جامعہ زینبیہمرکزی سلائیڈرمناسبتیں
خطبہ فدک حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
اردو ترجمہ: محسن ملت علامہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ
﷽
بنام خدائے رحمن رحیم
اَلْحَمْدُلِلَّهِ عَلی ما اَنْعَمَ،
ثنائے کامل ہے اللہ کے لیے ان نعمتوں پر جو اس نے عطا فرمائیں۔
وَ لَهُ الشُّکْرُ عَلی ما اَلْهَمَ،
اور اس کا شکر ہے اس سمجھ پر جو اس نے (اچھائی اور برائی کی تمیز کے لیے) عنایت کی ہے۔ (۱)
وَ الثَّناءُ بِما قَدَّمَ، مِنْ عُمُومِ نِعَمٍ اِبْتَدَاَها،
اور اس کی ثنا و توصیف ہے ان نعمتوں پر جو اس نے پیشگی عطا کی ہیں۔ (۲)
وَ سُبُوغِ الاءٍ اَسْداها،
ان ہمہ گیر نعمتوں پر جن کے عطا کر نے میں اس نے پہل کی۔(۳)
وَ تَمامِ مِنَنٍ اَوْلاها،
اور ان نعمتوں کی فراہمی میں تواتر کے ساتھ فراوانی فرمائی۔ـ
جَمَّ عَنِ الْاِحْصاءِ عَدَدُها،
اور یہ نعمتیں دائرہ شمار سے وسیع تر ہیں(۴)
وَ نَأى عَنِ الْجَزاءِ اَمَدُها،
اور ان کے ادائے شکر کی حدود تک رسائی بہت بعید ہے(۵)
وَ تَفاوَتَ عَنِ الْاِدْراکِ اَبَدُها،
اور (انسان)ان کی بے پایانی کا ادراک کرنے سے قاصر ہے۔ (۶)
وَ نَدَبَهُمْ لاِسْتِزادَتِها بِالشُّکْرِ لاِتِّصالِها،
نعمتوں میں اضافہ اور تسلسل کیلئے لوگوں کو شکر کرنے کی ہدایت کی۔(۷)
وَ اسْتَحْمَدَ اِلَى الْخَلائِقِ بِاِجْزالِها، وَ ثَنی بِالنَّدْبِ اِلى اَمْثالِها.
حمد کا حکم اس لئے دیا کہ نعمتوں میں فراوانی ہو ایسی نعمتوں کی طرف مکرر دعوت دی (جو خود بندوں کے لیے مفید ہیں)۔(۸)
وَ اَشْهَدُ اَنْ لا اِلهَ اِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَریکَ لَهُ،
اور میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔
کَلِمَةٌ جَعَلَ الْاِخْلاصَ تَأْویلَها،
(کلمہ شہادت) ایک ایسا کلمہ ہے کہ اخلاص (در عمل) کو اس کا نتیجہ قرارد یا ہے۔ (۹)
وَ ضَمَّنَ الْقُلُوبَ مَوْصُولَها،
کلمۂ توحید کے ادراک کو دلوں میں جاگزین فرمایا۔(۱۰)
وَ اَنارَ فِی التَّفَکُّرِ مَعْقُولَها،
اور اس کے ادراک کے ذریعے ذہنوں کو روشنی بخشی۔
الْمُمْتَنِعُ عَنِ الْاَبْصارِ رُؤْیَتُهُ،
نہ وہ نگاہوں کی(محدودیت)میں آ سکتا ہے۔ (۱۱)
وَ مِنَ الْاَلْسُنِ صِفَتُهُ،
اورنہ ہی زبان سے اس کا وصف بیان ہو سکتا ہے۔
وَ مِنَ الْاَوْهامِ کَیْفِیَّتُهُ.
اور وہم و خیال اس کی کیفیت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
اِبْتَدَعَ الْاَشْیاءَ لا مِنْ شَىْءٍ کانَ قَبْلَها،
ہر چیز کو لا شی ٔ سے وجود میں لایا (۱۲)
وَ اَنْشَاَها بِلاَاحْتِذاءِ اَمْثِلَةٍ اِمْتَثَلَها،
اور کسی نمونے کے بغیر ان کو ایجاد کیا۔
کَوَّنَها بِقُدْرَتِهِ وَ ذَرَأَها بِمَشِیَّتِهِ،
اپنی قدرت سے انہیں وجود بخشا اور اپنے ارادے سے ان کی تخلیق فرمائی۔(۱۳)
مِنْ غَیْرِ حاجَةٍ مِنْهُ اِلى تَکْوینِها،
نہ ان کی ایجاد کی اسے ضرورت تھی۔
وَ لا فائِدَةٍ لَهُ فی تَصْویرِها،
نہ ان کی صورت گری میں اس کا کوئی مفاد تھا (۱۴)
اِلاَّ تَثْبیتاً لِحِکْمَتِهِ
وہ صرف اپنی حکمت کو آشکار کرنا چاہتا تھا
وَ تَنْبیهاً عَلی طاعَتِهِ،
اور طاعت و بندگی کی طرف توجہ دلانا چاہتا تھا
وَ اِظْهاراً لِقُدْرَتِهِ
اور اپنی قدرت کا اظہار کرنا چاہتا تھا
وَ تَعَبُّداً لِبَرِیَّتِهِ،
اور مخلوق کو اپنی بندگی کے دائر میں لانا چاہتا تھا
وَ اِعْزازاً لِدَعْوَتِهِ،
اور اپنی دعوت کو استحکام دینا چاہتا تھا
ثُمَّ جَعَلَ الثَّوابَ عَلی طاعَتِهِ، وَ وَضَعَ الْعِقابَ عَلی مَعْصِیَتِهِ،
پھر اس نے اپنی اطاعت کو باعث ثواب اور معصیت کو موجب عذاب قرار دیا
ذِیادَةً لِعِبادِهِ مِنْ نِقْمَتِهِ
تاکہ اس کے بندے اس کی غضب سے بچے رہیں۔
وَ حِیاشَةً لَهُمْ اِلى جَنَّتِهِ
اور اس کی جنت کی طرف گامزن رہیں (۱۵)
وَ اَشْهَدُ اَنَّ اَبیمُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ،
اور میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے پدر محمد اللہ کا عبد اور اس کے رسول ہیں،
اِخْتارَهُ قَبْلَ اَنْ اَرْسَلَهُ،
اللہ نے ان کو رسول بنانے سے پہلے انہیں برگزیدہ کیا تھا
وَ سَمَّاهُ قَبْلَ اَنْ اِجْتَباهُ،
اور ان کی تخلیق سے پہلے ہی ان کا نام روشن کیا۔ (۱۶)
وَ اصْطَفاهُ قَبْلَ اَنْ اِبْتَعَثَهُ،
اور مبعوث کرنے سے پہلے انہیں منتخب کیا
اِذ الْخَلائِقُ بِالْغَیْبِ مَکْنُونَةٌ،
جب مخلوقات ابھی پردہ غیب میں پوشیدہ تھیں
وَ بِسَتْرِ الْاَهاویلِ مَصُونَةٌ،
وحشت ناک تاریکی میں گم تھیں
وَ بِنِهایَةِ الْعَدَمِ مَقْرُونَةٌ،
اور عدم کے آخری حدود میں دبکی ہوئی تھیں۔
عِلْماً مِنَ اللَّهِ تَعالی بِمائِلِ الْاُمُورِ،
اللہ کو(اس وقت بھی)آنے والے امور پر آگہی تھی
وَ اِحاطَةً بِحَوادِثِ الدُّهُورِ،
