نہج البلاغہ حکمت 466: ایک استعارہ
(٤٦٦) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۴۶۶)
اَلْعَیْنُ وِكَآءُ السَّهِ.
آنکھ عقب کیلئے تسمہ ہے۔
قَالَ الرَّضِیُّ: وَ هٰذِهٖ مِنَ الْاِسْتِعَارَاتِ الْعَجِیْبَةِ، كَاَنَّهٗ شَبَّهَ السَّهَ بِالْوِعَآءِ، وَ الْعَیْنَ بِالْوِكَآءِ، فَاِذَا اُطْلِقَ الْوِكَآءُ لَمْ یَنْضَبِطِ الْوِعَآءُ.
سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ: یہ کلام عجیب و غریب استعارات میں سے ہے۔ گویا آپؑ نے عقب کو ظرف سے اور آنکھ کو تسمہ سے تشبیہ دی ہے۔ اور جب تسمہ کھول دیا جائے تو برتن (میں جو کچھ ہوتا ہے) رک نہیں سکتا۔
وَ هٰذَا الْقَوْلُ فِی الْاَشْهَرِ الْاَظْهَرِ مِنْ كَلَامِ النَّبِیِّ ﷺ، وَ قَدْ رَوَاهُ قَوْمٌ لِاَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَیْهِ السَّلَامُ ، وَ ذَكَرَ ذٰلِكَ الْمُبَرَّدُ فِیْ كِتَابِ »الْمُقْتَضَبِ« فِیْ بَابِ اللَّفْظِ بِالْحُرُوْفِ، وَ قَدْ تَكَلَّمْنَا عَلٰى هٰذِهِ الْاِسْتِعَارَةِ فِیْ كِتَابِنَا الْمَوْسُوْمِ: بِـ «مَجَازَاتِ الْاٰثَارِ النَّبَوِیَّةِ».
مشہور و واضح یہ ہے کہ یہ پیغمبر ﷺ کا ارشاد ہے، مگر کچھ لوگوں نے اسے امیر المومنین علیہ السلام سے بھی روایت کیا ہے۔ چنانچہ مبرد نے اس کا اپنی کتاب ’’المقتضب‘‘ باب اللفظ بالحروف میں ذکر کیا ہے اور ہم نے اپنی کتاب ’’مجازات الآثار النبویہ‘‘ میں اس استعارہ کے متعلق بحث کی ہے۔