہ کے بندوں کو کبھی بشارتیں دے کر اللہ کی طرف بلاتے ہیں تو کبھی ڈراور خوف کو تبلیغ کا ذریعہ بناتے ہیں۔
امیر المؤمنینؑ خود فرماتے ہیں:
‏أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي قَدْ بَثَثْتُ لَكُمُ الْمَوَاعِظَ الَّتِي وَعَظَ الْأَنْبِيَاءُ بِهَا أُمَمَهُمْ وَ أَدَّيْتُ إِلَيْكُمْ مَا أَدَّتِ الْأَوْصِيَاءُ إِلَى مَنْ بَعْدَهُمْ. (خطبہ: ۱۸۰)
ترجمہ: اللہ کے بندو ! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں جس نے تم کو لباس سے ڈھانپا اور ہر طرح کا سامان معیشیت تمہارے لےے مہیا کیا اگر کوئی دنیاوی بقاء کی (بلندیوں پر) چڑھنے کا زینہ یا موت کو دور کرنے کا راستہ پاسکتا ہوتا تو وہ سلیمان ابن داؤد (علیہ السلام) ہوتے کہ جن کے لئے نبوت و انتہائے تقرب کے ساتھ جن و انس کی سلطنت قبضہ میں دے دی گئی تھی لیکن جب وہ اپناآب ودانہ پورا اور اپنی مدت(حیات ) ختم کر چکے تو فنا کی کمانوں نے انہیں موت کے تیروں کی زد پر رکھ لیا گھر ان سے خالی ہوگئے اور بستیاں اجڑ گئیں اور دوسرے لوگ ان کے وارث ہو گئے۔
اس حکمت بھرے فرمان میں امامؑ نے ایک صاحب کمال کو آٹھ اوصاف سے یاد کیا۔ گویا راہ واضح فرمائی کہ جو چاہتا ہے علیؑ اس کی مدح سرائی کریں تووہ ان اوصاف کو اپنا لے۔ اور علیؑ کا مورد ِتعریف یقینا صاحب کمال ہی ہو سکتا ہے۔ امامؑ نے کچھ صاحب ِ کمال پیاروں کے نام لے کر ان کی تعریف کی ہے ان کی راہوں کو اپنا کر انسان امام ؑکی تعریف کا مصداق بن سکتا ہے اور کمال ِ انسانی کے مدارج کو درک کر سکتا ہے۔
مالک اشتر کو مصر گورنر بنا کر بھیجا تو مصر والوں کو خط میں مالک کی تعریفیں درج فرمائیں:
’’فانہ لا یقدم ولا یحجم ولا یؤخر و لا یقدم الا عن امری‘‘ مالک میرے حکم کے بغیر نہ آگے بڑھیں گے نہ پیچھے ہٹیں گے۔ نہ کسی کو پیچھے ہٹاتے ہیں نہ آگے بڑھاتے ہیں۔ (خط:۳۸)

۹۔ خوفِ خدا

امیر المؤمنینؑ فرماتے ہیں:
اتَّقُوا مَعَاصِيَ اللَّهِ فِي الْخَلَوَاتِ فَإِنَّ الشَّاهِدَ هُوَ الْحَاكِمُ۔
’’تنہائیوں میں اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرنے سے ڈرو۔ کیونکہ جو گواہ ہے وہی حاکم ہے‘‘۔
بہت سے لوگ کھلے عام گناہ سے گھبراتے ہیں مگر تنہائیوں میں گناہ سے انہیں وہ خوف نہیں ہوتا۔ امام ؑ علی، اللہ سبحانہ تعالی کی ایک خاص صفت کی طرف اشارہ فرما تے ہیں کہ وہ رازوں کو بھی جانتا ہے اور فیصلہ کرنے والا بھی خود ہے تو جیسے کھلے عام گناہوں سے گھبراتے ہو تنہائی میں بھی اسی طرح گناہوں سے دور رہو۔
امامؑ نے اس صفت الہی کو مختلف انداز سے کئی جگہوں پر بیان فرمایا۔
خطبہ ۱۹۶ میں ارشاد فرمایا:
’’وہ بیابانوں میں چوپاؤں کے نالے سنتا ہے۔ تنہائیوں میں بندوں کے گناہوں سے آگاہ ہے۔ گہرے سمندروں میں مچھلیوں کی حرکات اور تُند ہواؤں کے ٹکراؤ سے پانی کے تھپیڑوں کو جانتا ہے‘‘۔
خطبہ ۱۸۰ میں اللہ سبحانہ کے رازوں سے آگاہی کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’پاک و بے نیاز ہے وہ ذات جس پر نہ تاریک رات کی سیاہی مخفی ہے اور نہ ٹھہری ہوئی شب کی تاریکی۔ ۔ وہ ہر قطرہ کے گرنے کی جگہ کو بھی جانتا ہے اور ٹھہرنے کی جگہ بھی۔ ہر چیونٹی کے چلنے کی جگہ سے بھی باخبر ہے اور رینگ کر پہنچنے کے مقام سے بھی۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ مچھر کے لئے کتنی غذا کافی ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ مادّہ اپنے پیٹ میں کیا لئے ہوئے ہے‘‘
خطبہ ۱۹۷ میں امامؑ اپنے اصحاب کو نصیحت فرماتے ہوئے اس صفت کو یوں بیان فرماتے ہیں:
’’پروردگار پر بندوں کے دن و رات کے اعمال میں سے کوئی شے مخفی نہیں ہے۔ وہ تو ہر چھوٹی سی چھوٹی چیز سے آگاہ ہے اور ہر شے پر اس کا علم محیط ہے۔ تمھارے اعضاء اس کے گواہ اور تمہارے ہاتھ پاؤں اس کا لشکر ہیں۔ تمہارے قلب و ضمیر اُس کے جاسوس ہیں اور تمہاری تنہائیاں اس کی نظروں کے سامنے ہیں‘‘
اگر انسان کو اس صفتِ پروردگار کا یقین ہو جائے کہ وہ دیکھ رہا ہے تو انسان بہت سے گناہوں سے بچ سکتا ہے۔ بلکہ پھر انسان تنہائیوںمیں اس رازداں سے راز و نیاز کی باتیں کرے گا۔

۱۰۔ نعمت کا شکر

لَوْ لَمْ يَتَوَعَّدِ اللَّهُ عَلَى مَعْصِيَتِهِ لَكَانَ يَجِبُ أَلَّا يُعْصَى شُكْراً لِنِعَمِهِ (حکمت۲۹۰)
ترجمہ: اگر خدا وند متعال نے اپنی معصیت کے عذاب سے نہ ڈرایا ہوتا، تب بھی اس کی نعمتوں پر شکر کا تقاضا یہ تھا کہ اُس کی معصیت نہ کی جائے۔
انسان کے وجود میں آنے سے پہلے اس کے لئے نعمات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ماں کے سینے میں دودھ، ماں کے دل میں محبت۔ ماں کے بطن سے لے کر زندگی کے آخری لحظہ تک بے شمار نعمات اسے نصیب ہوتی ہیں۔ اگر ان نعمات پر غور کیا جائے کہ یہ نعمات دینے والا کون ہے تویہی سوچ اسے معرفت خدا کی طرف لے جاتی ہے کہ کوئی ہے جو میرے مانگے بغیر مجھے دے رہا ہے۔ اب اُس دینے والے کو پہچانا تو وجدان کا تقاضا یہ ہے کہ اس دینے والےکے فرمان کو سنا جائے اور اس کی ناراضگی اور نافرمانی سے بچا جائے۔

۱۱۔ بیداریٔ نفس

مَنْ أَصْلَحَ مَا بَيْنَهُ وَ بَيْنَ اللَّهِ أَصْلَحَ اللَّهُ مَا بَيْنَهُ وَ بَيْنَ النَّاسِ وَ مَنْ أَصْلَحَ أَمْرَ آخِرَتِهِ أَصْلَحَ اللَّهُ لَهُ أَمْرَ دُنْيَاهُ وَ مَنْ كَانَ لَهُ مِنْ نَفْسِهِ وَاعِظٌ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ اللَّهِ حَافِظٌ. (حکمت۸۹)
ترجمہ: جس نے اپنے اور اللہ کے مابین معاملات کو ٹھیک رکھا، تو اللہ اس کے اور لوگوں کے معاملات سلجھائے رکھے گا اور جس نے اپنی آخرت کو سنوار لیا۔ تو خدا اس کی دنیا بھی سنوار دے گا اور جو خود اپنے کو وعظ و پند کر لے، تو اللہ کی طرف سے اس کی حفاظت ہوتی رہے گی۔
امام ؑ نے اس فرمان میں تین مہم چیزوں کی طرف اشارہ فرمایا۔ تیسرے جملے میں امام نے انسان کے لئے ایک واعظ کا پتہ بتایا جو خود اس کا اپنا نفس ہے اور اس کے اندر موجود ہے۔ انسان کا وجدان اگر بیدار ہو تو ہر گناہ کے وقت وہ نفس اسے پکار کر کہے گا کہ تجھے وجود دینے والا اس کام پر راضی نہیں ہے اور یوں خدا اسے اپنی نافرمانی سے بچا لے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ اندر کے اس واعظ کی حفاظت کی جائے اور اس کی صدا کو سنا جائے۔ قرآن مجید میں اللہ سبحانہ نے اس پر بہت زور دیا کہ کامیاب وہی ہو گا جو اس نفس کو پاک اور محفوظ رکھے گا۔
اس نفس کو بیدار رکھنے کے لئے ایک اور واعظ کا پتہ امیر المؤمنینؑ نے بتایا:
"تمہیں پندو عبرت دینے کے لےے وہی مرنے والے کافی ہیں کہ جنہیں تم دیکھتے رہے ہو، انہیں (کندھوں پر )لا د کر قبر وں کی طرف لے جایا گیا۔ دراں حالانکہ وہ خود سوار نہیں ہو سکتے اور انہیں قبروں میں اتار دیا گیا۔ جب کہ وہ خو د اترنے پر قادر نہ تھے (یوں مٹ مٹا گئے) کہ گویا یہ کبھی دنیا میں بسے ہوئے تھے ہی نہیں اور گویا یہی آخرت (کا گھر) ان کا ہمیشہ سے گھر تھا۔ جسے وطن بنایا تھا۔ اسے سنسان چھوڑ گئے اور جس سے وحشت کھایا کرتے تھے وہا ں اب جا کر سکونت اختیا ر کرنا پڑی۔ ہمیشہ اس کا انتظام کیا جسے چھوڑ نا تھا اور وہاں کی کوئی فکر نہیں کی جہاں جانا تھا۔ (اب ) نہ تو برائیوں سے (توبہ کرکے)پلٹنا ان کے بس میں ہے اور نہ نیکیوں کو بڑھانا ان کے اختیار میں ہے انہوں نے دنیا سے دل لگایا تو اس نے انہیں فریب دیا اور اس پر بھروسا کیا تو اس نے انہیں پچھاڑ دیا، خدا تم پر رحم کرے ان گھروں کی طرف توجہ میں جلدی کرو، جن کے آباد کرنے کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اور جن کا تمہیں شوق دلایا گیا ہے۔ اور جن کی جانب تمہیں بلایا گیا ہے۔ اس کی اطاعت پر صبر اور گناہوں سے کنارہ کشی کر کے اس کی نعمتوں کو جو تم پر ہیں، پایۂ تکمیل تک پہنچاؤ۔ کیو نکہ آنے والا "کل”آج کے دن سے قریب ہے دن کے اندر گھڑیاں کتنی تیز قدم اور مہینوں کے اندرون کتنے تیز رو اور سالوں کے اندر مہینے کتنے تیز گام اور عمر کے اندر سال کتنے تیز رفتار ہیں‘‘۔ ”

۱۲۔ دل کی زندگی

فَإِنِّي أُوصِيكَ بِتَقْوَى اللَّهِ أَيْ بُنَيَّ وَ لُزُومِ أَمْرِهِ وَ عِمَارَةِ قَلْبِكَ بِذِكْرِهِ وَ الِاعْتِصَامِ بِحَبْلِهِ وَ أَيُّ سَبَبٍ أَوْثَقُ مِنْ سَبَبٍ بَيْنَكَ وَ بَيْنَ اللَّهِ إِنْ أَنْتَ أَخَذْتَ بِهِ أَحْيِ قَلْبَكَ بِالْمَوْعِظَةِ وَ أَمِتْهُ بِالزَّهَادَةِ وَ قَوِّهِ بِالْيَقِينِ وَ نَوِّرْهُ بِالْحِكْمَةِ وَ ذَلِّلْهُ بِذِكْرِ الْمَوْتِ وَ قَرِّرْهُ بِالْفَنَاءِ وَ بَصِّرْهُ فَجَائِعَ الدُّنْيَا وَ حَذِّرْهُ صَوْلَةَ الدَّهْرِ وَ فُحْشَ تَقَلُّبِ اللَّيَالِي وَ الْأَيَّامِ وَ اعْرِضْ عَلَيْهِ أَخْبَارَ الْمَاضِينَ وَ ذَكِّرْهُ بِمَا أَصَابَ مَنْ كَانَ قَبْلَكَ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَ سِرْ فِي دِيَارِهِمْ وَ آثَارِهِمْ فَانْظُرْ فِيمَا فَعَلُوا وَ عَمَّا انْتَقَلُوا وَ أَيْنَ حَلُّوا وَ نَزَلُوا فَإِنَّكَ تَجِدُهُمْ قَدِ انْتَقَلُوا عَنِ الْأَحِبَّةِ وَ حَلُّوا دِيَارَ الْغُرْبَةِ وَ كَأَنَّكَ عَنْ قَلِيلٍ قَدْ صِرْتَ كَأَحَدِهِمْ فَأَصْلِحْ مَثْوَاكَ (وصیت ۳۱)
ترجمہ: میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا۔ اس کے احکام کی پابندی کرنا، اس کے ذکر سے قلب کو آباد رکھنا اور اسی کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہنا۔ تمھارے اور اللہ کے درمیان جو رشتہ ہے اس سے زیادہ مضبوط رشتہ کیا ہو سکتا ہے؟ بشرطیکہ مضبوطی سے تھامے رہو۔ وعظ وپند سے دل کو زندہ رکھنا، اور زہد سے اس کی خواہشوں کو مردہ۔ یقین سے اسے سہارا دینا اور حکومت سے اسے پر نور بنانا۔ موت کی یاد سے اسے قابو میں کرنا۔ فنا کے اقرار پر اسے ٹھہرانا۔ دنیا کے حادثے اس کے سامنے لانا۔ گردش روزگار سے اسے ڈرانا گزرے ہوؤں کے واقعات اس کے سامنے رکھنا۔ تمھارے پہلے والے لوگوں پر جو بیتی ہے اسے یاد دلانا۔ ان کے گھروں اور کھنڈروں میں چلنا پھرنا، دیکھنا کے انہوں نے کیا کچھ کیا، کہاں سے کوچ کیا، کہاں اترے، اور کہاں ٹھہرے ہیں، دیکھو گے تو تمہیں صاف نظر آےَ گا کہ وہ دوستوں سے منہ موڑ کر چل دیے ہیں، اور پردیس کے گھر میں جا کر اترے ہیں، اور وہ وقت بھی دور نہیں کہ تمھارا شمار بھی ان میں ہونے لگے۔ لہذا اپنی اصل منزل کا انتظام کرو۔
امامؑ کا یہ طولانی اور تحریری وصیت نامہ ہے۔ امام کا خطاب اپنے بیٹے کو ہے مگر قیامت تک کی انسانیت کے لئے درس اخلاق کا مکمل نصاب ہے۔ تہذیب نفس، خود سازی اور کمال ِ انسانی کی راہوں کی وضاحت ہے۔ بزرگانِ دین یہ وصیت نامہ اپنے بچوں کو یاد کرایا کرتے تھے اس فرمان کا ایک ایک جملہ انسانی سعادت کا ذریعہ ہے۔ وصیت نامہ کے ایک حصہ میں امام ؑ فرماتے ہیں’’ موعظہ و نصیحت سے دل کو زندہ رکھیں‘‘ گویا چلتا پھرتا دل بھی کبھی مردہ ہوجاتا ہےاور ایسے دل کی زندگی کے لئے قرآن کے فرامین، رسول اللہ ؐ کی احادیث اور علیؑ و اولاد علی ؑ کے ارشادات لازم و ضروری ہوتے ہیں۔ زمانے کے حادثات اور انسانی تاریخ کے لمحات بھی اس دل کو جھنجھوڑ کر زندہ و بیدار کر سکتے ہیں خود اس وصیت میں درجنوں ایسے نسخے درج ہیں جو دل کی زندگی کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک ایک پر غور کرنا چاہئے۔ اجڑے محلات اور خاموش قبریں بھی کبھی واعظ بن جاتے ہیں۔

