سورہ توبہ
١۔اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے (اعلان) بیزاری ہے ان مشرکوں کی طرف جن سے تمہارا معاہدہ تھا۔
٢۔ پس تم لوگ اس ملک میں چار مہینے چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے اور یہ کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔
٣۔اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن لوگوں کے لیے اعلان ہے کہ اللہ اور اس کا رسول بھی مشرکین سے بیزار ہے اور پس اگر تم توبہ کر لو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر منہ پھیر لو گے تو جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے اور کافروں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو۔
٤۔ البتہ جن مشرکین سے تمہارا معاہدہ تھا پھر انہوں نے تمہارے ساتھ کوئی قصور نہیں کیا اور نہ ہی تمہارے خلاف کسی کی مدد کی تو ایسے لوگوں کے ساتھ جس مدت کے لیے معاہدہ ہوا ہے اسے پورا کرو، بتحقیق اللہ اہل تقویٰ کو دوست رکھتا ہے۔
٥۔ پس جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو تم جہاں پاؤ قتل کرو اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات پر ان کی تاک میں بیٹھو، پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو، بیشک اللہ بڑا درگزر کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
٦۔اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص آپ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دیں تاکہ وہ کلام اللہ کو سن لے پھر اسے اس کی امن کی جگہ پہنچا دیں ،ایسا اس لیے ہے کہ یہ لوگ جانتے نہیں ہیں۔
٧۔ اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کوئی عہد مشرکین کے لیے کیسے ہو سکتا ہے بجز ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد الحرام کے پاس معاہدہ کیا ہے ؟ پس جب تک وہ تمہارے ساتھ(اس عہد پر) قائم رہیں تو تم بھی ان کے ساتھ قائم رہو،یقیناً اللہ اہل تقویٰ کو دوست رکھتا ہے۔
٨۔ (ان سے عہد) کیسے ہو سکتا ہے جب کہ اگر وہ تم پر غلبہ حاصل کر لیں تو وہ نہ تو تمہاری قرابتداری کا لحاظ کریں گے اور نہ عہد کا؟ وہ زبان سے تو تمہیں خوش کر دیتے ہیں مگر ان کے دل انکار پر تلے ہوئے ہیں اور ان میں اکثر لوگ فاسق ہیں۔
٩۔ انہوں نے اللہ کی آیات کے عوض تھوڑی سی قیمت وصول کر لی ہے پس وہ اللہ کے راستے سے ہٹ گئے ہیں یہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں یقیناً وہ بہت برا ہے۔
١٠۔نہ تو یہ کسی مومن کے حق میں قرابتداری کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ عہد کا اور یہی لوگ زیادتی کا ارتکاب کرنے والے ہیں۔
١١۔ پس اگر یہ لوگ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور علم رکھنے والوں کے لیے ہم آیات کو واضح کر کے بیان کرتے ہیں۔
١٢۔ اور اگر عہد کرنے کے بعد یہ لوگ اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین کی عیب جوئی کرنے لگ جائیں تو کفر کے اماموں سے جنگ کرو، کیونکہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں شاید وہ باز آ جائیں۔
١٣۔ کیا تم ایسے لوگوں سے نہیں لڑو گے جو اپنی قسمیں توڑ دیتے ہیں اور جنہوں نے رسول کو نکالنے کا ارادہ کیا تھا ؟ پہلی بار تم سے زیادتی میں پہل بھی انہوں نے کی تھی کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اگر تم مومن ہو تو اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو۔
١٤۔ ان سے لڑو تاکہ تمہارے ہاتھوں اللہ انہیں عذاب دے اور انہیں رسوا کرے اور ان پر تمہیں فتح دے اور مومنین کے دلوں کو ٹھنڈا کرے۔
١٥۔ اور ان کے دلوں کا غصہ نکالے اور اللہ جس کی چاہتا ہے توبہ قبول کرتا ہے اور اللہ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔
١٦۔ کیا تم لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ یونہی چھوڑ دیے جاؤ گے ؟حالانکہ اللہ نے ابھی یہ بھی نہیں دیکھا ہے کہ تم میں سے کس نے جہاد کیا اور کس نے اللہ ، اس کے رسول اور مومنین کے سوا کسی اور کو اپنا بھیدی نہیں بنایا اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔
١٧۔ مشرکین کو یہ حق حاصل نہیں کہ اللہ کی مساجد کو آباد کریں در حالیکہ وہ خود اپنے کفر کی شہادت دے رہے ہیں ، ان لوگوں کے اعمال برباد ہو گئے اور وہ آتش میں ہمیشہ رہیں گے۔
