کلمات قصار

نہج البلاغہ حکمت 233: دعوت مقابلہ

(٢٣٣) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ

(۲۳۳)

لِابْنِہٖ الْحَسَنِ عَلَیْهِ السَّلَامُ:

اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام سے فرمایا:

لَا تَدْعُوَنَّ اِلٰى مُبَارَزَةٍ، وَ اِنْ دُعِیْتَ اِلَیْهَا فَاَجِبْ، فَاِنَّ الدَّاعِیَ بَاغٍ، وَ الْبَاغِیَ مَصْرُوْعٌ.

کسی کو مقابلہ کیلئے خود نہ للکارو۔ ہاں اگر دوسرا للکارے تو فوراً جواب دو۔ اس لئے کہ جنگ کی خود سے دعوت دینے والا زیادتی کرنے والا ہے اور زیادتی کرنے والا تباہ ہوتا ہے۔

مقصد یہ ہے کہ اگر دشمن آمادۂ پیکار ہو اور جنگ میں پہل کرے تو اس موقع پر اس کی روک تھام کیلئے قدم اٹھانا چاہیے اور از خود حملہ نہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ سرا سر ظلم و تعدی ہے اور جو ظلم وتعدی کا مرتکب ہوگا، وہ اس کی پاداش میں خاک مذلت پر پچھاڑ دیا جائے گا۔ چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام ہمیشہ دشمن کے للکارنے پر میدان میں آتے اور خود سے دعوت مقابلہ نہ دیتے تھے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید تحریر کرتے ہیں کہ:

مَا سَمِعْنَا اَنَّهٗ ؑ دَعَا اِلٰى مُبَارَزَةٍ قَطُّ، وَ اِنَّمَا كَانَ يُدْعٰی هُوَ بِعَيْنِهٖ، اَوْ يَدْعُوْ مَنْ يُّبَارِزُ فَيَخْرُجُ اِلَيْهِ، فَيَقْتُلُهٗ‏.

ہمارے سننے میں نہیں آیا کہ حضرتؑ نے کبھی کسی کو مقابلہ کیلئے للکارا ہو بلکہ جب مخصوص طور پر آپؑ کو دعوت مقابلہ دی جاتی تھی یا عمومی طور پر دشمن للکارتا تھا، تو اس کے مقابلہ میں نکلتے تھے اور اسے قتل کر دیتے تھے۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۴، ص۳۴۴)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button