بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
۳۔ انسان
۱۔۳ اول انسان کی خلقت
"ثم نفخ فیھا من روحہ فمثلت انسانا ذا اذھان یجیلھا و فکر یتصرف بھا” (۲۴) پھر اس (مٹی کے پتلے) میں روح پھونکی تو وہ ایسے انسان کی صورت میں کھڑی ہو گئی جو قوت ذہنی کو حرکت دینے والا، فکری حرکات سے تصرف کرنے والا ہے۔ امامؑ کے جملات یہ بیان کر رہے ہیں کہ انسان کی خلقت مٹی سے ہوئی ہے اور اِس انسان کے پہلے جد حضرت آدم علیہ السلام ہیں کوئی بھی ایسا موجود نہیں تھا کہ اس کی ذات بدلے اور پھر انسان وجود میں آئے۔ بعض تاریخ دان اس عقیدے پر ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے انسانوں کی ایک نسل زمین پر رہتی تھی جسے نئاندرتال کا نام دیا گیا ہے جو سو ہزار سال زمین پر رہتے تھے حالانکہ حضرت آدم علیہ الاسلام کی خلقت تقریباً سات ہزار سال نظریہ (داروینیسم) کے خلاف ہے جو یہ کہتا ہے کہ انسان کی جد بندر و غیرہ ہیں اس نظریہ کے مطابق بندروں کی شکل بدلتے بدلتے انسان کی شکل وجود میں آئی یہ نظریہ آج کے سائنس کے مطابق بالکل باطل ہو چکا ہے کیونکہ آج ایسے شواہد و قرائن ملتے ہیں کہ اس نظریہ کو غلط ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ بزرگ علمی شخصیتوں میں سے لوئی آگاستر (جنین شناس)، ریچارد ادون (دیرین شناس)، چارلز ارسنت اور جرج بیوارت (جانور شناس) اس نظریہ (ترانسفورمیسم) کے سخت مخالف ہیں اور جرمن میں ژنتیک کے بنا پر تمام داروین کے نظریات پر پانی پھر گیا ہے اور ایک نئی تحقیق کے بنا پر اس بندروں کے DNA میں جو داروین کے مدنظر تھے اور انسان نئاندرتال کے DNA میں جو سو ہزار سال پہلے رہتے تھے، کوئی بھی شباہت نہیں۔ نتیجہ یہ کہ حضرت آدم علیہ السلام آج کل کے انسانوں کے جد محترم، مٹی سے خلق ہوئے ہیں جن کی نسل آج تک باقی ہے۔
۲۔۳ انسان کی سب سے پہلی جگہ
”ام ھذا الذی انشأۃ فی ظلمات الارحام و شغف الاستار نطفۃ دھاقاً و علقۃ ً محاقاً“ (۲۵)۔ یا پھر اسے دیکھو جسے (اللہ نے) ماں کے پیٹ کے اندھیاریوں اور پردے کے اندرونی تہوں میں بنایا جو ایک (جراثیم حیات) سے چھلکتا ہوا نطفہ اور بے شکل و صورت کا منجمد خون تھا۔
”ایھا المخلوق السوی و المنشأ المرعی فی ظلمات الارحام و مضاعفات الأستار“۔ اے وہ مخلوق کہ جس کی خلقت کو پوری طرح درست کیا گیا اور جسے شکم کی اندھیاریوں اور دہرے پردوں میں بنایا گیا۔ (۲۶)
امام علی علیہ السلام اس بیان میں فرما رہے ہیں کہ جنین نطفہ کہ انعقاد کے بعد ایک ایسی جگہ مستقر ہوتا ہے جہاں کئی پردے اسے احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید سورہ زمر میں اس بات پر اشارہ کیا ہے: ”یخلقکم فی بطون امھاتکم خلقاً من بعد خلق فی ظلمات ثلاث“ (۲۷) وہ تم کو تمہاری ماؤں کے شکم میں تخلیق کے مختلف منزلوں سے گزارتا ہے اور یہ سب تین تاریکیوں میں ہوتا ہے۔ آج کی تحقیقات کے بنا پر جنین کو تین پردے احاطہ کرتے ہیں ظاہراً یہ پردے ایک چمڑے جیسے ہیں لیکن اگر مائیکرو سکوپ سے دیکھا جائے، جس طرح آیت میں بھی ذکر ہوا ہے تین پردے دکھائی دیتے ہیں:
۱۔ پردہ آمینون ۲۔ پردہ کوریون ۳۔ پردہ آلان تویید
۱۔ پردہ آمینون، یہ پردہ جنین کے پیچھے بنتا ہے تاکہ ایک حفرہ ایجاد ہو اور پھر اس حفرے کے اندر ایک پانی جیسی زلال چیز رہتی ہے۔
۲۔ پردہ کوریون، یہ پردہ آمینون کے باہر رہتا ہے اور اس کے ذریعے جنین کی حفاظت ہوتی ہے۔
۳۔ پردہ آلان تویید، یہ پردہ جنین کا بالکل باہر والا حصہ ہے اور اس کے ذریعے جنین کو غذا ملتی ہے۔
۳۔۳ مزاج انسان
”انما فرق بینھم مبادیٔ طینھم و ذلک انھم کانو فلقۃً من سبخ ارض و عذبھا ،و حزن تربۃ و سھلھا فھم ولیٰ حسب قرب ارضھم یتقاربون و علیٰ قدر اختلافھا یتفاوتون فتام الرواء ناقص العقل و ماد القامۃ قصر الھمۃ و زاکی العمل قبیح المنظر و قریب القصر بعید السبر و معروف الضریبۃ منکر و الجلیبۃ و تائہ القلب متقرق اللب و طلیق للسان حدید الجنان“۔ (۲۸) ان کے مبدأ طینت نے ان میں تفریق پیدا کردی ہے اور یہ اس طرح کہ وہ شورہ زار و شیرین زمین اور سخت و نرم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں لہذا وہ زمین کے قرب کے اعتبار سے متفق ہوئے اور اختلاف کے تناسب سے مختلف ہوئے ہیں (اس پر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ) پورا خوش شکل انسان عقل میں ناقص اور بلند قامت آدمی پست ہمت ہو جاتا ہے اور نیکوکار، بد صورت اور کوتاہ قامت، دور اندیش ہوتا ہے اور طبعاً نیک سرشت کسی بری عادت کو پیچھے لگا لیتا ہے اور پریشان دل والا پراگندہ عقل اور چلتی ہوئی زبان والا ہوش مند دل رکھتا ہے۔ ”ثم جمع سبحان من حزن الارض و سھلھا و عذبھا و سبخھا“ (۲۹)۔ پھر اللہ نے سخت و نرم اور شیرین و شورہ زار زمین سے مٹی جمع کی۔
ان فرازوں میں امام علیہ السلام یہ بیان کر رہے ہیں کہ کیونکہ ہر انسان کی مٹی میں فرق تھا اسی لیے سب ایک جیسے نہیں ہیں آج کی سائنس نے بھی انسانوں کے طینت کی چار اقسام بتائی ہیں جسے اخلاط اربعہ کہتے ہیں: ۱۔ صفراء اخلاط (صفراوی مزاج)، ۲۔ سودا اخلاط (سودوی مزاج)، ۳۔ بلغم اخلاط (بلغمی مزاج)، ۴۔ خون اخلاط (دموی مزاج)۔ ان مزاجوں میں فرق بھی پایا جاتا ہے اور ان کی خصوصیات ایک جیسی نہیں جیسا کہ امام نے فرمایا ہے۔
۴۔۳ انسان کا بدن خاص قاعدہ کے تحت سالم رہ سکتا ہے
”توقو البرد فی اولہ و تلقوہ فی آخرہ فاِنہ یفعل فی الابدان لفعلہ فی الاشجار :اولہ یحرق و آخرہ یورق (۳۰)“۔ شروع میں سردی سے احتیاط کرو، اور آخر میں اس کا خیر مقدم کرو کیونکہ سردی جسموں میں وہی کرتی ہے، جو وہ درختوں میں کرتی ہے کہ ابتدا میں درختوں کو جھلسا دیتی ہے اور انتہا میں سرسبز و شاداب کرتی ہے۔ موسم خزاں میں سردی سے بچو اس لیے ضروری ہے کہ موسم کی تبدیلی سے مزاج میں انحراف پیدا ہو جاتا ہے اور نزلہ و زکام اور کھانسی وغیرہ کی شکایات پیدا ہو جاتی ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ بدن گرمی کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں کہ ناگاہ سردی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ جس سے دماغ کے مسام سکڑ جاتے ہیں اور مزاج میں برودت و یبوست بڑھ جاتی ہے۔ چنانچہ گرم پانی سے غسل کرنے کے بعد فوراً ٹھنڈے پانی سے نہانا اسی لیے مضر ہے کہ گرم پانی سے مسام کھل چکے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ سرد پانی کے اثرات کو فوراً قبول کر لیتی ہیں اور نتیجہ میں حرارت غریزی کو نقصان پہنچتا ہے۔ البتہ موسم بہار میں سردی کے بچاؤ کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ وہ صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے کیونکہ بدن پہلے ہی سے سردی کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں، اس لیے بہار کی معتدل سردی بدن پر ناخوشگوار اثر نہیں ڈالتی، بلکہ سردی کا زور ٹوٹنے سے بدن میں حرارت و رطوبت میں شگفتگی اور روح میں بالیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح عالم نباتات پر بھی تبدیلی موسم کا یہی اثر ہوتا ہے۔ چنانچہ موسم خزاں میں برودت و یبوست کے غالب آنے سے پتے مرجھاتے ہیں، روح نباتی افسردہ ہو جاتی ہے چمن کی حسن و تازگی مٹ جاتی ہے اور سبزہ زاروں پر موت کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور موسم بہار ان کے لیے زندگی کا پیغام لیکر آتا ہے اور بار آور ہواؤں کے چلنے سے پتے اور شگوفہ پھوٹنے لگتے ہیں اور شجر سرسبز و شاداب اور دشت و صحرا سبزہ پوش ھو جاتے ہیں۔
۵۔۳ انسان اور بیماریاں
۱۔۵۔۳ پرخوری
”و ان افرط بہ الشبع کظتہ البطنہ“ (۳۱)۔ جب شکم بڑھ جاتے ہیں تو یہ شکم پری اس کے لیے کرب و اذیت کا باعث ہوتی ہے۔ امامؑ نے اس جملہ میں بتایا ہے کہ شکم پری انسان کے لیے مضر ہے اور اس سے بہت سی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ آ ج کے ڈاکٹروں نے بھی شکم پری کے بہت سے نقصانات بیان کیے ہیں مثال کے طور پر:
۱۔ سوء ہاضمہ اور پیٹ کا بڑا ہونا۔
۲۔ دل میں جلن کیونکہ جب معدہ حد سے زیادہ بھر جاتا ہے تو اس کا اثر دل پر ضرور آتا ہے۔
۳۔ بدن کا فربہ ہونا جو خود بہت سے امراض کا باعث ہے۔
۴۔ رگوں کا بند ہونا۔
۵۔ نقرس کی بیماری کہ جس میں انسان کے جوڑ جوڑ میں درد اٹھتا ہے (یہ بیماری گوشت کھانے میں زیادہ روی سے پیدا ہوتی ہے۔
۶۔ گردہ میں پتھری کی بیماری۔
۲۔۵۔۳ مرض کے ساتھ مدارا
”امش بدائک ما مشی بک“ (۳۲) مرض میں، جب تک ہمت ساتھ دے، چلتے پھرتے رہو۔
امام علیہ السلام یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر مرض کم ھو اور تم اسے تحمل کرسکتے ہو تو اسے تحمل کرو کیونکہ اس میں فائدہ ہے۔ آج کے ڈاکٹروں کا بھی یہی نظریہ ہے کہ ایک چھوٹے سے درد کو اہمیت دینے سے طبیعت، احساس مرض سے متاثر ہو کر اس میں اضافہ ہونے کے باعث ہو جایا کرتی ہے اور یہ ثابت شدہ بات ہے کہ ایک چھوٹی سی بیماری کے لیے دوا کھانے سے مرض بڑھ جاتا ہے کیونکہ، جراثیم کو مرض کے پہلے مرحلے میں دوا کھانے کے ذریعے قوت حاصل ہوتی ہے۔