اور آئندہ رونما ہونے والے ہر واقعہ پر احاطہ تھا۔
وَ مَعْرِفَةً بِمَواقِعِ الْاُمُورِ
اور تمام مقدرات کی جائے وقوع کی شناخت تھی۔ (۱۷)
اِبْتَعَثَهُ اللَّهُ اِتْماماً لِاَمْرِهِ، وَ عَزیمَةً عَلى اِمْضاءِ حُکْمِهِ، وَ اِنْفاذاً لِمَقادیرِ رَحْمَتِهِ،
اللہ نے رسول کو اپنے امور کی تکمیل اور اپنے دستور کے قطعی ارادے اور حتمی مقدرات کو عملی شکل دینے کے لیے مبعوث فرمایا۔(۱۸)
فَرَأَى الْاُمَمَ فِرَقاً فی اَدْیانِها،
رسول خداؐ نے اس وقت اقوام عالم کو اس حال میں پایا کہ وہ دینی اعتبار سے فرقوں میں بٹی ہوئی ہیں
عُکَّفاً عَلی نیرانِها،
کچھ اپنے آتشکدوں میں منہک
عابِدَةً لِاَوْثانِها،
اور کچھ بتوں کی پوجا پاٹ میں مصروف
مُنْکِرَةً لِلَّهِ مَعَ عِرْفانِها
معرفت کے باوجود اللہ کی منکر تھیں (۱۹)
فَاَنارَ اللَّهُ بِاَبیمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ و الِهِ ظُلَمَها،
پس اللہ تعالیٰ نے میرے والد گرامی محمدؐ کے ذریعے اندھیروں کو اجالا کر دیا
وَ کَشَفَ عَنِ الْقُلُوبِ بُهَمَها،
اور دلوں سے ابہام کو
وَ جَلى عَنِ الْاَبْصارِ غُمَمَها،
اور آنکھوں سے تیرگی کو دور کر دیا
وَ قامَ فِی النَّاسِ بِالْهِدایَةِ،
(میرے والدنے) لوگوں کو ہدایت کا راستہ دکھایا
فَاَنْقَذَهُمْ مِنَ الْغِوایَةِ،
اور انہیں گمراہوں سے نجات دلائی۔
وَ بَصَّرَهُمْ مِنَ الْعِمایَةِ،
آپ انہیں اندھے پن سے بینائی کی طرف لائے
وَ هَداهُمْ اِلَى الدّینِ الْقَویمِ،
نیز آپ نے استواردین کی طرف ان کی راہنمائی کی۔
وَ دَعاهُمْ اِلَى الطَّریقِ الْمُسْتَقیمِ
راہ راست کی طرف انہیں دعوت دی
ثُمَّ قَبَضَهُ اللَّهُ اِلَیْهِ
پھر اللہ نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا
قَبْضَ رَأْفَةٍ وَ اخْتِیارٍ،
شوق و محبت اور اختیار و رغبت کے ساتھ
وَ رَغْبَةٍ وَ ایثارٍ،
نیز(آخرت کی) ترغیب و ترجیح کے ساتھ۔(۱۹)
فَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ و الِهِ مِنْ تَعَبِ هذِهِ الدَّارِ فی راحَةٍ،
اب محمدؐ دنیا کی تکلیفوں سے آزاد ہیں۔
قَدْ حُفَّ بِالْمَلائِکَةِ الْاَبْرارِ
مقرب فرشتے ان کے گرد حلقہ بگوش ہیں۔
وَ رِضْوانِ الرَّبِّ الْغَفَّارِ،
آپ ربّ غفار کی خوشنودی
وَ مُجاوَرَةِ الْمَلِکِ الْجَبَّارِ،
اور خدائے جبار کے سایۂ رحمت میں آسودہ ہیں۔
صَلَّى اللَّهُ عَلی أَبی نَبِیِّهِ وَ اَمینِهِ
اللہ کی رحمت ہو اس کے نبی امین پر
وَ خِیَرَتِهِ مِنَ الْخَلْقِ وَ صَفِیِّهِ،
جو ساری مخلوقات سے منتخب و پسندیدہ ہیں۔
وَ السَّلامُ عَلَیْهِ وَ رَحْمَةُاللَّهِ وَ بَرَکاتُهُ
اور اللہ کا سلام اور اس کی رحمت اور برکتیں ہوں آپ پر۔
ثم التفت الى اهل المجلس و قالت:
پھر اہل مجلس کی طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا:
اَنْتُمْ عِبادَ اللَّهِ نُصُبُ اَمْرِهِ وَ نَهْیِهِ،
اللہ کے بندو! تم ہی تو اللہ کے امر و نہی کے علمدار ہو،
وَ حَمَلَةُ دینِهِ وَ وَحْیِهِ،
اللہ کے دین اور اس کی وحی (کے احکام) کے ذمے دار ہو۔
وَ اُمَناءُ اللَّهِ عَلى اَنْفُسِکُمْ،
تم اپنے نفسوں پر اللہ کے امین ہو،
وَ بُلَغاؤُهُ اِلَى الْاُمَمِ،
دیگر اقوام کے لئے (اس کے دین کے) بھی مبلغ تم ہو۔ (۲۰)
زَعیمُ حَقٍّ لَهُ فیکُمْ،
اس کی طرف سے برحق رہنما تمہارے درمیان موجود ہے۔ (۲۱)
وَ عَهْدٍ قَدَّمَهُ اِلَیْکُمْ،
اور تم سے عہد و پیمان بھی پہلے سے لیا جا چکا ہے۔(۲۲)
وَ بَقِیَّةٍ اِسْتَخْلَفَها عَلَیْکُمْ:
آپ نے ایک (گراں بہا) ذخیرے کو تمہارے درمیان جانشین بنایا (۲۳)
وَ مَعَنَا کِتابُ اللَّهِ
اور اللہ کی کتاب بھی ہمارے درمیان موجود ہے۔
کِتابُ اللَّهِ النَّاطِقُ
یہ اللہ کی ناطق کتاب
وَ الْقُرْانُ الصَّادِقُ،
سچا قرآن،
و النُّورُ السَّاطِعُ
چمکتا نور،
وَ الضِّیاءُ اللاَّمِعُ،
اور روشن چراغ ہے
بَیِّنَةً بَصائِرُهُ،
اس کے دروس عبرت واضح
مُنْکَشِفَةً سَرائِرُهُ،
اور اس کے اسرار و رموز آشکار
مُنْجَلِیَةً ظَواهِرُهُ،
اور اس کے ظاہری معانی روشن ہیں۔
مُغْتَبِطَةً بِهِ اَشْیاعُهُ،
اس کے پیروکار قابل رشک ہیں(۲۴)
قائِداً اِلَى الرِّضْوانِ اِتِّباعُهُ،
اس کی پیروی رضوان کی طرف لے جاتی ہے۔ (۲۵)
مُؤَدٍّ اِلَى النَّجاةِ اسْتِماعُهُ
اسے سننا بھی ذریعۂ نجات ہے۔ (۲۶)
بِهِ تُنالُ حُجَجُ اللَّهِ الْمُنَوَّرَةُ،
اس قرآن کے ذریعے اللہ کی روشن دلیلوں کو پایا جا سکتا ہے۔ (۲۷)
وَ عَزائِمُهُ الْمُفَسَّرَةُ،
بیان شدہ واجبات کو،(۲۸)
وَ مَحارِمُهُ الْمُحَذَّرَةُ،
منع شدہ محرمات کو،
وَ بَیِّناتُهُ الْجالِیَةُ،
روشن دلائل کو،
وَ بَراهینُهُ الْکافِیَةُ،
اطمینان بخش براہین کو،
وَ فَضائِلُهُ الْمَنْدُوبَةُ،
مستحبات پر مشتمل فضائل کو،(۲۹)
وَ رُخَصُهُ الْمَوْهُوبَةُ،
جائز مباحات کو،
وَ شَرائِعُهُ الْمَکْتُوبَةُ.
