نہج البلاغہ حکمت 156: معرفتِ امام
(۱٥٦) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۱۵۶)
عَلَیْكُمْ بِطَاعَةِ مَنْ لَا تُعْذَرُوْنَ بِجَهَالَتِهٖ.
تم پر اطاعت بھی لازم ہے ان کی جن سے ناواقف رہنے کی بھی تمہیں معافی نہیں۔
خداوند عالم نے اپنے عدل و رحمت سے جس طرح دین کی طرف رہبری و رہنمائی کر نے کیلئے انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ جاری کیا اسی طرح سلسلۂ نبوت کے ختم ہونے کے بعد دین کو تبدیل و تحریف سے محفوظ رکھنے کیلئے امامت کا نفاذ کیا تاکہ ہر امام اپنے اپنے دور میں تعلیمات الٰہیہ کو خواہش پرستی کی زد سے بچا کر اسلام کے صحیح احکام کی رہنمائی کرتا رہے۔ اور جس طرح شریعت کے مبلغ کی معرفت واجب ہے اسی طرح شریعت کے محافظ کی بھی معرفت ضروری ہے اور جاہل کو اس میں معذور نہیں قرار دیا جا سکتا۔ کیونکہ منصب امامت پر صدہا ایسے دلائل و شواہد موجود ہیں جن سے کسی بابصیرت کیلئے گنجائش انکار نہیں ہو سکتی چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ:
مَنْ مَّاتَ وَ لَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہٖ مَاتَ مِیْتَةً جَاھِلِیَّةً.
جو شخص اپنے دور حیات کے امام کو نہ پہچانے اور دنیا سے اٹھ جائے، اس کی موت کفر و ضلالت کی موت ہے۔
ابن ابی الحدید نے بھی اس ذات سے کہ جس سے ناواقفیت و جہالت عذر مسموع نہیں بن سکتی حضرت کی ذات کو مراد لیا ہے اور ان کی اطاعت کا اعتراف اور منکر امامت کے غیر ناجی ہونے کا اقرار کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ:
مَنْ جَهِلَ اِمَامَةَ عَلِیٍّ ؑ، وَ اَنْكَرَ صِحَّتَهَا وَ لُزُوْمَهَا، فَهُوَ عِنْدَ اَصْحَابِنَا مُخَلَّدٌ فِی النَّارِ، لَا يَنْفَعُهٗ صَوْمٌ وَّ لَا صَلٰوةٌ، لِاَنَّ الْمَعْرِفَةَ بِذٰلِكَ مِنَ الْاُصُوْلِ الْكُلِيَّةِ الَّتِیْ هِیَ اَرْكَانُ الدِّيْنِ، وَ لٰكِنَّا لَا نُسَمِّيْ مُنْكِرَ اِمَامَتِهٖ كَافِرًا، بَلْ نُسَمِّيْهِ فَاسِقًا وَِّ خَارِجِيًّا وَّ مَارِقًا وَّ نَحْوَ ذٰلِكَ، وَ الشَّيْعَةُ تُسَمِّيْهِ كَافِرًا، فَهٰذَا هُوَ الْفَرْقُ بَيْنَـنَا وَ بَيْنَهُمْ، وَ هُوَ فِی اللَّفْظِ، لَا فِی الْمَعْنٰى.
جو شخص حضرت علی علیہ السلام کی امامت سے جاہل اور اس کی صحت و لزوم کا منکر ہو، وہ ہمارے اصحاب کے نزدیک ہمیشہ کیلئے جہنمی ہے۔ نہ اسے نماز فائدہ دے سکتی ہے، نہ روزہ۔ کیونکہ معرفت امامت ان بنیادی اصولوں میں شمار ہوتی ہے جو دین کے مسلمہ ارکان ہیں۔ البتہ ہم آپؑ کی امامت کے منکر کو کافر کے نام سے نہیں پکارتے، بلکہ اسے فاسق، خارجی اور بے دین وغیرہ کے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ اور شیعہ ایسے شخص کو کافر سے تعبیر کرتے ہیں اور یہی ہمارے اصحاب اور ان میں فرق ہے۔ مگر صرف لفظی فرق ہے، کوئی واقعی اور معنوی فرق نہیں ہے۔)شرح ابن ابی الحدید، ج۴، ص۱۳۱۹(