نہج البلاغہ حکمت 261: بے وفا ساتھی
(٢٦۱) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۲۶۱)
لَمَّا بَلَغَهٗۤ اِغَارَةُ اَصْحَابِ مُعَاوِيَةَ عَلَى الْاَنْۢبَارِ، فَخَرَجَ بِنَفْسِهٖ مَاشِيًا، حَتّٰۤى اَتَی النُّخَيْلَةَ، فَاَدْرَكَهُ النَّاسُ، وَ قَالُوْا: يَاۤ اَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ! نَحْنُ نَكْفِيْكَهُمْ، فَقَالَ ؑ:
جب امیر المومنین علیہ السلام کو یہ اطلاع ملی کہ معاویہ کے ساتھیوں نے (شہر) انبار پر دھاوا کیا ہے تو آپؑ بنفس نفیس پیادہ پا چل کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ نخیلہ تک پہنچ گئے۔ اتنے میں لوگ بھی آپؑ کے پاس پہنچ گئے اور کہنے لگے: یا امیر المومنینؑ! ہم دشمن سے نپٹ لیں گے، آپؑ کے تشریف لے جانے کی ضرورت نہیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ:
مَا تَكْفُوْنَنِیْۤ اَنْفُسَكُمْ، فَكَیْفَ تَكْفُوْنَنِیْ غَیْرَكُمْ؟ اِنْ كَانَتِ الرَّعَایَا قَبْلِیْ لَتَشْكُوْا حَیْفَ رُعَاتِهَا، وَ اِنَّنِی الْیَوْمَ لَاَشْكُوْ حَیْفَ رَعِیَّتِیْ، كَاَنَّنِیَ الْمَقُوْدُ وَ هُمُ الْقَادَةُ، اَوِ الْمَوْزُوْعُ وَ هُمُ الْوَزَعَةُ.
تم اپنے سے تو میرا بچاؤ کر نہیں سکتے، دوسروں سے کیا بچاؤ کرو گے۔ مجھ سے پہلے رعایا اپنے حاکموں کے ظلم و جور کی شکایت کیا کرتی تھی مگر میں آج اپنی رعیت کی زیادتیوں کا گلہ کرتا ہوں۔ گویا کہ میں رعیت ہوں اور وہ حاکم اور میں حلقہ بگوش ہوں اور وہ فرمانروا۔
فَلَمَّا قَالَ عَلَيْهِالسَّلَامُ هٰذَا الْقَوْلَ، فِیْ كَلَامٍ طَوِيْلٍ، قَدْ ذَكَرْنَا مُخْتارَهُ فِیْ جُمْلَةِ الْخُطَبِ، تَقَدَّمَ اِلَيْهِ رَجُلَانِ مِنْ اَصْحَابِهٖ، فَقَالَ اَحَدُهُمَا: اِنِّیْ لَاۤ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِیْ وَ اَخِیْ، فَمُرْنَا بِاَمْرِكَ يَاۤ اَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ! نَنْفُذُ لَهٗ، فَقَالَ عَلَيْهِالسَّلَامُ:
(سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ:) جب امیر المومنین علیہ السلام نے ایک طویل کلام کے ذیل میں کہ جس کا منتخب حصہ ہم خطبات میں درج کر چکے ہیں، یہ کلمات ارشاد فرمائے تو آپؑ کے اصحاب میں سے دو شخص اٹھ کھڑے ہوئے اور ان میں سے ایک نے کہا کہ: یا امیر المومنینؑ! مجھے اپنی ذات اور اپنے بھائی کے علاوہ کسی پر اختیار نہیں تو آپؑ ہمیں حکم دیں ہم اسے بجا لائیں گے، جس پر حضرتؑ نے فرمایا کہ:
وَ اَيْنَ تَقَعَانِ مِمَّاۤ اُرِيْدُ؟.
میں جو چاہتا ہوں وہ تم دو آدمیوں سے کہاں سر انجام پا سکتا ہے؟۔