مقالاتنہج البلاغہ مقالات

گزشتہ قوموں سے عبرت

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خالق کائنات نے بنی نوع انسان کو منزل کمال تک پہنچانے کے لئے صراط مستقیم کا تعین اور اس راہ کی طرف ہدایت کا انتظام کیا اور بشر سے پہلے ابو البشر حضرت آدم ؑکو راہنما بنا کر بھیجا ہے۔ چنانچہ سورہ نساء کی اس آیہ میں ارشاد خداوندی ہے:

’’رسلا مبشرین و منذرین لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل و کا ن اللہ عزیزا حکیما۔ [۱] یہ سارے رسل بشارت دینے والے اور ڈرانے والے ااس لئے بھیجے گئے تاکہ رسولوں کے آنے کے بعد انسانوں کی حجت خدا پر قائم نہ ہونے پائے اور خدا سب پر غالب اور صاحب حکمت والا ہے‘‘ خالق نے انسان کو عقل جیسی عظیم نعمت سے نواز نے کے ساتھ ان دو راستوں کی تعلیم بھی دی جن میں ایک راستہ، انسان کو ہدف تک پہنچانے والا ہے اور دوسرا، ہدف سے دور کرنے والا اطاعت کے فوائد اور عصیان کے برے نتائج سے بھی انسان کو تفصیل سے آگاہ کر دیا قرآن مجید میں ہر خشک و تر کو بیان کر دیا جہاں تک انسان کی صلاحیت قرآن سے فیض حاصل کرنے کے لئے ساتھ دیتی رہی مستفیض ہوا جہاں اس کی بس سے بات باہر تھی پیامبر اکرم نے عِدل قرآن کی طرف لوگوں کو ارجاع دیا اطاعت کرنے والوں کو قرآن مجید نے خوش خبری یوں سنائی: ’’اور جو بھی اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا جن پر اللہ نے نعمتیں نازل کی ہیں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین اور یہی بہترین رفقاء ہیں۔ [۲]

البتہ ایک خطرناک دشمن ہمیشہ انسان کے ساتھ موجود ہے جو کہ ہر وقت انسان کو اپنی جال میں پھنسانے کی کوشش کرتا ہے وہ ہے نفس امارہ۔ اس کا اہم ترین مشغلہ انسان کو ہدف سے غافل کر کے ہمیشہ کے لئے گمراہ کرنا ہے اور یہ طبیعی بات ہے کہ مرض جیسا ہو گا علاج بھی اسی نوعیت کا ہونا چاہئیے یہاں ذکر موت اور گزشتگان کی حالت زندگی اور ان پر گزرے ہوئے برے حالت کا تذکرہ انسان کو غفلت سے بیدار کرنے کے لئے بہترین طریقہ تھا قرآن مجید میں جگہ جگہ اقوام گزشتہ کی حالت پر غور کرنے اور اس سے عبرت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے چنانچہ ارشاد خداوند ’’اے صاحبان نظر عبرت حاصل کرو‘‘ [۳] اس اہم نکتے کو سمجھے کے لئے مقالہ ’’کو تاریخ سے عبرت‘‘ کے عنوان پر لکھنے کے لئے قلم اٹھایا ہے اس میں عبرت کے لغوی اور اصطلاحی معنی عبرت کے علل و طریقے اور جن قوموں اور افرد سے عبرت حاصل کرنی چاہئے اس کے بارے میں مقالے کی محدودیت کو مد نظر رکھتے ہوئے مختصر لفظوں میں لکھنے کی کوشش کریں گے خداوند متعال سے دعا گو ہے کہ ہمارے گزشتگان کو ائمہ اطہارؑ کے صدقے میںبخش دے اور ہمیں ان واقعات سے عبرت لے کر اپنی زندگی کو گناہوں سے محفوظ گزارنے کی توفیق عنایت فرمائیے۔ آمین

