مقالاتنہج البلاغہ مقالات

عدالت علی علیہ السلام

مقالہ نگار: نظرین فاطمہ رضوی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اسلام عدل اور اعتدال کا مکتب ہے اس کی راہ، راہ مستقیم ہے اس اسلام میں زندگی کے ہر پہلو کو مد نظر رکھا گیا ہے اگر اس میں آنسوؤں کا سیلاب ہے تو شمشیر کی چھنکار بھی ہے اگر وہ انسان کے بدن کی سلامتی کیلئے منصوبہ پیش کرتا ہے تو اس کی روح و معنوی ترقی پر بھی توجہ رکھتا ہے اسلام جہاں بخشش کا حکم دیتا ہے وہاں حدود کے اجراء کیلئے قاطعیت کا فرمان بھی جاری کرتا تاکہ فیصلہ کرتے وقت رحم تمہارے اندر پیدا نہ ہونے پائے اور عدل سے فیصلہ کرسکو۔’’عدل‘‘ یعنی دوسروں کے حقوق کی رعایت کرنا اور ہر طرح کے ظلم وستم سے پرہیز کرنے کانام’’عدالت‘‘ ہے نہج البلاغہ میں حضرت علیؑ نے عدل کی تعریف ایک کلمہ میں اس طرح کی ہے ’’العدل الانصاف‘‘ (۱) یعنی عدل کا دوسرا نام انصاف ہے۔

ہمارے معاشرے میں بعض نعرے ایسے ہیں جو صرف زبانی ہیں اور جب تک وہ کسی اصل سے بہرہ مند نہ ہوں اس وقت تک وہ نعرہ، نعرہ کی حد سے خارج نہیں ہوتے، سماجی انصاف بھی ایسے ہی نعروں میں سے ہے کہ تمام حکومتیں اس کا دم بھرتی ہیں اور خود کو اس کا طرفدار سمجھتی ہیں لیکن عملی طور پر آپ کسی بھی حکومت میں اس کا واضح اثر مشاہدہ نہیں کریں گے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ یہ نعرے کسی اصل کے ساتھ متصل نہیں ہے حالانکہ اسلام کے اصول پنچگانہ میں سے ایک اصل ’’عدل‘‘ ہے۔

اس کی دلیل ایک فطری چیز ہے کہ جس کو انسان فطرتا دوست رکھتا ہے اور اسکی دلیل یہ ہے کہ ظالم و ستمگر اپنے ظلم و ستم کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اپنے کام کو عادلانہ طور پر دکھا سکے کبھی بعض افراد ایک دوسرے کی شرکت سے چوری کے مرتکب ہوتے ہیں لیکن جب چوری شدہ اموال کو کسی دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں اور مال کی تقسیم کرنے کا وقت پہنچنا ہے تو وہ بھی آپس میں کہتے ہیں آئیے اموال کو عادلانہ طور پر تقسیم کریں۔

اگرچہ زبان پر نہ بھی لائیں تو بھی قلبی طور پر عادلانہ تقسیم کو دوست رکھتے ہیں اور اگر ان میں سے کوئی شریک کار زیادہ حصہ لینا چاہے تو باقی افراد ناراض ہوجاتے ہیں۔

ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے کہ اگر کوئی شخص سماجی عدل کو برقرار کرنے کیلئے اپنی جان یا مال کو قربان کردے یا عقیدہ اور مسلک کے دفاع کیلئے مارا جائے یا ستمگروں کے مقابلہ میں قیام کرے ،دنیا والے اسے اچھی نظروں سے دیکھتے ہیں اور ایسا اس وجہ سے ہے کہ عدل کی حمایت اور ظلم کے خلاف جہاد کرنا ہر انسان کی عقل و فطرت اور طبیعت کے عین مطابق ہے۔

عادلانہ اور منصفانہ قانون صرف مکتب انبیا اور امام کے سائے میں ممکن ہے۔

عدالت، انسان کی معنوی صفات میں سے ایک صفت ہے جب انسان عدالت کو اپنی زندگی کا شعار بنا لیتا ہے تو اس کی تعریف و تمجید صرف اپنے ہی نہیں بلکہ دشمن بھی اس کی مدح و ستائش میں اپنے قلم و زبان کو حرکت دینے لگتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تاریخ کا مطالعہ کرنے والا ہر انسان جانتا ہے کہ یقینا حضرت علی علیہ السلام امام عادل اور رہبر تقوی تھے اور خداوند عالم نے مخلوقات کی خلقت کا باعث عدالت کو قرار دیا ہے اور پیغمبروں کی بعثت کا فلسفہ بھی اسی عدالت کو قرار دیا ہے۔ عدالت کے بارے میں نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں :’’عدل ساعۃ خیر من عبادۃ بستین سنۃ‘‘ یعنی ایک گھنٹہ کی عدالت ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ (۲)

