نہج البلاغہ حکمت 131: دنیا کی ستائش
(۱٣۱) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۱۳۱)
وَ قَدْ سَمِعَ رَجُلًا یَّذُمُّ الدُّنْیَا:
ایک شخص کو دنیا کی برائی کرتے ہوئے سنا تو فرمایا:
اَیُّهَا الذَّامُّ لِلدُّنْیَا، الْمُغْتَرُّ بِغُرُرِهَا، الْـمَخْدُوْعُ بِاَبَاطِیْلِهَا! اَتَغْتَرُّ بِالدُّنْیَا ثُمَّ تَذُمُّهَا. اَنْتَ الْمُتَجَرِّمُ عَلَیْهَا، اَمْ هِیَ الْمُتَجَرِّمَةُ عَلَیْكَ؟ مَتَى اسْتَهْوَتْكَ؟ اَمْ مَتٰى غَرَّتْكَ؟ اَ بِمَصَارِعِ اٰبَآئِكَ مِنَ الْبِلٰى؟ اَمْ بِمَضَاجِعِ اُمَّهَاتِكَ تَحْتَ الثَّرٰى؟ كَمْ عَلَّلْتَ بِكَفَّیْكَ؟ وَ كَمْ مَرَّضْتَ بِیَدَیْكَ؟ تَبْغِیْ لَهُمُ الشِّفَآءَ، وَ تَسْتَوْصِفُ لَهُمُ الْاَطِبَّآءَ، غَدَاةَ لَا يُغْنِیْ عَنْهُمْ دَوَآؤُكَ، وَ لَا يُجْدِیْ عَلَيْهِمْ بُكَـآؤُكَ، لَمْ یَنْفَعْ اَحَدَهُمْ اِشْفَاقُكَ، وَ لَمْ تُسْعَفْ بِطِلْبَتِكَ، وَ لَمْ تَدْفَعْ عَنْهُ بِقُوَّتِكَ!، وَ قَدْ مَثَّلَتْ لَكَ بِهِ الدُّنْیَا نَفْسَكَ، وَ بِمَصْرَعِهٖ مَصْرَعَكَ.
اے دنیا کی برائی کرنے والے! اس کے فریب میں مبتلا ہونے والے! اور اس کی غلط سلط باتوں کے دھوکے میں آنے والے! تم اس پر گرویدہ بھی ہوتے ہو اور پھر اس کی مذمت بھی کرتے ہو۔ کیا تم دنیا کو مجرم ٹھہرانے کا حق رکھتے ہو؟یا وہ تمہیں مجرم ٹھہرائے تو حق بجانب ہے؟دنیا نے کب تمہارے ہوش و حواس سلب کئے اور کس بات سے فریب دیا؟ کیا ہلاکت و کہنگی سے تمہارے باپ دادا کے بے جان ہو کر گرنے سے یا مٹی کے نیچے تمہاری ماؤں کی خوابگاہوں سے؟ کتنی تم نے بیماروں کی دیکھ بھال کی اور کتنی دفعہ خود تیمار داری کی، تم ان کیلئے شفا کے خواہشمند تھے اور طبیبوں سے دوا دارو پوچھتے پھرتے تھے۔ اس صبح کو کہ جب نہ دوا کارگر ہوتی نظر آتی تھی اور نہ تمہارا رونا دھونا ان کیلئے کچھ مفید تھا۔ ان میں سے کسی ایک کیلئے بھی تمہارا اندیشہ فائدہ مند ثابت نہ ہو سکا اور تمہارا مقصد حاصل نہ ہوا اور اپنی چارہ سازی سے تم موت کو اس بیمار سے ہٹا نہ سکے، تو دنیا نے تو اس کے پردہ میں خود تمہارا انجام اور اس کے ہلاک ہونے سے خود تمہاری ہلاکت کا نقشہ تمہیں دکھا دیا۔
اِنَّ الدُّنْیَا دَارُ صِدْقٍ لِّمَنْ صَدَقَهَا، وَ دَارُ عَافِیَةٍ لِّمَنْ فَهِمَ عَنْهَا، وَ دَارُ غِنًى لِّمَنْ تَزَوَّدَ مِنْهَا، وَ دَارُ مَوْعِظَةٍ لِّمَنِ اتَّعَظَ بِهَا، مَسْجِدُ اَحِبَّآءِ اللهِ، وَ مُصَلّٰى مَلٰٓئِكَةِ اللهِ، وَ مَهْبِطُ وَحْیِ اللهِ، وَ مَتْجَرُ اَوْلِیَآءِ اللهِ، اكْتَسَبُوْا فِیْهَا الرَّحْمَةَ، وَ رَبِحُوْا فِیْهَا الْجَنَّةَ.
