نہج البلاغہ حکمت 20: شرم و حیا
(٢٠) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۲۰)
قُرِنَتِ الْهَیْبَةُ بِالْخَیْبَةِ، وَالْحَیَآءُ بِالْحِرْمَانِ، وَالْفُرْصَةُ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ، فَانْتَهِزُوْا فُرَصَ الْخَیْرِ.
خوف کا نتیجہ ناکامی اور شرم کا نتیجہ محرومی ہے، اور فرصت کی گھڑیاں (تیزرَو) اَبر کی طرح گزر جاتی ہیں۔لہٰذا بھلائی کے ملے ہوئے موقعوں کو غنیمت جانو۔
عوام میں ایک چیز خواہ کتنی ہی معیوب خیال کی جائے اور تحقیر آمیز نظروں سے دیکھی جائے اگر اس میں کوئی واقعی عیب نہیں ہے تو اس سے شرمانا سراسر نادانی ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے اکثر ان چیزوں سے محروم ہونا پڑتا ہے جو دنیا وآخرت کی کامیابیوں اور کامرانیوں کا باعث ہوتی ہیں۔جیسے کوئی شخص اس خیال سے کہ لوگ اسے جاہل تصور کریں گے کسی اہم اور ضروری بات کے دریافت کرنے میں عار محسوس کرے تو یہ بے موقع و بے محل خودداری اس کیلئے علم و دانش سے محرومی کا سبب بن جائے گی۔ اس لئے کوئی ہوشمند انسان سیکھنے اور دریافت کرنے میں عار نہیں محسوس کرے گا۔ چنانچہ ایک سن رسیدہ شخص سے کہ جو بڑھاپے کے باوجود تحصیل علم کرتا تھا کہا گیا کہ: «مَا تَسْتَحْیِیْ اَنْ تَتَعَلَّمَ عَلَی الْکِبَرِ» : ’’تمہیں بڑھاپے میں پڑھتے ہوئے شرم نہیں آتی؟‘‘۔ اس نے جواب میں کہا کہ: «اَنَا لَا اَسْتَحْیِیْ مِنَ الْجَھْلِ عَلَی الْکِبَرِ فَکَیْفَ اَسْتَحْیِیْ مِنَ التَّعَلُّمِ عَلَی الْکِبَرِ» : ’’جب مجھے بڑھاپے میں جہالت سے شرم نہیں آئی تو اس بڑھاپے میں پڑھنے سے شرم کیسے آ سکتی ہے‘‘۔
البتہ جن چیزوں میں واقعی برائی اور مفسدہ ہو ان کے ارتکاب سے شرم محسوس کرنا انسانیت اور شرافت کا جوہر ہے۔ جیسے وہ اعمالِ ناشائستہ کہ جو شرع و عقل اور مذہب و اخلاق کی رو سے مذموم ہیں۔بہرحال ’’حیا‘‘ کی پہلی قسم قبیح اور دوسری قسم حسن ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
اَلْحَيَآءُ حَيَآءَانِ: حَيَآءُ عَقْلٍ وَّ حَيَآءُ حُمْقٍ، فَحَيَآءُ الْعَقْلِ هُوَ الْعِلْمُ، وَ حَيَآءُ الْحُمْقِ هُوَ الْجَهْلُ.
حیا کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جو بتقاضائے عقل ہوتی ہے، یہ حیا علم و دانائی ہے۔ اور ایک وہ جو حماقت کے نتیجہ میں ہوتی ہے، یہ سراسر جہل و نادانی ہے۔ (الکافی، ج۲، ص۱۰۶)