کلمات قصار

نہج البلاغہ حکمت 289: ایک دینی بھائی

(٢٨٩) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ

(۲۸۹)

كَانَ لِیْ فِیْمَا مَضٰۤى اَخٌ فِی اللهِ، وَ كَانَ یُعْظِمُهٗ فِیْ عَیْنِیْ صِغَرُ الدُّنْیَا فِیْ عَیْنِهٖ، وَ كَانَ خَارِجًا مِّنْ سُلْطَانِ بَطْنِهٖ، فَلَا یَشْتَهِیْ مَا لَا یَجِدُ، وَ لَا یُكْثِرُ اِذَا وَجَدَ، وَ كَانَ اَكْثَرَ دَهْرِهٖ صَامِتًا، فاِنْ قَالَ بَدَّ الْقَآئِلِیْنَ وَ نَقَعَ غَلِیْلَ السَّآئِلِیْنَ، وَ كَانَ ضَعِیْفًا مُّسْتَضْعَفًا! فَاِنْ جَآءَ الْجِدُّ فَهُوَ لَیْثُ غَابٍ وَّ صِلُّ وَادٍ.

عہد ماضی میں میرا ایک دینی بھائی تھا اور وہ میری نظروں میں اس وجہ سے باعزت تھا کہ دنیا اس کی نظروں میں پست و حقیر تھی، اس پر پیٹ کے تقاضے مسلط نہ تھے۔ لہٰذا جو چیز اسے میسر نہ تھی اس کی خواہش نہ کرتا تھا اور جو چیز میسر تھی اسے ضرورت سے زیادہ صرف میں نہ لاتا تھا۔ وہ اکثر اوقات خاموش رہتا تھا اور اگر بولتا تھا تو بولنے والوں کو چپ کرا دیتا تھا اور سوال کرنے والوں کی پیاس بجھا دیتا تھا۔ یوں تو وہ عاجز و کمزور تھا مگر جہاد کا موقع آ جائے تو وہ شیر بیشہ اور وادی کا اژدہا تھا۔

لَا یُدْلِیْ بِحُجَّةٍ حَتّٰى یَاْتِیَ قَاضِیًا، وَ كَانَ لَا یَلُوْمُ اَحَدًا عَلٰى مَا یَجِدُ الْعُذْرَ فِیْ مِثْلِهٖ، حَتّٰى یَسْمَعَ اعْتِذَارَهٗ، وَ كَانَ لَا یَشْكُوْ وَجَعًا اِلَّا عِنْدَ بُرْئِهٖ، وَ كَانَ یَقُوْلُ مَا یَفْعَلُ وَ لَا یَقُوْلُ مَا لَا یَفْعَلُ، وَ كَانَ اِذَا غُلِبَ عَلَى الْكَلَامِ لَمْ یُغْلَبْ عَلَى السُّكُوْتِ، وَ كَانَ عَلٰى مَا یَسْمَعُ اَحْرَصَ مِنْهُ عَلٰۤى اَنْ یَّتَكَلَّمَ، وَ كَانَ اِذَا بَدَهَهٗۤ اَمْرَانِ یَنَظُرُ اَیُّهُمَا اَقْرَبُ اِلَى الْهَوٰى فَخَالَفَهٗ.

وہ جو دلیل و برہان پیش کرتا تھا وہ فیصلہ کن ہوتی تھی۔ وہ ان چیزوں میں کہ جن میں عذر کی گنجائش ہوتی تھی کسی کو سرزنش نہ کرتا تھا جب تک کہ اس کے عذر معذرت کو سن نہ لے۔ وہ کسی درد و تکلیف کا ذکر نہ کرتا تھا مگر اس وقت کہ جب اس سے چھٹکارا پا لیتا تھا۔ وہ جو کرتا تھا وہی کہتا تھا اور جو نہیں کرتا تھا وہ اسے کہتا نہیں تھا۔ اگر بولنے میں اس پر کبھی غلبہ پا بھی لیا جائے تو خاموشی میں اس پر غلبہ حاصل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ وہ بولنے سے زیادہ سننے کا خواہشمند رہتا تھا اور جب اچانک اس کے سامنے دو چیزیں آ جاتی تھیں تو وہ دیکھتا تھا کہ ان دونوں میں سے ہوائے نفس کے زیادہ قریب کون ہے تو وہ اس کی مخالفت کرتا تھا۔

فَعَلَیْكُمْ بِهٰذِهِ الْخَلَآئِقِ، فَالْزَمُوْهَا وَ تَنَافَسُوْا فِیْهَا، فَاِنْ لَّمْ تَسْتَطِیْعُوْهَا، فَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اَخْذَ الْقلِیْلِ خَیْرٌ مِّنْ تَرْكِ الْكَثِیْرِ.

لہٰذا تمہیں ان عادات و خصائل کو حاصل کرنا چاہیے اور ان پر عمل پیرا اور ان کا خواہشمند رہنا چاہیے۔ اگر ان تمام کا حاصل کرنا تمہاری قدرت سے باہر ہو تو اس بات کو جانے رہو کہ تھوڑی سی چیز حاصل کرنا پورے کے چھوڑ دینے سے بہتر ہے۔

حضرتؑ نے اس کلام میں جس شخص کو ’’بھائی‘‘ کے لفظ سے یاد کرتے ہوئے اس کے عادات و شمائل کا تذکرہ کیا ہے اس سے بعض نے حضرت ابوذر غفار ی، بعض نے عثمان ابن مظعون اور بعض نے مقداد ابن اسود کو مراد لیا ہے۔ مگر بعید نہیں کہ اس سے کوئی فرد خاص مراد نہ ہو، کیونکہ عرب کا یہ عام طریقۂ کلام ہے کہ وہ اپنے کلام میں بھائی یا ساتھی کا ذکر کر جاتے ہیں اور کوئی معین شخص ان کے پیش نظر نہیں ہوتا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button