۱۳۔ شیعہ کی صفات

وَ تَمَسَّكْ بِحَبْلِ الْقُرْآنِ وَ اسْتَنْصِحْهُ وَ أَحِلَّ حَلَالَهُ وَ حَرِّمْ حَرَامَهُ وَ صَدِّقْ بِمَا سَلَفَ مِنَ الْحَقِّ وَ اعْتَبِرْ بِمَا مَضَى مِنَ الدُّنْيَا لِمَا بَقِيَ مِنْهَا فَإِنَّ بَعْضَهَا يُشْبِهُ بَعْضاً وَ آخِرَهَا لَاحِقٌ بِأَوَّلِهَا وَ كُلُّهَا حَائِلٌ مُفَارِقٌ وَ عَظِّمِ اسْمَ اللَّهِ أَنْ تَذْكُرَهُ إِلَّا عَلَى حَقٍّ وَ أَكْثِرْ ذِكْرَ الْمَوْتِ وَ مَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَ لَا تَتَمَنَّ الْمَوْتَ إِلَّا بِشَرْطٍ وَثِيقٍ وَ احْذَرْ كُلَّ عَمَلٍ يَرْضَاهُ صَاحِبُهُ لِنَفْسِهِ وَ يُكْرَهُ لِعَامَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَ احْذَرْ كُلَّ عَمَلٍ يُعْمَلُ بِهِ فِي السِّرِّ وَ يُسْتَحَى مِنْهُ فِي الْعَلَانِيَةِ وَ احْذَرْ كُلَّ عَمَلٍ إِذَا سُئِلَ عَنْهُ صَاحِبُهُ أَنْكَرَهُ أَوْ اعْتَذَرَ مِنْهُ وَ لَا تَجْعَلْ عِرْضَكَ غَرَضاً لِنِبَالِ الْقَوْلِ وَ لَا تُحَدِّثِ النَّاسَ بِكُلِّ مَا سَمِعْتَ بِهِ فَكَفَى بِذَلِكَ كَذِباً وَ لَا تَرُدَّ عَلَى النَّاسِ كُلَّ مَا حَدَّثُوكَ بِهِ فَكَفَى بِذَلِكَ جَهْلًا وَ اكْظِمِ الْغَيْظَ وَ تَجَاوَزْ عِنْدَ الْمَقْدَرَةِ وَ احْلُمْ عِنْدَ الْغَضَبِ وَ اصْفَحْ مَعَ الدَّوْلَةِ تَكُنْ لَكَ الْعَاقِبَةُ وَ اسْتَصْلِحْ كُلَّ نِعْمَةٍ أَنْعَمَهَا اللَّهُ عَلَيْكَ وَ لَا تُضَيِّعَنَّ نِعْمَةً مِنْ نِعَمِ اللَّهِ عِنْدَكَ وَ لْيُرَ عَلَيْكَ أَثَرُ مَا أَنْعَمَ اللَّهُ بِهِ عَلَيْكَ وَ اعْلَمْ أَنَّ أَفْضَلَ الْمُؤْمِنِينَ أَفْضَلُهُمْ تَقْدِمَةً مِنْ نَفْسِهِ وَ أَهْلِهِ وَ مَالِهِ فَإِنَّكَ مَا تُقَدِّمْ مِنْ خَيْرٍ يَبْقَ لَكَ ذُخْرُهُ وَ مَا تُؤَخِّرْهُ يَكُنْ لِغَيْرِكَ خَيْرُهُ وَ احْذَرْ صَحَابَةَ مَنْ يَفِيلُ رَأْيُهُ وَ يُنْكَرُ عَمَلُهُ فَإِنَّ الصَّاحِبَ مُعْتَبَرٌ بِصَاحِبِهِ وَ اسْكُنِ الْأَمْصَارَ الْعِظَامَ فَإِنَّهَا جِمَاعُ الْمُسْلِمِينَ وَ احْذَرْ مَنَازِلَ الْغَفْلَةِ وَ الْجَفَاءِ وَ قِلَّةَ الْأَعْوَانِ عَلَى طَاعَةِ اللَّهِ وَ اقْصُرْ رَأْيَكَ عَلَى مَا يَعْنِيكَ وَ إِيَّاكَ وَ مَقَاعِدَ الْأَسْوَاقِ فَإِنَّهَا مَحَاضِرُ الشَّيْطَانِ وَ مَعَارِيضُ الْفِتَنِ وَ أَكْثِرْ أَنْ تَنْظُرَ إِلَى مَنْ فُضِّلْتَ عَلَيْهِ فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ أَبْوَابِ الشُّكْرِ وَ لَا تُسَافِرْ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ حَتَّى تَشْهَدَ الصَّلَاةَ إِلَّا فَاصِلًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ فِي أَمْرٍ تُعْذَرُ بِهِ وَ أَطِعِ اللَّهَ فِي جَمِيعِ أُمُورِكَ فَإِنَّ طَاعَةَ اللَّهِ فَاضِلَةٌ عَلَى مَا سِوَاهَا وَ خَادِعْ نَفْسَكَ فِي الْعِبَادَةِ وَ ارْفُقْ بِهَا وَ لَا تَقْهَرْهَا وَ خُذْ عَفْوَهَا وَ نَشَاطَهَا إِلَّا مَا كَانَ مَكْتُوباً عَلَيْكَ مِنَ الْفَرِيضَةِ فَإِنَّهُ لَا بُدَّ مِنْ قَضَائِهَا وَ تَعَاهُدِهَا عِنْدَ مَحَلِّهَا وَ إِيَّاكَ أَنْ يَنْزِلَ بِكَ الْمَوْتُ وَ أَنْتَ آبِقٌ مِنْ رَبِّكَ فِي طَلَبِ الدُّنْيَا وَ إِيَّاكَ وَ مُصَاحَبَةَ الْفُسَّاقِ فَإِنَّ الشَّرَّ بِالشَّرِّ مُلْحَقٌ وَ وَقِّرِ اللَّهَ وَ أَحْبِبْ أَحِبَّاءَهُ وَ احْذَرِ الْغَضَبَ فَإِنَّهُ جُنْدٌ عَظِيمٌ مِنْ جُنُودِ إِبْلِيسَ وَ السَّلَامُ۔ (کتاب ۶۹)
حارث ہمدانی کے نام:
ترجمہ: قرآن کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، اس سے پندو نصیحت حاصل کرو، اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھواور گذشتہ حق کی باتوں کی تصدیق کرو اور گزری ہوئی دنیا سے باقی دنیا کے بارے میں عبرت حاصل کرو کیونکہ اس کا ہر دور دوسرے دور سے ملتا جلتا ہے اور اس کا آخربھی اپنے اول سے جا ملنے والا ہے اور یہ دنیا سب کی سب فنا ہونے والی اور بچھڑ جانے والی ہے۔ دیکھو! اللہ کی عظمت کے پیشِ نظر حق بات کے علاوہ اُس کے نام کی قسم نہ کھا ؤ۔ موت اور موت کے بعد کی منزل کو بہت زیادہ یاد کرو۔ موت کے طلب گار نہ بنو، مگر قابل اطمینان شرائط کے ساتھ اور ہر اُس کام سے بچوجو آدمی اپنے لئے پسند کرتا ہو، اور عام مسلمانوں کے لئے اُسے نا پسند کرتا ہو۔ ہر اُس کام سے دور رہو جو چوری چھپے کیا جا سکتا ہو، مگر علانیہ کرنے میں شرم دامن گیر ہوتی ہو اور ہر اُس فعل سے کنارہ کش ہو کر کہ جب اُس کے مرتکب ہونے والے سے جواب طلب کیا جائے تو وہ خود بھی اسے برا قرار دے یا معذرت کرنے کی ضرورت پڑے۔ اپنی عزت وآبرو کو چہ میگوئیاں کے تیروں کا نشانہ نہ بناؤ جو سنو اُسے لوگوں سے واقعہ کی حیثیت سے بیان نہ کرتے پھرو کہ جھوٹا قرار پانے کے لئے اتنا ہی کافی ہوگا اور لوگوں کو ان کی ہربات میں جھٹلانے میں نہ لگوکہ یہ پوری پوری جہالت ہے۔ غصہ کو ضبط کرو اور اختیار و اقتدار کے ہوتے ہوئے عفودرگزر سے کام لو اور غصہ کےوقت بردباری اختیار کرو اور دولت و اقتدار کے ہوتے ہوئے معاف کرو تو انجام کی کامیابی تمہارے ہاتھ رہے گی اور اللہﷻنے جو نعمتیں تمہیں بخشی ہیں (اُن پر شکر بجا لاتے ہوئے )اُن کی بہبودی چاہو اور اُسکی دی ہوئی نعمتوں میں سے کسی نعمت کو ضائع نہ کرو اور اُس نے جو انعامات تمہیں بخشے ہیں اُن کا اثر تم پر ظاہر ہونا چاہئے۔
اور یاد رکھوکہ ایمان والوں میں سب سے افضل وہ ہے جو اپنی طرف سے اور اپنے اہل و عیال اور مال کی طرف سے خیرات کرے کیونکہ تم آخر کے لئے جو کچھ بھی بھیج دو گے وہ ذخیرہ بن کر تمہارے لئے محفوظ رہے گااور جو پیچھے چھوڑ جاؤ گے اُس سے دوسرے فائدہ اٹھائیں گے اور اُس آدمی سے بچو جس کی رائے کمزور اور افعال بُرے ہوں کیونکہ آدمی کا اس ساتھی پر قیاس کیا جاتاہے بڑےشہروں میں رہائش رکھوکیونکہ وہ مسلمانوں کے اجتماعی مرکز ہوتے ہیں۔ غفلت اور بیوفائی کی جگہوں اور اُن مقامات سے کہ جہاں اللہ کی اطاعت میں مدد گاروں کی کمی ہو، پرہیز کرو، اور صرف مطلب کی باتوں میں اپنی فکر پیمائی کو محدود رکھو، بازاری اڈوں میں اٹھنے بیٹھنے سے الگ رہوکیونکہ یہ شیطان کی بیٹھکیں اور فتنوں کی آماج گاہیں ہوتی ہیں اور جو لوگ تم سے پست حیثیت کے ہیں انہی کو زیادہ دیکھا کرو کیونکہ یہ تمہارے لئے شکر کا ایک راستہ ہے۔ جمعہ کے دن نماز میں حاضر ہوئے بغیر سفر نہ کرنا، مگر یہ کہ خدا کی راہ میں جہاد کے لئے جانا ہو یا کوئی معذوری درپیش ہو اور اپنے تما م کاموں میں اللہﷻ کی اطاعت کرو، کیونکہ اللہﷻکی اطاعت دوسری چیزوں پر مقدم ہے۔ اپنے نفس کو بہا نے کر کر کے عبادت کی راہ پر لاؤ، اور اُس کے ساتھ نرم رویہ رکھو دباؤ سے کا م نہ لو جب وہ دوسری فکروں سے فارغ البال اور چونچال ہو اُس وقت اُس سے عبادت کا کام لو مگر جو واجب عبادتیں ہیں اُن کی بات دوسری ہے انہیں بہر حال ادا کرنا ہے اور وقت پر بجا لانا ہے۔ اور دیکھو ایسا نہ ہو کہ موت تم پر آ پڑے اس حال میں کہ تم اپنے پروردگار سے بھاگے ہوئے دنیا طلبی میں لگے رہو اور فاسقوں کی صحبت سے بچے رہنا کیونکہ برائی برائی کی طرف بڑھا کرتی ہے اور اللہﷻ کی عظمت و توقیر کا خیال رکھو اور اُس کے دوستوں سے دوستی کرو اور غصے سے ڈرو کیونکہ یہ شیطان کے لشکروں میں سے ایک بڑا لشکر ہے۔ والسلام۔
یمن کے ایک خاندان بنی ہمدان میں امیر المومنین ؑ کا ایک بہت پیارا ساتھی حارث بن عبد اللہ تھا۔ اس کی شہرت یہ تھی کہ وہ اپنے زمانے کا بہت بڑا فقیہ ہے۔ وہی حارث ہمدانی جو ایک دن خلاف معمول ظہر کے وقت امام ؑ کے پاس آئے۔ امامؑ نے پوچھا اس وقت کیوں آئے ہو عرض کرتے ہیں آپ کی محبت لے آئی ہے۔ امیر المؤمنینؑ فرماتے ہیں اگر یہ صحیح ہے تو موت کے وقت، صراط کے نزدیک اور حوض کوثر پر مجھے دیکھو گے۔
ایسے پیارے ساتھی کو امامؑ نے یہاں چونتیس نصیحتیں فرمائیں۔ گویا فرما رہے ہیں ہمارے پیاروں کو بھی ہماری پیاری باتیں یاد رکھنی چاہئیں۔ اور ان باتوں پر عمل کر کے ہی وہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم علی علیہ السلام کے پیارے ہیں۔
امامؑ کے مخَاطَب تو حارث ہمدانی ہیں مگر حقیقت میں یہ ہر شیعہ کے لئے ایک دستور العمل ہے اور ایک شیعہ کا اخلاق کیسا ہونا چاہئے اس کا آئینہ ہے۔ پہلے جملہ میں امام ؑ نےقرآن سے تمسک اور اس سے نصیحت حاصل کرنے کا حکم فرما کر شیعہ اور قرآن کا تعلق واضح کیا اور فرمایا:
جسے قرآن حلال کہے اسے حلال جانو جسے حرام قرار دے اسے حرام سمجھو۔

۱۴۔ روشِ زندگی

خَالِطُوا النَّاسَ مُخَالَطَةً إِنْ مِتُّمْ مَعَهَا بَكَوْا عَلَيْكُمْ وَ إِنْ عِشْتُمْ حَنُّوا إِلَيْكُمْ (حکمت 9)
ترجمہ: لوگوں سے اس طریقہ سے ملو کہ اگر مر جاؤ تو تم پر روئیں اور زند ہ رہو تو تمہارے مشتاق ہوں۔
اسلام نے انسان کے دوسروں سے تعلق و رابطہ کو بہت اہمیت دی اور حقوق العباد کی بار بار تلقین کی۔ قرآن مجید میں صاحبان فکر و نظر اور عقل و شعور کی آٹھ تعریفوں میں سے ایک صفت یہی بیان فرمائی کہ ’’اللہ نے جن رشتوں کو قائم رکھنے کا حکم دیا ہے انہیں قائم رکھتے ہیں‘‘(الرعد:۲۱)
یہ رابطے خدا سے ہوں، انبیاءسے ہوں، آئمہ ہدیٰ سے ہوں، دوستوں سے ہوں، ہمسایوں سے ہوں، رشتہ داروں سے ہوں اسلام نے ان کے اصول و ضوابط بیان فرمائے ہیں۔ رسالۃ الحقوق میں امام سجاد علیہ السلام نے دشمن کے بھی حقوق بیان فرمائے ہیں۔
یہ رابطے کس طرح کے ہوں امامؑ نے اس فرمان میں ان کے نتیجہ کو بیان کیا کہ یہ روابط ایسے ہوں کہ آپ کی زندگی میں لوگ آپ کے عاشق ہوں اور موت کے بعد آپ کے لئے ان کے آنسو ہوں۔
ماہرین نفسیات نے اس پر بڑی بڑی کتابیں تحریر کی ہیں اور تعلیماتِ اسلامی میں ایک جملے پر عمل کر لیا جائے تو زندگی ایسے گزر سکتی ہے جس کا نتیجہ فرمانِ امامؑ کے مطابق مل جائے۔ سیرت پیغمبر ؐ و آلِ پیغمبرؐکے سینکڑوں واقعات اس کا واضح ثبوت ہیں۔
امیر المؤمنین ؑ جناب مالک اشتر کو مصر کا گورنر بنا کر بھیجتے ہیں تو ان اصولوں میں سے ایک حکم فرمایا:
’’اے مالک!تم رعایا سے اسی طرح عفو و درگزر سے کام لینا، جس طرح اللہ سے اپنے لیے عفو و در گزر کو پسند کرتے ہو۔ ‘‘(خط:۵۳)

