نہج البلاغہ حکمت 104: نوف بکالی کا بیان
(۱٠٤) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۱۰۴)
وَ عَنْ نَّوْفٍ الْبِكَالِیِّ، قَالَ رَاَيْتُ اَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَيْهِالسَّلَامُ ذَاتَ لَيْلَةٍ، وَ قَدْ خَرَجَ مِنْ فِرَاشِهٖ، فَنَظَرَ فِی النُّجُوْمِ، فَقَالَ لِیْ:
نوف (ابن فضالہ) بکالی کہتے ہیں کہ: میں نے ایک شب امیر المومنین علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ فرش خواب سے اُٹھے ایک نظر ستاروں پر ڈالی اور پھر فرمایا:
يَا نَوْفُ! اَ رَاقِدٌ اَنْتَ اَمْ رَامِقٌ؟
اے نوف! سوتے ہو یا جاگ رہے ہو؟
فَقُلْتُ: بَلْ رَامِقٌ يَاۤ اَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ، قَالَ:
میں نے کہا کہ: یا امیر المومنینؑ! جاگ رہا ہوں۔ فرمایا:
يَا نَوْفُ! طُوْبٰى لِلزَّاهِدِیْنَ فِی الدُّنْیَا، الرَّاغِبـِیْنَ فِی الْاٰخِرَةِ، اُولٰٓئِكَ قَوْمٌ اتَّخَذُوا الْاَرْضَ بِسَاطًا، وَ تُرَابَهَا فِرَاشًا، وَ مَآءَهَا طِیْبًا، وَ الْقُرْاٰنَ شِعَارًا، وَ الدُّعَآءَ دِثَارًا، ثُمَّ قَرَضُوا الدُّنْیَا قَرْضًا عَلٰى مِنْهَاجِ الْمَسِیْحِ.
اے نوف! خوشا نصیب ان کے کہ جنہوں نے دنیا میں زہد اختیار کیا اور ہمہ تن آخرت کی طرف متوجہ رہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے زمین کو فرش، مٹی کو بستر اور پانی کو شربت ِخوشگوار قرار دیا، قرآن کو سینے سے لگایا اور دُعا کو سپر بنایا، پھر حضرت مسیح علیہ السلام کی طرح دامن جھاڑ کر دنیا سے الگ تھلگ ہو گئے۔
یَا نَوْفُ! اِنَّ دَاوٗدَ عَلَیْهِ السَّلَامُ قَامَ فِىْ مِثْلِ هٰذِهِ السَّاعَةِ مِنَ اللَّیْلِ فَقَالَ: اِنَّهَا سَاعَةٌ لَا یَدْعُوْ فِیْهَا عَبْدٌ اِلَّا اسْتُجِیْبَ لَهٗ، اِلَّاۤ اَنْ یَّكُوْنَ عَشَّارًا، اَوْ عَرِیْفًا، اَوْ شُرْطِیًّا، اَوْ صَاحِبَ عَرْطَبَةٍ (وَ هِیَ الطَّنْۢبُوْرُ)، اَوْ صَاحِبَ كُوْبَةٍ (وَ هِیَ الطَّبْلُ).
اے نوف! داؤد علیہ السلام رات کے ایسے ہی حصہ میں اٹھے اور فرمایا کہ: یہ وہ گھڑی ہے کہ جس میں بندہ جو بھی دُعا مانگے مستجاب ہو گی، سوا اس شخص کے جو سرکاری ٹیکس وصول کرنے والا، یا لوگوں کی برائیاں کرنے والا، یا (کسی ظالم حکومت کی) پولیس میں ہو، یا سارنگی یا ڈھول تاشہ بجانے والا ہو۔ (سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ: ’’عرطبہ‘‘ کے معنی سارنگی اور ’’کوبہ‘‘ کے معنی ڈھول کے ہیں)۔
وَ قَدْ قِیْلَ اَیْضًا: اِنَّ الْعَرْطَبَةَ: الطَّبْلُ، وَ الْكُوْبَةَ الطُّنْۢبُوْرُ.
اور ایک قول یہ ہے کہ ’’عرطبہ‘‘ کے معنی ڈھول اور ’’کوبہ‘‘ کے معنی طنبور کے ہیں۔