ترجمه قرآن کریم

سورہ شعراء

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ طا ، سین، میم

٢۔ یہ کتاب مبین کی آیات ہیں۔

٣۔ شاید اس رنج سے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے آپ اپنی جان کھو دیں گے۔

٤۔ اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے ایسی نشانیاں نازل کر دیں جس کے آگے ان کی گردنیں جھک جائیں۔

٥۔ اور ان کے پاس رحمن کی طرف سے جو بھی تازہ نصیحت آتی ہے تو یہ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔

٦۔ یہ تکذیب کر بیٹھے ہیں تو جس چیز کا یہ لوگ مذاق اڑاتے تھے اب عنقریب اس کی خبریں آنے والی ہیں۔

٧۔ کیا انہوں نے کبھی زمین کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے اس میں کتنی وافر مقدار میں ہر قسم کی نفیس نباتات اگائی ہیں ؟

٨۔ اس میں یقیناً ایک نشانی ضرو رہے مگر ان میں سے اکثر نہیں مانتے۔

٩۔ اور یقیناً آپ کا رب ہی بڑا غالب آنے ولا، رحم کرنے والا ہے۔

١٠۔ اور (وہ وقت یاد کریں ) جب آپ کے رب نے موسیٰ کو پکارا (اور کہا) کہ آپ ظالم لوگوں کے پاس جائیں ،

١١۔ (یعنی) فرعون کی قوم کے پاس، کیا وہ ڈرتے نہیں ؟

١٢۔ موسیٰ نے عرض کی: پروردگارا! مجھے اس بات کا خوف ہے کہ وہ میری تکذیب کریں گے۔

١٣۔ اور میرا سینہ تنگ ہو رہا ہے اور میری زبان نہیں چلتی سو تو ہارون کو (پیغام) بھیج (کہ میرا ساتھ دیں )۔

١٤۔ اور ان لوگوں کے لیے میرے ذمے ایک جرم (کا دعویٰ) بھی ہے لہٰذا مجھے خوف ہے کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے۔

١٥۔ فرمایا: ہرگز نہیں ! آپ دونوں ہماری نشانیاں لے کر جائیں کہ ہم آپ کے ساتھ سنتے رہیں گے۔

١٦۔ آپ دونوں فرعون کے پاس جائیں اور (اس سے ) کہیں : ہم رب العالمین کے رسول ہیں ،

١٧۔ کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے۔

١٨۔ فرعون نے کہا: کیا ہم نے تجھے بچپن میں اپنے ہاں نہیں پالا؟ اور تو نے اپنی عمر کے کئی سال ہمارے ہاں بسر کیے۔

١٩۔ اور تو کر گیا اپنا وہ کرتوت جو کر گیا اور تو ناشکروں میں سے ہے۔

٢٠۔ موسیٰ نے کہا: ہاں اس وقت وہ حرکت مجھ سے سرزد ہو گئی تھی اور میں خطا کاروں میں سے تھا۔

٢١۔اسی لیے جب میں نے تم لوگوں سے خوف محسوس کیا تو میں نے تم سے گریز کیا پھر میرے رب نے مجھے حکمت عنایت فرمائی اور مجھے رسولوں میں سے قرار دیا۔

٢٢۔ اور تم مجھ پر اس بات کا احسان جتاتے ہو کہ تم نے بنی اسرائیل کو غلام بنائے رکھا ہے ؟ (یہ تو غلامی تھی احسان نہیں تھا)۔

٢٣۔ فرعون نے کہا: اور رب العالمین کیا ہے ؟

٢٤۔ موسیٰ نے کہا : آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب کا رب، اگر تم یقین کرنے والے ہو۔

٢٥۔ فرعون نے اپنے اردگرد کے درباریوں سے کہا : کیا تم سنتے نہیں ہو؟

٢٦۔ موسیٰ نے کہا: وہ تمہارا اور تمہارے پہلے باپ دادا کا پروردگار ہے۔

٢٧۔ فرعون نے (لوگوں سے )کہا: جو رسول تمہاری طرف بھیجا گیا ہے وہ دیوانہ ہے۔

٢٨۔ موسیٰ نے کہا: وہ مشرق و مغرب اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے کا پروردگار ہے ، اگر تم عقل رکھتے ہو۔