۱۵۔ دشمن سے برتاؤ

إِذَا قَدَرْتَ عَلَى عَدُوِّكَ فَاجْعَلِ الْعَفْوَ عَنْهُ شُكْراً لِلْقُدْرَةِ عَلَيْهِ (حکمت:۱۰)
ترجمہ: دشمن پر قابو پاؤ تو اس قابو پانے کا شکرانہ اس کو معاف کر دینا قرار دو۔
مفتی جعفر حسین صاحب اس حکمت کے ذیل میں لکھتے ہیں:
عفو و درگزر کا محل وہی ہوتا ہے جہاں انتقام پر قدرت ہو، اور جہاں قدرت ہی نہ ہو وہاں انتقام سے ہاتھ اٹھا لینا ہی مجبوری کا نتیجہ ہوتا ہے جس پر کوئی فضیلت مرتب نہیں ہوتی۔ البتہ قدرت و اقتدار کے ہوتے ہوئے عفو درگذر سے کام لینا فضیلت انسانی کا جوہر اور اللہ کی اس بخشی ہوئی نعمت کے مقابلہ میں اظہار شکر ہے۔ کیونکہ شکر کا جذبہ اس کا مقتضی ہو تا ہے کہ انسان اللہ کے سامنے تذلل و انکساری سے جھکے جس سے اس کے دل میں رحم و رافت کے لطیف جذبات پیدا ہوں گے اور غیظ و غضب کے بھڑکتے ہوئے شعلے ٹھنڈے پڑ جائیں گے جس کے بعد انتقام کا کوئی داعی ہی نہ رہے گا کہ وہ اس قوت و قدرت کو ٹھیک ٹھیک کام میں لانے کی بجائے اپنے غضب کے فرو کر نے کا ذریعہ قرار دے۔
اللہ والوں کا دشمنی و زیادتی کرنے والوں سے برتاؤ اوراق تاریخ کی زینت بنا ہوا ہے۔ جناب یوسفؑ کے ساتھ بے شمار زیادتیاں کرنے والے بھائی جب مجبور ہو کر آپ کے پاس آتے ہیں اور عذر پیش کرنا چاہتے ہیں’’انہوں نے کہا :خدا کی قسم!خدا نے تجھے ہم پر مقدم رکھا اور ہم خطا کار تھے۔ اُس نے کہا:آج تم پر کوئی ملامت و سرزنش نہیں ہے، خدا تمہیں بخشے اور وہ ارحم الراحمین ہے‘‘(یوسف:۹۱۔ ۹۲)
خدا وند متعال نے جناب ِیوسفؑ پر احسان کیا اور تمام امتحانات سے کامیابی سے ہمکنار فرمایا۔ بھائی آپ سے شرمندہ تھے وہ یوسف ؑ کے چہرے کی طرف نظر بھر کے نہیں دیکھ پا رہے تھے شاید سوچ رہے ہوں کہ اب ہم سے انتقام لیا جائے گا مگر اللہ والے نے اپنی کامیابی و کامرانی کا شکرانہ ادا کرتے ہوئے فرمایا۔ آج کوئی سرزنش و توبیخ نہیں ہو گی بلکہ خدا کی رحمت کی تسلیاں دیں۔
جناب یوسفؑ کو اس بات سے تکلیف ہوتی تھی کہ ان کے بھائی گذشتہ واقعات کو یاد کریں اور پریشان و غمزدہ ہوں اور شرمندگی محسوس کریں۔
فخر یوسف نبی اکرم محمد مصطفیﷺ فتحِ مکہ کے روز جب شہر میں داخل ہوئے تو اپنے پرائے سب سوچ رہے تھے کہ آج انتقام کا دن ہے تو حبیبِ خدا نے فرمایا:میں تمہارے بارے میں وہی کچھ کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسفؑ نے اپنے بھائیوں کے بارے میں کامیابی کے وقت کہا تھا، آج تمہارے لئے رازِ ملامت و سرزنش نہیں ہے۔ تمہارے لئے رحمت ہے۔
وہی قریشی جنہوں نے نبی ؐ کے پیاروں کے جگر نکال کر چبا ڈالے تھے انہیں فرما رہے تھے جاؤ ہم نے آپ کو آزاد کر دیا۔
زہر میں بجھی ہوئی تلوار کا وار کھا کر اپنے قاتل کے لئے سفارش کرنے والے کریم علی ؑ زندگی کا عجیب اصول بتا رہے ہیں۔ فرمایا:دشمن پر قابو پاؤ، تو اِس قدرت و طاقت کے شکرانے کے طور پر دشمن کو معاف کر دیں۔
ہاں! علیؑ اپنے پیاروں سے ایسی زندگی چاہتے ہیں جہاں دشمن سے بھی ایسا برتاؤ ہو۔ اب اپنوں کے ساتھ کیسا تعلق امام ؑ دیکھنا چاہتے ہیں اسے اپنے مقام پر درج کیا جائے گا۔

۱۶۔ اخلاقی فضائل

لَا مَالَ أَعْوَدُ مِنَ الْعَقْلِ وَ لَا وَحْدَةَ أَوْحَشُ مِنَ الْعُجْبِ وَ لَا عَقْلَ كَالتَّدْبِيرِ وَ لَا كَرَمَ كَالتَّقْوَى وَ لَا قَرِينَ كَحُسْنِ الْخُلُقِ وَ لَا مِيرَاثَ كَالْأَدَبِ وَ لَا قَائِدَ كَالتَّوْفِيقِ وَ لَا تِجَارَةَ كَالْعَمَلِ الصَّالِحِ وَ لَا رِبْحَ كَالثَّوَابِ وَ لَا وَرَعَ كَالْوُقُوفِ عِنْدَ الشُّبْهَةِ وَ لَا زُهْدَ كَالزُّهْدِ فِي الْحَرَامِ وَ لَا عِلْمَ كَالتَّفَكُّرِ وَ لَا عِبَادَةَ كَأَدَاءِ الْفَرَائِضِ وَ لَا إِيمَانَ كَالْحَيَاءِ وَ الصَّبْرِ وَ لَا حَسَبَ كَالتَّوَاضُعِ وَ لَا شَرَفَ كَالْعِلْمِ وَ لَا عِزَّ كَالْحِلْمِ وَ لَا مُظَاهَرَةَ أَوْثَقُ مِنَ الْمُشَاوَرَةِ۔ (حکمت:۱۱۳)
ترجمہ: عقل سے بڑھ کر کوئی مال سود مند اور خود بینی سے بڑھ کر کوئی تنہائی وحشتناک نہیں اور تدبر سے بڑھ کر کوئی عقل کی بات نہیں اور کوئی بزرگی تقویٰ کے مثل نہیں اور خوش خلقی سے بہتر کوئی ساتھی اور ادب کے مانند کوئی میراث نہیں اور توفیق کے مانند کوئی پیشرو اور اعمال خیر سے بڑھ کر کوئی تجارت نہیں اور ثواب کا ایسا کوئی نفع نہیں اور کوئی پرہیز گاری شبہات میں توقف سے بڑھ کر نہیں اور حرام کی طرف بے رغبتی سے بڑھ کر کوئی زہد اور تفکر اور پیش بینی سے بڑھ کر کوئی علم نہیں اور ادائے فرائض کے مانند کوئی عبادت اور حیا و صبر سے بڑھ کر کوئی ایمان نہیں اور فروتنی سے بڑھ کر کوئی سرفرازی نہیں اور علم کے مانند کوئی بزرگی و شرافت نہیں حلم کے مانند کوئی عزت اور مشورہ سے مضبوط کوئی پشت پناہ نہیں۔
اس حکمت میں اٹھاراں جملات ہیں جن میں سے ہر ایک جملہ کامیاب و کامران زندگی کا زینہ ہے۔ اگر اس ایک حکمت میں موجود فرامین کو اپنا لیا جائے تو مادی و معنوی زندگی سعادت مند ہو سکتی ہے۔

۱۷۔ خبردار

لَا تَكُنْ مِمَّنْ يَرْجُو الْآخِرَةَ بِغَيْرِ عَمَلٍ وَ يُرَجِّي التَّوْبَةَ بِطُولِ الْأَمَلِ يَقُولُ فِي الدُّنْيَا بِقَوْلِ الزَّاهِدِينَ وَ يَعْمَلُ فِيهَا بِعَمَلِ الرَّاغِبِينَ إِنْ أُعْطِيَ مِنْهَا لَمْ يَشْبَعْ وَ إِنْ مُنِعَ مِنْهَا لَمْ يَقْنَعْ يَعْجِزُ عَنْ شُكْرِ مَا أُوتِيَ وَ يَبْتَغِي الزِّيَادَةَ فِيمَا بَقِيَ يَنْهَى وَ لَا يَنْتَهِي وَ يَأْمُرُ بِمَا لَا يَأْتِي يُحِبُّ الصَّالِحِينَ وَ لَا يَعْمَلُ عَمَلَهُمْ وَ يُبْغِضُ الْمُذْنِبِينَ وَ هُوَ أَحَدُهُمْ يَكْرَهُ الْمَوْتَ لِكَثْرَةِ ذُنُوبِهِ وَ يُقِيمُ عَلَى مَا يَكْرَهُ الْمَوْتَ مِنْ أَجْلِهِ إِنْ سَقِمَ ظَلَّ نَادِماً وَ إِنْ صَحَّ أَمِنَ لَاهِياً يُعْجَبُ بِنَفْسِهِ إِذَا عُوفِيَ وَ يَقْنَطُ إِذَا ابْتُلِيَ إِنْ أَصَابَهُ بَلَاءٌ دَعَا مُضْطَرّاً (حکمت ۱۵۰)
ایک شخص نے آپ سے پند و موعظت کی درخواست کی، تو فرمایا!
ترجمہ: تم کوان لوگوں میں سے نہ ہونا چاہیے کہ جو عمل کے بغیر حسن انجام کی امید رکھتے ہیں اور امید یں بڑھا کر تو بہ کو تاخیر میں ڈال دیتے ہیں جو دنیا کے بارے میں زاہدوں کی سی باتیں کرتے ہیں مگر ان کے اعمال دنیا طلبوں کے سے ہوتے ہیں۔ اگر دنیا انہیں ملے تو وہ سیر نہیں ہوتے اور اگر نہ ملے تو قناعت نہیں کرتے جو انہیں ملا ہے اس پر شکر سے قاصر رہتے ہیں اور جو بچ رہا اس کے اضافہ کے خواہشمند رہتے ہیں دوسروں کو منع کرتے ہیں اور خود باز نہیں آتے اور دوسروں کو حکم دیتے ہیں ایسی باتوں کا جنہیں خود بجا نہیں لاتے نیکوں کو دوست رکھتے ہیں مگر ان کے سے اعمال نہیں کرتے اور گنہگاروں سے نفرت و عناد رکھتے ہیں حالانکہ وہ خود انہی میں داخل ہیں اپنے گناہوں کی کثرت کے باعث موت کو برا سمجھتے ہیں مگر جن گناہوں کی وجہ سے موت کو ناپسند کرتے ہیں انہی پر قائم ہیں۔ اگر بیمار پڑتے ہیں تو پشیمان ہوتے ہیں جب بیماری سے چھٹکارا پاتے ہیں تو اترانے لگتے ہیں اور مبتلا ہوتے ہیں تو ان پر مایوسی چھا جاتی ہے۔ جب کسی سختی و ابتلا میں پڑتے ہیں تو لاچار و بے بس ہو کر دعائیں مانگتے ہیں اور جب فراخ دستی نصیب ہوتی ہے تو فریب میں مبتلا ہو کر منہ پھیر لیتے ہیں۔ ان کا نفس خیالی باتوں پر انہیں قابو میں لے آتا ہے اور وہ یقینی باتوں پر اسے نہیں دبا لیتے۔ دوسروں کے لیے گناہ سے زیادہ خطرہ محسوس کرتے ہیں اور اپنے لیے اپنے اعمال سے زیادہ جزا کے متوقع رہتے ہیں۔ اگر مالدار ہو جاتے ہیں تو اترانے لگتے ہیں اور اگر فقیر ہو جاتے ہیں تو ناامید ہو جاتے ہیں اور سستی کرنے لگتے ہیں۔ جب عمل کرتے ہیں تو اس میں سستی کرتے ہیں اور جب مانگنے پر آتے ہیں تو اصرار میں حد سے بڑھ جاتے ہیں۔ اگر ان پر خواہش نفسانی کا غلبہ ہوتا ہے تو گناہ جلد سے جلد کرتے ہیں اور توبہ کو تعویق میں ڈالتے رہتے ہیں اگر کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو جماعت اسلامی کے خصوصی امتیازات سے الگ ہو جاتے ہیں۔ عبرت کے واقعات بیان کرتے ہیں مگر خود عبرت حاصل نہیں کرتے اور وعظ و نصیحت میں زور باندھتے ہیں مگر خود اس نصیحت کا اثر نہیں لیتے چنانچہ وہ بات کرنے میں تو اونچے رہتے ہیں مگر عمل میں کم ہی کم رہتے ہیں۔ فانی چیزوں میں نفسی نفسی کرتے ہیں اور باقی رہنے والی چیزوں میں سہل انگاری سے کام لیتے ہیں وہ نفع کو نقصان اور نقصان کو نفع خیال کرتے ہیں موت سے ڈرتے ہیں مگر فرصت کا موقع نکل جانے سے پہلے اعمال میں جلدی نہیں کرتے۔ دوسرے کے ایسے گناہ کو بہت بڑا سمجھتے ہیں جس سے بڑے گناہ کو خود اپنے لیے چھوٹا خیال کرتے ہیں اور اپنی ایسی اطاعت کو زیادہ سمجھتے ہیں جسے دوسرے سے کم سمجھتے ہیں لہٰذا وہ لوگوں پر معترض ہوتے ہیں اور اپنے نفس کی چکنی چپڑی باتوں سے تعریف کرتے ہیں۔ دولتمندوں کے ساتھ طرب و نشاط میں مشغول رہنا انہیں غریبوں کے ساتھ محفل ذکر میں شرکت سے زیادہ پسند ہے اپنے حق میں دوسرے کے حق میں اپنے خلاف حکم لگاتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں کرتے کہ دوسرے کے حق میں اپنے خلاف حکم لگائیں۔ اوروں کو ہدایت کرتے ہیں اور اپنے کو گمراہی کی راہ پر لگا تے ہیں وہ اطاعت لیتے ہیں اور خود نافرمانی کرتے ہیں اور حق پورا پورا وصول کر لیتے ہیں مگر خود انہیں کرتے۔ وہ اپنے پروردگار کو نظر انداز کر کے مخلوق سے خو ف کھاتے ہیں اور مخلوقات کے بارے میں اپنے پروردگار سے نہیں ڈرتے۔
سید رضی ان اٹھائیس نصیحتوں کو در ج کرنے کے بعد ان کی اہمیت کے بارے فرماتے ہیں: اگر اس کتاب نہج البلاغہ میں صرف ایک یہی کلام درج ہوتا، تو کامیاب موعظہ اور مؤثر حکمت اور چشمِ بینا رکھنے والے کے لئے بصیرت اور نظر و فکر کرنے والے کے لئے عبرت کے اعتبار سے بہت کافی تھا۔
مشہور اہل سنت محدث متقی ہندی اپنی کتاب کنز العمال جلد ۱۶میں اس فرمان کو درج کرنے سے پہلے ایک مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ جنگ نہروان ختم ہونے کے بعد امامؑ منبرِ کوفہ پر تشریف لائے حمدِ الہی ادا کرنے کے بعد منبر پر رونا شروع کیا اور اتنے آنسو بہائے کہ چہرہ اور ریش ِ مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئے اور جب ریشِ مبارک کو حرکت دی تو ارد گرد والوں پر آنسوؤں کے قطرے گرے۔ پھر خطبہ شروع کیا اور اور یہی فرامین بیان فرمائے۔
مرحوم شوشتری اپنی شرح نہج البلاغہ میں لکھتے ہیں:ابن عباس نے یہ وصیت امامؑ سے حاصل کی اور اپنے بیٹے کو منتقل کی اور کہا یہ تیرے لئے خزانہ ہے اسے ذخیرہ کر لو اور سرخ سونے سے زیادہ اس کی حفاظت و نگہداری کی کوشش کرنا اس لئے کہ اگر ان وصیتوں کا خیال رکھا تو دنیا و آخرت کی اچھائیاں ملیں گی۔ (نہج الصباغہ جلد ۸)

