نہج البلاغہ حکمت 250: خداشناسی
(٢٥٠) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۲۵۰)
عَرَفْتُ اللهَ سُبْحَانَهٗ بِفَسْخِ الْعَزَآئِمِ، وَ حَلِّ الْعُقُوْدِ، وَ نَقْضِ الْھِمَمِ.
میں نے اللہ سبحانہ کو پہچانا ارادوں کے ٹوٹ جانے، نیتوں کے بدل جانے اور ہمتوں کے پست ہو جانے سے۔
ارادوں کے ٹوٹنے اور ہمتوں کے پست ہونے سے خداوند عالم کی ہستی پر اس طرح استدلال کیا جا سکتا ہے کہ مثلاً ایک کام کے کرنے کا ارادہ ہوتا ہے، مگر وہ ارادہ فعل سے ہمکنار ہونے سے پہلے ہی بدل جاتا ہے اور اس کی جگہ کوئی اور ارادہ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ ارادوں کا اَدلنا بدلنا اور ان میں تغیر و انقلاب کا رونما ہونا اس کی دلیل ہے کہ ہمارے ارادوں پر ایک بالا دست قوت کار فرما ہے جو انہیں عدم سے وجود اور وجود سے عدم میں لانے کی قوت و طاقت رکھتی ہے، اور یہ امر انسان کے احاطۂ اختیار سے باہر ہے۔ لہٰذا اسے اپنے سے مافوق ایک طاقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ جو ارادوں میں ردّ و بدل کرتی رہتی ہے۔