٢٩۔ فرعون نے کہا: اگر تم نے میرے علاوہ کسی کو معبود بنایا تو میں تمہیں قیدیوں میں شامل کروں گا۔

٣٠۔ موسیٰ نے کہا: اگر میں تیرے پاس واضح چیز (معجزہ) لے آؤں تو؟

٣١۔ فرعون نے کہا: اگر تم سچے ہو تو اسے لے آؤ۔

٣٢۔ پس موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا تو وہ دفعتاً نمایاں اژدھا بن گیا۔

٣٣۔ اور (گریبان سے ) اپنا ہاتھ نکالا تو وہ تمام ناظرین کے لیے چمک رہا تھا۔

٣٤۔فرعون نے اپنے گرد و پیش کے درباریوں سے کہا: یقیناً یہ شخص بڑا ماہر جادو گر ہے۔

٣٥۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے ذریعے تمہیں تمہاری سرزمین سے نکال باہر کرے تو اب تم کیا مشورہ دیتے ہو؟

٣٦۔ وہ کہنے لگے : اسے اور اس کے بھائی کو مہلت دو اور شہروں میں ہرکارے بھیج دو

٣٧۔ کہ وہ تمام ماہر جادوگروں کو تمہارے پاس لے آئیں۔

٣٨۔ چنانچہ مقررہ دن کے مقررہ وقت پر جادوگر جمع کر لیے گئے۔

٣٩۔ اور لوگوں سے کہا گیا کیا تم جمع ہو جاؤ گے ؟

٤٠۔ شاید ہم جادوگروں کے پیچھے چلیں اگر یہ لوگ غالب رہیں۔

٤١۔ جب جادوگر آ گئے تو فرعون سے کہنے لگے : اگر ہم غالب رہے تو ہمارے لیے کوئی صلہ بھی ہو گا؟

٤٢۔ فرعون نے کہا: ہاں ! اور اس صورت میں تو تم مقربین میں سے ہو جاؤ گے۔

٤٣۔موسیٰ نے ان سے کہا: تمہیں جو پھینکنا ہے پھینکو۔

٤٤۔ انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈال دیں اور کہنے لگے : فرعون کے جاہ و جلال کی قسم بے شک ہم ہی غالب آئیں گے۔

٤٥۔ پھر موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا تو اس نے دفعتاً ان کے سارے خود ساختہ دھندے کو نگل لیا۔

٤٦۔ اس پر تمام جادوگر سجدے میں گر پڑے۔

٤٧۔ کہنے لگے : ہم عالمین کے پروردگار پر ایمان لے آئے ،

٤٨۔ موسیٰ اور ہارون کے رب پر۔

٤٩۔ فرعون نے کہا: میری اجازت سے پہلے تم موسیٰ کو مان گئے ؟ یقیناً یہ (موسیٰ) تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے ابھی تمہیں (تمہارا انجام) معلوم ہو جائے گا، میں تمہارے ہاتھ اور تمہارے پاؤں مخالف سمتوں سے ضرور کٹوا دوں گا اور تم سب کو ضرور سولی پر لٹکا دوں گا۔

٥٠۔وہ بولے کوئی حرج نہیں ہم اپنے رب ے حضور لوٹ جائیں گے ،

٥١۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہماری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا کیونکہ ہم سب سے پہلے ایما ن لائے ہیں۔

٥٢۔ اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں کو لے کر رات کو نکل پڑیں یقیناً آپ کا تعاقب کیا جائے گا۔