١٨۔اللہ کی مسجدوں کو صرف وہی لوگ آباد کر سکتے ہیں جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہوں اور نماز قائم کرتے ہوں نیز زکوٰۃ ادا کرتے ہوں اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھاتے ہوں ، پس امید ہے کہ یہ لوگ ہدایت پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
١٩۔ کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد الحرام کی آبادکاری کو اس شخص کے برابر قرار دیا ہے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان لایا اور جس نے راہ خدا میں جہاد کیا؟ اللہ کے نزدیک یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے اور اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا
٢٠۔ جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے اموال سے اور اپنی جانوں سے راہ خدا میں جہاد کیا وہ اللہ کے نزدیک نہایت عظیم درجہ رکھتے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہیں۔
٢١۔ ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی کی اور ان جنتوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کے لیے دائمی نعمتیں ہیں۔
٢٢۔ ان میں وہ ابد تک رہیں گے ، بے شک اللہ کے پاس عظیم ثواب ہے۔
٢٣۔ اے ایمان والو! تمہارے آبا اور تمہارے بھائی اگر ایمان کے مقابلے میں کفر کو پسند کریں تو انہیں اپنا ولی نہ بناؤ اور یاد رکھو کہ تم میں سے جو لوگ انہیں ولی بنائیں گے پس ایسے ہی لوگ تو ظالم ہیں۔
٢٤۔کہہ دیجیے :تمہارے آبا اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہاری برادری اور تمہارے وہ اموال جو تم کماتے ہو اور تمہاری وہ تجارت جس کے بند ہونے کا تمہیں خوف ہے اور تمہاری پسند کے مکانات اگر تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور راہ خدا میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو ٹھہرو! یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ فاسقوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔
٢٥۔ بتحقیق بہت سے مقامات پر اللہ تمہاری مدد کر چکا ہے اور حنین کے دن بھی، جب تمہاری کثرت نے تمہیں غرور میں مبتلا کر دیا تھا مگر وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
٢٦۔ پھر اللہ نے اپنے رسول پر اور مومنین پر اپنی تسکین نازل فرمائی اور تمہیں نظر نہ آنے والے لشکر اتارے اور کفار کو عذاب میں مبتلا کر دیا اور کفر اختیار کرنے والوں کی یہی سزا ہے۔
٢٧۔ پھر اس کے بعد اللہ جس کی چاہتا ہے توبہ قبول فرماتا ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
٢٨۔ اے ایمان والو! مشرکین تو بلاشبہ ناپاک ہیں لہٰذا اس سال کے بعد وہ مسجد الحرام کے قریب نہ آنے پائیں اور اگر (مشرکین کا داخلہ بند ہونے سے ) تمہیں غربت کا خوف ہے تو (اس کی پرواہ نہ کرو) اگر اللہ چاہے تو جلد ہی تمہیں اپنے فضل سے بے نیاز کر دے گا یقیناً اللہ بڑا جاننے والا، حکمت والا ہے۔
٢٩۔ اہل کتاب میں سے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ حرام کیا ہے اسے حرام نہیں ٹھہراتے اور دین حق بھی قبول نہیں کرتے ، ان لوگوں کے خلاف جنگ کرو یہاں تک کہ وہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں۔
٣٠۔ اور یہود کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے ، یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں ان لوگوں کی باتوں کے مشابہ ہیں جو ان سے پہلے کافر ہو چکے ہیں ، اللہ انہیں ہلاک کرے ، یہ کدھر بہکتے پھرتے ہیں ؟
٣١۔ انہوں نے اللہ کے علاوہ اپنے علماء اور راہبوں کو اپنا رب بنا لیا ہے اور مسیح بن مریم کو بھی، حالانکہ انہیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ خدائے واحد کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں ، جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ ذات ان کے شرک سے پاک ہے۔
٣٢۔ یہ لوگ اپنی پھونکوں سے نور خدا کو بجھانا چاہتے ہیں مگر اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے کے علاوہ کوئی بات نہیں مانتا اگرچہ کفار کو ناگوار گزرے۔
٣٣۔ اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اسی نے بھیجا ہے تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا ہی لگے۔
٣٤۔ اے ایمان والو! (اہل کتاب کے ) بہت سے علماء اور راہب ناحق لوگوں کا مال کھاتے ہیں اور انہیں راہ خدا سے روکتے ہیں اور جو لوگ سونا اور چاندی ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجیے۔
٣٥۔ جس روز وہ مال آتش جہنم میں تپایا جائے گا اور اسی سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پشتیں داغی جائیں گی (اور ان سے کہا جائے گا) یہ ہے وہ مال جو تم نے اپنے لیے ذخیرہ کر رکھا تھا، لہٰذا اب اسے چکھو جسے تم جمع کیا کرتے تھے۔
