نہج البلاغہ حکمت 191: دنیا کی حالت
(۱٩۱) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۱۹۱)
اِنَّمَا الْمَرْءُ فِی الدُّنْیَا غَرَضٌ تَنْتَضِلُ فِیْهِ الْمَنَایَا، وَ نَهْبٌ تُبَادِرُهُ الْمَصَآئِبُ، وَ مَعَ كُلِّ جُرْعَةٍ شَرَقٌ، وَ فِیْ كُلِّ اَكْلَةٍ غَصَصٌ، وَ لَا یَنَالُ الْعَبْدُ نِعْمَةً اِلَّا بِفِرَاقِ اُخْرٰى، وَ لَا یَسْتَقْبِلُ یَوْمًا مِّنْ عُمُرِهٖۤ اِلَّا بِفِرَاقِ اٰخَرَ مِنْ اَجَلِهٖ.
دنیا میں انسان موت کی تیر اندازی کا ہدف اور مصیبت و ابتلا کی غارت گری کی جولانگاہ ہے، جہاں ہر گھونٹ کے ساتھ اچھو اور ہر لقمہ میں گلو گیر پھندا ہے، اور جہاں بندہ ایک نعمت اس وقت تک نہیں پاتا جب تک دوسری نعمت جدا نہ ہو جائے، اور اس کی عمر کا ایک دن آتا نہیں جب تک کہ ایک دن اس کی عمر سے کم نہ ہو جائے۔
فَنَحْنُ اَعْوَانُ الْمَنُوْنِ، وَ اَنْفُسُنَا نَصْبُ الْحُتُوْفِ، فَمِنْ اَیْنَ نَرْجُوا الْبَقَآءَ، وَ هٰذَا اللَّیْلُ وَ النَّهَارُ لَمْ یَرْفَعَا مِنْ شَیْءٍ شَرَفًا، اِلَّاۤ اَسْرَعَا الْكَرَّةَ فِیْ هَدْمِ مَا بَنَیَا، وَ تَفْرِیْقِ مَا جَمَعَا؟!.
ہم موت کے مددگار ہیں اور ہماری جانیں ہلاکت کی زد پر ہیں۔ تو اس صورت میں ہم کہاں سے بقا کی امید کر سکتے ہیں؟ جبکہ شب و روز کسی عمارت کو بلند نہیں کرتے، مگر یہ کہ حملہ آور ہو کر جو بنایا ہے اسے گراتے اور جو یکجا کیا ہے اسے بکھیرتے ہوتے ہیں۔