کلمات قصار

نہج البلاغہ حکمت 24: مہلت

(٢٤) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ

(۲۴)

یَابْنَ اٰدَمَ! اِذَا رَاَیْتَ رَبَّكَ سُبْحَانَهٗ یُتَابِـعُ عَلَیْكَ نِعَمَهٗ وَ اَنْتَ تَعْصِیْهِ، فَاحْذَرْهُ.

اے آدمؑ کے بیٹے! جب تو دیکھے کہ اللہ سبحانہ تجھے پے درپے نعمتیں دے رہا ہے اور تو اس کی نافرمانی کر رہا ہے تو اس سے ڈرتے رہنا۔

جب کسی کو گناہوں کے باوجود پے درپے نعمتیں حاصل ہو رہی ہوں تو وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اللہ اس سے خوش ہے اور یہ اس کی خوشنودی و نظر کرم کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ نعمتوں میں زیادتی شکر گزاری کی صورت میں ہوتی ہے اور ناشکری کے نتیجہ میں نعمتوں کا سلسلہ قطع ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے:

﴿لَٮِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّـكُمْ‌ وَلَٮِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِىْ لَشَدِيْدٌ‏﴾

اگر تم نے شکر کیا تو میں تمہیں اور زیادہ نعمتیں دوں گا اور اگر ناشکری کی تو پھر یاد رکھو کہ میرا عذاب سخت عذاب ہے۔(سورۂ ابراہیم، آیت۷)

لہٰذا عصیان و ناسپاسی کی صورت میں برابر نعمتوں کا ملنا اللہ کی خوشنودی و رضا مندی کا ثمرہ نہیں ہو سکتا، اورنہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ نے اس صورت میں اسے نعمتیں دے کر شبہ میں ڈال دیا ہے کہ وہ نعمتوں کی فراوانی کو اس کی خوشنودی کا ثمرہ سمجھے۔ کیونکہ جب وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ خطا کار و عاصی ہے اور گناہ کو گناہ اور برائی کو برائی سمجھ کر اس کا مرتکب ہو رہا ہے تو اس اشتباہ کی کیا وجہ کہ وہ اللہ کی خوشنودی و رضامندی کا تصور کرے، بلکہ اسے یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ ایک طرح کی آزمائش اور مہلت ہے تاکہ جب اس کی طغیانی و سر کشی انتہا کو پہنچ جائے تو اسے دفعتاً گرفت میں لے لیا جائے۔ لہٰذا ایسی صورت میں اسے منتظر رہنا چاہیے کہ کب اس پر غضب الٰہی کا ورود ہو اور یہ نعمتیں اس سے چھین لی جائیں، اور محرومی و نامرادی کی عقوبتوں میں اسے جکڑ لیا جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button