لغت اور رقرآن و نہج البلاغہ میں عبرت کا معنی
مادہ عبرت علماء لغت کے نزدیک عبور کرنے، لفظ کی تشریح کرنے، خواب کی تعبیر وغیرہ کی معنی میں آیا ہے صاحب معجم مقائیس کا قول ہے کہ: العین و الباء والراء اصل واحد صحیح یدل علی النفور و المعنی۔ [۴]،ابن منطور کے نزدیک عبرت خبر دینے اور خواب کی تعبیر بتانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ [5] کتاب العین میں عبرت کے معنی تفسیر کرنے اور نہر کو عبور کرنے کے ہیں۔[6]، ان تینوں کتابوں میں تفیسر، تشریح اور عبور کے معنی تقریبا بیشتر مشترک اور زیادہ استعمال ہوئے ہیں قرآن مجید اور احادیث کی کتابوں میں یہ لفظ جہاں جہاں بھی استعمال ہوا ہے اکثر درس لینے اور کسی گزشتہ واقعے سے عبرت لینے کے معنی میں استعمال ہوا ہے چنانچہ قرآن مجید میں یہ آیہ اسی معنی میں استعمال ہوئی ہے: ’’فاعتبروا یا اولی الابصار‘‘ [۷] آیہ’’ اے صاحبان نظر! عبرت حاصل کرو‘‘ حضرت علیؑ کے کلام مبارک میں بھی عبرت اسی معنی میں استعمال ہوا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں: من اعتبرا ابصر و من ابصر فھم و من فھم علم [۸] جس نے گزشتہ قوموں کے حالات سے درس عبرت لیا اس کو بصیرت ملی اور جس کو بصیر ت ملی وہ سمجھ گیا اور جو سمجھ گیا وہ عالم بن گیا۔
اس بنا پر آیات اور امیر المومنینؑ کے کلمات کی روشنی میں یہ بات وضاحت ہو گئی کہ عبرت ہمیشہ درس لینے اور حالات سے سبق حاصل کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

عبرت کے بارے میں تاکید اور اس کی ضرورت
دین اسلام میں جہاں انسان کو تقوی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہاں پر گزشتہ قوموں کی بد کرداریوں پر ملنے والی سزا اور عذاب کے بارے میں غور کر کے اس سے درس لینے کے بارے میں بہت تاکید کی گئی ہے چنانچہ امیر المومنین فرماتے ہیں: خطبہ ۱۶۱ بند ۴ ’’اوصیکم عباد اللہ بتقوی اللہ و طاعتہ فانھا النجاۃ غدا الی المجد الکادح‘‘: بندگان خدا! میں تمہیں تقویٰ الہی اور اس کی اطاعت کی وصیت کرتا ہوں بے شک اسی میں قیامت کے دن نجات ہے اور یہی ہمیشہ کے لئے مرکز نجات ہے اس نے تمہیں مکمل طور پر انذار کیا اور بطور اتم تمہیں رغبت دلائی۔

تمہارے لئے دنیا کے زوال اس کے منقطع ہونے او اس سے منتقل ہونے کی پوری توصیف کی اور تفصیل سے بتایا ہے لہذا اس میں سے جو چیز آپ کو تعجب میں ڈالے اس سے روگردانی اختیار کر لو کیوں کہ اس میں سے آپ کے ساتھ جانے والی چیز بہت کم ہے۔ یہ گھر غضب الہی کے بالکل قریب اور رضائے الہی سے بہت دور ہے۔ بندگان خدا! دنیا کے ہم و غم اور اس کے، معمول، مصروفیات (اشتغال) سے چشم پوشی کرو کہ تمہیں اس سے بہرحال جدا ہونا ہے اور اس کے حالات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں اس سے اس طرح احتیاط کرو جس طرح ایک خوفزدہ اور مخلص جو پوری جانفشانی کے ساتھ تلاش کرنے والا احتیاط کرتا ہے۔

