ترجمه قرآن کریم

سورۃ حجر

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ الف لام را ،یہ کتاب اور قرآن مبین کی آیات ہیں۔

    پارہ : رُبَمَا 14

    ٢۔ ایک وقت ایسا ہو گا کہ کافر لوگ آرزو کریں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے۔

    ٣۔ انہیں چھوڑ دیجئے کہ وہ کھائیں اور مزے کریں اور ( طویل )آرزوئیں انہیں غافل بنا دیں کہ عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا۔

    ٤۔ اور ہم نے کسی بستی کو ہلاکت میں نہیں ڈالا مگر یہ کہ اس کے لیے ایک معینہ مدت لکھی ہوئی تھی۔

    ٥۔ کوئی قوم اپنی معینہ مدت سے نہ آگے نکل سکتی ہے اور نہ پیچھے رہ سکتی ہے۔

    ٦۔ اور (کافر لوگ) کہتے ہیں : اے وہ شخص جس پر ذکر نازل کیا گیا ہے یقیناً تو مجنون ہے۔

    ٧۔ اگر تو سچا ہے تو ہمارے سامنے فرشتوں کو کیوں نہیں لاتا؟

    ٨۔ (کہہ دیجئے ) ہم فرشتوں کو صرف (فیصلہ کن) حق کے ساتھ ہی نازل کرتے ہیں اور پھر کافروں کو مہلت نہیں دیتے۔

    ٩۔ اس ذ کر کو یقیناً ہم ہی نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔

    ١٠۔ اور بتحقیق ہم نے آپ سے پہلے بھی گزشتہ قوموں میں رسول بھیجے ہیں۔

    ١١۔ اور ان کے پاس کوئی رسول ایسا نہیں آیا جس کا انہوں نے استہزاء نہ کیا ہو۔

    ١٢۔ اسی طرح ہم اس ذکر کو مجرموں کے دلوں میں سے گزارتے ہیں ،

    ١٣۔ کہ وہ اس (رسول) پر ایمان نہیں لائیں گے اور بے شک پہلوں کی روش بھی یہی رہی ہے۔

    ١٤۔ اور اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیں اور وہ روز روشن میں اس پر چڑھتے چلے جائیں۔

    ١٥۔ تو یہی کہیں گے : ہماری آنکھوں کو یقیناً مدہوش کیا گیا بلکہ ہم پر جادو کیا گیا ہے۔

    ١٦۔ اور بتحقیق ہم نے آسمانوں میں نمایاں ستارے بنا دیے اور دیکھنے والوں کے لیے انہیں زیبائی بخشی۔

    ١٧۔ اور ہم نے ہر شیطان مردود سے انہیں محفوظ کر دیا ہے۔

    ١٨۔ ہاں اگر کوئی چوری چھپے سننے کی کوشش کرے تو ایک چمکتا ہوا شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔

    ١٩۔ اور زمین کو ہم نے پھیلایا اور اس میں پہاڑ گاڑ دیے اور ہم نے زمین میں معینہ مقدار کی ہر چیز اگائی۔

    ٢٠۔ اور ہم نے تمہارے لیے زمین میں سامان زیست فراہم کیا اور ان مخلوقات کے لیے بھی جن کی روزی تمہارے ذمے نہیں ہے۔

    ٢١۔ اور کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں پھر ہم اسے مناسب مقدار کے ساتھ نازل کرتے ہیں۔

    ٢٢۔ اور ہم نے بار دار کنندہ ہوائیں چلائیں پھر ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے تمہیں سیراب کیا (ورنہ) تم اسے جمع نہیں رکھ سکتے تھے۔

    ٢٣۔ اور بے شک ہم ہی زندہ کرتے اور مارتے ہیں اور ہم ہی وارث ہیں۔

    ٢٤۔ اور بتحقیق ہم تم میں سے اگلوں کو بھی جانتے ہیں اور پچھلوں کو بھی جانتے ہیں۔

    ٢٥۔ اور آپ کا رب ہی ان سب کو (ایک جگہ) جمع کرے گا، بے شک وہ بڑا حکمت والا، علم والا ہے۔

    ٢٦۔ بتحقیق ہم نے انسان کو سڑے ہوئے گارے سے تیار شدہ خشک مٹی سے پیدا کیا۔

    ٢٧۔ اور اس سے پہلے ہم لو (گرم ہوا) سے جنوں کو پیدا کر چکے تھے۔

    ٢٨۔ اور ( وہ موقع یاد رکھو) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا: میں سڑے ہوئے گارے سے تیار شدہ خشک مٹی سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں۔

    ٢٩۔ پھر جب میں اس کی تخلیق مکمل کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدہ ریز ہو جاؤ۔

    ٣٠۔ پس تمام کے تمام فرشتوں نے سجدہ کر لیا،

    ٣١۔ سوائے ابلیس کے کہ اس نے سجدہ کرنے والوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔

    ٣٢۔ اللہ نے فرمایا: اے ابلیس! تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا؟

    ٣٣۔ کہا: میں ایسے بشر کو سجدہ کرنے کا نہیں ہوں جسے تو نے سڑے ہوئے گارے سے تیار شدہ خشک مٹی سے پیدا کیا ہے۔

    ٣٤۔ اللہ نے فرمایا: نکل جا! اس مقام سے کیونکہ تو مردود ہو چکا ہے۔

    ٣٥۔ اور تجھ پر تا روز قیامت لعنت ہو گئی۔

    ٣٦۔ کہا : پروردگارا! پھر مجھے لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن (قیامت) تک مہلت دے دے۔

    ٣٧۔ فرمایا: تو مہلت ملنے والوں میں سے ہے

    ٣٨۔ معین وقت کے دن تک۔

    ٣٩۔ (ابلیس نے ) کہا: میرے رب ! چونکہ تو نے مجھے بہکایا ہے (لہذا) میں بھی زمین میں ان کے لیے (باطل کو) ضرور آراستہ کر کے دکھاؤں گا اور سب کو ضرور بالضرور بہکاؤں گا۔

    ٤٠۔ ان میں سے سوائے تیرے مخلص بندوں کے۔

    ٤١۔ اللہ نے فرمایا: یہی راستہ ہے جو سیدھا مجھ تک پہنچتا ہے۔

    ٤٢۔ جو میرے بندے ہیں ان پر یقیناً تیری بالا دستی نہ ہو گی سوائے ان بہکے ہوئے لوگوں کے جو تیری پیروی کریں۔

    ٤٣۔ ان سب کی وعدہ گاہ جہنم ہے۔

    ٤٤۔ جس کے سات دروازے ہیں ہر دروازے کے لیے ان کا ایک حصہ مخصوص کر دیا گیا ہے۔

    ٤٥۔ (ادھر) اہل تقویٰ یقیناً باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔

    ٤٦۔ (ان سے کہا جائے گا) سلامتی و امن کے ساتھ ان میں داخل ہو جاؤ۔

    ٤٧۔ اور ان کے دلوں میں جو کینہ ہو گا ہم نکال دیں گے وہ برادرانہ طور پر تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔

    ٤٨۔ جہاں نہ انہیں کوئی تکلیف پہنچے گی نہ انہیں وہاں سے نکالا جائے گا۔

    ٤٩۔ (اے رسول) میرے بندوں کو بتا دو کہ میں بڑا درگزر کرنے والا، مہربان ہوں۔

    ٥٠۔ اور یہ کہ میرا عذاب بھی یقیناً بڑا دردناک عذاب ہے۔

    ٥١۔ اور انہیں ابراہیم کے مہمانوں کا حال بھی سنا دو۔

    ٥٢۔ جب وہ ابراہیم کے ہاں داخل ہوئے تو انہوں نے کہا: سلام! ابراہیم نے کہا: ہم تم سے خوفزدہ ہیں۔

    ٥٣۔ کہنے لگے : آپ خوف نہ کریں ہم آپ کو ایک دانا لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں۔

    ٥٤۔ کہا: کیا تم مجھے اس وقت خوشخبری دیتے ہو جب بڑھاپے نے مجھے گرفت میں لے لیا ہے ؟ کس بات کی خوشخبری دیتے ہو؟

    ٥٥۔ کہنے لگے : ہم نے آپ کو سچی خوشخبری دی ہے آپ مایوس نہ ہوں۔

    ٥٦۔ ابراہیم بولے : اپنے رب کی رحمت سے تو صرف گمراہ لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔

    ٥٧۔ پھر فرمایا: اے فرستادگان ! تمہاری مہم کیا ہے ؟

    ٥٨۔ کہنے لگے : ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔

    ٥٩۔مگر آل لوط کہ ان سب کو ہم ضرور بچا لیں گے۔

    ٦٠۔ البتہ ان کی بیوی کے بارے میں ہم نے یہ طے کیا ہے کہ وہ ضرور پیچھے رہ جانے والوں میں ہو گی۔

    ٦١۔ جب یہ فرستادگان آل لوط کے ہاں آئے۔

    ٦٢۔ تو لوط نے کہا: تم تو ناآشنا لوگ ہو۔

    ٦٣۔ کہنے لگے : ہم آپ کے پاس وہی چیز لے کر آئے ہیں جس کے بارے میں لوگ شک کر رہے تھے۔

    ٦٤۔ اور ہم تو آپ کے پاس امر حق لے کر آئے ہیں اور ہم بالکل سچے ہیں۔

    ٦٥۔ لہٰذا آپ اپنے گھر والوں کو لے کر رات کے کسی حصے میں یہاں سے چلے جائیں اور آپ ان کے پیچھے چلیں اور آپ میں سے کوئی شخص مڑ کر نہ دیکھے اور جدھر جانے کا حکم دیا گیا ہے ادھر چلے جائیں۔