٥٣۔(ادھر) فرعون نے شہروں میں ہرکارے بھیج دیے ،

٥٤۔ (ان کے ساتھ یہ کہلا بھیجا) کہ بے شک یہ لوگ چھوٹی سی جماعت ہیں۔

٥٥۔ اور انہوں نے ہمیں بہت غصہ دلایا ہے۔

٥٦۔ اور اب ہم سب پوری طرح مستعد ہیں۔

٥٧۔ چنانچہ ہم نے انہیں باغوں اور چشموں سے نکال دیا ہے۔

٥٨۔ اور خزانوں اور بہترین رہائش گاہوں سے بھی۔

٥٩۔ اس طرح ہم نے بنی اسرائیل کو ان کا وارث بنا دیا۔

٦٠۔ چنانچہ صبح ہوتے ہی (فرعون کے ) لوگ ان کے تعاقب میں نکل پڑے۔

٦١۔ جب دونوں گروہ ایک دوسرے کو دکھائی دینے لگے تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا: ہم تو پکڑے جانے والے ہیں۔

٦٢۔ موسیٰ نے کہا: ہرگز نہیں ! میرا پروردگار یقیناً میرے ساتھ ہے ، وہ مجھے راستہ دکھا دے گا۔

٦٣۔ پھر ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی اپنا عصا سمندر پر ماریں چنانچہ دریا پھٹ گیا اور اس کا ہر حصہ عظیم پہاڑ کی طرح ہو گیا۔

٦٤۔ اور وہاں ہم نے دوسرے گروہ کو بھی نزدیک کر دیا ،٦٥۔ پھر ہم نے موسیٰ اور ان کے تمام ساتھیوں کو بچا لیا۔

٦٦۔ اس کے بعد دوسروں کو غرق کر دیا۔

٦٧۔ اس واقعے میں ایک نشانی ہے پھر بھی ان میں سے اکثر ایمان نہیں لائے۔

٦٨۔ اور یقیناً آپ کا پروردگار ہی بڑا غالب آنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

٦٩۔ اور انہیں ابراہیم کا واقعہ (بھی) سنا دیجئے :

٧٠۔ انہوں نے اپنے باپ (چچا) اور اپنی قوم سے کہا: تم کس چیز کو پوجتے ہو؟

٧١۔ انہوں نے جواب دیا: ہم بتوں کو پوجتے ہیں اور اس پر ہم قائم رہتے ہیں۔

٧٢۔ ابراہیم نے کہا: جب تم انہیں پکارتے ہو تو کیا یہ تمہاری سنتے ہیں ؟

٧٣۔ یا تمہیں فائدہ یا ضرر دیتے ہیں ؟

٧٤۔ انہوں نے کہا: (نہیں ) بلکہ ہم نے تو اپنے باپ دادا کو ایسا کرتے پایا ہے۔

٧٥۔ ابراہیم نے کہا: کیا تم نے ان کی حالت دیکھی ہے جنہیں تم پوجتے ہو؟

٧٦۔ تم اور تمہارے گزشتہ باپ دادا بھی (پوجتے رہے ہیں )۔

٧٧۔ یقیناً یہ سب میرے دشمن ہیں سوائے رب العالمین کے ،

٧٨۔ جس نے مجھے پیدا کیا پھر وہی مجھے ہدایت دیتا ہے ،

٧٩۔ اور وہی مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے ،

٨٠۔ اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔

٨١۔ اور وہی مجھے موت دے گا پھر مجھے زندگی عطا کرے گا۔

٨٢۔ اور میں اسی سے امید رکھتا ہوں کہ روز قیامت میری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔

٨٣۔ پروردگارا! مجھے حکمت عطا کر اور صالحین میں شامل فرما۔

٨٤۔ اور آنے والوں میں مجھے حقیقی ذکر جمیل عطا فرما۔

٨٥۔ اور مجھے نعمتوں والی جنت کا وارث قرار دے۔

٨٦۔ اور میرے باپ (چچا) کو بخش دے کیونکہ وہ گمراہوں میں سے ہے۔

٨٧۔ اور مجھے اس روز رسوا نہ کرنا جب لوگ (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے۔

