سورہ نمل
بنام خدائے رحمن و رحیم
١۔ طا، سین، یہ قرآن اور کتاب مبین کی آیات ہیں۔
٢۔ مومنین کے لیے ہدایت و بشارت ہیں۔
٣۔ جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔
٤۔ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے یقیناً ان کے لیے ہم نے ان کے افعال خوشنما بنا دیے ہیں پس وہ سرگرداں پھرتے ہیں۔
٥۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے برا عذاب ہے اور آخرت میں یہی سب سے زیادہ خسارے میں ہوں گے۔
٦۔ اور (اے رسول) یہ قرآن آپ کو یقیناً ایک حکیم، دانا کی طرف سے دیا جا رہا ہے۔
٧۔ (اس وقت کا ذکر کرو) جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا:میں نے ایک آگ دیکھی ہے ، میں جلد ہی اس میں سے کوئی خبر لے کر تمہارے پاس آتا ہوں یا انگارا سلگا کر تمہارے پاس لاتا ہوں تاکہ تم تاپو۔
٨۔ جب موسیٰ آگ کے پاس پہنچے تو ندا دی گئی: بابرکت ہو وہ (جس کا جلوہ) آگ کے اندر ہے اور (بابرکت ہو) وہ جو اس کے پاس ہے اور پاکیزہ ہے سارے جہاں کا پروردگار اللہ۔
٩۔ اے موسیٰ! یقیناً میں ہی غالب آنے والا، حکمت والا اللہ ہوں۔
١٠۔ اور آپ اپنا عصا پھینک دیں ، جب موسیٰ نے دیکھا کہ عصا سانپ کی طرح جنبش میں آ گیا ہے پیٹھ پھیر کر پلٹے اور پیچھے مڑ کر (بھی) نہ دیکھا (ندا آئی) اے موسیٰ! ڈریے نہیں ، بے شک میرے حضور مرسلین ڈرا نہیں کرتے۔
١١۔ البتہ جس نے ظلم کا ارتکاب کیا ہو پھر برائی کے بعد اسے نیکی میں بدل دیا ہو تو یقیناً میں بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہوں۔
١٢۔ اور اپنا ہاتھ تو اپنے گریبان میں ڈالیے بغیر کسی عیب کے چمکتا ہوا نکلے گا، یہ ان نو نشانیوں میں سے ہے جنہیں لے کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف (آپ کو جانا ہے ) بے شک وہ بڑے فاسق لو گ ہیں۔
١٣۔ جب ہماری نشانیاں نمایاں ہو کر ان کے پاس آئیں تو انہوں نے کہا: یہ تو صریح جادو ہے۔
١٤۔ وہ ان نشانیوں کے منکر ہوئے حالانکہ ان کے دلوں کو یقین آ گیا تھا، ایسا انہوں نے ظلم اور غرور کی وجہ سے کیا، پس اب دیکھ لو کہ ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا۔
١٥۔ اور بتحقیق ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم دیا اور ان دونوں نے کہا: ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عنایت فرمائی۔
١٦۔ اور سلیمان داؤد کے وارث بنے اور بولے : اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی کی تعلیم دی گئی ہے اور ہمیں سب طرح کی چیزیں عنایت ہوئی ہیں ، بے شک یہ تو ایک نمایاں فضل ہے۔
١٧۔ اور سلیمان کے لیے جنوں اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے اور ان کی جماعت بندی کی جاتی تھی۔
١٨۔ یہاں تک کہ جب وہ چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا: اے چیونٹیو! اپنے اپنے گھروں میں گھس جاؤ، کہیں سلیمان اور ان کا لشکر تمہیں کچل نہ ڈالے اور انہیں پتہ بھی نہ چلے۔
١٩۔ اس کی باتیں سن کر سلیمان ہنستے ہوئے مسکرائے اور کہنے لگے : پروردگارا مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جن سے تو نے مجھے اور میرے والدین کو نوازا ہے اور یہ کہ میں ایسا صالح عمل انجام دوں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے صالح بندوں میں داخل فرما۔