۳۔۵۔۳ حرام غذا
”فما اشتبہ علیک علمہ فالفظہ و ما ایقنت بطیب جوھہ فنل منہ“ (۳۳)۔ اور جس (کھانے) کے متعلق شبہ بھی ہو (حلال پے کہ حرام) اسے چھوڑ دیا کرو اور جس کے پاک و پاکیزہ طریقہ سے حاصل ہونے کا یقین ہو اس میں سے کھاؤ۔ اسی طرح امام علیہ السلام فرماتے ہیں: ”ولا تدخلوا بطونکم لعق الحرام“ (۳۴) اپنے پیٹ میں حرام کے لقمے نہ ڈالو۔
ثابت شدہ بات ہے کہ حرام لقمہ کھانے سے بدن میں درد اٹھتا ہے اور انسان کی روح کرب و اذیت میں دوچار رہتی ہے جیسا کہ دیکھا گیا ہے جو حرام لقمہ کھاتے ہیں کبھی بھی ان کو سکون نہیں ملتا اور ہمیشہ اذیت میں رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ حرام لقمہ کا اثر انسان اور اس کی اولاد پر بہت برا پڑتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جو کھانا حرام کیا ہے وہ سب انسان ہی کے لیے زیادہ بہتر ہے کی وہ سب کو نہ کھائے۔ مثال کے طور سور کے گوشت کھانے کو خدا نے حرام قرار دیا ہے آج ثابت ھہوا ہے کہ سور کے گوشت میں ایسے جراثیم ہوتے ہیں کہ جو پکانے سے نہیں مرتے لہذا جب انسان اس گوشت کو کھائے گا تو بیمار ہو جائے گا۔ بعض غرب ممالک کا یہ کہنا ہے کہ ہم سور کے گوشت کو اس طرح استرلیزہ کرتے ہیں کہ اس کی کےتمام جراثیم مر جاتے ہیں، ان کا کہنا صحیح ہے لیکن وہ سب اس بات سے غافل ہیں کہ اس عالم میں ظاہری دلیلوں کے علاوہ بہت سی ایسی دلیلیں ہیں جو اپنا برا اثر رکھتی ہیں اور انسان کو ان سب کی خبر نہیں۔ حدیث معصوم علیہ السلام ہے کہ سور بے غیرت ہوتا ہے اور جو کوئی اس کا گوشت کھائے گا وہ یہ صفت اس میں منتقل ہو جائے گی اور آج یورپ میں رہنے والے بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔
امام علیہ السلام فرماتے ہیں: ”کم من اکلتہ منعت اکلات“ (۳۵) بسا اوقات ایک دفعہ کا کھانا بہت دفعہ کے کھانوں سے مانع ہو جاتا ہے۔
اگر انسان سور کے گوشت کو کھائے گا تو نیچے ذکر شدہ بیماریوں میں مبتلا ہو جائے گا اور واضح سی بات ہے کہ ایک بیمار انسان، بہت سے کھانوں کے کھانے سے محروم رہے گا۔
وہ بیماریاں جو سور کے گوشت کھانے سے ہوتی ہیں: ۱۔اسہال خونی ۲۔ انتامیب ھیستولیتک ۳۔ بیماری باد سرخ (اس بیماری میں انسان کے بدن پر لال دانے نکلتے ہیں جن میں بہت جلن ہوتی ہے) ۴۔ بوتولیسم ۵۔ رگوں کا بند ہونا وغیرہ
۴۔۵۔۳ شراب
”و ترک الخمر تحصیناً للعقل“ (۳۶)۔ اور (خداوند عالم نے) شراب خواری کے ترک کو عقل کی حفاظت کے لیے قرار دیا ہے۔ اس جملہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شراب پینا عقل کو زائل کردیتا ہے اور آج کے سائنس دان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ:
۱۔ شراب بہت جلد، پینے والے کی بدن میں خون کے ذریعہ ہر جگہ پہنچتی ہے اور اگر ایک حاملہ عورت شراب پیے تو اس کے جنین کے مغز پر بہت برا اثر چھوڑتی ہے۔
۲۔ شراب پینے والا ان بیماریاں میں مبتلا ھوگا: دل کی بیماری، اعصاب کی بیماری خون کی بیماری وغیرہ
