نہج البلاغہ حکمت 318: غلبہ کا سبب
(٣۱٨) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۳۱۸)
وَ قِیْلَ لَهٗ: بِاَیِّ شَیْءٍ غَلَبْتَ الْاَقْرَانَ؟ فَقَالَ ؑ:
حضرتؑ سے کہا گیا کہ آپؑ کس وجہ سے اپنے حریفوں پر غالب آتے رہے ہیں تو آپؑ نے فرمایا کہ:
مَا لَقِیْتُ رَجُلًا اِلَّاۤ اَعَانَنِیْ عَلٰى نَفْسِهٖ.
میں جس شخص کا بھی مقابلہ کرتا تھا وہ اپنے خلاف میری مدد کرتا تھا۔
قَال الرَّضِیُّ: یُوْمِئُ ؑ بِذٰلِكَ اِلٰى تَمَكُّنِ هَیْبَتِهٖ فِی الْقُلُوْبِ.
سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ: حضرتؑ نے اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آپؑ کی ہیبت دلوں پر چھا جاتی تھی۔
جو شخص اپنے حریفوں سے مرعوب ہو جائے اس کا پسپا ہونا ضروری سا ہو جاتا ہے۔ کیونکہ مقابلہ کیلئے صرف جسمانی طاقت کا ہونا ہی کافی نہیں ہوتا، بلکہ دل کا ٹھہراؤ اور حوصلہ کی مضبوطی بھی ضروری ہے۔ اور جب وہ ہمت ہار دے گا اور یہ خیال دل میں جما لے گا کہ مجھے مغلوب ہی ہونا ہے تو وہ مغلوب ہو کر رہے گا۔ یہی صورت امیر المومنین علیہ السلام کے حریف کی ہوتی تھی کہ وہ ان کی مسلّمہ شجاعت سے اس طرح متاثر ہوتا تھا کہ اسے موت کا یقین ہو جاتا تھا۔ جس کے نتیجہ میں اس کی قوت معنوی و خود اعتمادی ختم ہو جاتی تھی اورآخر یہ ذہنی تاثر اسے موت کی راہ پر لا کھڑا کرتا تھا۔