دوسری حدیث میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’العدل احلی من الماء یصیبہ الظماء‘‘ یعنی عدالت اس پانی سے جسے ایک تشنہ اپنی سیرابی کیلئے حاصل کرتا ہے زیادہ میٹھا ہے۔ (۳)

مندرجہ ذکر کی گئی حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص عدل جیسی صفت کا حامل ہے وہ یقینا خدا کے مقرب ترین بندوں میں سے ایک ہے خصوصا جب پہلی حدیث کا تجزیہ کیا جائے اور اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کا جائزہ یا جائے تب معلوم ہوگا کہ اس ذات والا صفات نے اسی عدل کے باعث اپنے آپ کو کس مقام تک پہنچا دیا تھا۔

امام علی علیہ السلام مظہر عدالت و دوسروں کیلئے عدالت قائم کرنے کے سلسلہ میں نمونہ ہیں اگرچہ عدالت کوئی ایسا مفہوم نہیں جسے سادگی سے بیان کر دیا جائے مگر پھر بھی اپنی استطاعت کے مطابق یہاں اس کے بیان کی کوشش کی ہے۔

حضرت علی علیہ السلام اس ذات گرامی کا نام ہے جو قضاوت داؤدؑ، تحمل ایوبؑ، شکوہ ابراہیمؑ و کمالات محمد ﷺ کا وارث ہے اور دنیائے عدل و انصاف کا تاجدار ہے۔

علیؑ اس چشمہ کا نام ہے جو انسان کو ہر لحاظ سے سیراب کرتا ہے جس کا ہر عمل انسانیت کا طرہ امتیاز اور ہر قول، علوم و حکمت کا سرچشمہ ہے جو ہر محروم کی امید اور ہر مظلوم کی عدالت کی آواز ہے۔

یہی وجہ ہے کہ عیسائی دانشمند اور ادیب و صاحب قلم جارج جرداق نے حضرت امام علی علیہ السلام کی بارگاہ میں یوں نذرانہ عقیدت پیش کیا ’’جب میں نے مسلمانوں کے عظیم الشان فرمانروا، جانشین پیغمبرؐ امام المتقین حضرت علی علیہ السلام کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کیا تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کہ دنیائے انسانیت کو اس کی متاع گم شدہ مل گئی ہو اور میرے دل نے بے ساختہ یہ آواز دی کہ روی زمین کو ظلم و جور سے پاک کرنے، مظلوموں کو انکا حق دلانے ظلم کا ہاتھ روکنے ستم رسیدہ انسانوں کو امن وسکون عطا کرنے اور پوری دنیا کو عدل وانصاف سے پر کرنے کیلئے جن صفات و خصوصیات کی ضرورت ہے وہ حضرت علی علیہ السلام کی ذات گرامی میں اپنے نقطہ عروج و کمال پر نظر آئی ہے۔ (۴)

حضرت امام علی علیہ السلام کی پوری زندگی پر اگر غور کیا جائے تو وہ عدالت انسانی کی ایک گونجتی ہوئی آواز محسوس ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس مفکر نے اپنی کتاب کا نام بھی رکھا تو ’’الامام العلی صوت العدالۃ الانسانیۃ‘‘ رکھا حقیقت میں کلمہ ’’حکومت عدل علیؑ‘‘ کا شعار زیبا ترین و جذاب ترین شعار تھا اس زمانہ کا ہر انسان عدل کی پناہ گاہ میں پناہ لینا چاہ رہا تھا سابقہ حکومتوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد ہر انسان کا دل اور اس کی روح یہ باور کرنے پر آمادہ تھی کہ حکومت علوی میں ہی عدل و قسط کی رعایت ہوسکتی ہے اور علی نے بھی اسے سچ ثابت کردکھایا۔