اور اس کے واجب دستور کو پایاجا سکتا ہے۔
فَجَعَلَ اللَّهُ الْایمانَ تَطْهیراً لَکُمْ مِنَ الشِّرْکِ،
اللہ نے ایمان کو شرک سے تمہیں پاک کرنے کا، (۳۰)
وَ الصَّلاةَ تَنْزیهاً لَکُمْ عَنِ الْکِبْرِ،
نماز کو تمہیں تکبر سے محفوظ رکھنے کا،(۳۱)
وَ الزَّکاةَ تَزْکِیَةً لِلنَّفْسِ وَ نِماءً فِی الرِّزْقِ،
زکوۃ کو نفس کی پاکیزگی اور رزق میں اضافے کا،(۳۲)
وَ الصِّیامَ تَثْبیتاً لِلْاِخْلاصِ،
روزہ کو اخلاص کے اثبات کا،(۳۳)
وَ الْحَجَّ تَشْییداً لِلدّینِ،
حج کو دین کی تقویت کا،
وَ الْعَدْلَ تَنْسیقاً لِلْقُلُوبِ،
عدل و انصاف کو دلوں کو جوڑنے کا،
وَ طاعَتَنا نِظاماً لِلْمِلَّةِ،
ہماری اطاعت کو امت کی ہم آہنگی کا، (۳۴)
وَ اِما مَتَنا اَماناً لِلْفُرْقَةِ،
ہماری امامت کو تفرقہ سے بچانے کا،(۳۵)
وَ الْجِهادَ عِزّاً لِلْاِسْلامِ،
جہاد کو اسلام کی سربلندی کا، (۳۶)
وَ الصَّبْرَ مَعُونَةً عَلَی اسْتیجابِ الْاَجْرِ
صبر کو حصول ثواب کا،
وَ الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ مَصْلِحَةً لِلْعامَّةِ،
امر بالمعروف کو عوام کی بھلائی کا،(۳۷)
وَ بِرَّ الْوالِدَیْنِ وِقایَةً مِنَ السَّخَطِ،
والدین پر احسان کو قہرِ الٰہی سے بچنے کا،(۳۸)
وَ صِلَةَ الْاَرْحامِ مَنْساءً فِی الْعُمْرِ وَ مَنْماةً لِلْعَدَدِ،
صلۂ رحمی کو درازی عمر اور افرادی کثرت کا،(۳۹)
وَ الْقِصاصَ حِقْناً لِلدِّماءِ،
قصاص کو خون کی ارزانی روکنے کا، (۴۰)
وَ الْوَفاءَ بِالنَّذْرِ تَعْریضاً لِلْمَغْفِرَةِ،
وفا با لنذرکو مغفرت میں تأثیر کا،
وَ تَوْفِیَةَ الْمَکائیلِ وَ الْمَوازینِ تَغْییراً لِلْبَخْسِ
پورے ناپ تول کے حکم کو کم فروشی سے بچنے کا،
وَ النَّهْىَ عَنْ شُرْبِ الْخَمْرِ تَنْزیهاً عَنِ الرِّجْسِ،
شراب نوشی کی ممانعت کو آلودگی سے بچنے کا، (۴۱)
وَ اجْتِنابَ الْقَذْفِ حِجاباً عَنِ اللَّعْنَةِ،
بہتان تراشی سے اجتناب کو نفرت سے بچنے کا،(۴۲)
وَ تَرْکَ السِّرْقَةِ ایجاباً لِلْعِصْمَةِ،
چوری سے پرہیز کو شرافت قائم رکھنے کا،
وَ حَرَّمَ اللَّهُ الشِّرْکَ اِخْلاصاً لَهُ بِالرُّبوُبِیَّةِ
اور شرک کی ممانعت کواپنی ربوبیت کو خالص بنانے کا ذریعہ بنایا۔
فَاتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ، وَ لا تَمُوتُنَّ اِلاَّ وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُونَ،
اے ایمان والو! اللہ کا خوف کرو جیسا کہ اس کا خوف کرنے کا حق ہے اور جان نہ دینا مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔ (سورہ آل عمران؍۱۰۳)
وَ اَطِیْعُوا اللَّهَ فِیْمَا اَمَرَکُمْ بِهِ وَ نَهَاکُمْ عَنْهُ، فَاِنَّهُ اِنَّمَا یَخْشَی اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ.
اس نے جن چیزوں کا حکم دیا ہے اور جن چیزوں سے روکا ہے ان میں اللہ کی اطاعت کرو کیونکہ بندوں میں سے صرف علماء ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔
ثُمَّ قَالَتْ:
پھر فرمایا:
اَیُّهَا النَّاسُ! اِعْلَمُوْا اَنّیِ فَاطِمَةُ
لوگو ! تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں فاطمہ ہوں۔ (۴۳)
وَ اَبی مُحَمَّدٌ،
اور میرے پدر محمدؐ ہیں۔
اَقُوْلُ عَوْداً وَ بَدْءاً، وَ لا اَقُوْلُ
میرا حرفِ آخر وہی ہو گا جو حرفِ اول ہے۔
مَا اَقُوْلُ غَلَطاً،
میرے قول میں غلطی کا شائبہ تک نہ ہو گا (۴۴)
وَ لا اَفْعَلُ ما اَفْعَلُ شَطَطاً،
اور نہ میرے عمل میں لغزش کی آمیزش ہو گی۔
لَقَدْ جاءَکُمْ رَسُولٌ مِنْ اَنْفُسِکُمْ عَزیزٌ عَلَیْهِ ما عَنِتُّمْ حَریصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنینَ رَؤُوفٌ رَحیمٌ
بتحقیق تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے۔ تمہیں تکلیف میں دیکھنا اس پر شاق گزرتا ہے۔ وہ تمہاری بھلائی کا نہایت خواہاں ہے۔ اور مؤمنین کیلئے نہایت شفیق و مہربان ہے۔ (سورہ توبہ آیت ۱۲۸) (۴۵)
فَاِنْ تَعْزُوهُ وَتَعْرِفُوهُ تَجِدُوهُ اَبی دُونَ نِسائِکُمْ،
اس رسول کو اگر تم نسب کے حوالے سے پہچاننا چاہتے ہو تووہ میرے باپ ہیں تمہاری عورتوں میں سے کسی کا نہیں۔
وَ اَخَا ابْنِ عَمّی دُونَ رِجالِکُمْ،
وہ میرے چچا زاد (علی ؑ) کے بھائی ہیں تمہارے مردوں میں سے کسی کا نہیں ۔
وَ لَنِعْمَ الْمَعْزِىُّ اِلَیْهِ
یہ نسبت کس درجہ باعث افتخار ہے۔
صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَ الِهِ
اللہ کی رحمت ہوان پر اور ان کی آل پر۔
فَبَلَّغَ الرِّسالَةَ صادِعاً بِالنَّذارَةِ،
رسولؐ نے اللہ کے پیغام کو واشگاف انداز میں تنبیہ کے ذریعے پہنچایا۔(۴۶)
مائِلاً عَنْ مَدْرَجَةِ الْمُشْرِکینَ، ضارِباً ثَبَجَهُمْ،اخِذاً بِاَکْظامِهِمْ
آپ نے مشرکین کی راہ و روش کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ان پر کمر شکن ضرب لگاکر ان کی گردنیں مروڑ دیں
داعِیاً اِلى سَبیلِ رَبِّهِ بِالْحِکْمَةِ و الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ،
پھر حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ اپنے ربّ کی طرف بلایا۔
یَجُفُّ الْاَصْنامَ وَ یَنْکُثُ الْهامَّ، حَتَّى انْهَزَمَ الْجَمْعُ وَ وَ لَّوُا الدُّبُرَ.