۱۸۔ لمبی امیدیں

أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ اثْنَانِ اتِّبَاعُ الْهَوَى وَ طُولُ الْأَمَلِ فَأَمَّا اتِّبَاعُ الْهَوَى فَيَصُدُّ عَنِ الْحَقِّ وَ أَمَّا طُولُ الْأَمَلِ فَيُنْسِي الْآخِرَةَ۔
ترجمہ: اے لوگو! مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ دو باتوں کا ڈر ہے۔ ایک خواہشوں کی پیروی، اور دوسرے امیدوں کا پھیلاؤ۔ خواہشوں کی پیروی وہ چیز ہے، جو حق سے روک دیتی ہے اور امیدوں کا پھیلاؤ آخرت کو بھلا دیتا ہے۔
امام رضا ؑ نے خطبہ امامت میں امام کو والد شفیق کہا۔ امیر المؤمنین یہاں شفیق والد کی طرح راہنمائی فرما رہے ہیں اور والد کو جہاں اولاد کا نقصان نظر آئے وہ اسے اپنا نقصان جانتا ہے اور اس سے خوف زدہ رہتا ہے۔
یہاں دو چیزوں سے امامؑ نے ڈرایا ہے اور دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ خواہشات نفسانی انسان کو یوں اپنے آپ میں مصروف کر لیتی ہیں گویا اس دنیا میں اس کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں اور انسانی عقل اس میں اتنی مشغول ہو جاتی ہے کہ حق نظر ہی نہیں آتا بلکہ حق کو اپنی تمناؤں کے حصول میں رکاوٹ سمجھتا ہے۔
دوسری چیز جس سے امامؑ نے ڈرایا اور اسے آخرت کو بھلا دینے کا سبب قرار دیا وہ لمبی امیدیں ہیں۔ انسان اکثر اپنی موجودہ زندگی میں اتنا مصروف ہو جاتا ہے کہ اس آنے والے کل کی خبر ہی نہیں ہوتی اور وہ آج کو سنوارنے میں کل سے غافل ہو جاتا ہے۔ اور عقل مند انسان وہ ہوتا ہے جو آج سوچتا ہے اور آنے والے کل کی بنیادیں مہیا کرتا ہے۔ لمبی امیدوں سے امامؑ نے بارہا ڈرایا ہے۔ خطبہ ۷۹ میں زھد کو تین چیزوں سے تعبیر کیا اور فرمایا:
اے لوگو! امیدوں کو کم کرنا، نعمتوں پر شکر کرنا اور حرام چیزوں سے دامن بچانا ہی زہد و ورع ہے۔
خطبہ ۲۸ میں امامؑ فرماتے ہیں :
مجھے تمہارے متعلق سب سے زیادہ دو ہی چیزوں کا خوف ہے۔ ایک خواہشوں کی پیروی اور دوسرے امیدوں کا پھیلاؤ۔ اس دنیا میں رہتے ہوئے اس سے اتنا زاد تو لے لو، جس سے کل اپنے نفسوں کو بچا سکو۔

۱۹۔ مظلومیتِ شیعہ

لَوْ أَحَبَّنِي جَبَلٌ لَتَهَافَتَ۔ (حکمت:۱۱۱)
ترجمہ: اگر پہاڑ بھی مجھے دوست رکھے گا، تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہو جائے گا۔

سید رضی اس جملہ کے بعد لکھتے ہیں:
معنى ذلك أن المحنة تغلظ عليه فتسرع المصائب إليه و لا يفعل ذلك إلا بالأتقياء الأبرار و المصطفين الأخيار.
جو علیؑ سے محبت کرے اس کی آزمائش کڑی اورسخت ہوتی ہے۔ اس لیے مصیبتیں اُس کی طرف لپک کر بڑھتی ہیں اور ایسی آزمائش انہی کے لئے ہوتی ہے جو پرہیزگار، نیکو کار، منتخب اور برگزیدہ ہوتے ہیں۔
اس کے بعد کے جملے میں امام ؑ فرماتے ہیں:جو ہم اہل بیت سے محبت کرے، اسے فقر کا لباس پہننے کے لئے آمادہ رہنا چاہئے۔
یاعلیؑ آپ سے محبت کی واقعاً سخت سزا ہے۔ ہر دور میں سخت سزا ہے۔ حجر و ابوذر سے شروع ہوتی ہے۔ کمیل و قنبر سے آگے بڑھتی ہے اور آج تک جاری ہےکبھی گردنیں کٹتی ہیں کبھی گھر جلتے ہیں لیکن آپ کے چاہنے والے پہاڑ سے سخت تر ہیں۔
یا علیؑ!پہاڑ تو ریزہ ریزہ ہو کر ختم ہو جاتا ہےمگر آپ کے چاہنے والے کا خون آپ کے پیغام کے ساتھ زندہ رہتا ہے۔
آپ کی محبت بہت بڑا جرم رہا اور اب بھی جرم گنا جاتا ہے اے امام! اس جرم کی سزائیں لوگوں نے مسکرا کر سینے سے لگائیں اور لگا رہے ہیں۔ یہ محبت ان سزاؤں سے چھینی نہیں جا سکتے کسی کی گولی و تلوار سے کیا چھنے گی جبکہ خود امامؑ فرماتے ہیں:
’’اگر میں مومن کی ناک پرتلوار لگاؤں کہ مجھے دشمن رکھے تو جب بھی وہ مجھ سے دشمنی نہیں کرے گا۔ اور اگر تمام متاعِ دنیا کافر کے آگے ڈھیر کر دوں کہ وہ مجھے دوست رکھے، تو بھی وہ مجھے دوست نہ رکھے گا۔ اس لئے کہ یہ وہ فیصلہ ہے جو پیغمبر اُمی ؐ کی زبان سے ہو گیا ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا:اے علیؑ! کوئی مومن تم سے دشمنی نہ رکھے گا، اور کوئی منافق تم سے محبت نہ کرے گا۔ ‘‘(حکمت:۴۵)
ان مشکلوں اور مظلومیتوں سے علی ؑکا پیغام ِ حق نہ رکا ہے اور نہ رکے گا۔ امیر المؤمنینؑ کا آج بھی اپنے چاہنے والوں کو یہ پیغام ہے:
أَيُّهَا النَّاسُ لَا تَسْتَوْحِشُوا فِي طَرِيقِ الْهُدَى لِقِلَّةِ أَهْلِهِ. (خطبہ:۱۹۹)
اے لوگو! ہدایت کی راہ میں ہدایت پانے والوں کی کمی سے گھبرا نہ جاؤ۔

۲۰۔ جنازہ سے درس

وَ تَبِعَ جِنَازَةً فَسَمِعَ رَجُلًا يَضْحَكُ فَقَالَ كَأَنَّ الْمَوْتَ فِيهَا عَلَى غَيْرِنَا كُتِبَ وَ كَأَنَّ الْحَقَّ فِيهَا عَلَى غَيْرِنَا وَجَبَ وَ كَأَنَّ الَّذِي نَرَى مِنَ الْأَمْوَاتِ سَفْرٌ عَمَّا قَلِيلٍ إِلَيْنَا رَاجِعُونَ نُبَوِّئُهُمْ أَجْدَاثَهُمْ وَ نَأْكُلُ تُرَاثَهُمْ كَأَنَّا مُخَلَّدُونَ بَعْدَهُمْ ثُمَّ قَدْ نَسِينَا كُلَّ وَاعِظٍ وَ وَاعِظَةٍ وَ رُمِينَا بِكُلِّ فَادِحٍ وَ جَائِحَةٍ۔ (حکمت ۱۲۲)
ترجمہ: حضرت ایک جنازہ کے پیچھے جا رہے تھے کہ ایک شخص کے ہنسنے کی آواز سنی جس پر آپ نے فرمایا: گویا اس دنیا میں موت ہمارے علاوہ دوسروں کے لیے لکھی گئی ہے اور گویا یہ حق (موت )دوسروں ہی پر لازم ہے اور گویا جن مرنے والوں کو ہم دیکھتے ہیں، وہ مسافر ہیں جو عنقریب ہماری طرف پلٹ آئیں گے۔ ادھر ہم انہیں قبروں میں اتارتے ہیں ادھر ان کا ترکہ کھانے لگتے ہیں گویا ان کے بعد ہم ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ پھر یہ کہ ہم نے ہر پندو نصیحت کرنے والے کو وہ مرد ہو یا عورت بھلا دیا ہے اور ہر آفت کا نشانہ بن گئے ہیں۔
امیر المؤمنینؑ نے جنازہ میں ہنسنے کی آواز کو سن کر خود جنازے کو موعظہ کا ذریعہ بنایاموت سب کے لئے ہے، موت کی تیاری اور واجبات کی ادائیگی سب کو کرنی چاہئے اور موت کی آغوش میں جا کر پھر کوئی کبھی پلٹا بھی نہیں ہے۔
اس پورے فرمان میں موت کے یقینی ہونے پر تاکید فرماتے رہے اور آخری جملات میں تو موت اور اس جیسی دوسری آفات کو واعظ اور واعظہ کے نام سے یاد فرمایا۔
امامؑ بارہا موت کو، مردوں کو، قبروں کو واعظ کہہ کر یاد فرماتے ہیں۔
امامؑ کا قبر والوں کو ایک سلام اگر سمجھ لیا جائے تو اس دنیا کی حقیقت کو سمجھنے اور اپنی آخرت کو سنوارنے کے لئے کافی ہے۔
صفین کے افسوس ناک میدان سے پلٹ کر اورعمار یاسر جیسے پیاروں کو دفن کر کے جب امامؑ کوفہ پہنچے اورکوفہ کے دروازے پر موجود قبرستان پر نظر پڑی۔ تو سات جملوں میں قبر والوں کو سلام کہا۔ یہ سلام تو قبر والوں کوتھا مگر وہاں موجود اور قیامت تک اس سلام کو سننے اور پڑھنےوالوں کے لئے اس میں ایک درد بھرا موعظہ ہے۔ فرمایا:
يَا أَهْلَ الدِّيَارِ الْمُوحِشَةِ وَ الْمَحَالِّ الْمُقْفِرَةِ وَ الْقُبُورِ الْمُظْلِمَةِ يَا أَهْلَ التُّرْبَةِ يَا أَهْلَ الْغُرْبَةِ يَا أَهْلَ الْوَحْدَةِ يَا أَهْلَ الْوَحْشَةِ أَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ سَابِقٌ وَ نَحْنُ لَكُمْ تَبَعٌ لَاحِقٌ أَمَّا الدُّورُ فَقَدْ سُكِنَتْ وَ أَمَّا الْأَزْوَاجُ فَقَدْ نُكِحَتْ وَ أَمَّا الْأَمْوَالُ فَقَدْ قُسِمَتْ هَذَا خَبَرُ مَا عِنْدَنَا فَمَا خَبَرُ مَا عِنْدَكُمْ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَمَا لَوْ أُذِنَ لَهُمْ فِي الْكَلَامِ لَأَخْبَرُوكُمْ أَنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى.. (حکمت ۱۳۰)
صفین سے پلٹتے ہوئے کوفہ سے باہر قبرستان پر نظر پڑی تو فرمایا:
ترجمہ: اے وحشت افزا گھروں، اجڑے مکانوں اور اندھیری قبروں کے رہنے والو!اے خاک نشینو !اے عالم غربت کے ساکنوں اے تنہائی اور الجھن میں بسر کرنے والو !تم تیز رو ہو جو ہم سے آگے بڑھ گئے ہو اور ہم تمہارے نقش قدم پر چل کر تم سے ملا چاہتے ہیں۔ اب صورت یہ ہے کہ گھروں میں دوسرے بس گئے ہیں بیویوں سے اوروں نے نکاح کر لیے ہیں اور تمہارا مال و اسباب تقسیم ہو چکا ہے یہ تو ہمارے یہاں کی خبر ہے۔ اب تمہارے یہاں کی کیا خبر ہے؟۔
(پھر حضرت اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا)اگر انہیں بات کرنے کی اجازت دی جائے۔ تو یہ تمہیں بتائیں گے کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔
پھر امامؑ نے ایک مسلمہ حقیقت کو دو جملوں میں پرو دیا، فرمایا:
’’أَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ سَابِقٌ وَ نَحْنُ لَكُمْ تَبَعٌ لَاحِقٌ‘‘
تم تیز رو ہو جو ہم سے آگے بڑھ گئے ہو اور ہم تمہارے نقش قدم پر چل کر تم سے ملا چاہتے ہیں۔
پھر امام ؑ نے قبر والوں کو ان کے جانے کے بعد اس دنیا کی بے وفائی کی خبر یوں سنائی:
’’ أَمَّا الدُّورُ فَقَدْ سُكِنَتْ وَ أَمَّا الْأَزْوَاجُ فَقَدْ نُكِحَتْ وَ أَمَّا الْأَمْوَالُ فَقَدْ قُسِمَتْ‘‘ اب صورت یہ ہے کہ گھروں میں دوسرے بس گئے ہیں بیویوں سے اوروں نے نکاح کر لیے ہیں اور تمہارا مال و اسباب تقسیم ہو چکا ہے۔
آخر میں امامؑ نے وہاں موجود اصحاب کی طرف متوجہ ہو کر قبر والوں کی طرف سے پیغام سنایا اور قرآن مجید کی آیت کی تلاوت کی:
أَنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى. بہترین توشہ تقویٰ ہے۔
انسان کو زندگی میں دھوکہ دینے اور خدا سے دور کرنے والے مواعظ کو امام ؑ نے اس سلام میں جمع کر دیا۔ ہمیں بھی جب غفلت کی اونگھ آنے لگے تو قبر والوں کے پاس جا کر اس سلام کو دہرا لیں تو یقیناً بیدار ہو جائیں گے۔ اس سلام کا کیا ہی پیارا ترجمہ جوش ملیح آبادی مرحوم نے کیا:
جا گورِ غریباں پہ نظر ڈال بہ عبرت
عبرت کے لئے ڈھونڈ کسی شاہ کی تربت
کل تجھ میں بھرا تھا جو غرور آج کہاں ہے؟
جوش ملیح آبادی (مرثیہ :آوازۂ حق۔ بند ۴۹)

۲۱۔ پیاروں کی صفات

امیر المؤمنینؑ نہج البلاغہ میں ہمیشہ اپنے پیاروں کو بھائی کہہ کر پکارتے رہے:
أَيْنَ إِخْوَانِيَ اَلَّذِينَ رَكِبُوا اَلطَّرِيقَ وَ مَضَوْا عَلَى اَلْحَقِّ أَيْنَ عَمَّارٌ وَ أَيْنَ اِبْنُ اَلتَّيِّهَانِ وَ أَيْنَ ذُو اَلشَّهَادَتَيْنِ وَ أَيْنَ نُظَرَاؤُهُمْ مِنْ إِخْوَانِهِمُ اَلَّذِينَ تَعَاقَدُوا عَلَى اَلْمَنِيَّةِ.(خطبہ:۱۸۰)
’’کہاں ہیں؟ وہ میرے بھائی کہ جو سیدھی راہ پر چلتے رہے۔ اورحق پر گزرگئے کہاں ہیں؟ عمار اور کہاں ہیں؟ ابن تیہان اور کہاں ہیں؟ ذوالشہا دتین او رکہاں ہیں ان کے ایسے دوسرے بھائی کہ جو مرنے پر عہد و پیمان باندھے ہوئے تھے ‘‘۔
خطبہ ۱۱۹ میں کچھ افراد کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں’’یہ میرے وہ بھائی تھے جو دنیا سے گزر گئے‘‘۔
اس فرمان کو اپنے کسی پیارے کی یاد سےشروع کیا ’’عہد ماضی میں میرا ایک دینی بھائی تھا‘‘ اور پھر اس بھائی کے گیاراں اوصاف بیان فرمائے۔ وہ کون تھا جسے امامؑ یاد کر رہے ہیں کوئی واضح نہیں۔ کسی نے کہا ابوذر، کسی نے عثمان بن مظعون، کسی نے مالک اشتر، کسی نے مقداد کا کہا ہے۔
علی علیہ السلام کے پیارے کی صفات کیا ہوتی ہیں؟ امامؑ نے اس کے دین، اخلاق، علم، عقل، صبر، زھد، جھاد، شجاعت جیسی صفات کو یہاں بیان فرمایا اور آخر میں فرماتے ہیں ’’تمہیں ان عادات و خصائل کو حاصل کرنا چاہئے اور ان پر عمل پیرا اور ان کا خواہشمند رہنا چاہئے‘‘۔
یقیناً یہ وہ اوصاف ہیں جو فرد و اجتماع کی دنیا و آخرت کی سعادت و کامیابی کا سبب بن سکتے ہیں۔ انسان کو اولیاء اللہ کی صف میں لا سکتے ہیں اور اللہ کے قرب کی منزل تک پہنچا سکتے ہیں۔ امام ؑ بھی یہی فرماتے ہیں کہ ان اوصاف کے حامل بنو۔