٢٠۔ سلیمان نے پرندوں کا معائنہ کیا تو کہا: کیا بات ہے کہ مجھے ہُدہُد نظر نہیں آ رہا؟ کیا وہ غائب ہو گیا ہے ؟
٢١۔ میں اسے ضرور سخت ترین سزا دوں گا یا میں اسے ذبح کر دوں گا مگر یہ کہ میرے پاس کوئی واضح عذر پیش کرے۔
٢٢۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اس نے (حاضر ہو کر) کہا: مجھے اس چیز کا علم ہوا ہے جو آپ کو معلوم نہیں اور ملک سبا سے آپ کے لیے ایک یقینی خبر لے کر آیا ہوں۔
٢٣۔ میں نے ایک عورت دیکھی جو ان پر حکمران ہے اور اسے ہر قسم کی چیزیں دی گئیں ہیں اور اس کا عظیم الشان تخت ہے۔
٢٤۔ میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا رکھے ہیں اور اس طرح ان کے لیے راہ خدا کو مسدود کر دیا ہے ، پس وہ ہدایت نہیں پاتے۔
٢٥۔ کیا وہ اللہ کے لیے سجدہ نہیں کرتے جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے اور وہ تمہارے پوشیدہ اور ظاہری اعمال کو جانتا ہے ؟
٢٦۔ اللہ کے سوا کو ئی معبود نہیں ، وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔
٢٧۔ سلیمان نے کہا:ہم ابھی دیکھ لیتے ہیں کیا تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹوں میں سے ہے۔
٢٨۔ میرا یہ خط لے جا اور اسے ان لوگوں کے پاس ڈال دے پھر ان سے ہٹ جا اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔
٢٩۔ ملکہ نے کہا: اے دربار والو! میری طرف ایک محترم خط ڈالا گیا ہے۔
٣٠۔ یہ سلیمان کی جانب سے ہے اور وہ یہ ہے : خدائے رحمن و رحیم کے نام سے
٣١۔ تم میرے مقابلے میں بڑا ئی مت کرو اور فرمانبردار ہو کر میرے پاس چلے آؤ۔
٣٢۔ ملکہ نے کہا: اے اہل دربار! میرے اس معاملے میں مجھے رائے دو، میں تمہاری غیر موجودگی میں کسی معاملے کا فیصلہ نہیں کیا کرتی۔
٣٣۔ انہوں نے کہا: ہم طاقتور اور شدید جنگجو ہیں تاہم فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے ، آپ دیکھ لیں کہ آپ کو کیا حکم کرنا چاہیے۔
٣٤۔ ملکہ نے کہا: بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے تباہ کرتے ہیں اور اس کے عزت داروں کو ذلیل کرتے ہیں اور یہ لوگ بھی اسی طرح کریں گے۔
٣٥۔ اور میں ان کی طرف ایک ہدیہ بھیج دیتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ ایلچی کیا (جواب) لے کر واپس آتے ہیں۔
٣٦۔پس جب وہ سلمان کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا: کیا تم مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو؟ جو کچھ اللہ نے مجھے دے رکھا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو اس نے تمہیں دے رکھا ہے جب کہ تمہیں اپنے ہدیے پر بڑا ناز ہے۔
٣٧۔ (اے ایلچی) تو انہیں کی طرف واپس پلٹ جا، ہم ان کے پاس ایسے لشکر لے کر ضرور آئیں گے جن کا وہ مقابلہ نہیں کر سکیں گے اور ہم انہیں وہاں سے ذلت کے ساتھ ضرور نکال دیں گے اور وہ خوار بھی ہوں گے۔
٣٨۔ سلیمان نے کہا: اے اہل دربار! تم میں سے کون ہے جو ملکہ کا تخت میرے پاس لے آئے قبل اس کے کہ وہ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آئیں ؟
٣٩۔ جنوں میں سے ایک عیار نے کہا: میں اسے آپ کے پاس حاضر کر دیتا ہوں قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں اور میں یہ کام انجام دینے کی طاقت رکھتا ہوں ، امین بھی ہوں۔
