نہج البلاغہ حکمت 232: اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے
(٢٣٢) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۲۳۲)
مَنْ یُعْطِ بِالْیَدِ الْقَصِیْرَةِ یُعْطَ بِالْیَدِ الطَّوِیْلَةِ.
جو عاجز و قاصر ہاتھ سے دیتا ہے اسے با اقتدار ہاتھ سے ملتا ہے۔
قَالَ الرَّضِیُّ: وَ مَعْنٰى ذٰلِكَ: اَنَّ مَا يُنْفِقُهُ الْمَرْءُ مِنْ مَّالِهٖ فِیْ سَبِيْلِ الْخَيْرِ وَ الْبِرِّ وَ اِنْ كَانَ يَسِيْرًا، فَاِنَّ اللّٰهَ تَعَالٰى يَجْعَلُ الْجَزَآءَ عَلَيْهِ عَظِيْمًا كَثِيْرًا، وَ الْيَدَانِ هٰهُنَا عِبَارَتَانِ عَنْ النِّعْمَتَيْنِ، فَفَرَقَ عَلَيْهِالسَّلَامُ بَيْنَ نِعْمَةِ الْعَبْدِ وَ نِعْمَةِ الرَّبِّ، فَجَعَلَ تِلْكَ قَصِيْرَةً وَّ هٰذِهِ طَوِيْلَةً، لِاَنَّ نِعَمَ اللّٰهِ اَبَدًا تَضْعُفُ عَلٰى نِعَمَ الْمَخْلُوْقِ اَضْعَافًا كَثِيْرَةً، اِذْ كَانَتْ نِعَمُ اللّٰهِ اَصْلَ الِّنعَمْ كُلِّهَا، فَكُلُّ نِعْمَةٍ اِلَيْهَا تَرْجِعُ، وَ مِنْهَا تُنْزَعُ.
سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ: اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے مال میں سے جو کچھ خیر و نیکی کی راہ میں خرچ کرتا ہے اگرچہ وہ کم ہو، مگر خداوند عالم اس کا اجر بہت زیادہ قرار دیتا ہے۔ اور اس مقام پر دو ہاتھوں سے مراد دو نعمتیں ہیں ۔اور امیر المومنین علیہ السلام نے بندہ کی نعمت اور پروردگار کی نعمت میں فرق بتایا ہے کہ: وہ تو عجز و قصور کی حامل ہے اور وہ بااقتدار ہے، کیونکہ اللہ کی عطا کردہ نعمتیں مخلوق کی دی ہوئی نعمتوں سے ہمیشہ بدرجہا بڑھی چڑھی ہوتی ہیں۔ اس لئے کہ اللہ ہی کی نعمتیں تمام نعمتوں کا سر چشمہ ہیں۔ لہٰذا ہر نعمت انہی نعمتوں کی طرف پلٹتی ہے اور انہی سے وجود پاتی ہے۔