۲۲۔ زبان پر کنٹرول

اللِّسَانُ سَبُعٌ إِنْ خُلِّيَ عَنْهُ عَقَرَ (حکمت:۶۰)
ترجمہ: زبان ایک ایسا درندہ ہے کہ اگر اسے کھلا چھوڑ دیا جائے، تو پھاڑ کھائے۔
زبان ایک ایسی نعمت ہے جو انسان کو باقی حیوانات سے بلند درجہ بناتی ہے ۔ اللہ سبحانہ و تعالی جب سورہ رحمن میں اپنی نعمات کا تذکرہ فرماتا ہے تو اس نعمت ِبیان کو ابتداءِ سورہ میں ذکر کیا۔ ’’عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ‘‘۔ جب رب کے حکم کے مطابق چلے تو اچھائیوں کی چابی بن جاتی ہے اور محبت و الفت کے جذبوں کو بیدار کرتی ہے۔ اور اگر مخا لفتِ پروردگار میں استعمال ہو تو یہی زبان خون بہاتی ہے، مال و اسباب لٹواتی ہے، عزتیں پامال کراتی ہے۔ برائیوں کا مرکز قرار پاتی ہے۔
علماءِ اخلاق نے انسانی اعضاء سے سر زد ہونے والے گناہوں میں سے سب سے زیادہ گناہ زبان سے گنوائے ہیں۔ آفاتِ زبان پر پوری پوری کتابیں لکھی ہیں۔ امامؑ شفیق باپ کی طرح ہر انسان کو اس فرمان میں زبان کے خطرے سے آگاہ فرما رہے ہیں اور اسے درندے سے تشبیہ دی ہے۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا:
’’اپنی زبان کی اس طرح حفاظت کرو جیسے سونے چاند کی حفاظت کرتے ہو‘‘(حکمت ۳۸۱)
ایک مقام پر تفصیل سے زبان کی اہمیت پر گفتگو فرمائی:
وَ لْيَخْزُنِ اَلرَّجُلُ لِسَانَهُ فَإِنَّ هَذَا اَللِّسَانَ جَمُوحٌ بِصَاحِبِهِ وَ اَللَّهِ مَا أَرَى عَبْداً يَتَّقِي تَقْوَى تَنْفَعُهُ حَتَّى يَخْزُنَ لِسَانَهُ……… (خطبہ ۱۷۴)
’’انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی زبان کو قابو میںرکھے۔ اس لےے کہ یہ اپنے مالک سے منہ زوری کرنے والی ہے۔ خدا کی قسم! میں نے کسی پرہیز گار کو نہیں دیکھا کہ تقویٰ اس کے لئے مفید ثابت ہوا ہو جب تک کہ اس نے اپنی زبان کی حفاظت نہ کی ہو۔ بے شک مومن کی زبان ا س دل کے پیچھے ہے اور منافق کا دل ا س کی زبان کے پیچھے ہے کیو نکہ مومن جب کو ئی بات کہنا چاہتا ہے تو پہلے اسے دل میں سوچ لیتا ہے اگر وہ اچھی بات ہو تی ہے تو اسے ظاہر کرتا ہے اور اگر بری ہوتی ہے تو اسے پوشیدہ ہی رہنے دیتا ہے اور منافق کی زبان پر جو آتا ہے کہہ گزرتا ہے اسے یہ کچھ خبر نہیں ہو تی کہ کو ن سی بات اس کے حق میں مفید ہے اورکو ن سی مضر ہے ‘‘۔

۲۳۔ اہمیتِ خاندان

وَ أَكْرِمْ عَشِيرَتَكَ فَإِنَّهُمْ جَنَاحُكَ الَّذِي بِهِ تَطِيرُ وَ أَصْلُكَ الَّذِي إِلَيْهِ تَصِيرُ وَ يَدُكَ الَّتِي بِهَا تَصُولُ۔ (وصیت ۳۱)
ترجمہ: اپنے قوم قبیلے کا احترام کرو کیونکہ وہ تمہارے ایسے پرو بال ہیں کہ جن سے تم پرواز کر سکتے اور ایسی بنیادیں ہیں جن کا تم سہارا لیتے ہو اور تمہارے وہ دست و بازو ہیں جن سے حملہ کرتے ہو۔
امامؑ اپنے مواعظ میں جن چیزوں کی طرف ترغیب دلاتے ہیں ان میں سے ایک خاندان اور رشتہ داروں سے تعلق ہے۔ اس فرمان میں امامؑ نے رشتہ داروں کو تین چیزوں سے تشبیہ دی۔ وہ تیرے پر ہیں، بنیادیں ہیں، دست وبازو ہیں۔ وجود انسان کے لئے جتنی یہ چیزیں مہم ہیں اس زندگی میں خاندان و رشتہ دار بھی اتنے مہم ہیں۔
ایک اور مقام پر امامؑ خاندان کی اہمیت کے لئے فرماتے ہیں:
أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ لَا يَسْتَغْنِي الرَّجُلُ وَ إِنْ كَانَ ذَا مَالٍ عَنْ عِتْرَتِهِ وَ دِفَاعِهِمْ عَنْهُ بِأَيْدِيهِمْ وَ أَلْسِنَتِهِمْ وَ هُمْ أَعْظَمُ النَّاسِ حَيْطَةً مِنْ وَرَائِهِ وَ أَلَمُّهُمْ لِشَعَثِهِ وَ أَعْطَفُهُمْ عَلَيْهِ عِنْدَ نَازِلَةٍ إِذَا نَزَلَتْ بِهِ وَ لِسَانُ الصِّدْقِ يَجْعَلُهُ اللَّهُ لِلْمَرْءِ فِي النَّاسِ خَيْرٌ لَهُ مِنَ الْمَالِ يَرِثُهُ غَيْرُهُ۔
و منها : أَلَا لَا يَعْدِلَنَّ أَحَدُكُمْ عَنِ الْقَرَابَةِ يَرَى بِهَا الْخَصَاصَةَ أَنْ يَسُدَّهَا بِالَّذِي لَا يَزِيدُهُ إِنْ أَمْسَكَهُ وَ لَا يَنْقُصُهُ إِنْ أَهْلَكَهُ وَ مَنْ يَقْبِضْ يَدَهُ عَنْ عَشِيرَتِهِ فَإِنَّمَا تُقْبَضُ مِنْهُ عَنْهُمْ يَدٌ وَاحِدَةٌ وَ تُقْبَضُ مِنْهُمْ عَنْهُ أَيْدٍ كَثِيرَةٌ وَ مَنْ تَلِنْ حَاشِيَتُهُ يَسْتَدِمْ مِنْ قَوْمِهِ الْمَوَدَّةَ۔ (خطبہ:۲۳)
ترجمہ: اے لوگو! کوئی شخص بھی اگرچہ وہ مالدار ہو اپنے قبیلہ والوں اور اس امر سے کہ وہ اپنے ہاتھوں اور زبانوں سے اس حمایت کریں بے نیاز نہیں ہو سکتا اور وہی لوگ سب سے زیادہ اس کے پشت پناہ اوراس کی پریشانیوں کو دور کرنے والے اور مصیبت پڑنے کی صورت میں اس پر شفیق و مہربان ہوتے ہیں۔ اللہ جس شخص کا سچا ذکرِ خیر لوگوں میں برقرار رکھتا ہے تو یہ اس مال سے کہیں بہتر ہے جس کا وہ دوسروں کو وارث بنا جاتا ہے۔
قرآن مجید نے صلۃ الرحم کی اہمیت بار بار بیان فرمائی اور یہاں جناب امیر المؤمنین ؑ نے مثالوں کے ذریعہ اسے واضح کیا۔ اس محبت کی بقا کا نسخہ امامؑ نے ایک جملہ میں ارشاد فرما دیا’’جو شخص نرم خو ہو وہ اپنی قوم کی محبت ہمیشہ باقی رکھ سکتا ہے‘‘۔
دوسروں کی سختیوں اور زیادتیوں کو بھلا کر خود احسان و اکرام کے پودے کاشت کرتا رہے تو خود بھی ان کی خوشبو سے یقیناً معطر ہو گا۔

۲۴۔ بہترین نصیحت

فَإِنَّهُ أَوْعَظُ لِلْمُعْتَبِرِينَ مِنَ اَلْمَنْطِقِ اَلْبَلِيغِ وَ اَلْقَوْلِ اَلْمَسْمُوعِ (خطبہ ۱۴۷)
مرنے سے پہلے فرمایا :
اے لوگو! ہر شخص اسی چیز کا سامنا کرنے والا ہے جس سے وہ راہ فرار اختیار کئے ہوئے ہے اور جہاں زندگی کا سفر کھینچ کر لے جاتا ہے وہی حیات کی منزل منتہا ہے موت سے بھاگنا اسے پا لینا ہے۔ میں نے اس موت کے چھپے ہوئے بھیدوں کی جستجو میں کتنا ہی زمانہ گزارا مگر مشیت ایزدی یہی رہی کہ اس کی (تفصیلات) بے نقاب نہ ہوں۔ اس کی منزل تک رسائی کہاں وہ تو ایک پوشیدہ علم ہے تو ہاں میری وصیت یہ ہے کہ اللہ کا کوئی شریک نہ ٹھہراؤ اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو ضائع و برباد نہ کرو۔ ان دونون ستونوں کو قائم و برقرار رکھو اور ان دونوں چراغوں کو روشن کئے رہو۔ جب تک منتشر و پراکندہ نہیں ہوتے تم میں کوئی برائی نہیں آئے گی۔ تم میں سے ہر شخص اپنی وسعت بھر بوجھ اٹھائے۔ نہ جاننے والوں کا بوجھ بھی ہلکا رکھا گیا ہے (کیونکہ) اللہ رحم کرنے والا دین سیدھا (کہ جس میں کوئی الجھاؤ نہیں) اور پیغمبر عالم و دانا ہے۔ میں کل تمہارا ساتھی تھا اور آج تمہارے لیے عبرت بنا ہوا ہوں اور کل تم سے چھوٹ جاؤں گا۔ خدامجھے اور تمہیں مغفرت عطا کرے۔
اگر اس پھسلنے کی جگہ پر قدم جمےرہے تو خیر اور اگر قدموں کا جماؤ اکھڑ گیا تو ہم بھی انہی (گھنی) شاخوں کی چھاؤں ہوا کی گزرگاہوں اور چھائے ہوئے ابر کے سایوں میں تھے (لیکن) اس کے تہ بہ تہ جمے ہوئے لکے چھٹ گئے اور ہوا کے نشانات مٹ مٹا گئے۔ میں تمہارا ہمسایہ تھا کہ میرا جسم چند دن تمہارے پڑوس میں رہا اور میرے مرنے کے بعد مجھے جسد بے روح پاؤ گے کہ جو حرکت کرنے کے بعد تھم گیا اوربولنے کے بعد خاموش ہوگیا تاکہ میرا یہ سکون اور ٹھہراؤ اور آنکھوں کا مندھ جانا اور ہاتھ پیروں کا بے حس و حرکت ہو جانا تمہیں پند و نصیحت کرے۔ کیونکہ عبرت حاصل کرنے والوں کیلئے یہ (منظر) بلیغ کلموں اور کان میں پڑنے والی باتوں سے زیادہ موعظت و عبرت دلانے والا ہوتا ہے- میں تم سےاس طرح رخصت ہو رہا ہوں جیسے کوئی شخص (کسی کی) ملاقات کیلئے چشم براہ ہو۔ کل تم میرے اس دور کو یاد کرو گے اور میری نیتیں کھل کر تمہارے سامنے آجائیں گی اور میری جگہ کے خالی ہونے اور دوسروں کے اس مقام پر آنے سے تمہیں میری قدر و منزلت کی پہچان ہوگی۔
عجب واعظ ہیں امیر المؤمنینؑ! آیات و روایات پیش کر کے، علم و حکمت کی ابحاث کو چھیڑ کر موعظہ ونصیحت ہر کوئی کرتا رہا اور بہت سے افراد پر اثر بھی ہوتا رہا۔ امیر المؤمنینؑ کےحکمت سے مالا مال کلمات اس کا واضح ثبوت ہیں۔ مگر اپنے عمل کو نصیحت کا ذریعہ بنانا ہر کسی کیے بس کی بات نہیں۔ امام ؑ عملاً جب موعظہ کی دعوت دیتے ہیں تو اس کا نظارہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔
بصرہ کے گورنر عثمان بن حنیف کو جو وعظ و نصیحت شروع کی تو اپنا لباس اور غذا پیش کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:
’’اے ابن حنیف!۔ ۔ دیکھو تمہارے امام کی حالت تو یہ ہے کہ اُس نے دنیا کے ساز وسامان میں سے دو پھٹی پرانی چادروں اور کھانے میں سے دو روٹیوں پر قناعت کر لی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ تمہارے بس کی یہ بات نہیں۔ لیکن اتنا تو کرو کہ پرہیز گاری، سعی وکوشش، پاکدامنی اور سلامت روی میں میرا ساتھ دو۔ خدا کی قسم میں نے تمہاری دنیا سے سونا سمیٹ کر نہیں رکھا اور نہ اس کے مال و متاع میں سے انبار جمع کر رکھے ہیں اور نہ ان پرانے کپڑوں کے بدلہ میں (جو پہنے ہوئے ہوں) اور کوئی پُرانا کپڑا میں نے مہیا نہیں کیا‘‘۔ (خط:۴۵)
یا علیؑ! وہ خندق و خیبر وہ آپ کا احد میں زخموں سے چور چور بدن و جنگِ بدر، وہ شب ِ ہجرت رسول اللہ ؐ کا بستر سب موعظہ و نصیحت ہیں مگر آپ کی اس پرانی قمیص کے ایک ایک دھاگے میں کتنے واعظ بول رہے ہیں:
وَ اللَّهِ لَقَدْ رَقَّعْتُ مِدْرَعَتِي هَذِهِ حَتَّى اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَاقِعِهَا وَ لَقَدْ قَالَ لِي قَائِلٌ أَ لَا تَنْبِذُهَا عَنْكَ فَقُلْتُ اغْرُبْ عَنِّي فَعِنْدَ الصَّبَاحِ يَحْمَدُ الْقَوْمُ السُّرَى۔ (خطبہ:۱۵۸)
(اللہ کے رسول ؐ کی پیروی میں ) خدا کی قسم میں نے اپنی اِس قمیص میں اتنے پیوند لگائے ہیں کہ مجھے پیوند لگانے والے سے شرم آنے لگی ہے۔ مجھ سے ایک کہنے والے نے کہا کہ کیا آپ اسے اتاریں گے نہیں؟تو میں نے اُسے کہا کہ میری نظروں سے دور ہو جاؤ۔
وہ علیؑ جس کی زندگی کا ایک ایک لحظہ اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک جملہ موعظہ و نصیحت کا بہترین ذریعہ ہے وہی علیؑ، ابن ملجم کی تلوار کا وار جھیل کر موت کے بستر پر لیٹے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ میں کل تمہارا ساتھی تھا اور آج تمہارے لئے عبرت بنا ہوا ہوں اور کل تم سے چھوٹ جاؤں گا میرا جسم حرکت کرنے کے بعد تھم گیا ہے اور بولنے کے بعد خاموش ہو گیا ہےعبرت حاصل کرنے والوں کے لئے یہ منظر بلیغ کلموں اور سنائی دینے والی باتوں سے زیادہ موعظت و عبرت دلانے والا ہے ‘‘۔

۲۵۔ نرم مزاجی

مَنْ لَانَ عُودُهُ كَثُفَتْ أَغْصَانُهُ (حکمت ۲۱۴)
ترجمہ: جس درخت کی لکڑی نرم ہو اُس کی شاخیں گھنی ہوتی ہیں۔
مفتی جعفر حسین ؒ لکھتے ہیں:
جو شخص تند خو اور بدمزاج ہو، وہ کبھی اپنے ماحول کو خوش گوار بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اس کے ملنے والے بھی اس کے ہاتھوں، نالاں اور اس سے بیزار رہیں گے اور جو خوش خلق اور شیریں زبان ہو لوگ اس کے قرب کے خواہاں اور اس کی دوستی کے خواہشمند ہوں گے اور وقت پڑنے پر اس کے معاون و مددگار ثابت ہوں گے جس سے وہ اپنی زندگی کو کامیاب بنا سکتا ہے۔