٤٠۔ جس کے پاس کتاب میں سے کچھ علم تھا وہ کہنے لگا: میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے آپ کے پاس حاضر کر دیتا ہوں ، جب سلیمان نے تخت کو اپنے پاس نصب شدہ دیکھا تو کہا: یہ میرے پروردگار کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کفران اور جو کوئی شکر کرتا ہے وہ خود اپنے فائدے کے لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا پروردگار یقیناً بے نیاز اور صاحب کرم ہے۔
٤١۔ سلیمان نے کہا: ملکہ کے تخت کو اس کے لیے انجانا بنا دو، ہم دیکھیں کیا وہ شناخت کر لیتی ہے یا شناخت نہ کرنے والوں میں سے ہوتی ہے۔
٤٢۔ جب ملکہ حاضر ہوئی تو (اس سے ) کہا گیا: کیا آپ کا تخت ایسا ہی ہے ؟ ملکہ نے کہا: گویا یہ تو وہی ہے ، ہمیں اس سے پہلے معلوم ہو چکا ہے اور ہم فرمانبردار ہو چکے ہیں۔
٤٣۔ اور سلیمان نے اسے غیر اللہ کی پرستش سے روک دیا کیونکہ پہلے وہ کافروں میں سے تھی۔
٤٤۔ ملکہ سے کہا گیا: محل میں داخل ہو جائیے ، جب اس نے محل کو دیکھا تو خیال کیا کہ وہاں گہرا پانی ہے اور اس نے اپنی پنڈلیاں کھول دیں ، سلیمان نے کہا: یہ شیشے سے مرصع محل ہے ، ملکہ نے کہا: پروردگارا! میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور اب میں سلیمان کے ساتھ رب العالمین اللہ پر ایمان لاتی ہوں۔
٤٥۔ اور ہم نے (قوم) ثمود کی طرف ان کی برادری کے صالح کو (یہ پیغام دے کر) بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو تو وہ دو فریق بن کر جھگڑنے لگے۔
٤٦۔ صالح نے کہا: اے میری قوم! نیکی سے پہلے برائی کے لیے کیوں عجلت کرتے ہو؟ تم اللہ سے معافی کیوں طلب نہیں کرتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے ؟
٤٧۔ وہ کہنے لگے : تم اور تمہارے ساتھی ہمارے لیے بد شگونی کا سبب ہیں ، صالح نے کہا: تمہاری بد شگونی اللہ کے پاس ہے بلکہ تم لوگ آزمائے جا رہے ہو۔
٤٨۔ اور اس شہر میں نو دھڑے باز تھے جو زمین میں فساد برپا کرتے تھے اور اصلاح کا کوئی کام نہیں کرتے تھے۔
٤٩۔ انہوں نے کہا: آپس میں اللہ کی قسم کھاؤ کہ ہم رات کے وقت صالح اور ان کے گھر والوں پر ضرور شب خون ماریں گے پھر ان کے وارث سے یہی کہیں گے کہ ہم ان کے گھر والوں کی ہلاکت کے موقع پر موجود ہی نہ تھے اور ہم سچے ہیں۔
٥٠۔ اور انہوں نے مکارانہ چال چلی تو ہم نے ایسی حکیمانہ تدبیریں کیں کہ انہیں خبر تک نہ ہوئی۔
٥١۔ پس دیکھ لو! ان کی مکاری کا کیا انجام ہوا، ہم نے انہیں اور ان کی پوری قوم کو نابود کر دیا۔
٥٢۔ پس ان کے یہ گھر ان کے ظلم کے نتیجے میں ویران پڑے ہیں ، اس میں علم رکھنے والوں کے لیے ایک نشانی ہے۔
٥٣۔ اور ہم نے ایمان والوں کو نجات دی اور وہی تقویٰ والے تھے۔
٥٤۔ اور لوط (کا وہ وقت یاد کرو) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم بدکاری کا ارتکاب کرتے ہو؟ حالانکہ تم سمجھتے ہو۔
٥٥۔ کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر شہوت پرستی کے لیے مردوں کا رخ کرتے ہو؟ بلکہ تم تو جاہل قوم ہو۔
٥٦۔ تو ان کی قوم کا بس یہی جواب تھا کہ وہ کہیں لوط کے گھر والوں کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ بڑے پاکباز بنتے ہیں۔