بتوں کو پاش پاش کر دیا اور طاغوتوں کو اس طرح سرنگوں کیا کہ وہ شکست کھا کر راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے۔
حَتَّى تَفَرََّى اللَّیْلُ عَنْ صُبْحِهِ،
یہاں تک کہ شب دیجور میں صبح امید کی روشنی پھیل گئی
وَ اَسْفَرَ الْحَقُّ عَنْ مَحْضِهِ،
اور حق اپنی بے آمیزی کے ساتھ نکھر کر سامنے آ گیا
و نَطَقَ زَعیمُالدّینِ،
اور دین کے پیشوا نے زبان کھولی(۴۷)
وَ خَرَسَتْ شَقاشِقُ الشَّیاطینِ،
اور شیاطین کی زبانوں کو لگام دے دی۔
وَ طاحَ وَ شیظُ النِّفاقِ،
نفاق کی بے وقعت جماعت بھی ہلاک ہو گئی۔
وَ انْحَلَّتْ عُقَدُ الْکُفْرِ وَ الشَّقاقِ،
اور کفر و شقاوت کے بند ٹوٹ گئے،
وَ فُهْتُمْ بِکَلِمَةِ الْاِخْلاصِ فی نَفَرٍ مِنَ الْبیضِ الْخِماصِ.
چند معزز فاقہ کش ہستیوں کی معیت میں تم کلمۂ توحید کا اقرار کرنے لگے،(۴۸)
وَ کُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ،
جبکہ تم آگ کے گڑھے کے دہانے پر تھے
مُذْقَةَ الشَّارِبِ، وَ نُهْزَةَ الطَّامِعِ، وَ قُبْسَةَ الْعِجْلانِ، وَ مَوْطِیءَ الْاَقْدامِ،
تم (اپنے دشمنوں کے مقابلے میں) پینے والے کے لئے گھونٹ بھر پانی، طمع و لالچ والے (استعمار گروں کے لیے) ایک تر نو آلہ، جلدی بجھ جانے والی چنگاری اور قدموں کے نیچے پامال ہونے والے خس و خاشاک تھے (یعنی اس سے زیادہ تمہاری حیثیت نہ تھی۔)(۴۹)
تَشْرَبُونَ الطَّرْقَ،
تم کیچڑ والے بدبو دار پانی سے پیاس بجھاتے تھے،
وَ تَقْتاتُونَ الْوَرَقَ،
اور گھاس پھونس سے بھوک مٹاتے تھے۔
اَذِلَّةً خاسِئینَ،
تم (اس طرح) ذلت و خواری میں زندگی بسر کرتے تھے۔ (۵۰)
تَخافُونَ اَنْ یَتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِکُمْ،
تمہیں ہمیشہ یہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ آس پاس کے لوگ تمہیں کہیں اچک نہ لیں۔
فَاَنْقَذَکُمُ اللَّهُ تَبارَکَ وَ تَعالی بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَ الِهِ بَعْدَ اللَّتَیَّا وَ الَّتی،
ایسے حالات میں اللہ نے تمہیں محمدؐ کے ذریعے نجات دی۔ (۵۱)
وَ بَعْدَ اَنْ مُنِیَ بِبُهَمِ الرِّجالِ، وَ ذُؤْبانِ الْعَرَبِ، وَ مَرَدَةِ اَهْلِ الْکِتابِ.
(اس سلسلے میں) انہیں زور آوروں، عرب بھیڑیوں اور سرکش اہل کتاب کا مقابلہ کرنا پڑا۔
کُلَّما اَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ اَطْفَأَهَا اللَّهُ،
دشمن جب بھی جنگ کے شعلے بھڑکاتے اللہ انہیں بجھا دیتا۔
اَوْ نَجَمَ قَرْنُ الشَّیْطانِ، اَوْ فَغَرَتْ فاغِرَةٌ مِنَ الْمُشْرِکینَ،
جب بھی کوئی شیطان سر اٹھاتا یا مشرکین میں سے کوئی اژدھا منہ کھولتا،
قَذَفَ اَخاهُ فی لَهَواتِها،
رسول اپنے بھائی(علی ؑ) کو اس کے حلق کی طرف آگے کرتے تھے۔
فَلا یَنْکَفِیءُ حَتَّى یَطَأَ جِناحَها بِأَخْمَصِهِ،
اور وہ (علی ؑ) ان لوگوں کے غرور کو اپنے پیروں تلے پامال کیے بغیر
وَ یَخْمِدَ لَهَبَها بِسَیْفِهِ،
اور اپنی تلوار سے اس آتش کو فرد کیے بغیر نہیں لوٹتے تھے۔(۵۲)
مَکْدُوداً فی ذاتِ اللَّهِ،
وہ راہ خدا میں جانفشاں،
مُجْتَهِداً فی اَمْرِ اللَّهِ،
اللہ کے معاملے میں مجاہد (۵۳)،
قَریباً مِنْ رَسُولِاللَّهِ،
رسول اللہ کے نہایت قریبی (۵۴)
سَیِّداً فی اَوْلِیاءِ اللَّهِ،
اور اولیاء اللہ کے سردار تھے۔ (۵۵)
مُشَمِّراً ناصِحاً مُجِدّاً کادِحاً،
وہ(جہاد کیلئے) ہمہ وقت کمر بستہ، امت کے خیر خواہ، عزم محکم کے مالک (اور) راہ حق میں جفاکش تھے۔
لا تَأْخُذُهُ فِی اللَّهِ لَوْمَةَ لائِمٍ.