٣٦۔ کتاب خدا میں مہینوں کی تعداد ا اللہ کے نزدیک یقیناً بارہ مہینے ہے جب سے اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ان میں سے چار مہینے حرمت کے ہیں ، یہی مستحکم دین ہے ، لہٰذا ان چار مہینوں میں تم اپنے آپ پر ظلم نہ کرو اور تم، سب مشرکین سے لڑو جیسا کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ تقویٰ والوں کے ساتھ ہے۔
٣٧۔(حرمت کے مہینوں میں ) تقدیم و تاخیر بے شک کفر میں اضافہ کرتا ہے جس سے کافروں کو گمراہ کیا جاتا ہے وہ کسی سال ایک مہینے کو حلال اور کسی سال اسے حرام قرار دیتے ہیں تاکہ وہ مقدار بھی پوری کر لیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے اور ساتھ ہی خدا کے حرام کو حلال بھی کر لیں ، ان کے برے اعمال انہیں بھلے کر کے دکھائے جاتے ہیں اور اللہ کافر قوم کو ہدایت نہیں کرتا۔
٣٨۔ اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے اللہ کی راہ میں نکلو تو تم زمین سے چمٹ جاتے ہو؟ کیا تم آخرت کی جگہ دنیاوی زندگی کو زیادہ پسند کرتے ہو؟ دنیاوی زندگی کی متاع تو آخرت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
٣٩۔ اگر تم نہ نکلو گے توا للہ تمہیں دردناک عذاب دے گا اور تمہاری جگہ دوسری قوم پیدا کرے گا اور تم اللہ کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکو گے اور اللہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھتا ہے۔
٤٠۔ اگر تم رسول کی مدد نہ کرو گے تو (جان لو کہ) اللہ نے اس وقت ان کی مدد کی جب کفار نے انہیں نکالا تھا جب وہ دونوں غار میں تھے وہ دو میں کا دوسرا تھا جب وہ اپنے ساتھی سے کہ رہا تھا رنج نہ کر یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے ، پھر اللہ نے ان پر اپنا سکون نازل فرمایا اور ایسے لشکروں سے ان کی مدد کی جو تمہیں نظر نہ آتے تھے اور یوں اس نے کافروں کا کلمہ نیچا کر دیا اور اللہ کا کلمہ تو سب سے بالاتر ہے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔
٤١۔(مسلمانو)تم ہلکے ہو یا بوجھل (ہر حالت میں ) نکل پڑو اور اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ راہ خدا میں جہاد کرو، اگر تم سمجھو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔
٤٢۔ اگر آسانی سے حاصل ہونے والا کوئی فائدہ ہوتا اور سفر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور آپ کے پیچھے چل پڑتے لیکن یہ مسافت انہیں دور نظر آئی اور اب وہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں گے : اگر ہمارے لیے ممکن ہوتا تو یقیناً ہم آپ کے ساتھ چل دیتے (ایسے بہانوں سے ) وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں اور اللہ کو علم ہے کہ یہ لوگ یقیناً جھوٹ بول رہے ہیں۔
٤٣۔ (اے رسول) اللہ آپ کو معاف کرے آپ نے انہیں کیوں اجازت دے دی قبل ا س کے کہ آپ پر واضح ہو جاتا کہ سچے کون ہیں اور آپ جھوٹوں کو جان لیتے ؟
٤٤۔ جو لوگ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرنے کے لیے ہرگز آپ سے اجازت نہیں مانگیں گے اور اللہ تقویٰ اختیار کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔
٤٥۔ایسی اجازت یقیناً وہی لوگ مانگیں گے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل شک میں مبتلا ہیں پس اس طرح وہ اپنے شک میں بھٹک رہے ہیں۔
٤٦۔اور اگر وہ نکلنے کا ارادہ رکھتے تو اس کے لیے سامان کی کچھ تیاری کرتے لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا ناپسند تھا اس لیے اس نے (ان سے توفیق سلب کر کے ) انہیں ہلنے نہ دیا اور کہہ دیا گیا: تم بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔
٤٧۔اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے بھی تو تمہارے لیے صرف خرابی میں اضافہ کرتے اور تمہارے درمیان فتنہ کھڑا کرنے کے لیے دوڑ دھوپ کرتے اور تمہارے درمیان ان کے جاسوس (اب بھی) موجود ہیں اور اللہ ظالموں کا حال خوب جانتا ہے۔
٤٨۔ یہ لوگ پہلے بھی فتنہ انگیزی کی کوشش کرتے رہے ہیں اور آپ کے لیے بہت سی باتوں میں الٹ پھیر بھی کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ حق آ پہنچا اور اللہ کا فیصلہ غالب ہوا اور وہ برا مانتے رہ گئے۔
٤٩۔ان میں کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے : مجھے اجازت دیجیے اور مجھے فتنے میں نہ ڈالیے ، دیکھو یہ فتنے میں پڑ چکے ہیں اور جہنم نے ان کافروں کو یقیناً گھیر رکھا ہے۔