اگر علیؑ نے خلافت کو قبول بھی کیا تو مقصد یہ تھا کہ اس حکومت کے سائے میں عدالت کو قائم کریں اور ظلم و ستم کو مظلوم سے دور کریں یہی وجہ ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام کے نظام عدل کی بعض مورخین نے یوں تصویر کشی کی ہے کہ ایک مرتبہ آپ مسجد کوفہ میں تشریف فرما تھے حضرت نے دیکھا کہ زمین پر ایک چیونٹی گزر رہی ہے جس کے منہ میں چھوٹا سا ایک دانہ ہے، آپؑ نے ابن عباس سے پوچھا، ابن عباس اس دانہ کی کیا قیمت ہوگی؟ انہوں نے کہا کہ بھلا اس کی کیا قیمت ہو سکتی ہے؟ تو آپؑ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص مجھ سے مطالبہ کرے کہ میں اس چیونٹی کے منہ سے یہ دانہ ظلماً چھین لوں تو میں یہ نہیں کر سکتا۔

علی علیہ السلام نے یہ منصب حکومت ظلم و شر کو ختم کرنے کیلئے قبول کیا تھا نہ کہ کسی پر ظلم ڈھانے کیلئے (۵)
بالا ذکر کی گئی باتوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام صرف انسانوں ہی کے ساتھ انصاف کے آرزو مند نہیں تھے بلکہ دیگر مخلوقات کے ساتھ بھی حسن سلوک کو اپنا فرض عین سمجھتے تھے اور یہی ہے کہ آپؑ کی حکومت میں کسی مخلوق خدا جو آپ کی حکومت میں رہی ہو کبھی ظلم ہوا ہو۔

جیسا کہ بحار الانوار میں نقل ہوا ہے کہ معاویہ کی حکومت کے زمانہ میں ایک عورت داد خواہی کیلئے معاویہ کے دربار میں گئی اور اس نے کچھ شعر مولا علیؑ کی فضلیت میں پڑھا معاویہ نے کہا اس شعر سے مقصد کون سا شخص ہے؟ اس عورت نے کہا امیر المومنین علی علیہ السلام، معاویہ نے کہا اب تو وہ اس دنیا سے چلے گئے ہیں تو اس عورت نے کہا کہ علیؑ اس دنیا سے نہیں گئے بلکہ عدالت اس دنیا سے چلی گئی۔ (۶)

اس سے یہ بات واضح ہوجاتی جو قبلاً اشارہ ہو چکی ہے کہ اگرچہ انسان ظاہراً اس دنیا سے چلا جائے تب بھی زمانہ میں اس کی اچھائیوں کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے۔

اسی عدالت کی بنا پر آپ بیت المال کے حساب میں اتنا دقیق تھے کہ بسا اوقات خود آپ کے اعزاء بھی رنجیدہ ہو جاتے تھے کہ خود آپؑ فرماتے ہیں (واللہ لقد رأیت عقیلا و قد املق حتی آسما حنی بن برکم صاعا (۷)

خدا کی قسم میں نے عقیل کو خود دیکھا ہے کہ انہوں نے فقر و فاقہ کی بنا پر تمہارے حصہ گندم میں سے تین کیلو کا مطالبہ کیا تھا جب کہ ان کے بچوں کے بال غربت کی بنا پر پراگندہ ہوچکے تھے اور ان کے چہروں کے رنگ یوں بدل چکے تھے جیسے انہیں تیل چھڑک کر سیاہ بنایا گیا ہو اور انہوں نے مجھے بار بار تقاضا کیا اور مکرر اپنے مطالبہ کو دہرایا تو میں نے ان کی طرف کان دھر دئے اور وہ یہ سمجھے کہ شاید میں دین بیچنے اور اپنے راستہ کو چھوڑ کر ان کے مطالبہ پر چلنے کیلئے تیار ہوگیا ہوں۔ لیکن میں نے ان کیلئے لوہا گرم کرایا اور پھر ان کے جسم کے قریب لے گیا تاکہ اس سے عبرت حاصل کریں۔ انہوں نے لوہا دیکھ کر یوں فریاد شروع کر دی جیسے کوئی بیمار اپنے درد و الم سے فریاد کرتا ہے اور قریب تھا کہ ان کا جسم اس کے داغ دینے سے جل جائے۔ تو میں نے کہا رونے والیاں آپ کے غم میں روئیں اے عقیل! آپ اس لوہے سے فریاد کررہے ہیں جسے ایک انسان نے فقط ہنسی مذاق میں بنایا ہے اور مجھے اس آگ کی طرف کھینچ رہے ہیں جسے خدائے جبار نے اپنے غضب کی بنیاد پر بھڑکایا ہے۔ آپ اذیت سے فریاد کریں اور میں جہنم سے فریاد نہ کروں جب تم اس آگ کو برداشت نہیں کرسکتے ہو تو اس بات کو کیونکر جائز جانتے ہو کہ میں اہل اسلام کے حقوق میں سے تمہارے حصہ سے زیادہ تم کو دے کر آتش آخرت کا سزاوار بنوں۔

