کلمات قصار

نہج البلاغہ حکمت 174: نیت کا روزہ

(۱٧٤) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ

(۱۷۴)

مَن اَحَدَّ سِنَانَ الْغَضَبِ لِلّٰهِ قَوِیَ عَلٰى قَتْلِ اَشِدَّآءِ الْبَاطِلِ.

جو شخص اللہ کی خاطر سنانِ غضب تیز کرتا ہے وہ باطل کے سورماؤں کے قتل پر توانا ہو جاتا ہے۔

جو شخص محض اللہ کی خاطر باطل سے ٹکرانے کیلئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اسے خداوند عالم کی طرف سے تائید و نصرت حاصل ہوتی ہے اور کمزوری و بے سروسامانی کے باوجود باطل قوتیں اس کے عزم میں تزلزل اور ثبات قدم میں جنبش پیدا نہیں کر سکتیں اور اگر اس کے اقدام میں ذاتی غرض شریک ہو تو اسے بڑی آسانی سے اس کے ارادہ سے باز رکھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ سید نعمت جزائری علیہ الرحمہ نے ’’زہر الربیع‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ: ایک شخص نے کچھ لوگوں کو ایک درخت کی پرستش کرتے دیکھا تو اُس نے جذبۂ دینی سے متاثر ہو کر اس درخت کو کاٹنے کا ارادہ کیا۔ اور جب تیشہ لے کر آگے بڑھا تو شیطان نے اس کا راستہ روکا اور پوچھا کہ کیا ارادہ ہے؟ اس نے کہا کہ میں اس درخت کو کاٹنا چاہتا ہوں تاکہ لوگ اس مشرکانہ طریق عبادت سے باز رہیں۔ شیطان نے کہا کہ تمہیں اس سے کیا مطلب؟ وہ جانیں اور ان کا کام۔ مگر وہ اپنے ارادہ پر جما رہا۔ جب شیطان نے دیکھا کہ یہ ایسا کر ہی گزرے گا تو اس نے کہا کہ اگر تم واپس چلے جاؤ تو میں تمہیں چار درہم ہر روز دیا کروں گا جو تمہیں بستر کے نیچے سے مل جایا کریں گے۔ یہ سن کر اس کی نیت ڈانواں ڈول ہونے لگی اور کہا کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ اس نے کہا کہ تجربہ کرکے دیکھ لو، اگر ایسا نہ ہوا تو درخت کے کاٹنے کا موقع پھر بھی تمہیں مل سکتا ہے۔ چنانچہ وہ لالچ میں آکر پلٹ آیا اور دوسرے دن وہ درہم اسے بستر کے نیچے سے مل گئے، مگر دو چار روز کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ اب وہ پھر طیش میں آیا اور تیشہ لے کر درخت کی طرف بڑھا کہ شیطان نے آگے بڑھ کر کہا کہ اب تمہارے بس میں نہیں کہ تم اسے کاٹ سکو، کیونکہ پہلی دفعہ تم صرف اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کیلئے نکلے تھے اور اب چند پیسوں کی خاطر نکلے ہو۔ لہٰذا تم نے ہاتھ اٹھایا تو میں تمہاری گردن توڑ دوں گا۔ چنانچہ وہ بے نیل مرام پلٹ آیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button