بلاشبہ دنیا اس شخص کیلئے جو باور کرے سچائی کا گھر ہے، اور جو اس کی ان باتوں کو سمجھے اس کیلئے امن و عافیت کی منزل ہے، اور جو اس سے زادِ راہ حاصل کر لے اس کیلئے دولتمندی کی منزل ہے، اور جو اس سے نصیحت حاصل کرے اس کیلئے وعظ و نصیحت کا محل ہے۔ وہ دوستانِ خدا کیلئے عبادت کی جگہ، اللہ کے فرشتوں کیلئے نماز پڑھنے کا مقام، وحی الٰہی کی منزل اور اولیاء اللہ کی تجارت گاہ ہے۔ انہوں نے اس میں فضل و رحمت کا سودا کیا اور اس میں رہتے ہوئے جنت کو فائدہ میں حاصل کیا۔
فَمَنْ ذَا یَذُمُّهَا وَ قَدْ اٰذَنَتْ بِبَیْنِهَا، وَ نَادَتْ بِفِراقِهَا، وَ نَعَتْ نَفْسَهَا وَ اَهْلَهَا، فَمَثَّلَتْ لَهُمْ بِبَلَآئِهَا الْبَلَآءَ، وَ شَوَّقَتْهُمْ بِسُرُوْرِهَا اِلَى السُّرُوْرِ؟! رَاحَتْ بِعَافِیَةٍ، وَ ابْتَكَرَتْ بِفَجِیْعَةٍ، تَرْغِیْبًا وَّ تَرْهِیْبًا، وَ تَخْوِیْفًا وَّ تَحْذِیْرًا، فَذَمَّهَا رِجَالٌ غَدَاةَ النَّدَامَةِ، وَ حَمِدَهَا اٰخَرُوْنَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ، ذَكَّرَتْهُمُ الدُّنْیَا فَتَذَكَّرُوْا، وَ حَدَّثَتْهُمْ فَصَدَّقُوْا، وَ وَعَظَتْهُمْ فَاتَّعَظُوْا.
تو اب کون ہے جو دنیا کی برائی کرے، جبکہ اس نے اپنے جدا ہونے کی اطلاع دے دی ہے، اور اپنی علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے، اور اپنے بسنے والوں کی موت کی خبر دے دی ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی ابتلا سے ابتلا کا پتہ دیا ہے، اور اپنی مسرتوں سے آخرت کی مسرتوں کا شوق دلایا ہے۔ وہ رغبت دلانے اور ڈرانے، خوفزدہ کرنے اور متنبہ کرنے کیلئے شام کو امن و عافیت کا اور صبح کو درد و اندوہ کا پیغام لے کر آتی ہے۔ تو جن لوگوں نے شرمسار ہو کر صبح کی وہ اس کی برائی کرنے لگے اور دوسرے لوگ قیامت کے دن اس کی تعریف کریں گے کہ دنیا نے ان کو آخرت کی یاد دلائی تو انہوں نے یاد رکھا اور اس نے انہیں خبر دی تو انہوں نے تصدیق کی اور اس نے انہیں پند و نصیحت کی تو انہوں نے نصیحت حاصل کی۔
ہر متکلم و خطیب کی زبان منجے ہوئے موضوع ہی پر زور بیان دکھایا کرتی ہے اور اگر اسے موضوع سخن بدلنا پڑے تو نہ ذہن کام کرے گا اور نہ زبان کی گویائی ساتھ دے گی۔ مگر جس کے ذہن میں صلاحیت تصرف اور دماغ میں قوتِ فکر ہو، وہ جس طرح چاہے کلام کو گردش دے سکتا ہے اور جس موضوع پر چاہے ’’قادر الکلامی‘‘ کے جو ہر دکھا سکتا ہے۔ چنانچہ وہ زبان جو ہمیشہ دنیا کی مذمت اور اس کی فریب کاریوں کو بے نقاب کرنے میں کھلتی تھی جب اس کی مدح میں کھلتی ہے تو وہی قدرت کلام و قوت استدلال نظر آتی ہے جو اس زبان کا طرۂ امتیاز ہے اور پھر الفاظ کو توصیفی سانچہ میں ڈھالنے سے نظریہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی اور راہوں کے الگ الگ ہونے کے باوجود منزلگہِ مقصود ایک ہی رہتی ہے۔