۳۔ شراب پینے والے کے اعصاب کی قوت ختم ہو جاتی ہے اور اس کے ہاتھ پیر میں لرزش دیکھی جاتی ہے۔
۴۔ شراب پینے والے کا بدن فربہ ہو جاتا ھہے اور اس کے خون میں چربی زیادہ ہو جاتی ہے۔
۵ ۔ ان سب بیماریوں کے علاوہ شراپ پینے والا جنون کورسافت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ جس کی یہ نشانیاں ہیں: قوت گویائی کا ضعف، ہذیان گوئی، اعصابی امراض، قوت تمییز کا زائل ہونا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عقل زائل ہو جاتی ہے۔
اكتِئابی اضطراب (افسردگی، major depressive disorder)
”ان ھذہ القلوب تمل کما تمل الابدان“ (۳۷) یہ دل بھی اسی طرح اکتا جاتے ہیں جس طرح بدن اکتا جاتے ہیں۔ اس حکمت میں امام علیہ السلام واضح طور پر خبر دے رہے ہیں کہ جس طرح جسم بیمار ہوتا ہے انسان کی روح بھی بیمار ہوتی ہے۔ آج کے سائنس دانوں نے بہت سی ایسی بیماریاں کا پتہ لگایا ہے کہ جس کا تعلق جسم سے نہیں بلکہ انسان کی روح سے ہوتا ہے مثال کے طور پر اکتئابی اضطراب جو روز بہ روز دنیا میں اس کے افراد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے لہذا انسان کو چاہیے کہ جس طرح اپنے جسم کا خیال رکھتا ہے اسی طرح اپنی روح کو بیمار ہونے سے بچائے۔ آج کی سائنس نے ثابت کیا ہے کہ اگر ایک شخص جسے اکتئابی اضطراب کی بیماری ہے، ایک اچھے ماہر نفسیات (سائیکالوجسٹ) کے پاس جائے اور اس کی رہنمائی و ہدایت سے استفادہ کرے تو اس بیماری کا علاج کر سکتا ہے۔
۵۔۵۔۳ روزہ
”و عن ذاللہ ما حرس اللہ عبادہ الموئمنین بالصلوات و الزکوات و مجاھدۃ الصیام فی الایام المفروضات تسکیناً لاطرافھم“ (۳۸)۔ خداوند عالم ایمان سے سرفراز ہونے والے بندوں کو نماز، زکات اور مقررہ دنوں میں روزوں کے جہاد کے ذریعہ محفوظ رکھتا ہے اور اس طرح ان کے اعضاء و جوارح کو سکون کی سطح پر لاتا ہے۔ امام علیہ السلام اس فراز میں یہ بتا رہے ہیں کہ روزہ کے ذریعہ انسان کے اعضا و جوارح کو سکون ملتا ہے۔ اعضا و جوارح کا سکون یعنی بدن کی صحت و سلامتی۔ آج کے ڈاکٹروں نے روزہ رکھنے کے بہت سے فوائد کا ذکر کیا ہے مثال کے طور پر:
۱۔ ہاضمہ کی بہت سے بیماریاں روزہ رکھنے سے نہیں ہوتیں۔
۲۔ روزہ رکھنے سے بدن کو فرصت ملتی ہے کہ وہ اپنے درونی ضدد اور سلولوں کو فرصت دے کہ وہ سب اپنی کھوئی ہوئی قوت اور توانائی کو حاصل کرلیں۔
۳۔ روزہ رکھنے سے گردوں کو بھی فرصت ملتی ہے کہ استراحت کریں۔
۴۔ روزہ رکھنے سے خون میں موجود چربی پگھل جاتی ہے اور یہ امر بدن کے لیے بہت زیادہ فائدہ مند ہے۔
۵ ۔ روزہ رکھنا بدن کو فربہ ہونے سے روکتا ہے۔
۶۔۵۔۳ قرآن