راہ خدا میں وہ کسی کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے تھے
وَ اَنْتُمَ فی رَفاهِیَّةٍ مِنَ الْعَیْشِ،
مگر تم ان دنوں عیش و آرام کی زندگی بسر کرتے تھے،
و ادِعُونَ فاکِهُونَ آمِنُونَ،
نیز سکون اور خوشی میں امن و امان کے ساتھ رہتے تھے۔
تَتَرَبَّصُونَ بِنَا الدَّوائِرَ،
تم اس انتظار میں رہتے تھے کہ ہم پر مصیبتیں آئیں
وَ تَتَوَکَّفُونَ الْاَخْبارَ،
اور تمہیں بری خبریں سننے کو ملیں۔
وَ تَنْکُصُونَ عِنْدَ النِّزالِ،وَ تَفِرُّونَ مِنَ الْقِتالِ
تم جنگ کے وقت پسپائی اختیار کر تے تھے اور لڑائی میں راہ فرار اختیار کرتے تھے۔ (۵۶)
فَلَمَّا اِختارَ اللَّهُ لِنَبِیِّهِ دارَ اَنْبِیائِهِ وَ مَأْوى اَصْفِیائِهِ،
پھر جب اللہ نے اپنے نبیؐ کے لئے مسکن انبیاء اور برگزیدہ گان کی قرار گاہ (آخرت) کو پسند کیا۔
ظَهَرَ فیکُمْ حَسْکَةُ النِّفاقِ،
تو تمہارے دلوں میں نفاق کے کانٹے نکل آئے (۵۷)
وَ سَمَلَ جِلْبابُ الدّینِ،
اور دین کا لبادہ تار تار ہو گیا۔
وَ نَطَقَ کاظِمُ الْغَاوِیْنَ،
ضلالت کی زبانیں چلنے لگیں۔
وَ نَبَغَ خَامِلُ الْاَقَلّینَ،
بے مایہ لوگوں نے سر اٹھانا شروع کیا،
وَ هَدَرَ فَنیقُ الْمُبْطِلینَ،
اور باطل کے سرداروں نے گرجنا شروع کر دیا۔ (۵۸)
فَخَطَرَ فی عَرَصاتِکُمْ،
پھر وہ دم ہلاتے ہوئے تمہارے اجتماعات میں آگئے۔
وَ اَطْلَعَ الشَّیْطانُ رَأْسَهُ مِنْ مَغْرَزِهِ،هَاتِفاً بِکُمْ،
شیطان بھی اپنی کمین گاہ سے سر نکالا اور تمہیں پکارنے لگا۔
فَأَلْفاکُمْ لِدَعْوَتِهِ مُسْتَجِیْبَیْنَ،
اس نے تمہیں اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے پایا۔
وَ لِلْغِرَّةِ فِیهِ مُلاحِظِیْنَ،
اور اس کے مکرو فریب کے لیے آمادہ و منتظر پایا۔
ثُمَّ اسْتَنْهَضَکُمْ فَوَجَدَکُمْ خِفافاً،
پھر شیطان نے تمہیں اپنے مقصد کے لئے اٹھایا اور تمہیں سبک رفتاری سے اٹھتے دیکھا۔
وَ اَحْمَشَکُمْ فَاَلْفاکُمْ غِضاباً،
اس نے تمہیں بھڑکایا تو تم فوراً غضب میں آ گئے۔
فَوَسَمْتُمْ غَیْرَ اِبِلِکُمْ،
تم نے اپنے نشان دوسروں کے اونٹوں پر لگا دیے۔ (۵۹)
وَ وَرَدْتُمْ غَیْرَ مَشْرَبِکُمْ. هذا،
اور اپنے گھاٹ کی جگہ دوسروں کے گھاٹ سے پانی بھرنے کی کوشش کی۔(۶۰)
وَ الْعَهْدُ قَریبٌ،وَالْکَلْمُ رَحیبٌ،
یہ تمہاری حالت ہے جبکہ ابھی عہد رسول قریب ہی گذرا ہے، زخم گہرا ہے (۶۱)
وَ الْجُرْحُ لَمَّا یَنْدَمِلُ،
اور جراحت ابھی مندمل نہیں ہوئی۔
وَ الرَّسُولُ لَمَّا یُقْبَرُ، اِبْتِداراً زَعَمْتُمْ خَوْفَ الْفِتْنَةِ،
ابھی رسول ؐ کی تدفین نہیں ہوئی تھی کہ تم نے فتنہ کا بہانہ بنا کر عجلت سے کام لیا۔
اَلا فِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوا، وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحیطَةٌ بِالْکافِرینَ.
دیکھو یہ فتنے میں پڑ چکے ہیں اور جہنم نے ان کافروں کو گھیر رکھا ہے۔ (توبہ؍۴۹)
فَهَیْهاتَ مِنْکُمْ، وَ کَیْفَ بِکُمْ،
تم سے بعید تھا کہ تم نے یہ کیسے سوچا؟
وَ اَنَّى تُؤْفَکُونَ،
تم کدھر بہکے جا رہے ہو؟ (۶۳)
وَ کِتابُ اللَّهِ بَیْنَ اَظْهُرِکُمْ،
حالانکہ کتاب خدا تمہارے درمیان ہے، (۶۴)
اُمُورُهُ ظاهِرَةٌ،
جس کے دستور واضح،
وَ اَحْکامُهُ زاهِرَةٌ،
احکام روشن،
وَ اَعْلامُهُ باهِرَةٌ،
تعلیمات آشکار،
و زَواجِرُهُ لائِحَةٌ،
تنبیہات غیر مبہم،
وَ اَوامِرُهُ واضِحَةٌ،
اور اس کے اوامر واضح ہیں۔
وَ قَدْ خَلَّفْتُمُوهُ وَراءَ ظُهُورِکُمْ،
اس قرآن کو تم نے پس پشت ڈال دیا۔ کیا تم اس سے منہ موڑ لینا چاہتے ہو؟
أَرَغْبَةً عَنْهُ تُریدُونَ؟ اَمْ بِغَیْرِهِ تَحْکُمُونَ؟
کیا تم اس کے بغیر فیصلے کرنے کے خواہاں ہو؟
بِئْسَ لِلظَّالمینَ بَدَلاً،
یہ ظالموں کے لیے برا بدل ہے
وَ مَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلامِ دیناً فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْهُ، وَ هُوَ فِی الْاخِرَةِ مِنَ الْخاسِرینِ.
اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا خواہاں ہو گا وہ اسے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔
ثُمَّ لَمْ تَلْبَثُوا اِلى رَیْثَ اَنْ تَسْکُنَ نَفْرَتَها، وَ یَسْلَسَ قِیادَها،
پھر تمہیں خلافت حاصل کرنے کی اتنی جلدی تھی کہ خلافت کے بدکے ہوئے ناقہ کے رام ہونے اور مہار تھامنے کا بھی تم نے مشکل سے انتظار کیا (۶۵)
ثُمَّ اَخَذْتُمْ تُورُونَ وَ قْدَتَها،
پھر تم نے آتش فتنہ کو بھڑکایا
وَ تُهَیِّجُونَ جَمْرَتَها،
اور اس کے شعلے کو پھیلانا شروع کیا
وَ تَسْتَجیبُونَ لِهِتافِ الشَّیْطانِ الْغَوِىِّ،
اور تم شیطان کی گمراہ کن پکار پر لبیک کہنے لگے۔
وَ اِطْفاءِ اَنْوارِالدّینِ الْجَلِیِّ، وَ اِهْمالِ سُنَنِ النَّبِیِّ الصَّفِیِّ،
تم دین کے روشن چراغوں کو بجھانے اور برگزیدہ نبی کی تعلیمات سے چشم پوشی کرنے لگے۔
تُسِرُّونَ حَسْواً فِی ارْتِغاءٍ،
تم بالائی لینے کے بہانے پورے دودھ کو پی جاتے ہو(۶۶)
وَ تَمْشُونَ لِاَهْلِهِ وَ وَلَدِهِ فِی الْخَمَرِ وَ الضَّرَّاءِ،
اور رسولؐ کی اولاد اور اہل بیت ؑکے خلاف خفیہ چالیں چلتے ہو۔ (۶۷)
وَ نَصْبِرُ مِنْکُمْ عَلى مِثْلِ حَزِّ الْمَدى، وَ وَخْزِالسِّنَانِفىِالْحَشَاءِ
تمہاری طرف سے خنجر کے زخم اور نیزے کے وار کے باوجود ہم صبر سے کام لیں گے
وَ اَنْتُمُ الانَ تَزَْعُمُونَ اَنْ لا اِرْثَ لَنا
اب تمہارا یہ خیال ہے کہ رسول ؐ کی میراث میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہیـ۔
أَفَحُکْمَ الْجاهِلِیَّةِ تَبْغُونَ،
کیا تم لوگ جاہلیت کے دستور کے خواہاں ہو؟(۶۸)
وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُکْماً لِقَومٍ یُوقِنُونَ،
اور اہل یقین کے لیے اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہے؟
أَفَلا تَعْلَمُونَ؟
کیا تم جانتے نہیں ہو؟
بَلى،قَدْ تَجَلَّى لَکُمْ کَالشَّمْسِ الضَّاحِیَةِ
کیوں نہیں! یہ بات تمہارے لیے روز روشن کی طرح واضح ہے
أَنّی اِبْنَتُهُ
کہ میں رسولؐ کی بیٹی ہوں۔
اَیُّهَا الْمُسْلِمُونَ! أَاُغْلَبُ عَلى اِرْثی؟
مسلمانو! کیا میں ارث میں محرومی پر مجبور ہوں (۶۹)
یَابْنَ اَبیقُحافَةَ! اَفی کِتابِ اللَّهِ تَرِثُ اَباکَ وَ لا اَرِثُ اَبی؟ لَقَدْ جِئْتَ شَیْئاً فَرِیّاً،
اے ابو قحافہ کے بیٹے!کیا اللہ کی کتاب میں ہے کہ تمہیں اپنے باپ کی میراث مل جائے اور مجھے اپنے باپ کی میراث نہ ملے۔ (۷۰)
اَفَعَلى عَمْدٍ تَرَکْتُمْ کِتابَ اللَّهِ
تم نے بری چیز پیش کی کیا تم نے جان بوجھ کر کتاب اللہ کو ترک کیا
وَ نَبَذْتُمُوهُ وَراءَ ظُهُورِکُمْ،
اور اسے پس پشت ڈال دیا ہے
إذْ یَقُولُ:
جبکہ قرآن کہتا ہے
وَ وَرِثَ سُلَیْمانُ داوُدَ
اور سلیمان داؤد کے وارث بنے(۷۱)
وَ قالَ فیما اقْتَصَّ مِنْ خَبَرِ زَکَرِیَّا اِذْ قالَ:
اور یحییٰ بن زکریا کے ذکر میں فرمایا: جب انہوں نے خدا سے عرض کی:
فَهَبْ لی مِنْ لَدُنْکَ وَلِیّاً
پس تو مجھے اپنے فضل سے ایک جانشین عطا فرما
یَرِثُنی وَ یَرِثُ مِنْ الِیَعْقُوبَ،
جو میرا وارث بنے اور آل یعقوب کا وارث بنے، (۷۲)
وَ قالَ: وَ اوُلُوا الْاَرْحامِ بَعْضُهُمْ اَوْلی ببَعْضٍ فی کِتابِ اللَّهِ،
نیز فرمایا: اللہ کی کتاب میں خونی رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔ (۷۳)
وَ قالَ:
نیز فرمایا:
یُوصیکُمُ اللَّهُ فی اَوْلادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ،
اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں ہدایت فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔ (۷۴)
وَ قالَ:
نیز فرمایا:
اِنْ تَرَکَ خَیْراً الْوَصِیَّةَ لِلْوالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبَیْنِ بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَى الْمُتَّقینَ
اگر مرنے والا مال چھوڑ جائے، تو اسے چاہیے کہ والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لئے مناسب طور پر وصیت کرے۔ (۷۵)
وَ زَعَمْتُمْ اَنْ لا حَظْوَةَ لی، وَ لا اَرِثُ مِنْ اَبی، وَ لا رَحِمَ بَیْنَنا،
اس کے باوجود تمہارا خیال ہے کہ میرے باپ کی طرف سے میرے لیے نہ کوئی وقعت ہے نہ ارث اور نہ ہمارے درمیان کوئی رشتہ۔
اَفَخَصَّکُمُ اللَّهُ بِایَةٍ اَخْرَجَ اَبی مِنْها؟
کیا اللہ نے تمہارے لیے کوئی مخصوص آیت نازل کی ہے جس میں میرے والد گرامی شامل نہیں ہیں؟
اَمْ هَلْ تَقُولُونَ: اِنَّ اَهْلَ مِلَّتَیْنِ لا یَتَوارَثانِ؟
کیا تم یہ کہتے ہو کہ دو مختلف دین والے باہم وارث نہیں بن سکتے۔
اَوَ لَسْتُ اَنَا وَ اَبی مِنْ اَهْلِ مِلَّةٍ واحِدَةٍ؟
کیا میں اور میرے والد ایک ہی دین سے تعلق نہیں رکھتے؟
اَمْ اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِخُصُوصِ الْقُرْانِ وَ عُمُومِهِ مِنْ اَبی وَابْنِ عَمّی؟
کیا میرے باپ اور میرے چچازاد (علی ؑ) سے زیادہ تم قرآن کے عمومی و خصوصی احکام کا علم رکھتے ہو۔ (۷۶)
فَدُونَکَها مَخْطُومَةً مَرْحُولَةً
لے جاؤ!! (میری وراثت کو) اس آمادہ سواری کی طرح جس کی مہار ہاتھ میں ہو۔
تَلْقاکَ یَوْمَ حَشْرِکَ
تمہارے ساتھ حشر میں میری ملاقات ہو گی
فَنِعْمَ الْحَکَمُ اللَّهُ،
جہاں بہترین فیصلہ سنانے والا اللہ ہو گا
وَ الزَّعیمُ مُحَمَّدٌ،
اور محمدؐ کی سرپرستی ہو گی
وَ الْمَوْعِدُ الْقِیامَةُ،
اور عدالت کی وعدہ گاہ قیامت ہو گی،
وَ عِنْدَ السَّاعَةِ یَخْسِرُ الْمُبْطِلُونَ،
جب قیامت کی گھڑی آئے گی تو باطل پرست خسارہ اٹھائیں گے
وَ لا یَنْفَعُکُمْ اِذْ تَنْدِمُونَ،
اس وقت ندامت سے کوئی فائدہ نہیں ملے گا،
وَ لِکُلِّ نَبَأٍ مُسْتَقَرٌّ، وَ لَسَوْفَ تَعْلَمُونَ
ہر خبر کے لیے ایک وقت مقرر ہے عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا۔(۷۷)
مَنْ یَأْتیهِ عَذابٌ یُخْزیهِ،
کس پر رسوا کن عذاب آتا ہے
وَ یَحِلُّ عَلَیْهِ عَذابٌ مُقیمٌ
اور کس پر دائمی عذاب نازل ہونے والا ہے۔(۷۸)
ثم رمت بطرفها نحو الانصار،فقالت:
پھر انصار کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:
یا مَعْشَرَ النَّقیبَةِ وَ اَعْضادَ الْمِلَّةِ
اے بزرگو اور ملت کے بازؤو
وَ حَضَنَةَ الْاِسْلامِ!
