نہج البلاغہ حکمت 367: تغیر و انقلاب
(٣٦٧) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۳۶۷)
يَاۤ اَيُّهَا النَّاسُ! مَتَاعُ الدُّنْيَا حُطَامٌ مُوْبِئٌ، فَتَجَنَّبُوْا مَرْعَاهُ قُلْعَتُهَا اَحْظٰى مِنْ ُمَاْنِيْنَتِهَا، وَ بُلْغَتُهَا اَزْكٰى مِنْ ثَرْوَتِهَا، حُكِمَ عَلٰى مُكْثِرِیْھَا بِالْفَاقَةِ، وَ اُعِيْنَ مَنْ غَنِیَ عَنْهَا بِالرَّاحَةِ. مَنْ رَّاقَهٗ زِبْرِجُهَا اَعْقَبَتْ نَاظِرَيْهِ كَمَهًا، وَ مَنِ اسْتَشْعَرَ الشَّعَفَ بِهَا مَلَئَتْ ضَمِيْرَهٗۤ اَشْجَانًا، لَهُنَّ رَقْصٌ عَلٰى سُوَيْدَآءِ قَلْبِهٖ: هَمٌّ يَّشْغَلُهٗ وَ هَمٌّ يَّحْزُنُهٗ، كَذٰلِكَ حَتّٰى يُؤْخَذَ بِكَظَمِهٖ فَيُلْقٰى بِالْفَضَآءِ مُنْقَطِعًا اَبْهَرَاهُ، هَيِّنًا عَلَى اللّٰهِ فَنَآؤُهٗ، وَ عَلَى الْاِخْوَانِ اِلْقَآؤُهٗ.
اے لوگو! دنیا کا ساز و سامان سوکھا سڑا بھوسا ہے جو وبا پیدا کرنے والا ہے۔ لہٰذا اس چراگاہ سے دور رہو کہ جس سے چل چلاؤ باطمینان منزل کرنے سے زیادہ فائدہ مند ہے، اور صرف بقدر کفاف لے لینا اس دولت و ثروت سے زیادہ برکت والا ہے۔ اس کے دولت مندوں کیلئے فقر طے ہو چکا ہے اور اس سے بے نیاز رہنے والوں کو راحت کا سہارا دیا گیا ہے۔ جس کو اس کی سج دھج لبھا لیتی ہے وہ انجام کار اس کی دونوں آنکھوں کو اندھا کر دیتی ہے، اور جو اس کی چاہت کو اپنا شعار بنا لیتا ہے وہ اس کے دل کو ایسے غموں سے بھر دیتی ہے جو دل کی گہرائیوں میں تلاطم برپا کرتے ہیں۔ یوں کہ کبھی کوئی فکر اسے گھیرے رہتی ہے اور کبھی کوئی اندیشہ اسے رنجیدہ بنائے رہتا ہے۔ وہ اسی حالت میں ہوتا ہے کہ اس کا گلاگھوٹا جانے لگتا ہے، اور وہ بیابان میں ڈال دیا جاتا ہے اس عالم میں کہ اس کے دل کی دونوں رگیں ٹوٹ چکی ہوتی ہیں۔ اللہ کو اس کا فنا کرنا سہل اور اس کے بھائی بندوں کا اسے قبر میں اتارنا آسان ہو جاتا ہے۔
وَ اِنَّمَا يَنْظُرُ الْمُؤْمِنُ اِلَى الدُّنْيَا بِعَيْنِ الْاِعْتِبَارِ، وَ يَقْتَاتُ مِنْهَا بِبَطْنِ الْاِضْطِرَارِ، وَ يَسْمَعُ فِيْهَا بِاُذُنِ الْمَقْتِ وَ الْاِبْغَاضِ، اِنْ قِيْلَ اَثْرٰى قِيْلَ اَكْدٰى، وَ اِنْ فُرِحَ لَهٗ بِالْبَقَآءِ حُزِنَ لَهٗ بِالْفَنَآءِ، هٰذَا وَ لَمْ يَاْتِهِمْ يَوْمٌ فِيْهِ يُبْلِسُوْنَ.
مومن دنیا کو عبرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس سے اتنی ہی غذا حاصل کرتا ہے جتنی پیٹ کی ضرورت مجبور کرتی ہے، اور اس کے بارے میں ہر بات کو بغض و عناد کے کانوں سے سنتا ہے۔ اگر کسی کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ مالدار ہو گیا ہے تو پھر یہ بھی کہنے میں آتا ہے کہ نادار ہو گیا ہے۔ اگر زندگی پر خوشی کی جاتی ہے تو مرنے پر غم بھی ہوتا ہے۔ یہ حالت ہے، حالانکہ ابھی وہ دن نہیں آیا کہ جس میں پوری مایوسی چھا جائے گی۔