٨٨۔ اس روز نہ مال کچھ فائدہ دے گا اور نہ اولاد۔

٨٩۔ سوائے اس کے جو اللہ کے حضور قلب سلیم لے کر آئے۔

٩٠۔ اس روز جنت پرہیزگاروں کے نزدیک لائی جائے گی۔

٩١۔ اور جہنم گمراہوں کے لیے ظاہر کی جائے گی۔

٩٢۔ پھر ان سے پوچھا جائے گا : تمہارے وہ معبود کہاں ہے ؟

٩٣۔ اللہ کو چھوڑ کر (جنہیں تم پوجتے تھے ) کیا وہ تمہاری مدد کر رہے ہیں یا خود کو بچا سکتے ہیں ؟

٩٤۔ چنانچہ یہ خود اور گمراہ لوگ منہ کے بل جہنم میں گرا دیے جائیں گے۔

٩٥۔ اور سارے ابلیسی لشکر سمیت۔

٩٦۔ اور وہ اس میں جھگڑتے ہوئے کہیں گے :

٩٧۔ قسم بخدا! ہم تو صریح گمراہی میں تھے۔

٩٨۔ جب ہم تمہیں رب العالمین کے برابر درجہ دیتے تھے۔

٩٩۔ اور ہمیں تو ان مجرموں نے گمراہ کیا ہے۔

١٠٠۔ (آج) ہمارے لیے نہ تو کوئی شفاعت کرنے والا ہے ،

١٠١۔ اور نہ کوئی سچا دوست ہے۔

١٠٢۔ کاش! ہمیں ایک مرتبہ پھر پلٹنے کا موقع مل جاتا تو ہم مومنین میں سے ہوتے۔

١٠٣۔ یقیناً اس میں ایک نشانی ہے لیکن ان میں اکثر ایمان نہیں لاتے۔

١٠٤۔ اور یقیناً آپ کا پروردگار ہی غالب آنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

١٠٥۔ نوح کی قوم نے بھی پیغمبروں کی تکذیب کی۔

١٠٦۔ جب ان کی برادری کے نوح نے ان سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے ہو؟

١٠٧۔ میں تمہارے لیے ایک امانتدار رسول ہوں ،

١٠٨۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

١٠٩۔ اور اس کام پر میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا میرا اجر تو صرف رب العالمین پر ہے۔

١١٠۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

١١١۔ انہوں نے کہا: ہم تم پر کیسے ایمان لے آئیں جب کہ ادنی درجے کے لوگ تمہارے پیروکار ہیں۔

١١٢۔نوح نے کہا: مجھے علم نہیں وہ کیا کرتے رہے ہیں۔

١١٣۔ ان کا حساب تو صرف میرے رب کے ذمے ہے ، کاش تم اسے سمجھتے۔

١١٤۔ اور میں مومنوں کو دھتکار نہیں سکتا۔

١١٥۔ میں تو صرف صاف اور صریح انداز میں تنبیہ کرنے والا ہو۔

١١٦۔ ان لوگوں نے کہا: اے نوح! اگر تم باز نہ آئے تو تمہیں ضرور سنگسار کر دیا جائے گا۔

١١٧۔ نوح نے کہا: اے میرے پروردگار! بتحقیق میری قوم نے میری تکذیب کی ہے۔

١١٨۔ پس تو ہی میرے اور ان کے درمیان حتمی فیصلہ فرما اور مجھے اور جو میرے ساتھ مؤمنین ہیں ان کو نجات دے۔

١١٩۔ چنانچہ ہم نے انہیں اور جو ان کے ہمراہ بھری کشتی میں سوار تھے سب کو بچا لیا۔

١٢٠۔ اس کے بعد ہم نے باقی سب کو غرق کر دیا۔

١٢١۔ یقیناً اس میں بھی ایک نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر ایمان نہیں لاتے۔

١٢٢۔ اور یقیناً آپ کا رب ہی بڑا غالب آنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

١٢٣۔قوم عاد نے پیغمبروں کی تکذیب کی۔

١٢٤۔ جب ان کی برادری کے ہود نے ان سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے ؟