۲۶۔ اخلاق و ادب

كَفَاكَ أَدَباً لِنَفْسِكَ اِجْتِنَابُ مَا تَكْرَهُهُ مِنْ غَيْرِكَ (حکمت ۴۱۲)
ترجمہ: تمہارے نفس کی آراستگی و تربیت کے لیے یہی کافی ہے کہ جس چیز کو اوروں کے لیے ناپسند کرتے ہو، اُس سے خود بھی پرہیز کرو۔
امام ؑ کا یہ مختصر ومؤثر فرمان انسانی تربیت اور تہذیبِ نفس کے لیے بہترین نسخہ ہے۔ انسان حبِ ذات کی مرض میں مبتلا ہو کر ہمیشہ دوسروں کی کمزوریوں اور غلطیوں کو تو باریک بینی سے دیکھتا اور گنتاہے لیکن اپنی ذات کے عیوب اسے نظر نہیں آتے۔ امیر المؤمنینؑ نے مختلف مقامات پر الگ الگ انداز سے اس کمزوری کی طرف نشاندہی کی اور اصلاح کی راہنمائی فرمائی ایک مقام پر امام ؑ فرماتے ہیں:
كَفَى أَدَباً لِنَفْسِكَ تَجَنُّبُكَ مَا كَرِهْتَهُ لِغَيْرِكَ (حکمت ۳۶۵)
نفس کی اصلاح کے لیے یہی کافی ہے کہ جن چیزوں کو دوسروں کے لیے برا سمجھتے ہو اُن سے بچ کر رہو۔
ایک اور موقعہ پر امیرالمؤمنینؑ ارشاد فرماتے ہیں:
أَكْبَرُ الْعَيْبِ أَنْ تَعِيبَ مَا فِيكَ مِثْلُهُ۔ (حکمت ۳۵۳)
ترجمہ: سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ اس عیب کو بُرا کہا جائے جس کے مانند خود تمہارے اندر موجود ہے۔

علامہ مفتی جعفر حسینؒ اس حکمت کے ذیل میں لکھتے ہیں:
اس سے بڑھ کر اور عیب کیا ہوسکتا ہے کہ انسان دوسروں کے ان عیوب پر نکتہ چینی کرے جو خود اس کے اندر بھی پائے جاتے ہوں، تقاضائے عدل تو یہ ہے کہ وہ دوسروں کے عیوب پر نظر کرنے سے پہلے اپنے عیوب پر نظر کرے اور سوچے کہ عیب، عیب ہے وہ دوسرے کے اندر پایا جائے یا اپنے اندر۔
همه عیب خلق دیدن، نه مروتست و مردی
نگهی به خویشتن کن، که تو هم گناه داری
امامؑ اس اخلاقی کمزوری کے لیے سخت الفاظ میں کہتے ہیں:
جو شخص لوگوں کے عیوب دیکھ کر ناک بھوں چڑھائے اور پھر اُنہیں اپنے لیے چاہے وہ سراسر احمق ہے۔ (حکمت ۳۴۹)
دوسروں کو اپنی اصلاح کے لیے آئینہ بنانا چاہئے۔ گلستان سعدی میں شیخ سعدی لکھتے ہیں کہ لقمان سے پوچھا گیا کہ یہ ادب کس سے سیکھا ہے؟ کہا بے ادبوں سے، جو اُن میں مجھے بُرا نظر آیا اُسے چھوڑ دیا۔

۲۷۔ امر بالمعروف

وَ مَا أَعْمَالُ الْبِرِّ كُلُّهَا وَ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عِنْدَ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيِ عَنْ الْمُنْكَرِ إِلَّا كَنَفْثَةٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ وَ إِنَّ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ لَا يُقَرِّبَانِ مِنْ أَجَلٍ وَ لَا يَنْقُصَانِ مِنْ رِزْقٍ وَ أَفْضَلُ مِنْ ذَلِكَ كُلِّهِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ إِمَامٍ جَائِرٍ۔ (حکمت۳۷۴)
ترجمہ: تمام اعمالِ خیر اور جہاد فی سبیل اللہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مقابلے میں ایسے ہیں، جیسے گہرے دریا میں لعابِ دہن کے ریزے ہوں۔ یہ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ایسا نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے موت قبل از وقت آ جائےیا رزق ِ معیّن میں کمی آ جائے اور سب سے بہتر وہ حق بات ہے جو کسی جابر حکمران کے سامنے کہی جائے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت پر امامؑ کےاس فرمان سے واضح اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دو فریضے واجبات اور اچھائی و بھلائی کے جاری کرنے کا سبب اور ذریعہ ہیں۔ اس اہمیت کے فورا بعد امامؑ نے یہ بھی روشن کر دیا کہ ان واجبات کی ادائیگی کی وجہ سے نہ موت جلدی آتی ہے نہ رزق و روزی رکتی ہے۔
اس فریضہ کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے کلامِ الہی میں ارشاد ہوتا ہے:
وَلۡتَكُن مِّنكُمۡ أُمَّةٞ يَدۡعُونَ إِلَى ٱلۡخَيۡرِ وَيَأۡمُرُونَ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمُنكَرِۚ وَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُفۡلِحُونَ. (آل عمران ۱۰۴)
ترجمہ: اور تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہئے جو نیکی کی دعوت اور بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہر شخص پر لازم ہے مگر اس آیت مجیدہ میں، نظامِ اسلام کے اجرا اور قومی زندگی کی بقا کے لئے دعوت و ارشاد کے لئے ایک گروہ کا ہونا لازم قرار دیا گیا جو اپنے قول و عمل سے تعلیماتِ قرآن و اہلبیت ؑکی طرف بلاتے رہیں۔ وہ خود معروف و منکر کا علم رکھتے ہوں، موقع شناس بھی ہوں۔ مراتبِ امر ونہی سے بھی واقف ہوں۔
جناب امیر المؤمنین ؑ نے بسترِ موت پر بھی اس فریضہ کی طرف متوجہ کیا اور فرمایا:
لَا تَتْرُكُوا الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ فَيُوَلَّى عَلَيْكُمْ شِرَارُكُمْ ثُمَّ تَدْعُونَ فَلَا يُسْتَجَابُ لَكُمْ۔ (وصیت:۴۷)
’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو ترک نہ کرنا ورنہ بد کردار تم پر مسلط ہو جائیں گے پھر دعا مانگو گے تو قبول نہیں ہو گی‘‘۔
ان دو فرائض کی تفصیل اور اہمیت کو یہاں اس سے زیادہ بیان کرنے کی گنجائش نہیں۔ علماء نے اس موضوع پر مستقل کتابیں تحریر فرمائی ہیں جن کا مطالعہ یقینا مفید ہو گا۔
اس فریضے کی ادائیگی میں عام طور پر یہ غلطی ہوتی ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے افراد اپنے آپ کو دوسروں سے اعلی وارفع اور زیادہ متدین و نیک سمجھنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے کلام کا اثر کم ہو جاتا ہے۔
امیر المؤمنینؑ فرماتے ہیں:
مَنْ نَصَبَ نَفْسَهُ لِلنَّاسِ إِمَاماً فَلْيَبْدَأْ بِتَعْلِيمِ نَفْسِهِ قَبْلَ تَعْلِيمِ غَيْرِهِ وَ لْيَكُنْ تَأْدِيبُهُ بِسِيرَتِهِ قَبْلَ تَأْدِيبِهِ بِلِسَانِهِ وَ مُعَلِّمُ نَفْسِهِ وَ مُؤَدِّبُهَا أَحَقُّ بِالْإِجْلَالِ مِنْ مُعَلِّمِ النَّاسِ وَ مُؤَدِّبِهِمْ۔ (حکمت:۷۳)
’’جو لوگوں کا پیشوا بنتا ہے اسے دوسروں کو تعلیم دینے سے پہلے اپنے کو تعلیم دینا چاہئے۔ اور زبان سے درسِ اخلاق دینے سے پہلے اپنی سیرت و کردار سے تعلیم دینی چاہئے۔ اور جو اپنے نفس کی تعلیم و تادیب کر لے، وہ دوسروں کی تعلیم و تادیب کرنے والے سے زیادہ احترام کا مستحق ہے‘‘۔

۲۸۔ لوگوں سے برتاؤ

مَنْ أَسْرَعَ إِلَى اَلنَّاسِ بِمَا يَكْرَهُونَ قَالُوا فِيهِ بِمَا لاَ يَعْلَمُونَ (حکمت ۳۵)
ترجمہ: جو شخص لوگوں کے بارے میں جھٹ سے ایسی باتیں کہہ دیتا ہے جو انہیں ناگوار گزریں، تو پھر وہ اُس کے لئے ایسی باتیں کہتے ہیں کہ جنہیں وہ جانتے نہیں۔
بعض لوگ اسے جرأت اور شجاعت سمجھتے ہیں کہ دوسروں کے لیے جو بات ان کے ذہن میں آئے کہہ دیں اور کچھ لوگ دوسروں کے لئے نازیبا باتیں ہنسی اور مذاق کے انداز میں کہہ دیتے ہیں۔ امیرالمؤمنینؑ نےاس قسم کے کلام سے منع فرمایا ہے۔
امام ؑ نے اس کی وجہ بھی بیان فرمائی کہ آپ کی بات کا جواب دینے کے لیے پھر وہ کچھ کہہ دیا جائے گا جسے مخالف جانتا ہی نہیں اس لئے دوسرے کو دفاع پر مجبور نہ کرو اگر کوئی ایسی بات آپ کو کہنی ہے تو دو چیزوں کا خیا رکھیں ایک یہ کہ اسے تنہائی میں کہیں اور دوسرا یہ کہ سامنے والے کی عزت مدنظر رہے۔
دوسروں کی عزت کی حفاظت کریں گے تو آپ کی عزت محفوظ رہے گی ویسے بھی زبان کو کنٹرول کرنے کا شدت سے حکم دیا گیا ہے کہ پہلے سوچ لو کیا کہنا ہےکہیں سننے والے کو ناگوار تو نہیں گزرے گا۔

۲۹۔ غیبت

وَ إِنَّمَا يَنْبَغِي لِأَهْلِ الْعِصْمَةِ وَ الْمَصْنُوعِ إِلَيْهِمْ فِي السَّلَامَةِ أَنْ يَرْحَمُوا أَهْلَ الذُّنُوبِ وَ الْمَعْصِيَةِ وَ يَكُونَ الشُّكْرُ هُوَ الْغَالِبَ عَلَيْهِمْ وَ الْحَاجِزَ لَهُمْ عَنْهُمْ فَكَيْفَ بِالْعَائِبِ الَّذِي عَابَ أَخَاهُ وَ عَيَّرَهُ بِبَلْوَاهُ أَ مَا ذَكَرَ مَوْضِعَ سَتْرِ اللَّهِ عَلَيْهِ مِنْ ذُنُوبِهِ مِمَّا هُوَ أَعْظَمُ مِنَ الذَّنْبِ الَّذِي عَابَهُ بِهِ وَ كَيْفَ يَذُمُّهُ بِذَنْبٍ قَدْ رَكِبَ مِثْلَهُ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ رَكِبَ ذَلِكَ الذَّنْبَ بِعَيْنِهِ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ فِيمَا سِوَاهُ مِمَّا هُوَ أَعْظَمُ مِنْهُ. (خطبہ۱۳۸)
ترجمہ: جن لوگوں کا دامن خطاؤں سے پاک صاف ہے اور بفضل الٰہی گناہوں سے محفوظ ہیں انہیں چاہئے کہ وہ گناہگاروں اور خطاکاروں پر رحم کریں اور اس چیز کا شکر ہی (کہ اللہ نے انہیں گناہوں سے بچائے رکھا ہے ) ان پر غالب اور دوسروں کے عیب اچھالنے ) سے مانع رہے چہ جائیکہ وہ عیب لگانے والا اپنے کسی بھائی کی پیٹھ پیچھے برائی کرے اور اس کے عیب بیان کر کے طعن و تشنیع کرے یہ آخر خدا کی اس پر دہ پوشی کو کیوں نہیں یاد کرتا جو اس نے خود اس کے ایسے گناہوں پر کی ہے جو اس گناہ سے بھی جس کی وہ غیبت کر رہا ہے۔
اسلام نے انسان کی عزت و توقیر کو اتنی اہمیت دی کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ نہیں اسے اسلام کے دائرے سے خارج کر دیا۔ اس خطبہ میں امیرالمؤمنینؑ نے اسی عزت کی حفاظت پر زور دیا۔
امام علیؑ نے مختلف طریقوں اور دلیلوں سے دوسروں کے عیب تلاش کرنے اور پھر ان عیوب کو دوسروں کے سامنے بیان کرنے سے منع کیا۔
دوسروں کے عیب تلاش کرنا ایک گناہ ہے اور اس عیب کو دوسروں کے سامنے بیان کرنا غیبت کہلاتا ہے جس کی قرآن مجید میں سخت ترین الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ اسے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
غیبت یہ ہے کہ اپنے کسی مومن بھائی کے عیب کواس کی کمزوری اور تنقیص کی غرض سے زبان یا اشارے یاکنائے سے پیش کیا جائے۔ غیبت اس سچے عیب کے اظہار کا نام ہے جسے اس نے خود دیکھا ہے یا سنا ہو اور اگر وہ عیب جھوٹ ہو تو وہ افتراء اور بہتان کہلاتا ہے۔
اس خطبہ کا ایک ایک جملہ کئی کئی مفاہیم اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جس کی وضاحت کی یہاں گنجائش نہیں۔ فقط ایک جملہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں، امام علیؑ فرماتے ہیں:
جس طرح رب نے آپ کے بہت سے بڑے بڑے گناہوں پر پردہ ڈالا ہوا ہے آپ بھی اس اللہ کے اس کرم کے شکرانے کے طور پر دوسروں کے گناہوں کو اچھالنے اور بیان کرنے کے بجائے ان پر پردہ ڈالیں۔

۳۰۔ بھائی چارہ

عَاتِبْ أَخَاكَ بِالْإِحْسَانِ إِلَيْهِ وَ اُرْدُدْ شَرَّهُ بِالْإِنْعَامِ عَلَيْهِ (حکمت ۱۵۸)
ترجمہ : اپنے بھائی کو شرمندہ احسان بنا کر سر زنش کرو اور لطف و کرم کے ذریعہ سے اس کے شر کو دور کرو۔
دوستوں اور بھائیوں میں حالات بدلتے اور بگڑتے رہتے ہیں۔ کبھی ایک بھائی سے غلطی اور زیادتی ہو گئی تو اب دوسرے کی ذمہ داری اور اخلاقی فریضہ امامؑ نے اس فرمان میں بیان کیا۔ اینٹ کا جواب پتھر کسی اور نظریہ میں صحیح اور جائز ہو گا اسلام میں تو اینٹ کے جواب میں دعا ہے۔ بھائیوں کے بجائے پیغمبر اکرم ؐ کا توقریش کے دشمنوں کے مقابلے میں بھی یہی سلوک رہا۔
پہلے تو اسلام نے حسن ظن کی اتنی تاکید کی کہ آپ دوسرےبھائی کے عمل کو ستر بار اچھائی پر حمل اور تاویل کریں اور اگر کسی وقت سو فیصد اس کی زیادتی ثابت ہو گئی تو بھی اس سے احسان کے ساتھ پیش آئیں۔ اگر یہ روش عام ہو جائے تو یقینا مسلمانوں میں حقیقی بھائی چارہ قائم ہو سکتا ہے۔

۳۱۔ غصہ

اَلْحِدَّةُ ضَرْبٌ مِنَ اَلْجُنُونِ لِأَنَّ صَاحِبَهَا يَنْدَمُ فَإِنْ لَمْ يَنْدَمْ فَجُنُونُهُ مُسْتَحْكِمٌ (حکمت ۲۵۵)
ترجمہ: غصہ ایک قسم کی دیوانگی ہےکیونکہ غصہ والا آدمی بعد میں پشیمان ضرور ہوتا ہے اور اگر پشیمان نہیں ہوتا تو اس کی دیوانگی پُختہ ہے۔
امام حقیقت میں وہ معالج ہے جو امراض بھی بتاتا ہے اور اس کا علاج بھی کرتا ہے۔ اس فرمان میں امامؑ نے غصہ کو جنون سے تعبیر فرما کر اس مرض کی شدت بتائی اور اس کی دلیل یہ دی کہ جیسے کوئی شخص دیوانگی میں کوئی عمل انجام دیتا ہے اور جب اس کو ہوش آتا ہے تو پریشان ہو جاتا ہے کہ میں نے کیا کیا۔
غصہ والا آدمی بھی اس وقت گویا اپنی عقل کو کھو بیٹھتا ہے اور اس حالت میں کچھ ایسے اقدام کرتا ہے کہ ممکن ہے پھر ساری زندگی ان کا جبران نہ کر سکے۔
امامؑ نے حارث ہمدانی کو جو وصیت ارشاد فرمائی، اس میں فرمایا:
’’اور غصے سے ڈرو، کیونکہ یہ شیطان کے لشکروں میں سے ایک بڑا لشکر ہے‘‘۔ (وصیت۶۹)
امامؑ نے جنابِ عبد اللہ بن عباس کو نصیحت کے طور پر لکھا:
وَ إِيَّاكَ وَ الْغَضَبَ فَإِنَّهُ طَيْرَةٌ مِنَ الشَّيْطَانِ. (وصیت:۷۶)
’’غصہ سے پرہیز کرو کیونکہ یہ شیطان کے لئے نیک شگون ہے‘‘۔
امامؑ کے ان فرامین میں ایک بات واضح ہے کہ غصہ ور یا مجنون ہے یا شیطان کا سپاہی ہے اور ضروری ہے کہ انسان غصہ کی حالت میں کوئی فیصلہ نہ کرے اور اس کا علاج یہ ہے کہ غضبِ الہی پر نظر رکھے اور سوچے کہ میں کسی پر غضب ناک ہوں گا تو جو مجھ سے بڑا ہے وہ مجھ پر غضب ناک ہو گا۔

