نہج البلاغہ حکمت 103: بوسیدہ لباس
(۱٠٣) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۱۰۳)
وَ رُئِیَ عَلَیْهِ اِزَارٌ خَلَقٌ مَرْقُوْعٌ، فَقِيْلَ لَهٗ فِیْ ذٰلِكَ فَقَالَ:
آپؑ کے جسم پر ایک بوسیدہ اور پیوند دار جامہ دیکھا گیا تو آپؑ سے اس کے بارے میں کہا گیا۔ آپؑ نے فرمایا:
یَخْشَعُ لَهُ الْقَلْبُ، وَ تَذِلُّ بِهِ النَّفْسُ، وَ یَقْتَدِیْ بِهِ الْمُؤْمِنُوْنَ. اِنَّ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةَ عَدُوَّانِ مُتَفَاوِتَانِ، وَ سَبِیْلَانِ مُخْتَلِفَانِ، فَمَنْ اَحَبَّ الدُّنْیَا وَ تَوَلَّاهَا اَبْغَضَ الْاٰخِرَةَ وَ عَادَاهَا، وَ هُمَا بِمَنْزِلَةِ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ، وَ مَاشٍۭ بَیْنَهُمَا كُلَّمَا قَرُبَ مِنْ وَّاحِدٍۭ بَعُدَ مِنَ الْاٰخَرِ، وَ هُمَا بَعْدُ ضَرَّتَانِ۔
اس سے دل متواضع اور نفس رام ہوتا ہے اور مومن اس کی تاسی کرتے ہیں۔ دنیا اور آخرت آپس میں دو ناساز گار دشمن اور دو جدا جدا راستے ہیں۔ چنانچہ جو دنیا کو چاہے گا اور اس سے دل لگائے گا وہ آخرت سے بَیر اور دشمنی رکھے گا وہ دونوں بمنزلۂ مشرق و مغرب کے ہیں اور ان دونوں سمتوں کے درمیان چلنے والا جب بھی ایک سے قریب ہو گا تو دوسرے سے دور ہونا پڑے گا۔ پھر ان دونوں کا رشتہ ایسا ہی ہے جیسا دو سوتوں کا ہوتا ہے۔