١٢٥۔ میں تمہارے لیے ایک امانتدار رسول ہوں۔

١٢٦۔ لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

١٢٧۔ اور اس کام پر میں تم سے اجر نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف رب العالمین پر ہے۔

١٢٨۔ کیا تم ہر اونچی جگہ پر ایک بے سود یادگار بناتے ہو؟

١٢٩۔ اور تم بڑے محلات بناتے ہو گویا تم نے ہمیشہ رہنا ہے۔

١٣٠۔ اور جب تم (کسی پر) حملہ کرتے ہو تو نہایت جابرانہ انداز میں حملہ آور ہوتے ہو۔

١٣١۔ پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

١٣٢۔نیز اس سے ڈرو جس نے ان چیزوں سے تمہاری مدد کی جن کا تمہیں (بخوبی) علم ہے۔

١٣٣۔ اس نے تمہیں جانوروں اور اولاد سے نوازا۔

١٣٤۔نیز باغات اور چشموں سے مالا مال کر دیا۔

١٣٥۔ بلاشبہ مجھے تمہارے بارے میں ایک بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے۔

١٣٦۔ انہوں نے کہا: تم نصیحت کرو یا نہ کرو ہمارے لیے یکساں ہے۔

١٣٧۔ یہ تو بس پرانے لوگوں کی عادات ہیں۔

١٣٨۔ اور ہمیں عذاب نہیں دیا جائے گا۔

١٣٩۔ (اس طرح) انہوں نے ہود کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں ہلاکت میں ڈال دیا، یقیناً اس میں بھی ایک نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہ تھے۔

١٤٠۔ اور بتحقیق آپ کا پروردگار ہی بڑا غالب آنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

١٤١۔ (قوم) ثمود نے بھی رسولوں کو جھٹلایا۔

١٤٢۔ جب ان کی برادری کے صالح نے ان سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے ؟

١٤٣۔ میں تمہارے لیے ایک امانتدار رسول ہوں۔

١٤٤۔پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

١٤٥۔ اور اس بات پر میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا،میرا اجر تو صرف رب العالمین پر ہے۔

١٤٦۔کیا تم لوگ یہاں پر موجود چیزوں (نعمتوں ) میں یوں ہی بے فکر چھوڑ دیے جاؤ گے ؟

١٤٧۔ باغوں اور چشموں میں ،

١٤٨۔ اور کھیتیوں اور کھجوروں میں جن کے نرم خوشے ہیں ،

١٤٩۔ اور تم پہاڑوں کو بڑی مہارت سے تراش کر گھر بناتے ہو۔

١٥٠۔ پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

١٥١۔ اور حد سے تجاوز کرنے والوں کے حکم کی اطاعت نہ کرو۔

١٥٢۔ جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔

١٥٣۔ لوگوں نے کہا: تم تو بلاشبہ سحرزدہ آدمی ہو۔

١٥٤۔ اور تم ہم جیسے بشر کے سوا اور کچھ نہیں ہو، پس اگر تم سچے ہو تو کوئی نشانی (معجزہ ) پیش کرو۔

١٥٥۔ صالح نے کہا: یہ ایک اونٹنی ہے ، ایک مقررہ دن اس کے پانی پینے کی باری ہو گی اور ایک مقررہ دن تمہارے پانی پینے کی باری ہو گی۔

١٥٦۔ اور اسے بری نیت سے نہ چھونا ورنہ ایک بڑے (ہولناک) دن کا عذاب تمہیں گرفت میں لے لے گا۔

١٥٧۔ تو انہوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں پھر وہ ندامت میں مبتلا ہوئے۔

١٥٨۔ چنانچہ عذاب نے انہیں گرفت میں لے لیا، یقیناً اس میں ایک نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر ایمان نہیں لاتے۔

١٥٩۔ اور بے شک آپ کا پروردگار ہی بڑا غالب آنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