۳۲۔ راز داری

صَدْرُ اَلْعَاقِلِ صُنْدُوقُ سِرِّهِ ( حکمت ۶)
ترجمہ: عقلمند کا سینہ اُس کے بھیدوں کا مخزن ہوتا ہے۔
اس فرمان میں رازداری کو امامؑ نے انسان کے عقل مند ہونے کی نشانی قراردیا ہے۔ خود رازداری کی اہمیت بھی اس فرمان سے واضح ہوتی ہے۔
ایک اور مقام پر امامؑ ارشاد فرماتے ہیں:
مَنْ كَتَمَ سِرَّهُ كَانَتِ الْخِيَرَةُ بِيَدِهِ۔ (حکمت۱۶۲)
ترجمہ: جو اپنے راز کو پوشیدہ رکھے گا اس کا اختیار اس کے ہاتھ میں رہے گا۔
راز سے مراد وہ امور ہیں کہ اگر دوسرے اس سے آگاہ ہو جائے تو اِس کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں اور بعض ایسے راز ہوتے ہیں جو لوگ اسی کے خلاف انہیں استعمال کر سکتے ہیں۔ امام حسن مجتبیٰ ؑ کو وصیت میں بھی مولا علیؑ نے فرمایا کہ انسان کو اپنے رازوں کی حفاظت کرنی چاہئے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے اور خاص کر جوانوں میں یہ چیز عام ہے کہ وہ اپنے قریب ترین دوستوں کو اپنے سب راز بتا دیتے ہیں اور صمیمی دوستی سمجھی ہی وہی جاتی ہے جہاں کوئی راز راز نہ رہے اور یہ دوستیاں دشمنیوں میں بھی بدل جاتی ہیں اور وہ راز جب سامنے آنا شروع ہوتے ہیں تو خود کشیوں تک نوبتیں پہنچ جاتی ہیں۔ اس لئے امام ؑ نے فرمایا اس کی حفاظت کرو اس لئے کہ آج کا دوست کل دشمن بھی بن سکتا ہے اور دوست کے اور دوست بھی ہوتے ہیں وہ آپ کے راز انہیں بھی بتا سکتا ہے۔

۳۳۔ علاجِِروح

إِنَّ هَذِهِ اَلْقُلُوبَ تَمَلُّ كَمَا تَمَلُّ اَلْأَبْدَانُ فَابْتَغُوا لَهَا طَرَائِفَ اَلْحِكْمَةِ (حکمت ۱۹۷)
ترجمہ: یہ دل بھی اسی طرح تھکتے ہیں جس طرح بدن تھکتے ہیں۔ لہٰذا (جب ایسا ہو تو)ان کے لیے لطیف حکیمانہ جملے تلاش کرو۔
بدن کی طرح روحِ انسان بھی ملول و پریشان ہوتی ہے اور جس طرح جسم کے سکون کے لئے اسے راحت و سکون کی ضرورت ہوتی ہے روح کی افسردگی اور تھکاوٹ کو دور کرنے کی بدن سے بھی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ قلب و روح اگر پریشان ہیں تو بدن بھی ساتھ نہیں دے گا۔ طبیعت کے خوبصورت مناظر، باغ و بہار کی سیر، بلبل و طوطی کی صدائیں، دوستوں اور پیاروں کی محفلیں اورگفتگو یہ سب دل کی تسکین کا ذریعہ شمار کئے جاتے ہیں۔
امامؑ نے روح کی خوشی ومسرت کا ذریعہ لطیف حکیمانہ نکات کو قرار دیا۔ کیسے حکیمانہ نکات!؟رب نے جناب لقمان کی اپنے بیٹے سے باتوں کو قرآن کا حصہ بنایا اور یہی باتیں جنابِ لقمان کےحکیم ہونے کی شہرت کا سبب بن گئیں۔ قرآن کی ایک ایک آیت حکمت کا سمندر ہے، اسی لئے شاید حکم ہوا کہ اللہ کا ذکر بجا لاؤ دل مطمئن ہو گا۔
قرآن کی حکمت بھری باتوں پر عمل کر لیا جائے تو سکون ِ روح میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ رب قرآن میں ایثار و قربانی کا حکم دیتا ہے۔ ایثار یعنی دوسروں کی خاطر خود کو تکلیف میں ڈالنا اور یہ ایثار جو سکون مہیا کرتا ہے اسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ سورہ دہر میں روٹیاں دے کر جو سکون اہلبیت کو ملا ہمیشہ اسے اپنی فضیلت کے طور پر بیان فرماتے رہے۔ حکمِ لطیفہ وہی ہیں جو ایسے نتائج مہیا کرتے ہیں اور نہج البلاغہ ان حکمتوں کا ایک بہت بڑا خزانہ ہے۔

۳۴۔ عیب جوئی

مَنْ نَظَرَ فِي عَيْبِ نَفْسِهِ اشْتَغَلَ عَنْ عَيْبِ غَيْرِهِ وَ مَنْ رَضِيَ بِرِزْقِ اللَّهِ لَمْ يَحْزَنْ عَلَى مَا فَاتَهُ وَ مَنْ سَلَّ سَيْفَ الْبَغْيِ قُتِلَ بِهِ وَ مَنْ كَابَدَ الْأُمُورَ عَطِبَ وَ مَنِ اقْتَحَمَ اللُّجَجَ غَرِقَ وَ مَنْ دَخَلَ مَدَاخِلَ السُّوءِ اتُّهِمَ وَ مَنْ كَثُرَ كَلَامُهُ كَثُرَ خَطَؤُهُ وَ مَنْ كَثُرَ خَطَؤُهُ قَلَّ حَيَاؤُهُ وَ مَنْ قَلَّ حَيَاؤُهُ قَلَّ وَرَعُهُ وَ مَنْ قَلَّ وَرَعُهُ مَاتَ قَلْبُهُ وَ مَنْ مَاتَ قَلْبُهُ دَخَلَ النَّارَ وَ مَنْ نَظَرَ فِي عُيُوبِ النَّاسِ فَأَنْكَرَهَا ثُمَّ رَضِيَهَا لِنَفْسِهِ فَذَلِكَ الْأَحْمَقُ بِعَيْنِهِ وَ الْقَنَاعَةُ مَالٌ لَا يَنْفَدُ وَ مَنْ أَكْثَرَ مِنْ ذِكْرِ الْمَوْتِ رَضِيَ مِنَ الدُّنْيَا بِالْيَسِيرِ وَ مَنْ عَلِمَ أَنَّ كَلَامَهُ مِنْ عَمَلِهِ قَلَّ كَلَامُهُ إِلَّا فِيمَا يَعْنِيهِ۔ (حکمت ۳۴۹)
ترجمہ: جو شخص اپنے عیوب پر نظر رکھے گا وہ دوسروں کی عیب جوئی سے باز رہے گا۔ اور جو اللہ کے دیئے ہوئے رزق پر خوش رہے گا، وہ نہ ملنے والی چیز پر رنجیدہ نہیں ہو گا۔ جو ظلم کی تلوار کھینچتا ہے وہ اسی سے قتل ہوتا ہے جو اہم امور کو زبردستی انجام دینا چاہتا ہے۔ وہ تباہ و بر باد ہوتا ہے، جو اٹھتی ہوئی موجوں میں پھاندتا ہے، وہ ڈوبتا ہے، جو بدنامی کی جگہوں پر جائے گا، وہ بدنام ہو گا، جو زیادہ بولے گا، وہ زیادہ لغزشیں کرے گا اور جس میں حیا کم ہو اس میں تقویٰ کم ہو گا اور جس میں تقویٰ کم ہو گا اس کا دل مردہ ہو جائے گا۔ اور جس کا دل مردہ ہو گیا وہ دوزخ میں جا پڑا۔ جو شخص لوگوں کے عیوب کو دیکھ کر نا ک بھول چڑھائے اور پھر انہیں اپنے لئے چاہے وہ سرا سرا حمق ہے۔ قناعت ایسا سرمایہ ہے جو ختم نہیں ہوتا۔ جو موت کو زیادہ یاد رکھتا ہے وہ تھوڑی سی دنیا پر بھی خوش ہو رہتا ہے۔ جو شخص یہ جانتا ہے کہ اس کا قول بھی عمل کا ایک جز ہے، وہ مطلب کی بات کے علاوہ کلام نہیں کرتا۔
اس حکمت میں امامؑ نے گیاراں مواعظ پیش کئے ہیں۔ ہر جملہ الگ بیان اور تشریح چاہتا ہے۔ ہم یہاں فقط پہلے جملہ کو بیان کرتے ہیں۔ معصومین کے علاوہ ہر کسی سے گناہ سرزد ہوتے ہیں۔ کسی سے کم تو کسی سے زیادہ۔ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ انسان دوسروں کے عیب بیان کرنے سے پہلے اپنے گناہوں کی اصلاح کر لے اگر کوئی اپنی اصلاح میں مشغول ہو جائے تو اسے دوسروں کے گناہوں کی تلاش اور تذکروں کی فرصت ہی نہیں ہوتی اور وہ دوسروں کے عیب بیان کرنے سے شرماتا ہے کہ جب میرے اپنے اتنے گناہ ہیں تو میں دوسروں کے گناہ کیسے ڈھونڈھتا اور گنتا رہوں۔
اسی مطلب کو دوسرے مقام پر امامؑ نے اس انداز سے بیان فرمایا:
يَا أَيُّهَا اَلنَّاسُ طُوبَى لِمَنْ شَغَلَهُ عَيْبُهُ عَنْ عُيُوبِ اَلنَّاسِ وَ طُوبَى لِمَنْ لَزِمَ بَيْتَهُ وَ أَكَلَ قُوتَهُ وَ اِشْتَغَلَ بِطَاعَةِ رَبِّهِ وَ بَكَى عَلَى خَطِيئَتِهِ فَكَانَ مِنْ نَفْسِهِ فِي شُغُلٍ وَ اَلنَّاسُ مِنْهُ فِي رَاحَةٍ (خطبہ ۱۷۴)
ترجمہ: اے لوگو! لائق مبارک باد وہ شخص ہے جسے اپنے عیوب دوسروں کی عیب گیری سے باز رکھیں اور قابل مبارکباد وہ شخص ہے جو اپنے گھر (کے گوشہ) میں بیٹھ جائے اور جو کھانا میسر آسکے کھا لے اور اپنے اللہ کی عبادت میں لگا رہے اور اپنے گناہوں پر آنسو بہائے کہ اس طرح وہ بس اپنی ذات کی فکر میں رہے اور دوسرے لوگ اس سے آر ام میں رہیں۔

۳۵۔ متقی کی نشانی

يَعْفُو عَمَّنْ ظَلَمَهُ وَ يُعْطِي مَنْ حَرَمَهُ وَ يَصِلُ مَنْ قَطَعَهُ (خطبہ۱۹۱)
ترجمہ: جو اس پر ظلم کرتا ہے اس سے در گزر کر جاتا ہےجو اسے محروم کرتا ہے اس کا دامن اپنی عطا سے بھر دیتا ہے جو اس سے توڑتا ہے یہ اس سے جوڑتا ہے۔
امیر المؤمنینؑ نے اس خطبہ میں متقین کی ایک سو سے زیادہ صفات بیان کی ہیں۔ اس خطبہ کو اگر مومن کے لئےآئینہ کہا جائے تو بجا ہو گا۔ ھمامؒ نے امامؑ سے متقین کی صفات پوچھیں اور امامؑ نے تفصیل سے انہیں بیان فرمایا۔
اگر کوئی اپنا مقامِ تقوی دیکھنا چاہے تو اس خطبہ کو پڑھ کر اپنے دامن میں جھانکے کہ ان اوصاف میں سے کتنےمیرے اندر پائے جاتے ہیں۔
یہاں ہمارے مدِ نظر امامؑ کا فقط ایک فرمان ہے۔ امامؑ فرماتے ہیں :’’جو ُاس سے توڑتا ہے یہ اس سے جوڑتا ہے یا جو اُس سے بگاڑتا ہے یہ اس سے بناتا ہے‘‘۔
تعلق قائم رکھنے والوں سے رابطہ رکھنا بھی بہت مہم ہے مگر امامؑ اس فرمان میں متقی کو اس سے زیادہ بہادر اور شجاع دیکھنا چاہتے ہیں کہ جو رابطہ و تعلق توڑتا ہے متقی اس سے بھی جوڑتا ہے۔ بلکہ امام حسن ؑ کو وصیت میں فرمایا:
وَ لَا يَكُونَنَّ أَخُوكَ أَقْوَى عَلَى قَطِيعَتِكَ مِنْكَ عَلَى صِلَتِهِ وَ لَا تَكُونَنَّ عَلَى الْإِسَاءَةِ أَقْوَى مِنْكَ عَلَى الْإِحْسَانِ (وصیت:۳۱)
ترجمہ: آپ کا کوئی بھائی تعلق توڑنے میں آپ سے قوی نہ ہو بلکہ تم رشتہِ محبت جوڑنے میں اس سے قوی ہو جاؤ۔ وہ برائی کرنے میں آپ سے طاقت ور نہ ہو بلکہ آپ احسان کرنے میں اس سے بازی لےجاؤ۔
آخری وصیت میں حسنین شریفینؑ اور آپ کے ذریعہ سے ہر چاہنے والے سے فرماتے ہیں:
’’تم کو لازم ہے کہ آپس میں میل ملاپ رکھنا اور ایک دوسرے کے لئے خرچ کرتے رہنا اور خبر دار ایک دوسرے کی طرف سے پیٹھ پھیرنے اور تعلقات توڑنے سے پرہیز کرنا‘‘۔ (وصیت:۴۷)

۳۶۔ صدقہ، شفا بخش دعا

وَ اَلصَّدَقَةُ دَوَاءٌ مُنْجِحٌ وَ أَعْمَالُ اَلْعِبَادِ فِي عَاجِلِهِمْ نُصْبُ أَعْيُنِهِمْ فِي آجَالِهِمْ (حکمت۷)
ترجمہ: صدقہ کامیاب دوا ہے ,اور دنیا میں بندوں کے جو اعمال ہیں وہ آخرت میں ان کی آنکھوں کے سامنے ہوں گے۔
صدقہ و سخاوت اورانفاق و زکوٰۃ اسلام کے مہم موضوعات میں سے ہیں۔ صدقہ اس عطا کو کہتے ہیں جس میں قربتِ خدا کا قصد ہو، یہ واجبات اور مستحبات کو شامل ہے۔ ایک شخص کو دیا جانے والا عطیہ یا عوامی فوائد کے لئے کیا جانے والا خرچ صدقہ ہی کہلاتا ہے۔
امامؑ نے یہاں صدقہ کو شفا بخش دوا سے تعبیر کیا ہے، مادی طور پر بھی صدقہ شفا بخش ہے، مریضوں کی صحت یابی اور مال میں اضافہ کے لئے صدقہ کا فوری اثر دیکھا گیا ہے۔ پیغمبر اکرمؐ فرماتے ہیں:
’’صدقے کے ذریعہ اپنے مریضوں کا علاج کرو‘‘(مستدرک الوسائل ج۷)
امیر المؤمنینؑ ایک مقام پر فرماتے ہیں:
اِسْتَنْزِلُوا اَلرِّزْقَ بِالصَّدَقَةِ (حکمت ۱۳۷)
صدقہ کے ذریعہ روزی طلب کرو۔
امیر المؤمنینؑ فرماتے ہیں:
إِذَا أَمْلَقْتُمْ فَتَاجِرُوا اَللَّهَ بِالصَّدَقَةِ (حکمت ۲۵۸)
جب تنگدست ہو جاؤ تو اللہ سے صدقہ کے ذریعہ تجارت کرو۔
صدقہ کے معنوی اثرات بھی واضح ہیں۔ جسے اللہ کی ذات پر اعتماد ہو گا وہ اللہ کی راہ میں خرچ کر کے سکون پائے گا۔ امیر المؤمنینؑ فرماتے ہیں:
جسے عوض کے ملنے کا یقین ہو، وہ عطیہ دینے میں دریا دلی دکھاتا ہے۔ (حکمت:۱۳۸)
عوض کی توقع اللہ سبحانہ سے ہی ہونی چاہئے اور جتنی توقع اللہ سے زیادہ ہو گی اتنا ہی معنوی اور روحانی اعتبار سے مقام بلند ہو گا۔