٥٠۔ اگر آپ کا بھلا ہوتا ہے تو انہیں دکھ ہوتا ہے اور اگر آپ پر کوئی مصیبت آئے تو کہتے ہیں : ہم نے پہلے ہی سے اپنا معاملہ درست کر رکھا ہے اور خوشیاں مناتے ہوئے لو ٹ جاتے ہیں۔
٥١۔کہہ دیجیے : اللہ نے جو ہمارے لیے مقدر فرمایا ہے اس کے سوا ہمیں کوئی حادثہ ہرگز پیش نہیں آتا وہی ہمارا کارساز ہے اور مومنین کو چاہیے کہ اللہ پر بھروسہ کریں۔
٥٢۔ کہہ دیجیے : کیا تم ہمارے بارے میں دو بھلائیوں (فتح یا شہادت) میں سے ایک ہی کے منتظر ہو اور ہم تمہارے بارے میں اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ خود اپنے پاس سے تمہیں عذاب دے یا ہمارے ہاتھوں عذاب دلوائے ، پس اب تم بھی انتظار کرو ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتے ہیں۔
٥٣۔ کہہ دیجیے :تم اپنا مال بخوشی خرچ کرو یا بادل نخواستہ، تم سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، کیونکہ تم فاسق قوم ہو۔
٥٤۔ اور ان کے خرچ کیے ہوئے مال کی قبولیت کی راہ میں بس یہی رکاوٹ ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا ہے اور نماز کے لیے آتے ہیں تو کاہلی کے ساتھ اور راہ خدا میں تو بادل نخواستہ ہی خرچ کرتے ہیں۔
٥٥۔ لہٰذا ان کے اموال اور اولاد کہیں آپ کو فریفتہ نہ کر دیں ، اللہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ ان چیزوں سے انہیں دنیاوی زندگی میں بھی عذاب دے اور کفر کی حالت میں ہی ان کی جان کنی ہو۔
٥٦۔ وہ اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ وہ تمہاری جماعت میں شامل ہیں حالانکہ وہ تمہاری جماعت میں شامل نہیں ہیں دراصل وہ بزدل لوگ ہیں۔
٥٧۔ اگر انہیں کوئی پناہ گاہ یا غار یا سر چھپانے کی جگہ میسر آ جائے تو وہ اس کی طرف لپکتے ہوئے جائیں گے۔
٥٨۔ اور ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو صدقات(کی تقسیم)میں آپ کو طعنہ دیتے ہیں پھر اگر اس میں سے انہیں کچھ دے دیا جائے تو خوش ہو جاتے ہیں اور اگر اس میں سے کچھ نہ دیا جائے تو بگڑ جاتے ہیں۔
٥٩۔ اور کیا ہی اچھا ہوتا کہ اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ انہیں دیا ہے وہ اس پر راضی ہو جاتے اور کہتے : ہمارے لیے اللہ کافی ہے ، عنقریب اللہ اپنے فضل سے ہمیں بہت کچھ دے گا اور اس کا رسول بھی، ہم اللہ سے لو لگائے بیٹھے ہیں۔
٦٠۔یہ صدقات تو صرف فقیروں ، مساکین اور صدقات کے کام کرنے والوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کی تالیف قلب مقصود ہو اور غلاموں کی آزادی اور قرضداروں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لیے ہیں ، یہ اللہ کی طرف سے ایک مقرر حکم ہے اور اللہ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔
٦١۔ اور ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نبی کو اذیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں : یہ کانوں کے کچے ہیں ، کہہ دیجیے :وہ تمہاری بہتری کے لیے کان دے کر سنتا ہے اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور مومنوں کے لیے تصدیق کرتا ہے اور تم میں سے جو ایمان لائے ہیں ان کے لیے رحمت ہیں اور جو لوگ اللہ کے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
٦٢۔ یہ لوگ تمہیں راضی کرنے کے لیے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں حالانکہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں راضی کیا جائے اگر یہ مومن ہیں۔
٦٣۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کرتا ہے اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، یہ بہت بڑی رسوائی ہے۔
٦٤۔ منافقوں کو یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ کہیں ان کے خلاف (مسلمانوں پر) کوئی ایسی سورت نازل نہ ہو جائے جو ان کے دلوں کے راز کو فاش کر دے ، ان سے کہہ دیجیے : تم استہزاء کیے جاؤ، اللہ یقیناً وہ (راز) فاش کرنے والا ہے جس کا تمہیں ڈر ہے۔
٦٥۔ اور اگر آپ ان سے دریافت کریں تو وہ ضرور کہیں گے : ہم تو صرف مشغلہ اور دل لگی کر رہے تھے ، کہہ دیجیے : کیا تم اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول کا مذاق اڑا رہے تھے۔
٦٦۔ عذر تراشی مت کرو تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو، اگر ہم نے تم میں سے ایک جماعت کو معاف کر بھی دیا تو دوسری جماعت کو ضرور عذاب دیں گے کیونکہ وہ مجرم ہے۔