١٦٠۔ قوم لوط نے (بھی) رسولوں کی تکذیب کی۔

١٦١۔ جب ان کی برادری کے لوط نے ان سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے ؟

١٦٢۔میں تمہارے لیے ایک امانتدار رسول ہوں۔

١٦٣۔ پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

١٦٤۔ اور میں اس کام پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا میرا اجر تو بس رب العالمین پر ہے۔

١٦٥۔ کیا ساری دنیا میں سے تم (شہوت رانی کے لیے ) مردوں کے پاس ہی جاتے ہو؟

١٦٦۔اور تمہارے رب نے جو بیویاں تمہارے لیے خلق کی ہیں انہیں چھوڑ دیتے ہو؟ بلکہ تم تو حد سے تجاوز کرنے والی قوم ہو۔

١٦٧۔ وہ کہنے لگے : اے لوط! اگر تو باز نہ آیا تو تو ضرور نکال دیا جائے گا۔

١٦٨۔ لوط نے کہا: میں تمہارے اس کر دار کے سخت دشمنوں میں سے ہوں۔

١٦٩۔ پروردگارا! مجھے اور میرے گھر والوں کو ان کے (برے ) کر دار سے نجات عطا فرما۔

١٧٠۔ چنانچہ ہم نے انہیں اور ان کے تمام اہل خانہ کو نجات دی۔

١٧١۔ سوائے ایک بڑھیا کے جو پیچھے رہنے والوں میں رہ گئی۔

١٧٢۔ پھر ہم نے باقی سب کو تباہ کر کے رکھ دیا۔

١٧٣۔ اور ان پر ہم نے بارش برسائی، پس تنبیہ شدہ لوگوں پر یہ بہت بری بارش تھی۔

١٧٤۔ یقیناً اس میں ایک نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں۔

١٧٥۔ اور یقیناً آپ کا رب ہی بڑا غالب آنے والا ، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

١٧٦۔ ایکہ والوں نے بھی رسولوں کی تکذیب کی۔

١٧٧۔ جب شعیب نے ان سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے ؟

١٧٨۔میں تمہارے لیے ایک امانتدار رسول ہوں۔

١٧٩۔ پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

١٨٠۔ اور اس کام پر میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا،میرا اجر تو صرف رب العالمین پر ہے۔

١٨١۔ تم پیمانہ پورا بھرو اور نقصان پہنچانے والوں میں سے نہ ہونا۔

١٨٢۔ اور سیدھی ترازو سے تولا کرو۔

١٨٣۔اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے نہ دیا کرو اور زمین میں فساد پھیلاتے مت پھرو۔

١٨٤۔ اور اس اللہ سے ڈرو جس نے تمہیں اور گزشتہ نسلوں کو پیدا کیا ہے

١٨٥۔ انہوں نے کہا: تم تو بس سحرزدہ ہو۔

١٨٦۔ اور تم تو بس ہم جیسے انسان ہو نیز ہمارا خیال ہے کہ تم جھوٹے ہو۔

١٨٧۔ پس تم سچے ہو تو آسمان کا کوئی ٹکڑا ہم پر گرا دو۔

١٨٨۔ شعیب نے کہا: میرا پروردگار تمہارے اعمال سے خوب واقف ہے۔

١٨٩۔ انہوں نے شعیب کو جھٹلا ہی دیا، چنانچہ سائبان والے دن کے عذاب نے انہیں گرفت میں لے لیا، بے شک وہ بہت بڑے (ہولناک) دن کا عذاب تھا۔

١٩٠۔ اس میں یقیناً ایک نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہ تھے۔

١٩١۔ اور یقیناً آپ کا پروردگار ہی بڑا غالب آنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

١٩٢۔ اور بتحقیق یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل کیا ہو ا ہے۔

١٩٣۔ جسے روح الامین نے اتارا،

١٩٤۔ آپ کے قلب پر تاکہ آپ تنبیہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں ،

