کلمات قصار
نہج البلاغہ حکمت 275: طمع و حرص
(٢٧٥) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۲۷۵)
اِنَّ الطَّمَعَ مُوْرِدٌ غَیْرُ مُصْدِرٍ، وَ ضَامِنٌ غَیْرُ وَفِیٍّ. وَ رُبَّمَا شَرِقَ شَارِبُ الْمَآءِ قَبْلَ رِیِّهٖ، وَ كُلَّمَا عَظُمَ قَدْرُ الشَّیْءِ الْمُتَنَافَسِ فِیْهِ عَظُمَتِ الرَّزِیَّةُ لِفَقْدِهٖ، وَ الْاَمَانِیُّ تُعْمِیْۤ اَعْیُنَ الْبَصَآئِرِ، وَ الْحَظُّ یَاْتِیْ مَنْ لَّا یَاْتِیْهِ.
طمع گھاٹ پر اتارتی ہے مگر سیراب کئے بغیر پلٹا دیتی ہے، ذمہ داری کا بوجھ اٹھاتی ہے مگر اسے پورا نہیں کرتی۔ اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پانی پینے والے کو پینے سے پہلے ہی اچھو ہو جاتا ہے اور جتنی کسی مرغوب و پسندیدہ چیز کی قدر و منزلت زیادہ ہوتی ہے اتنا ہی اسے کھو دینے کا رنج زیادہ ہوتا ہے۔ آرزوئیں دیدۂ بصیرت کو اندھا کر دیتی ہیں اور جو نصیب میں ہوتا ہے پہنچنے کی کوشش کئے بغیر مل جاتا ہے۔