٦٧۔ منافق مرد اور عورتیں آپس میں ایک ہی ہیں ، وہ برے کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور نیکی سے منع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ روکے رکھتے ہیں ، انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا ہے ، بے شک منافقین ہی فاسق ہیں۔
٦٨۔ اللہ نے منافق مردوں اور عورتوں اور کافروں سے آتش جہنم کا وعدہ کر رکھا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، یہی ان کے لیے کافی ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کر دی ہے اور ان کے لیے قائم رہنے والا عذاب ہے۔
٦٩۔ (تم منافقین بھی) ان لوگوں کی طرح (ہو)جو تم سے پہلے تھے وہ تم سے زیادہ طاقتور اور اموال اور اولاد میں تم سے بڑھ کر تھے ، انہوں نے اپنے حصے کے خوب مزے لوٹے پس تم بھی اپنے حصے کے مزے اسی طرح لوٹ رہے ہو جس طرح تم سے پہلوں نے اپنے حصے کے خوب مزے لوٹے اور جس طرح وہ باطل بحثیں کرتے تھے تم بھی کرتے رہو، یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہو گئے اور یہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔
٧٠۔ کیا ان کے پاس ان سے پہلے لوگوں (مثلاً) قوم نوح اور عاد و ثمود اور قوم ابراہیم اور اہل مدین اور الٹی ہوئی بستیوں والوں کی خبر نہیں پہنچی؟ جن کے پاس ان کے رسول نشانیاں لے کر آئے ،پھر اللہ تو ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا بلکہ یہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے رہے۔
٧١۔ اور مومن مرد اور مومنہ عورتیں ایک دوسرے کے بہی خواہ ہیں ، وہ نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔
٧٢۔ اللہ نے ان مومن مردوں اور مومنہ عورتوں سے ایسی بہشتوں کا وعدہ کر رکھا ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور ان دائمی جنتوں میں پاکیزہ قیام گاہیں ہیں اور اللہ کی طرف سے خوشنودی تو ان سب سے بڑھ کر ہے ، یہی تو بڑی کامیابی ہے۔
٧٣۔ اے نبی ! کفار اور منافقین سے لڑو اور ان پر سختی کرو اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو بہت برا ٹھکانا ہے۔
٧٤۔ یہ لوگ اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ انہوں نے کچھ نہیں کہا حالانکہ انہوں نے کفر کی بات کہہ دی ہے اور وہ اسلام لانے کے بعد کافر ہو گئے ہیں اور انہوں نے وہ کچھ کرنے کی ٹھان لی تھی جو وہ نہ کر پائے اور انہیں اس بات پر غصہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ان (مسلمانوں ) کو دولت سے مالا مال کر دیا ہے ، پس اگر یہ لوگ توبہ کر لیں تو ان کے حق میں بہتر ہو گا اور اگر وہ منہ پھیر لیں تو اللہ انہیں دنیا و آخرت میں دردناک عذاب دے گا اور روئے زمین پر ان کا نہ کوئی کارساز ہو گا اور نہ مددگار۔
٧٥۔اور ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کر رکھا تھا کہ اگر اللہ نے ہمیں اپنے فضل سے نوازا تو ہم ضرور خیرات کیا کریں گے اور ضرور نیک لوگوں میں سے ہو جائیں گے۔
٧٦۔لیکن جب اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نوازا تو وہ اس میں بخل کرنے لگے اور (عہد سے ) روگردانی کرتے ہوئے پھر گئے۔
٧٧۔پس اللہ نے ان کے دلوں میں اپنے حضور پیشی کے دن تک نفاق کو باقی رکھا کیونکہ انہوں نے اللہ کے ساتھ بدعہدی کی اور وہ جھوٹ بولتے رہے۔
٧٨۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ ان کے پوشیدہ رازوں اور سرگوشیوں سے بھی واقف ہے اور یہ کہ اللہ غیب کی باتوں سے بھی خوب آگاہ ہے ؟
٧٩۔ جو لوگ ان مومنوں کا مذاق اڑاتے ہیں جو برضا و رغبت خیرات کرتے ہیں اور جنہیں اپنی محنت و مشقت کے سوا کچھ بھی میسر نہیں ان پر ہنستے بھی ہیں ، اللہ ان کا مذاق اڑاتا ہے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
٨٠۔ (اے رسول) آپ ایسے لوگوں کے لیے مغفرت کی دعا کریں یا دعا نہ کریں (مساوی ہے ) اگر ستر بار بھی آپ ان کے لیے مغفرت طلب کریں تو بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا، یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور اللہ فاسقین کو ہدایت نہیں دیتا۔
٨١۔ (غزوہ تبوک میں ) پیچھے رہ جانے والے رسول اللہ کا ساتھ دیے بغیر بیٹھے رہنے پر خوش ہیں انہوں نے اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ راہ خدا میں جہاد کرنے کو ناپسند کیا اور کہنے لگے : اس گرمی میں مت نکلو،کہہ دیجیے : جہنم کی آتش کہیں زیادہ گرم ہے ، کاش وہ سمجھ پاتے۔
٨٢۔ پس انہیں چاہیے کہ کم ہنسا کریں اور زیادہ رویا کریں ، یہ ان کے اعمال کا بدلہ ہے جو وہ کرتے رہے ہیں۔