    ٦٦۔ اور ہم نے لوط کو اپنا فیصلہ پہنچا دیا کہ صبح ہوتے ہی ان کی جڑ کاٹ دی جائے گی۔

    ٦٧۔ ادھر شہر کے لوگ خوشیاں مناتے (لوط کے گھر) آئے۔

    ٦٨۔ لوط نے کہا: بلا شبہ یہ میرے مہمان ہیں لہٰذا تم مجھے رسوا نہ کرو۔

    ٦٩۔ اور اللہ سے ڈرو اور مجھے بدنام نہ کرو۔

    ٧٠۔ کہنے لگے : کیا ہم نے تمہیں ساری دنیا کے لوگوں (کی پذیرائی ) سے منع نہیں کیا تھا؟

    ٧١۔ لوط نے کہا: یہ میری بیٹیاں ہیں اگر تم کچھ کرنا ہی چاہتے ہو۔

    ٧٢۔ (اے رسول) آپ کی زندگی کی قسم! یقیناً وہ بدمستی میں مدہوش تھے۔

    ٧٣۔ پھر سورج نکلتے وقت انہیں خوفناک آواز نے گرفت میں لے لیا۔

    ٧٤۔ پھر ہم نے کسی بستی کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا اور ہم نے ان پر کنکریلے پتھر برسائے۔

    ٧٥۔ اس واقعہ میں صاحبان فراست کے لیے نشانیاں ہیں۔

    ٧٦۔ اور یہ بستی زیر استعمال گزرگاہ میں (آج بھی) موجود ہے۔

    ٧٧۔ اس میں ایمان والوں کے لیے یقیناً نشانی ہے۔

    ٧٨۔اور ایکہ والے یقیناً بڑے ظالم تھے۔

    ٧٩۔ تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور یہ دونوں بستیاں ایک کھلی شاہراہ پر واقع ہیں۔

    ٨٠۔ اور بتحقیق حجر کے باشندوں نے بھی رسولوں کی تکذیب کی۔

    ٨١۔ اور ہم نے انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں لیکن وہ ان سے منہ پھیرتے تھے۔

    ٨٢۔ اور وہ پہاڑوں کو تراش کر پر امن مکانات بناتے تھے۔

    ٨٣۔ اور انہیں صبح کے وقت ایک خوفناک آواز نے گرفت میں لے لیا۔

    ٨٤۔ پس جو وہ کیا کرتے تھے ان کے کام نہ آیا۔

    ٨٥۔ اور ہم نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان موجودات کو برحق پیدا کیا ہے اور قیامت یقیناً آنے والی ہے لہٰذا (اے رسول)ان سے با وقار انداز میں درگزر کریں۔

    ٨٦۔ یقیناً آپ کا رب خالق اور بڑا دانا ہے۔

    ٨٧۔ اور بتحقیق ہم نے آپ کو (بار بار) دہرائی جانے والی سات (آیات) اور عظیم قرآن عطا کیا ہے۔

    ٨٨۔ (اے رسول) آپ اس سامان عیش کی طرف ہرگز نگاہ نہ اٹھائیں جو ہم نے ان (کافروں ) میں سے مختلف جماعتوں کو دے رکھا ہے اور نہ ہی ان کے حال پر رنجیدہ خاطر ہوں اور آپ مومنوں کے ساتھ تواضع سے پیش آئیں۔

    ٨٩۔ اور کہہ دیجئے : میں تو صریحاً تنبیہ کرنے والا ہوں۔

    ٩٠۔ جیسا (عذاب) ہم نے دھڑے بندی کرنے والوں پر نازل کیا تھا۔

    ٩١۔جنہوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا۔

    ٩٢۔پس آپ کے رب کی قسم ہم ان سب سے ضرور پوچھیں گے۔

    ٩٣۔ان اعمال کی بابت جو وہ کیا کرتے تھے۔

    ٩٤۔ آپ کو جس چیز کا حکم ملا ہے اس کا واشگاف الفاظ میں اعلان کریں اور مشرکین کی اعتنا نہ کریں۔

    ٩٥۔ آپ کے واسطے ان تمسخر کرنے والوں سے نپٹنے کے لیے یقیناً ہم کافی ہیں۔

    ٩٦۔ جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود بنا لیتے ہیں عنقریب انہیں (اپنے انجام کا) علم ہو جائے گا۔

    ٩٧۔ اور بتحقیق ہمیں علم ہے کہ یہ جو کچھ کہ رہے ہیں اس سے آپ یقیناً دل تنگ ہو رہے ہیں۔

    ٩٨۔ پس آپ اپنے رب کی ثنا کے ساتھ تسبیح کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔

    ٩٩۔ اور اپنے رب کی عبادت کریں یہاں تک کہ آپ کو یقین (موت ) آ جائے۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button