اے کتابِ علم و حکمت اے بلاغت کی سبیل
سید محمود حسن قیصر امروھویؔ
اے کتابِ علم و حکمت اے بلاغت کی سبیل
ہے فروغِ چہرۂ معنی ترا نقشِ جمیل
بادۂ توحید لبریز ہے تیرا ایاغ
جلوہ گر افکار میں تیرے رسالت کا دماغ
رشحۂ الہام ہے ہر نقطہ زیبا ترا
ہے زلال وحی کا ساغر ترا ہر دائرہ
روشنائی میں تری بحر تجلی موجزن
ہے تری ہر سطر تسبیح خلیل ذوالمنن
تو ادب کی جان ہے، تو فلسفہ کا تاج ہے
نقش پائے فکر تیرا غیر کی معراج ہے
دولت ایماں ہے تو، مسلم کا سرمایہ ہے تو
باب شہر علم کی جنس گراں مایہ ہے تو
آج بھی ہے تازہ درنگیں ترے معنی کا باغ
دہر کے حکمت کدے میں تو ہے اک روشن چراغ
تیرے استدلال کے تیشوں سے باطل دلفگار
صحن قرآں تیری تشریحات سے ہے پُر بہار
خرمنِ الحاد پر تیری شعائیں قہر ریز
کفر و بدعت سے ہے تجھ کو دعوت رزم و ستیز
ہیں عدوّ کے واسطے تیرے اشارے ذوالفقار
حیدری ضربت کا آئینہ ترے فقروں کا وار
دیو باطل کے لئے تو آتشیں صمصام ہے
فتنہ تثلیث تجھ سے لرزہ براندام ہے
تیری تشریحات ہیں روشنگرِ حق وصواب
چہرۂ اوہام سے تونے الٹ دی ہے نقاب
دفتر صد حکمت ومعنی ہے تیرا ہر ورق
تجھ سے سیکھا ہے زمانے نے سیاست کا سبق
دانش آموز خرد ہیں تیرے امثال و حکم
تیرے جملوں میں ہے نبضِ زندگی کا زیروبم
ہے تصوّف مست تیرے ساغرِ گلفام کا
ہے ترا مرہونِ منت فلسفہ اسلام کا
افصحانِ دہر سر دُھنتے ہیں تیرے ساز پر
خیمہ زن تیری بلاغت سرحد اعجاز پر
شقشقہ تیرے بیاں میں اخطب اسلام کا
ہمہمہ زورِ خطابت میں ترے ضرغام کا
آج بھی ہے عصر ِنو محتاج پانی کا ترے
اب بھی طغیانی پہ ہے دریا معانی کا ترے
میں اگر یہ عرض کروں کہ اردو میں یہ نظم غالباً اپنی حیثیت کی اکیلی نظم ہے تو بے جانہ ہوگا۔
جناب محترم آیت اللہ سید عقیل الغروی دام عزہ
۴ جمادی الاولیٰ ۱۴۱۱ھ