نہج البلاغہ حکمت 147: فضیلتِ علم
(۱٤٧) وَ مِنْ کَلَامٍ لَّہٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۱۴۷)
لِكُمَیْلِ بْنِ زِیَادٍ النَّخَعِیِّ، قَالَ كُمَیْلُ بْنُ زِیَادٍ: اَخَذَ بِیَدِیْ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍؑ، فَاَخْرَجَنِیْۤ اِلَى الْجَبَّانِ، فَلَمَّاۤ اَصْحَرَ تَنَفَّسَ الصُّعَدَآءُ ثُمَّ قَالَ:
کمیل ابن زیاد نخعی کہتے ہیں کہ: امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے میرا ہاتھ پکڑا اور قبرستان کی طرف لے چلے۔ جب آبادی سے باہر نکلے تو ایک لمبی آہ کی۔ پھر فرمایا:
یَا كُمَیْلَ بْنَ زِیَادٍ! اِنَّ هٰذِهِ الْقُلُوْبَ اَوْعِیَةٌ، فَخَیْرُهَا اَوْعَاهَا، فَاحْفَظْ عَنِّیْ مَاۤ اَقُوْلُ لَكَ:
اے کمیل! یہ دل اسرار و حکم کے ظروف ہیں۔ ان میں سب سے بہتر وہ ہے جو زیادہ نگہداشت کرنے والا ہو۔ لہٰذا تو جو میں تمہیں بتاؤں اسے یاد رکھنا:
اَلنَّاسُ ثَلَاثَةٌ: فَعَالِمٌ رَّبَّانِیٌّ، وَ مُتَعَلِّمٌ عَلٰى سَبِیْلِ نَجَاةٍ، وَ هَمَجٌ رَّعَاعٌ، اَتْبَاعُ كُلِّ نَاعِقٍ، یَمِیْلُوْنَ مَعَ كُلِّ رِیْحٍ، لَمْ یَسْتَضِیْٓئُوْا بِنُوْرِ الْعِلْمِ، وَ لَمْ یَلْجَؤُوْا اِلٰى رُكْنٍ وَّثِیْقٍ.
دیکھو! تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں: ایک عالم ربانی، دوسرا متعلم کہ جو نجات کی راہ پر برقرار رہے اور تیسرا عوام الناس کا وہ پست گروہ ہے کہ جو ہر پکارنے والے کے پیچھے ہو لیتا ہے اور ہر ہوا کے رخ پر مڑ جاتا ہے، نہ انہوں نے نور علم سے کسب ضیاء کیا، نہ کسی مضبوط سہارے کی پناہ لی۔
یَا كُمَیْلُ! الْعِلْمُ خَیْرٌ مِّنَ الْمَالِ: الْعِلْمُ یَحْرُسُكَ وَ اَنْتَ تَحْرُسُ الْمَالَ، وَ الْمَالُ تَنْقُصُهُ النَّفَقَةُ، وَ الْعِلْمُ یَزْكُوْ عَلَى الْاِنْفَاقِ، وَ صَنِیْعُ الْمَالِ یَزُوْلُ بِزَوَالِهٖ.
اے کمیل! یاد رکھو کہ علم مال سے بہتر ہے، (کیونکہ)علم تمہاری نگہداشت کرتا ہے اور مال کی تمہیں حفاظت کرنا پڑتی ہے، اور مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے لیکن علم صرف کرنے سے بڑھتا ہے، اور مال و دولت کے نتائج و اثرات مال کے فنا ہونے سے فنا ہو جاتے ہیں۔
یَا كُمَیْلَ بْنَ زِیَادٍ! مَعْرِفَةُ الْعِلْمِ دِیْنٌ یُّدَانُ بِهٖ، بِهٖ یَكْسِبُ الْاِنْسَانُ الطَّاعَةَ فِیْ حَیَاتِهٖ، وَ جَمِیْلَ الْاُحْدُوْثَةِ بَعْدَ وَفَاتِهٖ، وَ الْعِلْمُ حَاكِمٌ، وَ الْمَالُ مَحْكُوْمٌ عَلَیْهِ.