اعتبروا بما قد رأیتم من مصارع القرون قبلکم قد تزایلت او صالھم الی ۔۔۔ والسبیل قصد! نہج ۳۰۵ جوادی
اور اس سے عبرت حاصل کرو ان مناظر کے ذریعے جو تم نے دیکھ لئے ہیں کہ ان کے جوڑ اور بند بند ایک دوسرے سے الگ ہو گئے اور ہلاک ہو گئے ان کی آنکھیں اور کان تباہ ہو گئے اور ان کی شرافت اور عزت ختم ہو گئی۔ ان کی مسرتیں اور خوشیاں اور نعمتیں ایک دم تباہ ہو گئیں اولاد کا قرب، فقدان، دوری، میں اور ازواج کی صحبت فراق میں بدل گئی اور نہ ایک دوسرے کے ساتھ کا سلسلہ رہا۔ لہذا بندگان خدااس شخص کی طرح ڈرو جو اپنے نفس پر مکمل قابو رکھتا ہو جو شہوات کو روک سکتا ہو جو بصیرۃ عقل سے دیکھتا ہو، کیوں کہ مسئلہ واضح ہے نشانیاں قائم ہیں راستہ سیدھا اور راہ بالکل مستقیم ہے۔
امام علی علیہ السلام کے اس بلیغ بیان سے ایک عقل مند انسان یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ تقوی ہی انسان کو باکمال بنا سکتا ہے اور ختم نہ ہونے والی ابدی زندگی جو تمام نعمتوں کے ہمراہ ہے ایک متقی انسان کے نیک اعمال کا نتیجہ ہو گی نیز ایک غافل انسان اگر اپنی غفلت سے بیدار ہو کر منزل تک پہنچنا چاہے تو خداوند کی ان نشانیوں کا مطالعہ کرے اور ہلاکت ہونے والے افراد کے حالات سے عبرت لے۔ [۹] خطبہ ۱۱۳ بند ۴ میں فرماتے ہیں ’’رحم اللہ اسرأ تفکر و اعتبر فابصر فکما نما ھو کائن من الدنیا عن قلیل لم یکن و کان ما کائن من الاخرۃ عما قلیل لم یزل الی قریب دان[۱۰]

خدا رحمت نازل کرے اس شخص پر جس نے غور و فکر کر کے عبرت حاصل کی اور عبرت حاصل کی تو بصیرت مل گئی گویا عنقریب دنیا کی ہر چیز ایسی ہو جائے گی جیسے تھی ہی نہیں اور آخرت کی چیزیں اس طرح ہو جائیں گی جیسے ابھی موجود ہیں ہر گنتی اور شمار میں والا گٹھنے والا ہے اور ہر وہ چیز جس کی امید کی جا سکتی ہو آنے والی اور ہر آنے والا گویا عنقریب نزدیک ہے۔

امام نے اس شخص کے لئے دعا کر کے یہ بتلایا کہ جو بصارت عقل سے حقائق میں فکر کی بلندیوں کو طے کرتے ہوئے غور کرتا ہے عنایت خداوند اس کے شامل حال ہوتی ہے اسی لئے فرمایا کہ جس نے درس عبرت لیا با بصیرت ہو گیا ایک اور مقام پر امام مومن کے عبرت لینے کے انداز کو بیان کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں ’’انما ینظر المومن الی الدنیا بعین الاعتبار و یقتات منھا ببطن الاضطرار و یسمع فیھا باذن المقت الی۔ ۔و لم یأ تھم یوم فیہ مبلسون [۱۱] ’’بے شک مومن دنیا کی طرف عبرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور پیٹ کی ضرورت کی حد تک اس دنیا سے قوت لا یموت لے کر گزارا کرتا ہے اس کی باتوں کو ہمیشہ نفرت اور بغض کے انداز سے سنتا ہے اور جب کسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ثروت مند ہو گیا تو یہ تصور کرتا ہے مفلس و نادار ہو گیا اور اگر کسی کو بقا کی فکر کی وجہ سے مسرت مل گئی تو فنا کی فکر اور خیال سے اس کو غمگین بنایا جاتا ہے یہ سب اس دن سے پہلے ہے جس دن اہل دنیا مایوسی اور حیرت کا شکار ہوں گے۔‘‘ بے شک دینا سے آخرت کے لئے کچھ حاصل کرنا بہت مشکل کام ہے اور اس کے لئے ہوشیاری اور انتہائی عقلمندی کی ضرورت ہے اگر انسان دنیا کو سب کچھ سمجھ بیٹھے گا تو یہ انسان کو اندھا بنا دیتی ہے جس کا نتیجہ تباہی اور خسارت ہے اور اگر اس کو بعنوان وسیلہ اپنا لے تو انسان بصیرت کے ساتھ کامیاب زندگی گزارتے ہوئے اپنی آخرت کو بھی سنوار سکتا ہے امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:

من قعد عنھا و اتتہ و من ابصر بھا بصرتہ و ابصر الیھا عمتہ [۱۲] جو اس سے منہ پھیر کے بیٹھ رہے اس کی اطاعت کے لئے حاضر ہو جائے اور جو اس کو ذریعہ اور وسیلہ کی حییثت دے کر آگے دیکھے اسے بینا بنا دے اور جو اس کی ہدف آخر اور مقصد بنا کر دیکھے اس آندھا بنا دے ۔[۱۳] سید رضیؒ فرماتے ہیں اگر کوئی شخص حضرت کے اس ارشاد گرامی ’’من ابصر بہا بصرتہ و ابصر الیہا اعمتہ‘‘ پر غور کرے تو عجیب و غریب معانی اور دور رس حقائق کا ادراک کرے گا جن کی بلندیوں اور گہرائیوں کا ادراک ممکن نہیں ہے۔ [۱۴]

علامہ رضیؒ نے بالکل ایک مسلمہ حقیت کی بات کی ہے کہ امام کے کلام کا کما حقہ ادارک عام انسان کے لئے ممکن نہیں ہے کیوں کہ یہ وہی کلام ہے جسے علم بلاغت کے پائے کے علماء ’’کلام مافوق کلام بشر و ما دون کلام خالق‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں: منتہی اگر اس جملے میں استعمال دو حرف جار ’’با‘‘ اور ’’الی‘‘ پر ایک ادیبانہ نظر دوڑائی جائے تو یہ بات واضح ہو جائے کہ ’’با‘‘ کے ایک معنی سبب کے ہے [۱۵]، اس بنا پر یہ مطلب سمجھ میں آتا ہے کہ جو اس دنیا کو ذریعہ اور سبب بنا کر اس سے استفادہ کرے گا وہی بینا ہے اور نہ صرف مذموم نہیں بلکہ کامیاب انسان ہی وہی ہے: چنانچہ ’’الدنیا مزرعۃ الاخرۃ‘‘ کی تعبیر بھی وہی سمجھا دیتی ہے اسی طرح ’’الی‘‘ کے معانی میں سے ایک معنی انتہا کے ہیں [۱۶] اگر انسان دنیا کو اپنا ہدف بنالے اور اصلی ہدف سے غافل رہے تو اس کا انجام تباہی ہے چونکہ دنیا چند مدت کی ہے اور اس کو ایک دن فنا ہونا ہے اس لئے نہ دنیا کو ہدف بنانا عقل مندی ہے اور نہ دنیا کو مکمل ترک کرنا عقل مندی ہے چنانچہ امام ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ’’الدنیا منتہی بصرالاعمی الی والاعمی لھا متزود [۱۷] اس روایت کے آخری حصے میں امام فرماتے ہیں: بابصیرت انسان اس دنیا سے موت کے بعد والی دنیا کے لئے توشیہ راہ کا بندوبست کرتا ہے اور اندھا انسان صرف اسی دنیا کے لئے کماتا ہے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے منقول ہے۔ ’’لیس منا من ترک دنیاہ لدینہ و دینہ لدنیاہ‘‘ [۱۸] جو اپنی دنیا کو دین کی خاطر مکمل ترک کر دے اور جو دین کو دنیا کی خاطر ترک کر دے وہ ہم سے نہیں ہے۴ ۔لذا عبرت لینے میں انسان کی کامیابی ہے کیوں کہ عبرت کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں امام فرماتے ہیں: ’’ما اکثر العبر و اقل  الاعتبار [۱۹] عبرتیں کتنی زیادہ ہیں اور اس کے حاصل کرنے والے کتنے کم ہیں۔

عوامل عبرت آموزی
چنانچہ گزشتہ صفحے میں امام علیہ السلام کا قول مبارک جو حکمت نمبر ۲۹۷ کے عنوان سے گزر گیا کہ جس میں آپ نے فرمایا تھا: ’’ما اکثر العبد و امل الاعتبار‘‘ عبرتیں کتنی زیادہ ہیں اور عبرت لینے والے کتنے کم۔ انسان کے لئے درس اور ہدایت حاصل کرنے کے عوامل و اسباب بہت زیادہ ہیں چنانچہ نہج البلاغہ میں بھی کئی جگہ عبرت کی نشانیاں بیان ہوئی ہیں نعمتوں کا ذکر ہو یا عذاب کا تذکرہ قوموں کے عروج و زوال کے اسباب ہوں یا افراد پر گزرنے والے عجیب واقعات ذیل میں چند نمونے اسباب کے بیان کئے جا رہے ہیں۔