١٩٥۔ صاف عربی زبان میں۔

١٩٦۔ اور اس (قرآن) کا ذکر (انبیائے ) ماسلف کی کتب میں بھی ہے۔

١٩٧۔ کیا یہ قرآن ان کے لیے ایک نشانی (معجزہ) نہیں ہے کہ اس بات کو بنی اسرائیل کے علماء جانتے ہیں۔

١٩٨۔ اور اگر ہم اس قرآن کو کسی غیر عربی پر نازل کرتے ،

١٩٩۔ اور وہ اسے پڑھ کر انہیں سنا دیتا تب بھی یہ اس پر ایمان نہ لاتے۔

٢٠٠۔ اس طرح (کے دلائل دے کر) ہم نے اس قرآن کو ان مجرموں کے دلوں میں سے گزارا ہے۔

٢٠١۔ پھر بھی وہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک دردناک عذاب دیکھ نہ لیں۔

٢٠٢۔ پس یہ عذاب ناگہاں اور بے خبری میں ان پر واقع ہو گا۔

٢٠٣۔ تو وہ کہیں گے : کیا ہمیں مہلت مل سکے گی؟

٢٠٤۔ کیا یہ لوگ ہمارے عذاب کے لیے عجلت کر رہے ہیں ؟

٢٠٥۔ تو کیا آپ نے دیکھا کہ اگر ہم انہیں برسوں سامان زندگی دیتے رہیں ،

٢٠٦۔ پھر ان پر وہ عذاب آ جائے جس کا ان کے ساتھ وعدہ ہوا تھا،

٢٠٧۔ تو وہ (سامان زندگی) ان کے کسی کام نہ آئے گا جو انہیں دیا گیا تھا۔

٢٠٨۔ اور ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا مگر یہ کہ اس بستی کو تنبیہ کرنے والے تھے۔

٢٠٩۔ یاد دہانی کے لیے ، اور ہم کبھی بھی ظالم نہ تھے۔

٢١٠۔ اور اس قرآن کو شیاطین نے نہیں اتارا

٢١١۔ اور نہ یہ کام ان سے کوئی مناسبت رکھتا ہے اور نہ ہی وہ استطاعت رکھتے ہیں۔

٢١٢۔ وہ تو یقیناً (وحی کے ) سننے سے بھی دور رکھے گئے ہیں۔

٢١٣۔پس آپ اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکاریں ورنہ آپ بھی عذاب پانے والوں میں شامل ہو جائیں گے۔

٢١٤۔ اور اپنے قریب ترین رشتے داروں کو تنبیہ کیجیے۔

٢١٥۔ اور مومنین میں سے جو آپ کی پیروی کریں ان کے ساتھ تواضع سے پیش آئیں۔

٢١٦۔ اگر وہ آپ کی نافرمانی کریں تو ان سے کہہ دیجئے کہ میں تمہارے کر دار سے بیزار ہوں۔

٢١٧۔ اور بڑے غالب آنے والے مہربان پر بھروسہ رکھیں۔

٢١٨۔ جو آپ کو اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب آپ (نماز کے لیے ) اٹھتے ہیں۔

٢١٩۔ اور سجدہ کرنے والوں میں آپ کی نشست و برخاست کو بھی۔

٢٢٠۔ وہ یقیناً بڑا سننے والا، جاننے والا ہے۔

٢٢١۔ کیا میں تمہیں خبر دوں کہ شیاطین کس پر اترتے ہیں ؟

٢٢٢۔ ہر جھوٹے بدکار پر (اترتے ہیں )۔

٢٢٣۔ وہ کان لگائے رکھتے ہیں اور ان میں اکثر جھوٹے ہیں۔

٢٢٤۔ اور شاعروں کی پیروی تو گمراہ لوگ کرتے ہیں۔

٢٢٥۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ یہ لوگ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔

٢٢٦۔ اور جو کہتے ہیں اسے کرتے نہیں۔

٢٢٧۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے اور کثرت سے اللہ کو یاد کریں اور مظلوم واقع ہونے کے بعد انتقام لیں اور ظالموں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام کو پلٹ کر جائیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button