نہج البلاغہ حکمت 31: کفر
(٣۱) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۳۱)
اَلْكُفْرُ عَلٰۤى اَرْبَعِ دَعَآئِمَ: عَلَى التَّعَمُّقِ، وَ التَّنَازُعِ، وَ الزَّیْغِ، وَ الشِّقَاقِ.
’’کفر‘‘ بھی چار ستونوں پر قائم ہے: حد سے بڑھی ہوئی کاوش، جھگڑالُو پن، کج روی اور اختلاف۔
فَمَنْ تَعَمَّقَ لَمْ یُنِبْ اِلَى الْحَقِّ، وَ مَنْ كَثُرَ نِزَاعُهٗ بِالْجَهْلِ دَامَ عَمَاهُ عَنِ الْحَقِّ، وَ مَنْ زَاغَ سَآءَتْ عِنْدَهُ الْحَسَنَةُ وَ حَسُنَتْ عِنْدَهُ السَّیِّئَةُ وَ سَكِرَ سُكْرَ الضَّلَالَةِ، وَ مَنْ شَاقَّ وَعُرَتْ عَلَیْهِ طُرُقُهٗ وَ اَعْضَلَ عَلَیْهِ اَمْرُهٗ وَ ضَاقَ عَلَیْہِ مَخْرَجُهٗ.
تو جو بے جا تعمق و کاوش کرتا ہے وہ حق کی طرف رجوع نہیں ہوتا، اور جو جہالت کی وجہ سے آئے دن جھگڑے کرتا ہے وہ حق سے ہمیشہ اندھا رہتا ہے، اور جو حق سے منہ موڑ لیتا ہے وہ اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی سمجھنے لگتا ہے اور گمراہی کے نشہ میں مدہوش پڑا رہتا ہے، اور جو حق کی خلاف ورزی کرتا ہے اس کے راستے بہت دشوار اور اس کے معاملات سخت پیچیدہ ہو جاتے ہیں اور بچ کے نکلنے کی راہ اس کیلئے تنگ ہو جاتی ہے۔
وَ الشَّكُّ عَلٰۤى اَرْبَعِ شُعَبٍ: عَلَى التَّمَارِیْ، وَ الْهَوْلِ، وَ التَّرَدُّدِ، وَ الِاسْتِسْلَامِ.
’’شک‘‘ کی بھی چار شاخیں ہیں: کٹھ حجتی، خوف، سرگردانی اور باطل کے آگے جبیں سائی۔
فَمَنْ جَعَلَ الْمِرَآءَ دَيْدَنًا لَّمْ یُصْبِحْ لَیْلُهٗ، وَ مَنْ هَالَهٗ مَا بَیْنَ یَدَیْهِ نَكَصَ عَلٰى عَقِبَیْهِ، وَ مَن تَرَدَّدَ فِی الرَّیْبِ وَطِئَتْهُ سَنَابِكُ الشَّیٰطِیْنِ، وَ مَنِ اسْتَسْلَمَ لِهَلَكَةِ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ هَلَكَ فِیْهِمَا.
چنانچہ جس نے لڑائی جھگڑے کو اپنا شیوہ بنا لیا اس کی رات کبھی صبح سے ہمکنار نہیں ہو سکتی، اور جس کو سامنے کی چیزوں نے ہول میں ڈال دیا وہ الٹے پیر پلٹ جاتا ہے، اور جو شک و شبہ میں سر گرداں رہتا ہے اسے شیاطین اپنے پنجوں سے روند ڈالتے ہیں، اور جس نے دنیا و آخرت کی تباہی کے آگے سر تسلیم خم کر دیا وہ دو جہاں میں تباہ ہوا۔
قاَلَ الرَّضِیُّ:وَ بَعْدَ هٰذَا كَلَامٌ تَرَكْنَا ذِكْرَهٗ خَوْفَ الْاِطَالَةِ وَ الْخُرُوْجِ عَنِ الْغَرَضِ الْمَقْصُوْدِ فِیْ هٰذَا الْبَابِ.
سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ: ہم نے طوالت کے خوف اور اس خیال سے کہ اصل مقصد جو اس باب کا ہے فوت نہ ہو، بقیہ کلام کو چھوڑ دیا ہے۔