نہج البلاغہ حکمت 158: بُرائی کا بدلہ بھلائی
(۱٥٨) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۱۵۸)
عَاتِبْ اَخَاكَ بِالْاِحْسَانِ اِلَیْهِ، وَ ارْدُدْ شَرَّهٗ بِالْاِنْعَامِ عَلَیْهِ.
اپنے بھائی کو شرمندۂ احسان بنا کر سر زنش کرو اور لطف و کرم کے ذریعہ سے اس کے شر کو دور کرو۔
اگر برائی کا جواب برائی سے اور گالی کا جواب گالی سے دیا جائے تو اس سے دشمنی و نزاع کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اور اگر برائی سے پیش آنے والے کے ساتھ نرمی و ملائمت کا رویہ اختیار کیا جائے تو وہ بھی اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہو جائے گا۔ چنانچہ ایک دفعہ امام حسن علیہ السلام بازار مدینہ میں سے گزر رہے تھے کہ ایک شامی نے آپؑ کی جاذب نظر شخصیت سے متاثر ہو کر لوگوں سے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں؟ اسے بتایا گیا کہ یہ حسن ابن علی ؉ ہیں۔ یہ سن کر اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور آپؑ کے قریب آ کر انہیں برا بھلا کہنا شروع کیا۔ مگر آپؑ خاموشی سے سنتے رہے۔ جب وہ چپ ہوا تو آپؑ نے فرمایا کہ: معلوم ہوتا ہے کہ تم یہاں نووارد ہو؟ اس نے کہا کہ: ہاں ایسا ہی ہے۔ فرمایا کہ: پھر تم میرے ساتھ چلو، میرے گھر میں ٹھہرو، اگر تمہیں کوئی حاجت ہو گی تو میں اسے پورا کروں گا اور مالی امداد کی ضرورت ہوگی تو مالی امداد بھی دوں گا۔ جب اس نے اپنی سخت و درشت باتوں کے جواب میں یہ نرم روی و خوش اخلاقی دیکھی تو شرم سے پانی پانی ہو گیا اور اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے عفو کا طالب ہوا، اور جب آپؑ سے رخصت ہوا تو روئے زمین پر ان سے زیادہ کسی اور کی قدر و منزلت اس کی نگاہ میں نہ تھی۔
اگر مردی اَحْسِنْ اِلٰی مَنْ اَسَاۤءَ