٥٧۔ تو ہم نے لوط اور ان کے گھر والوں کو بچا لیا سوائے لوط کی بیوی کے ، ہم نے اس کا مقدر یہ بنایا تھا کہ وہ پیچھے رہ جائے۔
٥٨۔ اور ہم نے ان پر ایک بارش برسائی جو ان کے لیے بہت ہی بری بارش تھی جنہیں تنبیہ کی گئی تھی۔
٥٩۔ کہہ دیجئے : ثنائے کامل ہے اللہ کے لیے اور سلام ہو اس کے برگزیدہ بندوں پر، کیا اللہ بہتر ہے یا وہ جنہیں یہ شریک ٹھہراتے ہیں ؟
پارہ : اَمَّنْ خَلَقَ ٢٠
٦٠۔ کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے تمہارے لیے پانی برسایا؟ پھر ہم نے اس سے پر رونق باغات اگائے ، ان درختوں کا اگانا تمہارے بس میں نہ تھا،تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے ؟ بلکہ یہ لوگ تو منحرف قوم ہیں۔
٦١۔ کس نے زمین کو جائے قرار بنایا اور اس کے بیچ میں نہریں بنائیں اور اس کے لیے پہاڑ بنائے اور دو سمندروں کے درمیان ایک آڑ بنائی؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے ؟بلکہ ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔
٦٢۔ کون ہے جو مضطرب کی فریاد سنتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف دور کرتا ہے اور تمہیں زمین میں جانشین بناتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے ؟ تم لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔
٦٣۔ کون ہے جو خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں تمہاری رہنمائی کرتا ہے اور کون ہے جو ہواؤں کو خوشخبری کے طور پر اپنی رحمت کے آگے آگے بھیجتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے ؟ اللہ بالاتر ہے ان چیزوں سے جنہیں یہ شریک ٹھہراتے ہیں۔
٦٤۔ کون خلقت کی ابتدا کرتا ہے پھر اسے دہراتا ہے اور کون تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے ؟ کہہ دیجئے : اپنی دلیل پیش کرو اگر تم لوگ سچے ہو۔
٦٥۔ کہہ دیجئے : جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ، وہ غیب کی باتیں نہیں جانتے سوائے اللہ کے اور نہ انہیں یہ علم ہے کہ کب اٹھائے جائیں گے۔
٦٦۔ بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم ماند پڑ گیا ہے ، بلکہ وہ اس کے بارے میں شک میں ہیں بلکہ یہ اس کے بارے میں اندھے ہیں۔
٦٧۔ اور کفار کہتے ہیں : جب ہم اور ہمارے باپ دادا خاک ہو چکے ہوں گے تو کیا ہمیں (قبروں سے ) نکالا جائے گا؟
٦٨۔ اس قسم کا وعدہ پہلے بھی ہم سے اور ہمارے باپ دادا سے ہوتا رہا ہے یہ تو قصہ ہائے پارینہ کے سوا کچھ نہیں۔
٦٩۔ کہہ دیجئے : زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ مجرموں کا کیا انجام ہوا ہے۔
٧٠۔ اور (اے رسول) ان (کے حال) پر رنجیدہ نہ ہوں اور نہ ہی ان کی مکاریوں پر دل تنگ ہوں۔
٧١۔ اور وہ کہتے ہیں : اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ آخر کب پورا ہو گا؟
٧٢۔ کہہ دیجئے : ممکن ہے جن بعض باتوں کے لیے تم عجلت چاہ رہے ہو وہ تمہارے پس پشت پہنچ چکی ہوں۔
٧٣۔ اور بتحقیق آپ کا پروردگار لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔
٧٤۔ اور جو کچھ ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں بتحقیق آپ کا پروردگار اسے خوب جانتا ہے۔
٧٥۔اور آسمان اور زمین میں کوئی ایسی پوشیدہ بات نہیں ہے جو کتاب مبین میں نہ ہو۔
