نہج البلاغہ حکمت 265: کلام حکماء
(٢٦٥) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۲۶۵)
اِنَّ كَلَامَ الْحُكَمَآءِ اِنْ كَانَ صَوَابًا كَانَ دَوَآءً، وَ اِذَا كَانَ خَطَاً كَانَ دَآءً.
جب حکماء کا کلام صحیح ہو تو وہ دوا ہے اور غلط ہو تو سراسر مرض ہے۔
علمائے مصلحین کا طبقہ اصلاح کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے اور فساد کا بھی، کیونکہ عوام ان کے زیر اثر ہوتے ہیں اور ان کے قول و عمل کو صحیح و معیاری سمجھتے ہوئے اس سے استناد کرتے اور اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اس صورت میں اگر ان کی تعلیم اصلاح کی حامل ہو گی تو اس کے نتیجہ میں ہزاروں افراد صلاح و رشد سے آراستہ ہو جائیں گے اور اگر اس میں خرابی ہو گی تو اس کے نتیجہ میں ہزاروں افراد گمراہی و بے راہروی میں مبتلا ہو جائیں گے۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ: «اِذَا فَسَدَ الْعَالِمُ فَسَدَ الْعَالَمُ» : ’’جب عالم میں فساد رونما ہوتا ہے تو اس فساد کا اثر ایک دنیا پر پڑتا ہے‘‘۔