کلمات قصار

نہج البلاغہ حکمت 317: ایک یہودی

(٣۱٧) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ

(۳۱۷)

وَ قَالَ لَهٗ بَعْضُ الْیَهُوْدِ: مَا دَفَنْتُمْ نَبِیَّكُمْ حَتَّى اخْتَلَفْتُمْ فِیْهِ؟ فَقَالَ ؑ لَهٗ:

ایک یہودی نے آپؑ سے کہا کہ ابھی تم لوگوں نے اپنے نبی کو دفن نہیں کیا تھا کہ ان کے بارے میں اختلاف شروع کر دیا۔ حضرتؑ نے فرمایا:

اِنَّمَا اخْتَلَفْنَا عَنْهُ لَا فِیْهِ، وَ لٰكِنَّكُمْ مَا جَفَّتْ اَرْجُلُكُمْ مِنَ الْبَحْرِ حَتّٰى قُلْتُمْ لِنَبِیِّكُمْ: ﴿اجْعَلْ لَّنَاۤ اِلٰهًا كَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ ؕ قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَ۝﴾.

ہم نے ان کے بارے میں اختلاف نہیں کیا، بلکہ ان کے بعد جانشینی کے سلسلہ میں اختلاف ہوا، مگر تم تو وہ ہو کہ ابھی دریائے نیل سے نکل کر تمہارے پیر خشک بھی نہ ہوئے تھے کہ اپنے نبی سے کہنے لگے کہ: ’’ہمارے لئے بھی ایک ایسا خدا بنا دیجئے جیسے ان لوگوں کے خدا ہیں تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ: بیشک تم ایک جاہل قوم ہو‘‘۔

اس یہودی کی نکتہ چینی کا مقصد یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کے باہمی اختلاف کو پیش کر کے رسول اکرم ﷺ کی نبوت کو ایک اختلافی امر ثابت کر لے، مگر حضرتؑ نے لفظِ ’’فیہ‘‘ کے بجائے لفظِ ’’عنہ‘‘ فرما کر اختلاف کا مورد واضح کر دیا کہ وہ اختلاف رسول ﷺ کی نبوت کے بارے میں نہ تھا، بلکہ ان کی نیابت و جانشینی کے سلسلہ میں تھا۔ اور پھر یہودیوں کی حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: یہ لوگ جو آج پیغمبر ﷺ کے بعد مسلمانوں کے باہمی اختلاف پر نقد کر رہے ہیں، خود ان کی حالت یہ تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی ہی میں عقیدۂ توحید میں متزلزل ہو گئے تھے۔ چنانچہ جب وہ اہل مصر کی غلامی سے چھٹکارا پاکر دریا کے پار اترے تو سینا کے بت خانہ میں بچھڑے کی ایک مورتی دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے کہ ہمارے لئے بھی ایک ایسی مورتی بنا دیجئے۔ جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ: تم اب بھی ویسے ہی جاہل ہو جیسے مصر میں تھے۔ تو جس قوم میں توحید کی تعلیم پانے کے بعد بھی بت پرستی کا جذبہ اتنا ہو کہ وہ ایک بت کو دیکھ کر تڑپنے لگے اور یہ چاہے کہ اس کیلئے بھی ایک بت خانہ بنا دیا جائے، اس کو مسلمانوں کے کسی اختلاف پر تبصرہ کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button