٨٣۔ پھر اگر اللہ آپ کو ان میں سے کسی گروہ کے پاس واپس لے جائے اور وہ آپ سے (ساتھ) نکلنے کی اجازت مانگیں تو آپ کہہ دیں : (اب) تم میرے ساتھ ہرگز نہیں نکلو گے اور نہ ہی میرے ساتھ کسی دشمن سے لڑائی کرو گے ، پہلی مرتبہ تم نے بیٹھے رہنے کو پسند کیا لہٰذا اب پیچھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔
٨٤۔ اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس پر آپ کبھی بھی نماز نہ پڑھیں اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہوں ، انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ نافرمانی کی حالت میں مرے ہیں۔
٨٥۔ اور ان کی دولت اور اولاد کہیں آپ کو فریفتہ نہ کریں ، اللہ تو بس ان چیزوں کے ذریعے انہیں دنیا میں عذاب دینا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ ان کی جان کنی کفر کی حالت میں ہو۔
٨٦۔ اور جب کوئی ایسی سورت نازل ہوتی ہے (جس میں کہا جاتا ہے ) کہ تم اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کی معیت میں جہاد کرو تو ان (منافقین) میں سے دولتمند افراد آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں اور کہتے ہیں : ہمیں چھوڑ جائیں کہ ہم بیٹھنے والوں کے ساتھ (بیٹھے ) رہیں۔
٨٧۔ انہوں نے گھر بیٹھنے والی عورتوں میں شامل رہنا پسند کیا اور ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی پس وہ کچھ سمجھتے ہی نہیں۔
٨٨۔ جب کہ رسول اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں نے اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کیا اور (اب) ساری خوبیاں انہی کے لیے ہیں اور وہی کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔
٨٩۔ان کے لیے اللہ نے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہی عظیم کامیابی ہے۔
٩٠۔اور کچھ عذر تراشنے والے صحرا نشین بھی (آپکے پاس)آئے کہ انہیں بھی (پیچھے رہ جانے کی) اجازت دی جائے اور جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جھوٹ بولا وہ (گھروں میں ) بیٹھے رہے ، ان میں سے جو کافر ہو گئے ہیں انہیں عنقریب دردناک عذاب پہنچے گا۔
٩١۔ ضعیفوں اور مریضوں اور ان لوگوں پر جن کے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے کوئی گناہ نہیں ، بشرطیکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے خیر خواہ ہوں ، نیک لوگوں پر الزام کی کوئی راہ نہیں ہوتی اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
٩٢۔اور نہ ہی ان لوگوں پر(کوئی الزام ہے ) جنہوں نے آپ سے درخواست کی تھی کہ آپ ان کے لیے سواری فراہم کریں آپ نے کہا: میرے پاس کوئی سواری موجود نہیں کہ تمہیں اس پر سوار کروں (یہ سن کر) وہ واپس گئے جب کہ ان کی آنکھیں اس غم میں آنسو بہا رہی تھیں کہ ان کے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہ تھا۔
٩٣۔الزام تو بس ان لوگوں پر ہے جو دولت مند ہونے کے باوجود آپ سے درخواست کرتے ہیں (کہ جہاد سے معاف کیے جائیں )، انہوں نے گھر بیٹھنے والی عورتوں میں شامل رہنا پسند کیا اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی لہٰذا وہ نہیں جانتے۔
پارہ :یَعتذِرُون11
٩٤۔ جب تم ان کے پاس واپس پہنچ جاؤ گے تو وہ تمہارے سامنے عذر پیش کریں گے ، کہہ دیجیے :عذر مت تراشو! ہم تمہاری بات ہرگز نہیں مانیں گے اللہ نے ہمیں تمہارے حالات بتا دیے ہیں اور عنقریب اللہ تمہارے اعمال دیکھے گا اور اس کا رسول بھی پھر تم لوگ غیب و شہود کے جاننے والے کی طرف پلٹائے جاؤ گے پھر وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔
٩٥۔جب تم ا ن کی طرف لوٹ کر جاؤ گے تو وہ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے درگزر کرو پس تم ان سے درگزر کر دینا، یہ لوگ ناپاک ہیں اور ان سے سرزد ہونے والے اعمال کی سزا میں ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔
٩٦۔یہ تمہارے سامنے قسم کھائیں گے تاکہ تم ان سے راضی ہو جاؤ، پس اگر تم ان سے راضی ہو بھی جاؤ تو اللہ یقیناً فاسق قوم سے راضی نہ ہو گا۔
٩٧۔ یہ بادیہ نشین بدو کفر و نفاق میں انتہائی سخت ہیں اور اس قابل ہی نہیں کہ اللہ نے اپنے رسول پر جو کچھ نازل کیا ہے ان کی حدود کو سمجھ سکیں اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔
٩٨۔اور ان بدوؤں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو کچھ راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں اور اس انتظار میں رہتے ہیں کہ تم پر گردش ایام آئے ، بری گردش خود ان پر آئے اور اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔
٩٩۔ اور انہی بدوؤں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ (راہ خدا میں ) خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے تقرب اور رسول سے دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھتے ہیں ، ہاں یہ ان کے لیے تقرب کا ذریعہ ہے اللہ انہیں عنقریب اپنی رحمت میں داخل کرے گا، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
١٠٠۔ اور مہاجرین و انصار میں سے جن لوگوں نے سب سے پہلے سبقت کی اور جو نیک چال چلن میں ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان میں وہ ابد تک ہمیشہ رہیں گے یہی عظیم کامیابی ہے۔
١٠١۔ اور تمہارے گرد و پیش کے بدوؤں میں اور خود اہل مدینہ میں بھی ایسے منافقین ہیں جو منافقت پر اڑے ہوئے ہیں ، آپ انہیں نہیں جانتے (لیکن) ہم انہیں جانتے ہیں ، عنقریب ہم انہیں دوہرا عذاب دیں گے پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔
١٠٢۔ اور کچھ دوسرے لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا انہوں نے نیک عمل کے ساتھ دوسرے برے عمل کو مخلوط کیا، بعید نہیں کہ اللہ انہیں معاف کر دے ، بے شک اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
١٠٣۔ (اے رسول) آپ ان کے اموال میں سے صدقہ لیجیے ، اس کے ذریعے آپ انہیں پاکیزہ اور بابرکت بنائیں اور ان کے حق میں دعا بھی کریں ، یقیناً آپ کی دعا ان کے لیے موجب تسکین ہے اور اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔
١٠٤۔ کیا انہیں علم نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات بھی وصول کرتا ہے اور یہ کہ اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
١٠٥۔ اور کہہ دیجیے : لوگو! عمل کرو کہ تمہارے عمل کو عنقریب اللہ اور اس کا رسول اور مومنین دیکھیں گے اور پھر جلد ہی تمہیں غیب و شہود کے جاننے والے کی طرف پلٹا دیا جائے گا پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔
١٠٦۔ اور کچھ اور لوگ ہیں جن کا معاملہ اللہ کا حکم آنے تک ملتوی ہے ، وہ چاہے انہیں عذاب دے اور چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے اور اللہ بڑا دانا، حکیم ہے۔
١٠٧۔ اور کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ایک مسجد بنائی ضرر رسانی اور کفر اور مومنین میں پھوٹ ڈالنے کے لیے نیز ان لوگوں کی کمین گاہ کے طور پر جو پہلے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ لڑ چکے ہیں اور وہ ضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہمارے ارادے فقط نیک تھے ، لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں۔
١٠٨۔ آپ ہر گز اس مسجد میں کھڑے نہ ہوں ، البتہ جو مسجد پہلے ہی دن سے تقویٰ کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے وہ زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں ، اس میں ایسے لوگ ہیں جو صاف اور پاکیزہ رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ پاکیزہ رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
١٠٩۔ بھلا جس شخص نے اپنی عمارت کی بنیاد خوف خدا اور اس کی رضا طلبی پر رکھی ہو وہ بہتر ہے یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد گرنے والی کھائی کے کنارے پر رکھی ہو، چنانچہ وہ (عمارت) اسے لے کر آتش جہنم میں جا گرے ؟ اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔
١١٠۔ ان لوگوں کی بنائی ہوئی یہ عمارت ہمیشہ ان کے دلوں میں کھٹکتی رہے گی مگر یہ کہ ان کے دل پاش پاش ہو جائیں اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔
١١١۔ یقیناً اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال جنت کے عوض خرید لیے ہیں ، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں پھر مارتے ہیں اور مارے جاتے ہیں ، یہ توریت و انجیل اور قرآن میں ان کے ذمے پکا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنا عہد پورا کرنے والا کون ہو سکتا ہے ؟ پس تم نے اللہ کے ساتھ جو سودا کیا ہے اس پر خوشی مناؤ اور یہ تو بہت بڑی کامیابی ہے۔
١١٢۔ (یہ لوگ) توبہ کرنے والے ، عبادت گزار، ثنا کرنے والے ، (راہ خدا میں ) سفر کرنے والے ، رکوع کرنے والے ، سجدہ کرنے والے ، نیکی کی دعوت دینے والے اور برائی سے روکنے والے اور حدود اللہ کی حفاظت کرنے والے ہیں اور (اے رسول) مومنین کو خوشخبری سنا دیجیے۔
