نہج البلاغہ حکمت 225: یہ حاسد
(٢٢٥) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۲۲۵)
اَلْعَجَبُ لِغَفْلَةِ الْحُسَّادِ عَنْ سَلَامَةِ الْاَجْسَادِ.
تعجب ہے کہ حاسد جسمانی تندرستی پر حسد کرنے سے کیوں غافل ہو گئے۔
’’حاسد‘‘ دوسروں کے مال و جاہ پر تو حسد کرتا ہے، مگر ان کی صحت و توانائی پر حسد نہیں کرتا، حالانکہ یہ نعمت تمام نعمتوں سے زیادہ گرانقدر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ دولت و ثروت کے اثرات ظاہری طمطراق اور آرام و آسائش کے اسباب سے نگاہوں کے سامنے ہوتے ہیں اور صحت ایک عمومی چیز قرار پا کر ناقدری کا شکار ہو جاتی ہے اور اسے اتنا بے قدر سمجھا جاتا ہے کہ حاسد بھی اسے حسد کے قابل نہیں سمجھتے۔ چنانچہ ایک دولت مند کو دیکھتا ہے تو اس کے مال و دولت پر اسے حسد ہوتا ہے اور ایک مزدور کو دیکھتا ہے کہ جو سر پر بوجھ اٹھائے دن بھر چلتا پھرتا ہے تو وہ اس کی نظروں میں قابل حسد نہیں ہوتا۔ گویا صحت و توانائی اس کے نزدیک حسد کے لائق چیز نہیں ہے کہ اس پر حسد کرے۔ البتہ جب خود بیمار پڑتا ہے تو اسے صحت کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے اور اس موقع پر اسے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ قابل حسد یہی صحت تھی جو اَب تک اس کی نظروں میں کوئی اہمیت نہ رکھتی تھی۔
مقصد یہ ہے کہ صحت کو ایک گرانقدر نعمت سمجھنا چاہیے اور اس کی حفاظت و نگہداشت کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