۳۷۔ علم

الْعِلْمُ وِرَاثَةٌ كَرِيمَةٌ وَ الْآدَابُ حُلَلٌ مُجَدَّدَةٌ وَ الْفِكْرُ مِرْآةٌ صَافِيَةٌ۔ (حکمت ۴)
ترجمہ: علم شریف ترین میراث ہے اور علمی و عملی اوصاف خلعت ہیں اور فکر صاف شفاف آئینہ ہے۔
وہ ذاتِ گرامی ِعلیؑ جس کے علم کے بارے نبی اکرم ؐکا ایک جملہ کافی ہے:
’’میں شہر علم ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہیں‘‘۔
امیرالمؤمنینؑ اہل بیت کی تعریف میں فرماتے ہیں:
’’وہی علم کی زندگی اور جہالت کی موت ہیں‘‘۔ (خطبہ:۱۴۵)
ایک مقام پر فرماتے ہیں:
’’ہم نبوت کا شجرہ، رسالت کی منزل، ملائکہ کی فرودگاہ، علم کامعدن اور حکمت کا سرچشمہ ہیں‘‘۔ (خطبہ:۱۰۷)
وہی مولا علیؑ اپنے پیاروں کی تعریف میں فرماتے ہیں:’’وہ علم کا حریص ہوتا ہے‘‘۔ (خطبہ:۱۹۱)
جناب کمیل کو علم کی عظمت بتاتے ہوئے چھ دلیلیں دیں کہ علم مال سے افضل ہے۔ (حکمت:۱۴۷)
اور پھر سینے کی طرف اشارہ کر کے ارشاد فرمایا :یہاں علم کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے۔
امامؑ علم کی عظمت و فضیلت بیان فرما کر چاہتے ہیں کہ علیؑ کی سنو اور علم حاصل کرو۔
امیرالمؤمنینؑ فرماتے ہیں:’’لا شرف کالعلم‘‘ (حکمت:۱۱۳)
ترجمہ: علم کی مانند کوئی بزرگی و شرافت نہیں‘‘۔
علم کا منبع و ماخذ اللہ کا کلام قرآن مجید ہے یا نبی ؐ و عترتِ نبیؑ ہیں۔ حقیقی علم وہی ہے جو معنویت کی بلندی اور انسانی خدمت کا ذریعہ بنے۔ علیؑ والوں کا فرض بنتا ہے کہ اسے خود سیکھیں اور دوسروں کو سکھائیں۔

۳۸۔ فرصت

وَ الْفُرْصَةُ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ فَانْتَهِزُوا فُرَصَ الْخَيْرِ۔ (حکمت:۲۰)
ترجمہ: فرصت کی گھڑیاں تیزرو بادل کی طرح گزر جاتی ہیں لہٰذا بھلائی کے ملے ہوئے موقعوں کو غنیمت جانو۔
فرصت یعنی جب اچھائی کے تمام اسباب مہیا ہوں۔ مثلا تعلیم کے لئے جسم بھی صحت مند ہے، ہوش و استعداد بھی ہے، وقت بھی ہے اور لائق استاد بھی موجود ہے ان سہولیات کا میسر ہونا فرصت کہلائے گا۔
اللہ نے انسان کو کمال کے حصول کے لئے جو مواقع دئے ہیں وہ سب فرصت ہیں۔ جوانی، تندرستی، امن و سکون، مالی سہولت اور روح و فکر کی سلامتی سب فرصتیں ہیں جن کے گزر جانے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔
مولا علیؑ یہی فرماتے ہیں کہ فرصت کے ان لمحات سے جلد سے جلد اور زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا لو اس لئے کہ یہ بادل کی طرح جلد گزر جانے والی ہیں جیسےبادل ایک لحظہ یہاں تھا اور دوسرے لحظہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
ایک اور مقام پر امامؑ فرماتے ہیں:
إِضَاعَةُ الْفُرْصَةِ غُصَّةٌ۔ (حکمت۱۱۸)
ترجمہ: موقع کو ہاتھ سے جانے دینا رنج و اندوہ کا باعث ہوتا ہے۔

۳۹۔ دوستی

أَعْجَزُ النَّاسِ مَنْ عَجَزَ عَنِ اكْتِسَابِ الْإِخْوَانِ وَ أَعْجَزُ مِنْهُ مَنْ ضَيَّعَ مَنْ ظَفِرَ بِهِ مِنْهُمْ.
(حکمت ۱۱)
ترجمہ: لوگوں میں بہت درماندہ وہ ہے جو اپنی عمر میں کچھ بھلائی اپنے لیے نہ حاصل کرسکے، اور اس سے بھی زیادہ درماندہ وہ ہے جو پا کر اسے کھو دے۔
اسلام میں دوستی کی اہمیت، کسے دوست بناؤ، کسے دوست نہ بناؤ اور دوستی کو کیسے نبھاؤ، ان موضوعات پر بہت تفصیل سےگفتگو ہوئی ہے۔
اس فرمان میں امامؑ نے اس شخص کو بڑا عاجز قرار دیا جو دوست نہیں بنا سکتا۔ دوست بنانے میں کوئی مال و اسباب خرچ نہیں ہوتے بلکہ اخلاق سے دوست بنائے جا سکتے ہیں۔
مفتی جعفر حسینؒ اس فرمان کے تحت لکھتے ہیں:
خوش اخلاقی و خندہ پیشانی سے دوسروں کو اپنی طرف جذب کرنا اور شیریں کلامی سے غیروں کو اپنانا کوئی دشوار چیز نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے نہ جسمانی مشقت کی ضرورت اور نہ دماغی کد و کاوش کی حاجت ہوتی ہے اور دوست بنانے کے بعد دوستی اور تعلقات کی خوشگواری کو باقی رکھنا تو اس سے بھی زیادہ آسان ہے کیونکہ دوستی پیدا کرنے کے لیے پھر بھی کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے مگر اسے باقی رکھنے کے لیے تو کوئی مہم سرکرنا نہیں پڑتی لہٰذا جو شخص ایسی چیز کی بھی نگہداشت نہ کر سکے جسے صر ف پیشانی کی سلو ٹیں دور کر کے باقی رکھا جا سکتا ہے اس سے زیادہ عاجز و درماندہ کون ہوسکتا ہے۔
مقصد یہ ہے کہ انسان کو ہر ایک سے خو ش خلقی و خندہ روئی سے پیش آنا چاہیے تاکہ لوگوں اس سے وابستگی چاہیں اور اس کی دوستی کی طرف ہاتھ بڑھائیں۔
امامؑ حقیقی دوست کی تعریف میں فرماتے ہیں:
لَا يَكُونُ الصَّدِيقُ صَدِيقاً حَتَّى يَحْفَظَ أَخَاهُ فِي ثَلَاثٍ فِي نَكْبَتِهِ وَ غَيْبَتِهِ وَ وَفَاتِهِ۔ (حکمت۱۳۴)
’’دوست اُس وقت تک دوست نہیں سمجھا جا سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کی تین موقعوں پر نگہداشت نہ کرےمصیبت کے موقعہ پر، اُس کے پسِ پُشت اور اُس کے مرنے کے بعد۔
کسے دوست بنانا ہے یہ ایک بہت مہم موضوع ہے امامؑ جنابِ امامِ حسن ؑ کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’نیک لوگوں سے میل جول رکھو گے تو تم بھی نیک ہو جاؤ گےبروں سے بچے رہو گے تو ان کے اثرات سے محفوظ رہو گے‘‘۔ (وصیت:۳۱)
امامؑ جناب مالک اشتر کو اصول ِ معاشرت کی تعلیم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’پرہیز گاروں اور راست بازوں سے اپنے کو وابستہ رکھنا‘‘۔ (خط:۵۳)
امیر المؤمنینؑ سے منقول ہے:
الصَّدِیقُ الصَّدُوقُ مَن ْ نَصَحَکَ فِیْ عَیْبِکَ وَحَفَظَکَ فِیْ غَیْبِکَ وَآثَرَکَ عَلیٰ نَفْسِہٖ۔ (غرر الحکم )
آپ کا سچا دوست وہ ہے جو آپ کو آپ کے عیوب سے آگاہ کرے، آپ کی عدم موجودگی میں دوستی کے مراتب کی حفاظت کرے اور ضرورت کے وقت دوست کو اپنی ذات پر مقدم رکھے۔

۴۰۔ دنیا

وَ أَزْمَعَ التَّرْحَالَ عِبَادُ اللَّهِ الْأَخْيَارُ وَ بَاعُوا قَلِيلًا مِنَ الدُّنْيَا لَا يَبْقَى بِكَثِيرٍ مِنَ الْآخِرَةِ.(خطبہ:۱۸۰)
ترجمہ: اللہ کے نیک بندوں نے دنیا سے کوچ کرنے کا تہیّا کر لیا۔ فنا ہونے والی تھوڑی سی دنیا ہاتھ سے دے کر ہمیشہ رہنے والی بہت سی آخرت مول لے لی۔
دنیا سے امیر المؤمنین ؑکا کیا تعلق رہا اور دنیا کا امامؑ نے کس انداز سےتعارف کرایا یہ وہ موضوع ہے جسے علیؑ ہی نبھا سکتے ہیں، مذمت کی تو تین طلاقوں کے قابل سمجھا اور تعریف کی تو فرمایا:
إِنَّ الدُّنْيَا دَارُ صِدْقٍ لِمَنْ صَدَقَهَا وَ دَارُ عَافِيَةٍ لِمَنْ فَهِمَ عَنْهَا وَ دَارُ غِنًى لِمَنْ تَزَوَّدَ مِنْهَا وَ دَارُ مَوْعِظَةٍ لِمَنِ اتَّعَظَ بِهَا مَسْجِدُ أَحِبَّاءِ اللَّهِ وَ مُصَلَّى مَلَائِكَةِ اللَّهِ وَ مَهْبِطُ وَحْيِ اللَّهِ وَ مَتْجَرُ أَوْلِيَاءِ اللَّهِ اكْتَسَبُوا فِيهَا الرَّحْمَةَ وَ رَبِحُوا فِيهَا الْجَنَّةَ. (حکمت:۱۳۱)
’’بلا شبہ دنیا اُس شخص کے لیے جو باور کرے، سچائی کا گھر ہے اور جو اس کی ان باتوں کو سمجھے اُس کے لیے امن و عافیت کی منزل ہے۔ جو اس سے زادِ راہ حاصل کر لے، اس کے لیے دولتمندی کی منزل ہے اور جو اس سے نصیحت حاصل کرے، اُس کے لیے وعظ و نصیحت کا محل ہے، وہ دوستانِ خدا کے لیے عبادت کی جگہ، اللہ کے فرشتوں کے لیے نماز پڑھنے کا مقام، وحی الہی کے اترنے کی منزل اور اولیاء اللہ کی تجارت گاہ ہے انہوں نے اس میں فضل و رحمت کا سودا کیا اور اس میں رہتے ہوئے جنت کو فائدہ میں حاصل کیا۔
امیر المؤمنینؑ اکثر دنیاکی مذمت کرتے رہے اور اس کی حقیقت سے آگاہ فرماتے رہے۔ اس لیے کہ اکثر لوگ اس کو نہ سمجھ سکے اور دھوکہ کھاتے رہے۔ ورنہ اسی دنیا کو آخرت کی کھیتی کہا گیا۔
امام علیؑ فرماتے ہیں:
مَا أَصِفُ مِنْ دَارٍ أَوَّلُهَا عَنَاءٌ وَ آخِرُهَا فَنَاءٌ فِي حَلَالِهَا حِسَابٌ وَ فِي حَرَامِهَا عِقَابٌ مَنِ اسْتَغْنَى فِيهَا فُتِنَ وَ مَنِ افْتَقَرَ فِيهَا حَزِنَ وَ مَنْ سَاعَاهَا فَاتَتْهُ وَ مَنْ قَعَدَ عَنْهَا وَاتَتْهُ وَ مَنْ أَبْصَرَ بِهَا بَصَّرَتْهُ وَ مَنْ أَبْصَرَ إِلَيْهَا أَعْمَتْهُ۔ (خطبہ:۸۰)
میں اس وارِ دنیا کی حالت کیا بیان کرو ں کہ جس کی ابتداء رنج اور انتہا فنا ہو۔ جس کے حلال میں حساب اور حرام میں سزا و عقاب ہو۔ یہاں کوئی غنی ہو تو فتنوں سے واسطہ، اور فقیر ہو تو حزن و ملال سے سابقہ رہے جو دنیا کے لئے سعی و کوشش میں لگا رہتا ہے، اس کی دنیوی آرزوئیں بڑھتی ہی جاتی ہیں اور جو کوششوں سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے دنیا خود ہی اس سے ساز گار ہو جاتی ہے جو شخص دنیا کو عبرتوں کا آئینہ سمجھ کر دیکھتا ہے تو وہ اس کی آنکھوں کو روشن و بینا کر دیتی ہے اور جو صرف دنیا ہی پر نظر رکھتا ہے تو وہ اسے کور و نا بینا بنا دیتی ہے۔
عثمان بن حنیف کو خط لکھتے ہیں جس میں دنیا کے متعلق فرماتے ہیں:
’’اے دنیا میرا پیچھا چھوڑ دےتیری باگ دور تیرے کاندھوں پر ہےمیں تیرے پنجوں سے نکل چکا ہوں تیرےپھندوں سے باہر ہو چکا ہوں اور تیرے پِھسلنے کی جگہوں میں بڑھنے سے قدم روک رکھے ہیں، کہاں ہیں وہ لوگ جنہیں تو نے کھیل تفریح کی باتوں سے چکمے دئے، کدھر ہیں وہ جماعتیں جنہیں تو نے اپنی آرائشوں سے ورغلائے رکھا؟وہ قبروں میں جکڑے ہوئے اور خاکِ لحد میں دبکے پڑے ہیں۔ (خط:۴۵)
امامؑ دنیا کو خطاب کر کے فرماتے تھے:
يَا دُنْيَا يَا دُنْيَا إِلَيْكِ عَنِّي أَ بِي تَعَرَّضْتِ أَمْ إِلَيَّ تَشَوَّقْتِ لَا حَانَ حِينُكِ هَيْهَاتَ غُرِّي غَيْرِي لَا حَاجَةَ لِي فِيكِ قَدْ طَلَّقْتُكِ ثَلَاثاً لَا رَجْعَةَ فِيهَا فَعَيْشُكِ قَصِيرٌ وَ خَطَرُكِ يَسِيرٌ وَ أَمَلُكِ حَقِيرٌ آهِ مِنْ قِلَّةِ الزَّادِ وَ طُولِ الطَّرِيقِ وَ بُعْدِ السَّفَرِ وَ عَظِيمِ الْمَوْرِدِ.(حکمت:۷۷)
ترجمہ: اے دنیا ! اے دنیا دور ہو مجھ سے۔ کیا میرے سامنے اپنے کو لاتی ہے؟ یا میری دلدادہ و فریفتہ بن کر آئی ہے۔ تیرا وہ وقت نہ آئے (کہ تو مجھے فریب دے سکے)بھلا یہ کیونکر ہو سکتا ہے، جاکسی اور کو جل دے مجھے تیری خواہش نہیں ہے۔ میں تو تین بار تجھے طلاق دے چکا ہوں کہ جس کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں۔ تیری زندگی تھوڑی، تیری اہمیت بہت ہی کم اور تیری آرزو ذلیل و پست ہے افسوس زادِ راہ تھوڑا، راستہ طویل سفر دور دراز اور منزل سخت ہے۔
دنیا کی تعریف و تقبیح بیان کر کے امامؑ ایک صدا دے رہے ہیں جس کو سن کر اس پر عمل کرنا ہے، فرماتے ہیں:
اِس دنیا میں رہتے ہوئے اِس سے اتنا توشۂ آخرت لے لو، جس کے ذریعہ کل اپنے نفسوں کوبچا سکو‘‘(خطبہ:۶۲)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button