نہج البلاغہ حکمت 108: دل کی حالت
(۱٠٨) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۱۰۸)
لَقَدْ عُلِّقَ بِنِیَاطِ هٰذَا الْاِنْسَانِ بَضْعَةٌ هِیَ اَعْجَبُ مَا فِیْهِ وَ ذٰلِكَ الْقَلْبُ، وَ لَهٗ مَوَادُّ مِنَ الْحِكْمَةِ وَ اَضْدَادٌ مِّنْ خِلَافِهَا، فَاِنْ سَنَحَ لَهُ الرَّجَآءُ اَذَلَّهُ الطَّمَعُ، وَ اِنْ هَاجَ بِهِ الطَّمَعُ اَهْلَكَهُ الْحِرْصُ، وَ اِنْ مَّلَكَهُ الْیَاْسُ قَتَلَهُ الْاَسَفُ، وَ اِنْ عَرَضَ لَهُ الْغَضَبُ اشْتَدَّ بِهِ الْغَیْظُ، وَ اِنْ اَسْعَدَهُ الرِّضٰى نَسِیَ التَّحَفُّظَ، وَ اِنْ غَالَهُ الْخَوْفُ شَغَلَهُ الْحَذَرُ، وَ اِنِ اتَّسَعَ لَهُ الْاَمْنُ اسْتَلَبَتْهُ الْغِرَّةُ، وَ اِنْ اَفَادَ مَالًا اَطْغَاهُ الْغِنٰى، وَ اِنْ اَصَابَتْهُ مُصِیْبَةٌ فَضَحَهُ الْجَزَعُ، وَ اِنْ عَضَّتْهُ الْفَاقَةُ شَغَلَهُ الْبَلَآءُ، وَ اِنْ جَهَدَهُ الْجُوْعُ قَعَدَ بِهِ الضَّعْفُ، وَ اِنْ اَفْرَطَ بِهِ الشِّبَعُ كَظَّتْهُ الْبِطْنَةُ،
اس انسان سے بھی زیادہ عجیب وہ گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جو اس کی ایک رگ کے ساتھ آویزاں کر دیا گیا ہے اور وہ دل ہے جس میں حکمت و دانائی کے ذخیرے ہیں اور اس کے برخلاف بھی صفتیں پائی جاتی ہیں۔ اگر اسے امید کی جھلک نظر آتی ہے تو طمع اسے ذلت میں مبتلا کرتی ہے، اور اگر طمع ابھرتی ہے تو اسے حرص تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ اگر ناامیدی اس پر چھا جاتی ہے تو حسرت و اندوہ اس کیلئے جان لیوا بن جاتے ہیں، اور اگر غضب اس پر طاری ہوتا ہے تو غم و غصہ شدت اختیار کر لیتا ہے، اور اگر خوش و خوشنود ہوتا ہے تو حفظ ما تقدم کو بھول جاتاہے، اور اگر اچانک اس پر خوف طاری ہوتا ہے تو فکر و اندیشہ دوسری قسم کے تصورات سے اسے روک دیتا ہے۔ اگر امن و امان کا دور دورہ ہوتا ہے تو غفلت اس پر قبضہ کر لیتی ہے، اور اگر مال و دولت حاصل کر لیتا ہے تو دولتمندی اسے سرکش بنا دیتی ہے، اور اگر اس پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو بے تابی و بے قراری اسے رسوا کر دیتی ہے، اور اگر فقر و فاقہ کی تکلیف میں مبتلا ہو تو مصیبت و ابتلا اسے جکڑ لیتی ہے، اور اگر بھوک اس پر غلبہ کرتی ہے تو ناتوانی اسے اٹھنے نہیں دیتی، اور اگر شکم پُری بڑھ جاتی ہے تو یہ شکم پُری اس کیلئے کرب و اذیت کا باعث ہوتی ہے۔
فَكُلُّ تَقْصِیْرٍۭ بِهٖ مُضِرٌّ، وَ كُلُّ اِفْرَاطٍ لَّهٗ مُفْسِدٌ.
ہر کوتاہی اس کیلئے نقصان رساں اور حد سے زیادتی اس کیلئے تباہ کن ہوتی ہے۔