۱۔ نعتموں اور قدرت خداوند کی یاد
خطبہ ۱۸۲ بند ۱۸: اوصیکم عباد اللہ بتقوی اللہ الذی …… یعبرن
بندگان خدا! میں تمہیں اس خدا سے تقوی اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہوں جس نے تمہیں بہترین قیمتی لباس پہنائے ہیں اور تمہارے لئے مکمل معیشت کا بندوبست کیا ہے یاد رکھو اگر کسی شخص کو باقی رہنے کا وسیلہ ملتا اور موت کو مذید ٹالنے کے لئے کوئی راستہ ملتا تو وہ سلیمان ابن داؤود ہوتے کہ جس کے لئے جن و انس دونوں کو مسخر کیا گیا تھا نیز نبوت اور تقرب خداوند بھی ساتھ حاصل تھا لیکن جب انہوں نے اپنے حصے کی غذا حاصل کی اور اپنی مدت کو پورا کر لیا تو فنا کے کمانوں نے موت کے تیر چلا دئے اور سارے شہر کے شہر ان سے خالی رہ گئے اور تمام قصروں کے چراغ بجھ گئے اور دوسری قومیں ان کی وارث ہو گئیں اور تمہارے لئے انہیں گزشتہ قوموں میں عبرت کا سامان فراہم ہو گیا [۲۰] نیز خدا کی قدرت اور دنیا والوں پر مسلط ظالموں کی تباہی کو یوں بیان کیا ہے۔
خطبہ ہمان بند ۲۱ این العماقلۃ و ابناء العماقلۃ این الفراعنۃ و ابناء الفراعنۃ الی ……مدّنو …
کہاں ہیں (شام اور حجاز کے عماقلہ اور ان کی اولاد کہاں ہیں مصر کے فراعنہ اور ان کے اولاد؟ کہاں ہیں آذربئیجان کے اصحاب الرس جنہوں نے انبیاء کو قتل کیا مرسلین کی سنتوں کو مٹا دیا اور ظالموں کی سنتوں کو زندہ رکھا کہاں ہیں وہ لوگ جو لشکر کو لے کر آگے بڑھ رہے تھ اور ہزاروں کی تعداد کو شکست دی تھی جنہوں نے فوج کے فوج تیار کئے اور شہروں کے شہروں کو آباد کئے [۲۱] ایک اور مقام پر حیلہ اور بہانوں سے جان چھڑانے والوں کے بارے میں یوں فرمایا ہے: قد زاحت عنکم الاباطیل و اضمحلت عنکم الاباالعلل الی بالنذر ۱۔ تمام حیلے بہانے کمزور پڑ چکے ہیں حقائق ثابت ہو چکے ہیں اور امور پلٹ کر اپنی منزل پر آگئے ہیں لہذا عبرتوں سے نصیحت لو! زمانے کے تغیرات سے عبرت حاصل کرو اور ڈرانے والے شخص کی نصیحت سے فائدہ حاصل کرلو۔

۲- عزیر اقرباء کی موت اور فراق سے عبرت لینا:
اس مشکلات سے بھری اور تکالیف میں ڈوبی ہو گی دنیا میں انسان کے لئے مایۂ سکون اور دکھ درد اس کے شریک اقارب اور رشتہ اور اس دوست احباب ہو سکتے ہیں یہی لوگ مشکلات اور مصیبتوں میں اس کے کام آتے ہیں اور انسان انہی کے سہارے اپنے غم کے بوجھ کو ہلکا کرتا ہے اور ان حالات میں ان کو اپنا سہارا سمجھتا ہے ایک دن جب یہی لوگ اس کے سامنے اور اپنے ہاتھوں سے انکے بے روح جسم کو زیرخاک دفناتا ہے تو سب سے پہلے جو بات اس کے ذہن میں آتی ہے وہ یہ کہ آج کو اس نے اپنی مدت تمام کر لی ہے اور کل کو مجھے اسی جگہ جانا ہے۔ امام علیہ السلام نے ایک جنازے پر شرکت کے دوران ایک شخص کو ہنستے ہوئے دیکھ کر یوں فرمایا: کان الموت فیھا علی غیرنا کتب [۲۲] ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موت کسی اور کے لئے لکھی گئی ہے اور یہ حق کسی اور شخص پر واجب قرار دیا گیا ہے اور جن مرنے والوں کو ہم دیکھ رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ یہ مسافر ہیں جو عنقریب واپس آنے والے ہیں ادھر ان کے جنازوں کو زیر خاک اتارتے ہیں اور ادھر ان کا ترکہ کھانے لگتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ گویا ہمیں یہاں ہمیشہ رہنا ہے اس کے بعد ہم نے ہر نصیحت کرنے والے مرد و عورت کو بھلا دیا ہے اور ہر مصیبت اورآفت کے ذریعے ہمیں نشانہ بنایا جاتا ہے۔