”فیہ شفاء المشتفی“ (۳۹)۔ شفا چاہنے کے لیے اس میں (قرآن میں) شفا ہے۔ ”فاستشفوہ من ادوائکم“ (۴۰) اس (قرآن) سے اپنی بیماریوں کی شفا چاہو۔ امام علیہ السلام صاف صاف بتا رہے ہیں کہ اے انسان تمہارے لیے اس قرآن میں شفا ہے۔ خود قرآن نے بھی اس بات کی تائید کی ہے ”و ننزل من القرآن ما ھو شفاء و رحمۃ للمؤمنین …“ (۴۱) قرآن کریم نے بہت سے ایسے دستور دیے ہیں کہ انسانوں لیے سلامتی کے حامل ہیں مثال کے طور پر ”فلینظر الانسان الی طعامہ“ انسان کو چاہیے کہ اپنے کھانے پر نظر کرے۔ قرآن کا یہ بظاہر چھوٹا سا پیغام انسانوں کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوا ہے جیسا کہ ثابت شدہ بات ہے کہ جب انسان اپنے کھانے کو دیکھتا ہے تو اس کے دہان میں ایک مادہ جاری ہوتا ہے جو یہ خود کھانے کو ہضم کرنے میں مدد کرتا ہے اس کے علاوہ جب انسان اپنے کھانے کو دیکھتا ہے تو اس بات پر غور کرتا ہے کہ کیا کھا رہا ہے اور اسے کیا کھانا چاہیے ،کیا کیا چیزیں اس کے بدن کے لیے ضروری ہیں۔ انسان کو اپنے کھانے پر غور کرنا چاہیے کہ وہ کیا کھا رہا ہے اس لیے کہ اگر صحیح طریقے سے نہ جانے کہ اسے کیا کھانا چاہیے تو بیمار ہو جائے گا جیسا کہ حدیث معصوم میں بھی ہے کہ معدہ تمام بیماریوں کی جڑ ہے۔ ان سب کے علاوہ جب انسان اپنے کھانے پر نظر کرتا ہے تو غور کرتا ہے کہ اس کا کھانا حرام ہے یا حلال کیونکہ حرام کھانے میں مثال کے طور پر سور کا گوشت انسان کے لیے بہت مضر ثابت ہوا ہے جس کا ذکر اسی مقالے میں ہو چکا ہے۔
۷۔۵۔۳ دعا
”وادفعوا امواج البلاء بالدواء“ (۴۲)۔ اور دعا سے مصیبت و ابتلاء کی لہروں کو دور کرو۔
امام علیہ السلام اس جملہ میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ دعاؤں کی لہر ہوتی ہیں۔ آج یہ تحقیق شدہ بات ہے کہ جب ایک انسان ایک دوسرے انسان کے لیے دعا کرتا ہے تو دیکھا گیا ہے کہ دوسرے انسان کے بدن میں ایسے فعل و انفعالات وجود میں آتے ہیں کہ اسے آرام ملتا ہے اور یہ بات ایک خاص قسم کی لہر کی وجہ سے ہوتی ہے جسے محققین نے ثبت کیا ہے۔ اسی طرح جب ایک انسان اپنے لیے دعا کرتا ہے تو اپنے اندر سکون و خوشی کا احساس کرتا ہے۔
نتیجہ:
جس قدر یہ انسان اپنی تمام کوشش سے چاہے کہ امامؑ کے سخن کے عمق تک پہنچے پھر بھی امامؑ کے سخن کو بطور کامل نہیں سمجھ سکتا اور کیسے سمجھے کیونکہ یہ منبع علم، اس نا امتناہی علم سے متصل ہے جس کے بارے میں خداوند عالم نے کہا ہے: ”راسخون فی العلم“ (۴۳) لیکن پھر بھی اس مقالے میں کوشش ہوئی ہے کہ امامؑ کے کلام کو صحیح طریقے سے درک کر سکیں اور اچھی طرح سے اس کو سمجھ کر اس پر عمل کرکے اسلام کی خدمت کر سکیں اور امید ہے کہ پہلے درجہ میں خداوند قہار اور پھر امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی بارگاہ میں یہ مضمون قابل قبول ہو۔
حوالہ جات
۲۴۔ خطبہ۱، ص ۷۴
۲۵۔ خطبہ ۸۱ ،ص ۲۳۵
۲۶۔ حکمت ۱۶۱، ص۴۲۸
۲۷۔ سورہ زمر، آیہ ۶
۲۸۔ خطبہ ۲۳۱ ،ص ۶۲۶ و ۶۲۷
۲۹۔خطبہ ۱،ص ۷۴
۳۰۔حکمت ۱۲۸ ،ص ۸۴۳
۳۱۔حکمت ۱۰۸، ص ۸۳۶
۳۲۔حکمت ۲۶ ،ص ۸۱۲
۳۳۔حکمت ۴۵ ،ص ۷۲۶
۳۴۔ خطبہ ۱۴۹، ص ۳۹۶
۳۵۔حکمت ۱۷۱، ص ۸۶۰
۳۶۔حکمت ۲۵۲، ص ۸۷۹
۳۷۔حکمت ۹۱ ،ص ۸۳۰
۳۸۔حکمت ۱۹۰ ،ص ۵۲۵
۳۹۔ خطبہ ۱۵۰ ،ص ۳۹۸
۴۰۔ خطبہ ۱۷۴ ،ص ۴۶۱
۴۱۔سورہ الاسراء ،آیہ ۱۷
۴۲۔حکمت ۱۴۶ ،ص ۸۵۰
۴۳۔سورہ آل عمران ،آیہ ۷