اے کمیل! علم کی شناسائی ایک دین ہے کہ جس کی اقتدا کی جاتی ہے۔ اسی سے انسان اپنی زندگی میں دوسروں سے اپنی اطاعت منواتا ہے اور مرنے کے بعد نیک نامی حاصل کرتا ہے۔ یاد رکھو کہ علم حاکم ہوتا ہے اور مال محکوم۔
یَا كُمَیْلُ! هَلَكَ خُزَّانُ الْاَمْوَالِ وَ هُمْ اَحْیَآءٌ، وَ الْعُلَمَآءُ بَاقُوْنَ مَا بَقِیَ الدَّهْرُ: اَعْیَانُهُمْ مَفْقُوْدَةٌ، وَ اَمْثَالُهُمْ فِی الْقُلُوْبِ مَوْجُوْدَةٌ.
اے کمیل! مال اکٹھا کرنے والے زندہ ہونے کے باوجود مردہ ہوتے ہیں اور علم حاصل کرنے والے رہتی دنیا تک باقی رہتے ہیں۔ بے شک ان کے اجسام نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں مگر ان کی صورتیں دلوں میں موجود رہتی ہیں۔
هَا! اِنَّ هٰهُنَا لَعِلْمًا جَمًّا (وَ اَشَارَ اِلٰى صَدْرِهٖ:) لَوْ اَصَبْتُ لَهٗ حَمَلَةً!
(اس کے بعد حضرتؑ نے اپنے سینہ اقدس کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا:) دیکھو! یہاں علم کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے، کاش! اس کے اٹھانے والے مجھے مل جاتے۔
بَلٰۤى اَصَبْتُ لَقِنًا غَیْرَ مَاْمُوْنٍ عَلَیْهِ، مُسْتَعْمِلًا اٰلَةَ الدِّیْنِ لِلدُّنْیَا، وَ مُسْتَظْهِرًۢا بِنِعَمِ اللهِ عَلٰى عِبَادِهٖ، وَ بِحُجَجِهٖ عَلٰۤى اَوْلِیَآئِهٖ، اَوْ مُنْقَادًا لِّحَمَلَةِ الْحَقِّ، لَا بَصِیْرَةَ لَهٗ فِیْۤ اَحْنَآئِهٖ، یَنْقَدِحُ الشَّكُّ فِیْ قَلْبِهٖ لاَِوَّلِ عَارِضٍ مِّنْ شُبْهَةٍ.
ہاں ملا کوئی تو یا ایسا جو ذہین تو ہے مگر ناقابل اطمینان ہے اور جو دنیا کیلئے دین کو آلۂ کار بنا نے والا ہے اور اللہ کی ان نعمتوں کی وجہ سے اس کے بندوں پر اور اس کی حجتوں کی وجہ سے اس کے دوستوں پر تفوق و برتری جتلانے والا ہے۔ یا جو اربابِ حق و دانش کا مطیع تو ہے مگر اس کے دل کے گوشوں میں بصیرت کی روشنی نہیں ہے، بس ادھر ذرا سا شبہ عارض ہوا کہ اس کے دل میں شکوک و شبہات کی چنگاریاں بھڑکنے لگیں۔
اَلَا لَا ذَا وَ لَا ذَاكَ!
تو معلوم ہونا چاہیے کہ نہ یہ اس قابل ہے اور نہ وہ اس قابل ہے۔
اَوْ مَنْهُوْمًۢا بِاللَّذَّةِ، سَلِسَ الْقِیَادِ لِلشَّهْوَةِ، اَوْ مُغْرَمًۢا بِالْجَمْعِ وَ الْاِدِّخَارِ،
یا ایسا شخص ملتا ہے کہ جو لذتوں پر مٹا ہوا ہے اور بآسانی خواہش نفسانی کی راہ پر کھنچ جانے والا ہے۔ یا ایسا شخص جو جمع آوری و ذخیرہ اندوزی پر جان دیئے ہوئے ہے۔
لَیْسَا مِنْ رُّعَاةِ الدِّیْنِ فِیْ شَیْءٍ، اَقْرَبُ شَیْءٍ شَبَهًۢا بِهِمَا الْاَنَعَامُ السَّآئِمَةُ! كَذٰلِكَ یَمُوْتُ الْعِلْمُ بِمَوْتِ حَامِلِیْهِ.
یہ دونوں بھی دین کے کسی امر کی رعایت و پاسداری کرنے والے نہیں ہیں۔ ان دونوں سے انتہائی قریبی شباہت چرنے والے چوپائے رکھتے ہیں۔ اسی طرح تو علم کے خزینہ داروں کے مرنے سے علم ختم ہو جاتا ہے۔
اَللّٰهُمَّ بَلٰى! لَا تَخْلُو الْاَرْضُ مِنْ قَآئِمٍ لِلّٰهِ بِحُجَّةٍ، اِمَّا ظَاهِرًا مَّشْهُوْرًا، اَوْ خَآئِفًا مَّغْمُوْرًا، لِئَلَّا تَبْطُلَ حُجَجُ اللهِ وَ بَیِّنَاتُهٗ.