اس روایت کا مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علیؑ نے اپنے بڑے اور حقیقی بھائی کے ساتھ یہ عادلانہ برتاؤ کرکے واضح کر دیا کہ دین خد امیں رشتہ و قرابت کا گذر نہیں ہے دین خدا کا حاکم وہی شخص ہو سکتا ہے جو مال خدا کو مال خدا تصور کرے اور اس مسئلہ میں کسی رشتہ داری کو ترجیح نہ دے۔ یہ حضرت علی علیہ السلام کے کردار کانمایاں امتیاز ہے جس کا اندازہ دوست و دشمن دونوں کو تھا اور کوئی بھی ان کی اس صفت سے نا آشنا نہ تھا۔

آج پوری دنیا کے افراد اگر اپنی اپنی حکومت سے عاجز و پریشان نظر آتے ہیں تو اس کی علت یہ ہے کہ نہ انہوں نے اپنے حکام کی تائید کی اور نہ حکام نے ان کے اوپر نظر عنایت کی۔ حضرت علی علیہ السلام کی نگاہ میں عدالت کا قائم کرنا بے حد لازم اور ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ جب جناب مالک اشتر جیسے صحابی کو آپ خط لکھتے ہیں تو ان کو تذکر دیتے ہیں کہ ’’امراء کی آنکھوں کی ٹھنڈک اگر کوئی چیز ہوسکتی ہے تو وہ عدالت‘‘ ہے حضرت علی علیہ السلام نے اپنے تمام عمال کو ہمیشہ اس چیز کی طرف متوجہ کیا کہ دیکھو عوام الناس کا خیال رکھنا، دبے کچلے ہوئے لوگوں کو مزید اذیت نہ پہونچانا بلکہ انہیں ان کا حق دلانا اسلام بھی ہم سے یہی مطالبہ کرتا ہے کہ عوام کے مفادات کا تحفظ کرنا ہمارا فرض ہے اگر کوئی شخص عوام کو اپنے پیروں سے کچل رہا ہے یا ان کے مفادات سے ان کو بے خبر رکھ رہا ہے تو یہ مان لینا چاہیے کہ ایسا شخص دنیا کا بے دین اور ظالم حاکم ہے اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

حضرت علی علیہ السلام جناب مالک اشتر کو اسی چیز کی طرف توجہ دلاتے ہو تحریر فرماتے ہیں ایاک و مساماۃ اللہ فی عظمتہ و التشبۃ بہ فی جبر وفان اللہ بذل کل جبار ویھین کل مختال۔أنصف اللہ و أنصف الناس من نفسک، و من خاصۃ أھلک، ومن لک فیہ ھوی من رعیتک فانک الا تفعل تظلم و من ظلم عباد اللہ کان اللہ خصمہ دون عبادہ…(۸)

دیکھو خبردار اللہ سے اس کی عظمت میں مقابلہ اور اس کے جبروت سے تشابہ کی کوشش نہ کرنا کہ وہ ہر جبار کو ذلیل کر دیتا ہے اور ہر مغرور کو پست بنا دیتا ہے۔ اپنی ذات اپنے اہل و عیال اور رعایا میں جسے تمہیں تعلق خاطر ہے سب کے سلسلہ میں اپنے نفس اور اپنے پروردگار سے انصاف کرنا کہ ایسا نہ کرو گے تو ظالم ہوجاؤ گے اور جو اللہ کے بندوں پر ظلم کرے گا اس کے دشمن بندے نہیں خود پروردگار ہوگا اور جس کا دشمن پروردگار ہوجائے گا اس کی ہر دلیل باطل ہوجائے گی وہ پروردگار کا مد مقابل شمار کیا جائے گا…

حضرت علی علیہ السلام کی عدالت تو اس درجہ تک پہنچی ہوئی تھی کہ آپ نے اپنی حکومت کے دور میں بھی نہ کبھی اچھا کھانا کھایا اور نہ کبھی عمدہ لباس زیب تن کیا خود نہج البلاغہ میں آپ کا ایک خطبہ موجود ہے جسے آپؑ نے اپنے بصرہ کے عامل عثمان حنیف کے نام اس وقت تحریر فرمایا جب آپ کو اطلاع ملی کہ وہ ایک بڑی دعوت میں شریک ہوئے ہیں حضرت علیؑ ’’عثمان بن حنیف کو تحریر کرتے ہیں کہ’’مجھ کو تو یہ گمان بھی نہیں تھا کہ تم اس قوم کی دعوت میں شریک ہوگے جس میں غریبوں پر ظلم ہو رہا ہو۔ پھر چند سطروں بعد لکھتے ہیں کہ ’’تمہارے امام نے تو اس دنیا میں صرف دو بوسیدہ کپڑوں اور دو روٹیوں پر گذارا کیا ہے خدا کی قسم! میں نے تمہاری دنیا میں سے نہ اس مال و متاع میں سے کوئی ذخیرہ اکٹھا کیا ہے اور نہ ان دو بوسیدہ کپڑوں کے بدلے کوئی اور معمولی کپڑا مہیا کیا ہے (۹)