١١٣۔نبی اور ایمان والوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مشرکوں کے لیے مغفرت طلب کریں خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں جبکہ یہ بات ان پر عیاں ہو چکی ہے کہ وہ جہنم والے ہیں۔
١١٤۔ اور(وہاں )ابراہیم کا اپنے باپ (چچا) کے لیے مغفرت طلب کرنا اس وعدے کی وجہ سے تھا جو انہوں نے اس کے ساتھ کر رکھا تھا لیکن جب ان پر یہ بات کھل گئی کہ وہ دشمن خدا ہے تو وہ اس سے بیزار ہو گئے ، ابراہیم یقیناً نرم دل اور بردبار تھے۔
١١٥۔ اور اللہ کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد گمراہ نہیں کرتا یہاں تک کہ ان پر یہ واضح کر دے کہ انہیں کن چیزوں سے بچنا ہے ، بتحقیق اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔
١١٦۔ آسمانوں اور زمین کی سلطنت یقیناً اللہ ہی کے لیے ہے ، زندگی بھی وہی دیتا ہے اور موت بھی اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی کارساز ہے اور نہ مددگار۔
١١٧۔ بتحقیق اللہ نے نبی پر اور ان مہاجرین و انصار پر مہربانی فرمائی جنہوں نے مشکل گھڑی میں نبی کا ساتھ دیا تھا بعد اس کے کہ ان میں سے بعض کے دلوں میں کجی آنے ہی والی تھی پھر اللہ نے انہیں معاف کر دیا، بے شک وہ ان پر بڑا شفقت کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
١١٨۔ اور ان تینوں کو بھی(معاف کر دیا) جو (تبوک میں ) پیچھے رہ گئے تھے ، جب اپنی وسعت کے باوجود زمین ان پر تنگ ہو گئی تھی اور اپنی جانیں خود ان پر دوبھر ہو گئی تھیں اور انہوں نے دیکھ لیا کہ اللہ کی گرفت سے بچنے کے لیے خود اللہ کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں تو اللہ نے ان پر مہربانی کی تاکہ وہ توبہ کریں ، بے شک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
١١٩۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔
١٢٠۔ اہل مدینہ اور گرد و پیش کے بدوؤں کو یہ حق حاصل ہی نہ تھا کہ وہ رسول خدا سے پیچھے رہ جائیں اور اپنی جانوں کو رسول کی جان سے زیادہ عزیز سمجھیں ، یہ اس لیے کہ انہیں نہ پیاس کی تکلیف ہو گی اور نہ مشقت کی اور نہ راہ خدا میں بھوک کی اور نہ وہ کوئی ایسا قدم اٹھائیں گے جو کافروں کو ناگوار گزرے اور نہ انہیں دشمن سے کوئی گزند پہنچے گا مگر یہ کہ ان کے لیے نیک عمل لکھا جاتا ہے ، بے شک اللہ نیکی کرنے والوں کا ثواب ضائع نہیں کرتا۔
١٢١۔اور (اسی طرح) وہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اور جب کوئی وادی (بغرض جہاد) پار کرتے ہیں تو یہ سب ان کے حق میں لکھ دیا جاتا ہے تاکہ اللہ انہیں ان کے اچھے اعمال کا صلہ دے۔
١٢٢۔اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب مومنین نکل کھڑے ہوں ، پھر کیوں نہ ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے تاکہ وہ دین کی سمجھ پیدا کریں اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آئیں تو انہیں تنبیہ کریں تاکہ وہ (ہلاکت خیز باتوں سے ) بچے رہیں۔
١٢٣۔ اے ایمان والو! ان کافروں سے جنگ کرو جو تمہارے نزدیک ہیں اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر ٹھوس شدت کا احساس کریں اور جان رکھو اللہ متقین کے ساتھ ہے۔
١٢٤۔اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے کچھ لوگ (از راہ تمسخر) کہتے ہیں : اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ کیا ہے ؟ پس ایمان والوں کے ایمان میں تو اس نے اضافہ ہی کیا ہے اور وہ خوشحال ہیں۔
١٢٥۔ اور البتہ جن کے دلوں میں بیماری ہے ان کی نجاست پر اس نے مزید نجاست کا اضافہ کیا ہے اور وہ مرتے دم تک کفر پر ڈٹے رہے۔
١٢٦۔ کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ انہیں ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمائش میں ڈالا جاتا ہے ؟ پھر نہ تو وہ توبہ کرتے ہیں اور نہ ہی عبرت حاصل کرتے ہیں۔
١٢٧۔اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں کہ کوئی تمہیں دیکھ تو نہیں رہا؟ پھر نکل کر بھاگتے ہیں ، اللہ نے ان کے دلوں کو پھیر رکھا ہے کیونکہ یہ ناسمجھ لوگ ہیں۔
١٢٨۔ بتحقیق تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے تمہیں تکلیف میں دیکھنا ان پر شاق گزرتا ہے ، وہ تمہاری بھلائی کا نہایت خواہاں ہے اور مومنین کے لیے نہایت شفیق، مہربان ہے۔
١٢٩۔ پھر اگر یہ روگردانی کریں تو آپ کہ دیجیے : میرے لیے اللہ ہی کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی پر میرا بھروسہ ہے اور وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