ہاں! مگر زمین ایسے فرد سے خالی نہیں رہتی کہ جو خدا کی حجت کو برقرار رکھتا ہے۔ چاہے وہ ظاہر و مشہور ہو، یا خائف و پنہاں، تاکہ اللہ کی دلیلیں اور نشان مٹنے نہ پائیں۔
وَ كَمْ ذَا وَ اَیْنَ اُولٰٓئِكَ؟ اُولٰٓئِكَ ـ وَاللّٰهِ ـ الْاَقَلُّوْنَ عَدَدًا، وَ الْاَعْظَمُوْنَ عِنْدَ اللّٰہِ قَدْرًا، یَحْفَظُ اللهُ بِهِمْ حُجَجَهٗ وَ بَیِّنَاتِهٖ، حَتّٰى یُوْدِعُوْهَا نُظَرَآءَهُمْ، وَ یَزْرَعُوْهَا فِیْ قُلُوْبِ اَشْبَاهِهِمْ، هَجَمَ بِهِمُ الْعِلْمُ عَلٰى حَقِیْقَةِ الْبَصِیْرَةِ، وَ بَاشَرُوْا رُوْحَ الْیَقِیْنِ، وَ اسْتَلَانُوْا مَا اسْتَوْعَرَهُ الْمُتْرَفُوْنَ، وَ اَنِسُوْا بِمَا اسْتَوْحَشَ مِنْهُ الْجَاهِلُوْنَ، وَ صَحِبُوا الدُّنْیَا بِاَبْدَانٍ اَرْوَاحُهَا مُعَلَّقَةٌۢ بِالْـمَحَلِّ الْاَعْلٰى، اُولٰٓئِكَ خُلَفَآءُ اللهِ فِیْۤ اَرْضِهٖ، وَ الدُّعَاةُ اِلٰى دِیْنِهٖ، اٰهِ اٰهِ شَوْقًا اِلٰى رُؤْیَتِهِمْ!.
اور وہ ہیں ہی کتنے اور کہاں پر ہیں؟ خدا کی قسم! وہ تو گنتی میں بہت تھوڑے ہوتے ہیں اور اللہ کے نزدیک قدر و منزلت کے لحاظ سے بہت بلند۔ خداوند عالم ان کے ذریعہ سے اپنی حجتوں اور نشانیوں کی حفاظت کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ان کو اپنے ایسوں کے سپرد کر دیں اور اپنے ایسوں کے دلوں میں انہیں بو دیں۔ علم نے انہیں ایک دم حقیقت و بصیرت کے انکشافات تک پہنچا دیا ہے۔ وہ یقین و اعتماد کی روح سے گھل مل گئے ہیں اور ان چیزوں کو جنہیں آرام پسند لوگوں نے دشوار قرار دے رکھا تھا اپنے لئے سہل و آسان سمجھ لیا ہے، اور جن چیزوں سے جاہل بھڑک اٹھتے ہیں ان سے وہ جی لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ ایسے جسموں کے ساتھ دنیا میں رہتے سہتے ہیں کہ جن کی روحیں ملاء اعلیٰ سے وابستہ ہیں۔ یہی لوگ تو زمین میں اللہ کے نائب اور اس کے دین کی طرف دعوت دینے والے ہیں۔ ہائے ان کی دید کیلئے میرے شوق کی فراوانی!۔
اِنْصَرِفْ یَا کُمَیْلُ اِذَا شِئْتَ.
(پھر حضرتؑ نے کمیل سے فرمایا:) اے کمیل! (مجھے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکا)، اب جس وقت چاہو واپس جاؤ۔
کمیل ابن زیاد نخعی رحمہ اللہ اسرار امامت کے خزینہ دار اور امیر المومنین علیہ السلام کے خواص اصحاب میں سے تھے۔ علم و فضل میں بلند مرتبہ اور زُہد و ورع میں امتیاز خاص کے حامل تھے۔ حضرتؑ کی طرف سے کچھ عرصہ تک ہیت کے عامل رہے۔ ۸۳ ھجری میں ۹۰ برس کی عمر میں حجاج ابن یوسف ثقفی کے ہاتھ سے شہید ہوئے اور بیرون کوفہ دفن ہوئے۔