اور اسلام کے نگہبانو! (۷۹)
ما هذِهِ الْغَمیزَةُ فی حَقّی
میرے حق میں اس حد تک تساہل،
وَ السِّنَةُ عَنْ ظُلامَتی؟
مجھے میرا حق دلانے میں اتنی کوتاہی کا کیا مطلب ؟
اَما کانَ رَسُولُاللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَ الِهِ اَبی یَقُولُ:
کیا اللہ کے رسول اور میرے پدر بزرگوار یہ نہیں فرماتے تھے:
اَلْمَرْءُ یُحْفَظُ فی وُلْدِهِ،
کہ شخصیت کا احترام اس کی اولاد کے احترام کے ذریعے برقرار رکھا جاتا ہے؟
سَرْعانَ ما اَحْدَثْتُمْ
کس سرعت سے تم نے بد عت شروع کر دی
وَ عَجْلانَ ذا اِهالَةٍ،
اور کتنی جلدی اندر کی غلاظت باہر نکل آئی۔
وَ لَکُمْ طاقَةٌ بِما اُحاوِلُ،
حالانکہ تم میری کوششوں میں تعاون کر سکتے تھے
وَ قُوَّةٌ عَلى ما اَطْلُبُ وَ اُزاوِلُ.
اور میرے مطالبے کی تائید و حمایت کر سکتے تھے۔
اَتَقُولُونَ ماتَ مُحَمَّدٌ؟
کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ محمدؐ اس دنیا میں نہیں رہے (لہٰذا ہم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی)؟
فَخَطْبٌ جَلیلٌ اِسْتَوْسَعَ وَ هْنُهُ،
ان کی رحلت عظیم سانحہ ہے،
وَاسْتَنْهَرَ فَتْقُهُ،
جس کی دراڑ کشادہ ہے،
وَ انْفَتَقَ رَتْقُهُ،
اس کا شگاف اتنا چوڑا ہے جسے بھرا نہیں جا سکتا۔
وَ اُظْلِمَتِ الْاَرْضُ لِغَیْبَتِهِ،
ان کی رحلت سے زمین پر اندھیرا چھا گیا
وَ کُسِفَتِ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ انْتَثَرَتِ
نیز سورج اور چاند کو گرہن لگ گیا،
النُّجُومُ لِمُصیبَتِهِ،
ستارے بکھر گئے،
وَ اَکْدَتِ الْامالُ،
امیدیں یاس میں بدل گئیں،
وَ خَشَعَتِ الْجِبالُ،
اور پہاڑ شکست و ریخت سے دوچار ہو گئے۔
وَ اُضیعَ الْحَریمُ،وَ اُزیلَتِ الْحُرْمَةُ عِنْدَ مَماتِهِ
حضور کی رحلت کے موقع پر نہ تو حرم رسول کو تخفظ ملا اور نہ ہی حرمت رسول کا لحاظ رکھا گیا۔(۸۰)
فَتِلْکَ وَاللَّهِ النَّازِلَةُ الْکُبْرى
بخدا یہ بہت بڑا حادثہ تھا
وَ الْمُصیبَةُ الْعُظْمى،
اور عظیم مصیبت تھی۔
لامِثْلُها نازِلَةٌ، وَ لا بائِقَةٌ عاجِلَةٌ
نہ اس جیسا کوئی دل خراش واقعہ کبھی پیش آیا نہ اتنی بڑی مصیبت واقع ہوئی۔(۸۱)
اُعْلِنَ بِها، کِتابُ اللَّهِ جَلَّ ثَناؤُهُ فی
اللہ کی کتاب نے تو اس کا پہلے اعلان کر دیا ہے (۸۲)
اَفْنِیَتِکُمْ هِتَافاً وَصُراخاً وَتِلاوَةً وَاِلْحاناً،
جسے تم اپنے گھروں میں بلند اور دھیمی آواز میں خوش الحانی کے ساتھ تلاوت کرتے ہو
وَ لَقَبْلَهُ ما حَلَّ بِاَنْبِیاءِ اللَّهِ وَ رُسُلِهِ، حُکْمٌ فَصْلٌ وَ قَضاءٌ حَتْمٌ.
ایسا اعلان جس سے سابقہ انبیا و رُسل کو دوچار ہونا پڑا ہے جو ایک حتمی فیصلہ اور قطعی حکم ہے (۸۳) (وہ اعلان یہ ہے)
وَ ما مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اَفَاِنْ ماتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلى اَعْقابِکُمْ وَ مَنْ یَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَضُرَّ اللَّهَ شَیْئاً وَ سَیَجْزِى اللَّهُ شَیْئاً وَ سَیَجْزِى اللَّهُ الشَّاکِرینَ.