۳-بنی اسرائیل کی تباہ حالی سے عبرت:
خطبہ ۱۹۲ بند ۳۶ فاعتبروا بما احاب الی …… من طوارق الدھر عبرت حاصل کرو ان لوگوں سے جن پر عذاب نازل ہوا ان کے استکبار کی وجہ سے اور خدا کا عذاب اور ہر جو نازل ہوا اس سے عبرت لو ان کے رخساروں کے بل گرنے اور پہلووں کے بل لیٹنے سے نصیحت حاصل کرو اللہ کی بارگاہ میں تکبر کے برے انجام سے بچنے کے ہدایت فرمائی اور جو لوگ اپنے چہروں پر ململ کے نقاب اوڑھتے تھے اور حریر کی بستر پرآرامدہ نیند سونے کی عادت رکھتے تھے کیسے ان کے خوبصورت چہرے اور پہلو زیر خاک زمین پر لیٹے اور چمڑوں کو مٹی پر رکھے ہوئے ہیں! ایک اور مقام پر تکبر کی وجہ سے شیطان کر دی گئی سزا کو یوں بیان کیا ہے: فاعتبروا بما کان من فعل اللہ بابلیس ……[۲۳] تم لوگ پروردگار کے ابلیس کے ساتھ (اس کی تکبر کی وجہ سے) برتاؤ سے عبرت حاصل کرو کہ اس نے اس کے طویل عمل اور بے پناہ جدوجہد کو تباہ و برباد کردیا جب کہ وہ چھ ہزار سال عبادت کر چکا تھا جس کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ دنیا کے سال تھے یا آخرت کے ،مگر ایک ساعت کے تکبر انے اعمال کو برباد کردیا۔ معلوم ہوا کہ کبریائی فقط خداوند کے ساتھ مخصوص ہے چونکہ وہی قادر مطلق ہے مخلوق کو اس مقام عظمی تک رسائی نہیں اگر اونچا کرنے کی غلطی کی یا مقام تواضع سے ہٹا تو تباہی اس کا نتیجہ ہے۔

۴-عبرت کے مثبت آثار:
نامہ ۴۹: ولو اعتبرت بما حفظت ما بقی، والسلام: امامؑ معاویہ کو جواب دیتے ہوئے آخر کلام میں فرماتے ہیں کہ اگر تو گزشتہ لوگوں سے عبرت لیتا تو باقی زندگی کو محفوظ کر سکتا تھا۔ امام کے کلام سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ عبرت حاصل کرنے والا اپنی زندگی کو خطرات سے بچاتے ہوئے کامیابی سے ہمکنار کر سکتا ہے اور یہی عبرت حاصل کرنے کا بہترین اثر اور نتیجہ ہے۔ نامہ ۵۳ بند۱۵۲ اور ۱۵۳ میں عادلانہ حکومت اور فاضلانہ سیرت کو یاد کرنے کا حکم دیا ہے کیوں کہ اس سے انسان نیک سیرت پر چلنے کے لئے آمادہ ہو جاتاہے جس کے نتیجے میں وہ خواہشات سے اپنے آپ کو دور رکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ [۲۴] ایک اور مقام پر امام علیہ السلام انسانی احوال اور اوصاف کو ہم مشابہ قرار دیتے ہوئے عبرت حاصل کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ خطبہ ۱۹۲ بند ۹۳ فاعتبروا بحا ل ولد اسماعیل و بنی اسحاق و بنی اسرائیل الی…… واقرب الاشتباہ [۲۵] فرماتے ہیں لہذا تم اولاد اسماعیل اور اولاد اسحاق اور اسرائیل (یعقوب ) سے عبرت حاصل کرو کہ سب کے حالات کس قدر ملتے ہوئے اور کیفات اور صفات کس قدر یکساں ہیں۔ آقای امین الخوئی فرماتے ہیں جب تمہارے اوصاف بنی اسرائیل والوں کے اوصاف سے ملتے جلتے ہوں اور ایک جیسے ہوں تو آپ کو چاہیئے کہ ان کی حالت سے عبرت حاصل کرو [۲۶] پس اقوام پر گزرنے والے حالات سے اگر عبرت لیتے ہیں تو اس کافائدہ یہ ہو گا کہ یقینا ہم عذاب اور قہر الہی سے محفوظ ہو جائیں گے۔