حضرت علی علیہ السلام کی عدالت کا اس سے بڑھ کر اور کیا نمونہ ہوگا کہ باوجود اس کے آپؑ اپنے قاتل ابن ملج (لع) کو پہچانتے تھے اور شناخت کامل رکھتے تھے کہ یہی شخص آپ کا قاتل ہے لیکن قبل اس کے کہ وہ جنایت کا مرتکب ہو قصاص نہیں لیتے تاکہ عدالت اسلام محفوظ رہ جائے اور ضربت لگنے کے بعد بھی عدالت کا اتنا خیال ہے کہ اپنے بیٹے امام حسن سے فرماتے ہیں: انظرو اذا أنامتّ من ضربتہ ھذا فاضربوہ ضربۃ و لا تمثلو بالرجل۔ (۱۰)

دیکھو اگر اس ضربت سے جانبر نہ ہوسکا تو ایک ضربت کا جواب ایک ہی ضربت ہے اور دیکھو میرے قاتل کے جسم کے ٹکڑے نہ کرنا۔

آپؑ کی عدالت کا یہ عالم تھا کہ آپ کے بارے میں جارج جرداق لکھتا ہے۔

’’قتلہ فی محرابہ العدالۃ‘‘ یعنی حضرت علی علیہ السلام محراب عبادت میں اپنی عدالت کی بنا پر قاتل کے ہاتھوں قتل کئے گئے اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ آپ کی شہادت سے دنیا عدالت مجسم سے محروم ہوگئی۔پہلا شہید محراب کہ جس کا چہرہ اس کے خون سے سرخ ہوا اور جس کے خون سے مسجد کوفہ رنگین ہوئی وہ شہید کوئی اور نہیں صرف آپ علیہ السلام ہیں ۔حضرت علی علیہ السلام شہید عدالت تھے۔

علی علیہ السلام اس ذات کا نام ہے جس نے خاک نشینوں کے ساتھ زندگی بسر کی اور محروموں کے ساتھ ہمدردی کی یہی وجہ ہے کہ آپ کے نزدیک آپ کا سب سے پسندیدہ لقب ’’ابو تراب‘‘ تھا۔مولا کی شہادت سے عدل و عدالت کا ایک باب بند ہوگیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر حضرت علی علیہ السلام کے بیان کئے ہوئے دستور پر ساری دنیا عمل پیرا ہو جائے تو پوری زمین پر کسی انسان کو یہ شکایت نہ ہوگی کہ اسے اس کے حق سے محروم کیا جارہا ہے حقیقت میں حضرت علی علیہ السلام کی ذات والاصفات عدل و انصاف کی وہ صدا ہے جو فضائے عالم میں ہمیشہ رہے گی ضرورت اس بات کی ہے کہ اس آواز کو دل کی گہرائی سے سنا جائے اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کیا جائے۔

نظرین فاطمہ رضوی
جامعۃ الزھراء
قم ایران

فہرست منابع:
۱۔ نہج البلاغہ :حکمت ،۲۳۱
۲۔ لئالی الاخبار ج۲ ص۱۸۴
۳۔وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص۲۳۳
۴۔دکتر جرج جرداق ،امام علی صدای عدالت انسانیت :م،عطا محمد مردار نیا
۵۔ زبان انقلاب ج۴۰،ص ۴۲۸
۶۔بحار الانوار ج۴۱ ص۱۱۹۔
۷۔نہج البلاغہ ،ذیشان حیدر جوادی خطبہ ۲۲۴، خطبہ ۵
۸۔نہج البلاغہ ،م،علامہ ذیشان حیدر جوادی ،مکتوب ۵۳ ص۵۷۴
۹۔ نہج البلاغہ مکتوب ۴۵ ص۵۵۶ :م،ذیشان حیدر
۱۰۔ایضا نامہ ۴۷ ص۵۶۶

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button