نہج البلاغہ حکمت 21: حق سے محرومی
(٢۱) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۲۱)
لَنَا حَقٌّ، فَاِنْ اُعْطِیْنَاهُ، وَ اِلَّا رَكِبْنَاۤ اَعْجَازَ الْاِبِلِ وَ اِنْ طَالَ السُّرٰى.
ہمارا ایک حق ہے اگر وہ ہمیں دیا گیا تو ہم لے لینگے، ورنہ ہم اونٹ کے پیچھے والے پٹھوں پر سوار ہوں گے۔ اگرچہ شب روی طویل ہو۔
قَالَ الرَّضِیُّ: وَ هٰذَا مِنْ لَطِيْفِ الْكَلامِ وَ فَصِيْحِهٖ، وَ مَعْنَاهُ: «اَنَّا اِنْ لَّمْ نُعْطَ حَقَّنَا كُنَّاۤ اَذِلَّآءَ». وَ ذٰلِكَ اَنَّ الرَّدِيْفَ يَرْكَبُ عَجُزَ الْبَعِيْرِ، كَالْعَبْدِ وَ الْاَسِيْرِ وَ مَنْ يَّجْرِیْ مَجْرَاهُمَا.
سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ: یہ بہت عمدہ اور فصیح کلام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ: اگر ہمیں ہمارا حق نہ دیا گیا تو ہم ذلیل و خوار سمجھے جائیں گے اور یہ مطلب اس طرح نکلتا ہے کہ اونٹ کے پیچھے کے حصہ پر ردیف بن کر غلام اور قیدی یا اس قسم کے لوگ ہی سوار ہوا کرتے تھے۔
سیّد رضی علیہ الرحمہ کے تحریر کردہ معنی کا ماحصل یہ ہے کہ حضرتؑ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ: اگر ہمارے حق کا کہ جو امام مفترض الطاعہ ہونے کی حیثیت سے دوسروں پر واجب ہے اقرار کر لیا گیا اور ہمیں ظاہری خلافت کا موقع دیا گیا تو بہتر، ورنہ ہمیں ہر طرح کی مشقتوں اور خواریوں کو برداشت کرنا پڑے گا، اور ہم اس تحقیر و تذلیل کی حالت میں زندگی کا ایک طویل عرصہ گزارنے پر مجبور ہوں گے۔
بعض شارخین نے اس معنی کے علاوہ اور معنی بھی تحریر کئے ہیں اور وہ یہ کہ: اگر ہمیں ہمارے مرتبہ سے گرا کر پیچھے ڈال دیا گیا اور دوسروں کو ہم پر مقدم کر دیا گیا تو ہم صبر سے کام لیتے ہوئے پیچھے ہٹنا گوارا کر لیں گے۔ اور اونٹ کے پٹھے پر سوار ہونے سے یہی مراد ہے، کیونکہ جو اونٹ کے پٹھے پر سوار ہوتا ہے وہ پیچھے ہوتا ہے اور جو پشت پر سوار ہوتا ہے وہ آگے ہوتا ہے۔
اور بعض نے یہ معنی کہے ہیں کہ: اگر ہمارا حق دے دیا گیا تو ہم اسے لے لیں گے، اور اگر نہ دیا گیا تو ہم اس سوار کی مانند نہ ہوں گے کہ جو اپنی سواری کی باگ دوسرے کے ہاتھ میں دے دیتا ہے کہ وہ جدھر اسے لے جانا چاہے لے جائے، بلکہ اپنے مطالبہ حق پر برقرار رہیں گے خواہ مدت دراز کیوں نہ گزر جائے اور کبھی اپنے حق سے دستبردار ہو کر غصب کرنے والوں کے سامنے سر تسلیم خم نہ کریں گے۔