٧٦۔ بے شک یہ قرآن بنی اسرائیل کو اکثر وہ باتیں بیان کر دیتا ہے جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔
٧٧۔ اور یہ اہل ایمان کے لیے یقیناً ہدایت اور رحمت ہے۔
٧٨۔ یقیناً آپ کا رب اپنے حکم سے ان کے درمیان فیصلہ کر دیتا ہے اور وہی بڑا غالب آنے والا ، بڑا علم رکھنے والا ہے۔
٧٩۔ لہٰذا آپ اللہ پر بھروسا کریں ، یقیناً آپ صریح حق پر ہیں۔
٨٠۔ آپ نہ مردوں کو سنا سکتے ہیں نہ ہی بہروں کو اپنی دعوت سنا سکتے ہیں جب وہ پیٹھ پھر کر جا رہے ہوں۔
٨١۔ اور نہ ہی آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے بچا کر راستہ دکھا سکتے ہیں ، آپ ان لوگوں تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں اور پھر فرمانبردار بن جا تے ہیں۔
٨٢۔ اور جب ان پر وعدہ (عذاب) پورا ہونے والا ہو گا تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک چلنے پھرنے والا نکالیں گے جو ان سے کلام کرے گا کہ درحقیقت لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے۔
٨٣۔ اور جس روز ہم ہر امت میں سے ایک ایک جماعت کو جمع کریں گے جو ہماری آیات کو جھٹلایا کرتی تھیں پھر انہیں روک دیا جائے گا۔
٨٤۔ جب سب آ جائیں گے تو (اللہ) فرمائے گا: کیا تم نے میری آیات کو جھٹلا دیا تھا؟ جب کہ ابھی تم انہیں اپنے احاطہ علم میں بھی نہیں لائے تھے اور تم کیا کچھ کرتے تھے ؟
٨٥۔ اور ان کے ظلم کی وجہ سے بات ان کے خلاف پوری ہو کر رہے گی اور وہ بول نہیں سکیں گے۔
٨٦۔ کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم نے رات اس لیے بنائی کہ وہ اس میں سکون حاصل کریں اور دن کو روشن بنایا؟ ایمان لانے والوں کے لیے اس میں یقیناً نشانیاں ہیں۔
٨٧۔ اور جس روز صور پھونکا جائے گا تو آسمانوں اور زمین کی تمام موجودات خوفزدہ ہو جائیں گی سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ چاہے اور سب نہایت عاجزی کے ساتھ اس کے حضور پیش ہوں گے۔
٨٨۔ اور آپ پہاڑوں کو دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ یہ ایک جگہ ساکن ہیں جب کہ (اس وقت) یہ بادلوں کی طرح چل رہے ہوں گے ، یہ سب اس اللہ کی صنعت ہے جس نے ہر چیز کو پختگی سے بنایا ہے ، وہ تمہارے اعمال سے یقیناً خوب باخبر ہے۔
٨٩۔ جو شخص نیکی لے کر آئے گا اسے اس سے بہتر اجر ملے گا اور وہ اس دن کی ہولناکیوں سے امن میں ہوں گے۔
٩٠۔ اور جو شخص برائی لے کر آئے گا پس انہیں اوندھے منہ آگ میں پھینک دیا جائے گا، کیا تمہیں اپنے کیے کے علاوہ کوئی اور جزا مل سکتی ہے ؟
٩١۔ (اے رسول! آپ یہ کہیں ) مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر (مکہ) کے رب کی بندگی کروں جس نے اسے محترم بنایا اور ہر چیز اسی کی ملکیت ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں فرمانبرداروں میں سے رہوں۔
٩٢۔ اور یہ کہ میں قرآن پڑھ کر سناؤں اس کے بعد جو ہدایت اختیار کرے گا وہ اپنے لیے ہدایت اختیار کرے گا اور جو گمراہی میں چلا جائے اسے کہہ دیجئے : میں تو بس تنبیہ کرنے والا ہوں۔
٩٣۔ اور کہہ دیجئے : ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے ، عنقریب وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے گا تو تم انہیں پہچان لو گے اور آپ کا پروردگار تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے۔