خدائے متعال سے دعا ہے کہ ائمہ اطہار کے فرامین کو سمجھ کر ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس سبب سے اللہ ہمیں محفوظ رکھے جس کی وجہ سے گزشتہ قوموں پر عذاب نازل ہوا۔

حوالہ جات 
۱۔سورہ نساء ۱۶۵، ترجمہ قرآن ذیشان حیدر
۲۔ سورہ نساء آیہ ۲۹ ترجمہ قرآن ذیشان حیدر
۳۔ سورہ الحشر آیہ ۲۔
۴۔معجم مقائیس اللغۃ ج ۴ ص ۲۰۷
۵۔لسان العرب ج ۹ص ۱۶
۶۔ العین ج ۲ ص ۱۱۲۵
۷۔ سورہ حشر آیۃ ۲ ترجمہ آقا مکارم شیرازی
۸۔ الحدیث روایات تربیتی از مکتب اھلبیت ج ۲ ص ۲۶۳
۹۔ ترجمہ نہج البلاغہ ذیشان حیدر جوادی ص ۳۰۵خطبہ ۱۰۳
۱۰۔ ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ص ۱۹۸
۱۱۔کلمات قصار ۳۶۷
۱۲۔ خطبہ ۸۱ جامعہ مدرسین بند ۲
۱۳۔ ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ص ۱۳۱
۱۴۔ ھمان
۱۵۔ جامع المقدمات ص ۱۵۰ بخط حاج طاہر خوش نویس
۱۶۔ ھمان ص ۱۵۱
۱۷۔ الحدیث روایات ترتیبی از مکتب اہلبیت ج ۲ ص ۳۹ منقل از تحف العقول ص ۴۸۳
۱۸۔ الحدیث روایات ترتیبی ص ۳۴
۱۹۔ حکمت ۲۹۷ مترجم نہج البلاغہ ذیشان حیدر ص ۷۳۸
۲۰۔ نہج البلاغہ ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ص ۳۴۹ متن خطبہ ص ۳۴۸
۲۱۔ خطبہ ۱۸۲ بند ۲۱ ترجمہ ص ۳۴۹ ذیشان
۲۲۔ خطبہ ۱۵۷ ترجمہ ذیشان ص ۲۹۵
۲۳۔ کلمات قصار ۱۲۲ ترجمہ نہج البلاغہ ذیشان حیدر جوادی ص ۶۷۳ متن ص ۶۷۲
۲۴۔ ترجمہ ذیشان حیدر جوادی نہج البلاغہ ص ۲۸۵ ؎۱۔ نامہ ۳۹
۲۵۔ نامہ ۵۳ ترجمہ نہج البلاغہ ذیشان ص ۵۹۶ ؎۳۔ خطبہ ۱۹۲ بند ۹۳
۲۶۔ منہاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغہ میرزا حبیب اللہ خوشہر ص ۳۹۱

منابع و ماخذ

۱۔ القرآن کریم ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ۵۔ الحدیث روایات ترتیبی اھلبیت : مرتضی فرید تنکابنی
۲۔نہج البلاغہ ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ۔ ۶۔ لسان العرب ابن منطور
۳ ۔ نہج البلاغہ محمد دشتی ۷۔ العین : خلیل احمد فراھہدی
۴۔ نہج البلاغہ و شرح فیض الاسلام ۸۔معجم مقائیس اللغۃ : ۹۔ المنجد اردو عربی

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button