اور محمدؐ تو بس رسول ہیں ان سے پہلے اور بھی رسول گذر چکے ہیں بھلا اگر یہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ جو الٹے پاؤں پھر جائے گا وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ شکر گزاروں کو عنقریب جزا دے گا۔(۸۴)
ایهاً بَنی قیلَةَ! ءَ اُهْضَمُ تُراثَ اَبی
تم سے بعید تھا اے قیلہ کے فرزندو(۸۵)
وَ اَنْتُمْ بِمَرْأى مِنّی وَ مَسْمَعٍ وَ مُنْتَدى وَ مَجْمَعٍ،
(کہ) میرے باپ کی میراث مجھ سے چھینی جائے اور تم سامنے کھڑے دیکھ رہے ہو، میری آنکھوں کے سامنے بھرے مجمعوں اور محفلوں کے سامنے میری دعوت تم تک پہنچ چکی ہے
تَلْبَسُکُمُ الدَّعْوَةُ وَ تَشْمَلُکُمُ الْخُبْرَةُ،
میرے حالات سے تم آگاہ ہو
وَ اَنْتُمْ ذَوُو الْعَدَدِ وَ الْعُدَّةِ وَ الْاَداةِ وَ الْقُوَّةِ، وَ عِنْدَکُمُ السِّلاحُ وَ الْجُنَّةُ،
اور تم تعداد و استعداد سامان حرب اور قوت میں کمزور نہیں ہو، تمہارے پاس کافی اسلحہ اور دفاعی سامان موجود ہے
تُوافیکُمُ الدَّعْوَةُ فَلا تُجیبُونَ،
میری پکار تم تک پہنچ رہی ہے اور چپ سادھے ہوئے ہو۔
وَ تَأْتیکُمُ الصَّرْخَةُ فَلا تُغیثُونَ، وَ اَنْتُمْ مَوْصُوفُونَ بِالْکِفاحِ،
میری فریاد تم سن رہے ہو اور فریاد رسی نہیں کرتے ہو حالانکہ بہادری میں تمہاری شہرت ہے
مَعْرُوفُونَ بِالْخَیْرِ وَ الصَّلاحِ،
اور خیر و صلاح میں تم معروف ہو
وَ النُّخْبَةُ الَّتی انْتُخِبَتْ،
تم وہ برگزیدہ لوگ ہو
وَ الْخِیَرَةُ الَّتِی اخْتیرَتْ لَنا اَهْلَ الْبَیْتِ
جو ہم اہل البیت کے لئے پسندیدہ لوگوں میں شمار ہوتے ہو۔
قاتَلْتُمُ الْعَرَبَ،
عربوں کے خلاف جنگ تم نے لڑی
وَ تَحَمَّلْتُمُ الْکَدَّ وَ التَّعَبَ،
اذیت اور سختیاں تم نے برداشت کیں
وَ ناطَحْتُمُ الْاُمَمَ،
دیگر اقوام کے ساتھ نبرد آزما تم ہوئے
وَ کافَحْتُمُ الْبُهَمَ،
جنگجوؤں کا مقابلہ تم نے کیا (۸۶)
لا نَبْرَحُ اَوْ تَبْرَحُونَ،
تم ہمیشہ ہمارے ساتھ اور ہم تمہارے ساتھ رہے
نَأْمُرُکُمْ فَتَأْتَمِرُونَ،
اور تم نے ہمارے احکام کی تعمیل کی
حَتَّى اِذا دارَتْ بِنا رَحَى الْاِسْلامِ، وَ دَرَّ حَلَبُ الْاَیَّامِ،
یہاں تک جب ہمارے ذریعے اسلام اپنے محور میں گھومنے لگا اور زمانے کی برکتیں فرواں ہو گئیں۔
وَ خَضَعَتْ نُعْرَةُ الشِّرْکِ،
شرک کا نعرہ دب گیا
وَ سَکَنَتْ فَوْرَةُ الْاِفْکِ،
جھوٹ کا زور ٹوٹا
وَ خَمَدَتْ نِیْرَانُ الْکُفْرِ،
کفر کی آگ بجھی
وَ هَدَأَتْ دَعْوَةُ الْهَرَجِ،
فتنے کی آواز دب گئی
وَ اسْتَوْسَقَ نِظامُ الدّینِ،
اور دین کا نظام مستحکم ہو گیا
فَاَنَّى حِزْتُمْ بَعْدَ الْبَیَانِ،
تو اب حقیقت واضح ہونے کے بعد متحیر کیوں ہو
وَاَسْرَرْتُمْ بَعْدَ الْاِعْلَانِ،
(حقیقت) آشکار ہونے کے بعد پردہ کیوں ڈالتے ہو
وَ نَکَصْتُمْ بَعْدَ الْاِقْدَامِ، وَاَشْرَکْتُمْ بَعْدَ الْاِیْمَانِ؟
پیش قدمی کے بعد پیچھے کیوں ہٹ رہے ہو ایمان کے بعد شرک کے مرتکب کیوں ہو رہے ہو؟
الا تقاتلون ِقَوْماً نَکَثُوا اَیْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ،
کیا تم ایسے لوگوں سے نہیں لڑو گے جو اپنے عہد کے بعد اپنی قسمیں توڑتے ہیں
وَ هَمُّوا بِاِخْرَاجِ الرَّسُولِ
اور جنہوں نے رسول کو نکالنے کا ارادہ کیا تھا؟
وَ هُمْ بَدَؤُکُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ،
انہی لوگوں نے تم سے زیادتی میں پہل کی کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟
اَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ اِنْ کُنْتُمْ مُؤمِنینَ
اگر تم مؤمن ہو تو اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو۔(۸۷)
اَلا وَ قَدْ أَرىٰ اَنْ قَدْ اَخْلَدْتُمْ اِلَى الْخَفْضِ،
اچھا۔ میں دیکھ رہی ہوں کہ تم راحت طلب ہو گئے ہو
وَ اَبْعَدْتُمْ مَنْ هُوَ اَحَقُّ بِالْبَسْطِ وَ الْقَبْضِ،
اور جو شخص معاملات کے حل و عقد یعنی امور مملکت چلانے کا زیادہ حقدار تھا اسے تم نے نظر انداز کر دیا،
وَ خَلَوْتُمْ بِالدَّعَةِ،وَ نَجَوْتُمْ بِالضّیقِ مِنَ السَّعَةِ،
تم نے اپنے لیے کنج عافیت تلاش کر لیا اور تنگ دستی سے نکل کر تونگری حاصل کر لی (۸۸)
فَمَجَجْتُمْ ما وَعَبْتُمْ،وَ دَسَعْتُمُ الَّذى تَسَوَّغْتُمْ،
تم نے ایمان کی جو باتیں یاد کی تھیں انہیں ہوا میں بکھیر دیا اور جس طعام کو گوارا سمجھ کر نگل لیا تھا اسے نکال پھینکا۔(۸۹)
فَاِنْ تَکْفُرُوا اَنْتُمْ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمیعاً فَاِنَّ اللَّهَ لَغَنِیٌّ حَمیدٌ.
اگر تم اور زمین میں بسنے والے سب کفران نعمت کریں تو بھی اللہ بے نیاز اور لائق حمد ہے
اَلا، وَ قَدْ قُلْتُ ما قُلْتُ هذا عَلى مَعْرِفَةٍ مِنّی
سنو! جو کچھ میں نے کہا وہ اس علم کی بنیاد پر کہا جو مجھے حاصل تھا
بِالْخِذْلَةِ الَّتی خامَرْتُکُمْ،
اس بے وفائی پر جو تمہارے اندر رچ بس گئی ہے۔
وَ الْغَدْرَةِ الَّتِی اسْتَشْعَرَتْها قُلُوبُکُمْ،
اس عہد شکنی پر جسے تمہارے دلوں نے اپنا شعار بنا لیا ہے۔
وَ لکِنَّها فَیْضَةُ النَّفْسِ، وَ نَفْثَةُ الْغَیْظِ،
میری یہ گفتگو سوزش جان تھی اور غیض و غضب کا اظہار تھا۔
وَ حَوَزُ الْقَناةِ، وَ بَثَّةُ الصَّدْرِ،
اور غم و غصہ کی آگ تھی جو بھڑک اٹھی اعضاء و جوارح کا ساتھ چھوڑ دینے کی نقاہت تھی۔
وَ تَقْدِمَةُ الْحُجَّةِ،
سینے کا درد و الم تھا اور حجت تمام کرنا چاہتی تھی
فَدُونَکُمُوها فَاحْتَقِبُوها
اقتدار کے اونٹ کو سنبھالو اس پر پالان کس لو
دَبِرَةَ الظَّهْرِ، نَقِبَةَ الْخُفِّ، باقِیَةَ الْعارِ،
مگر یاد رکھو کہ اس کی پیٹھ مجروح اور پاؤں کمزور ہیں۔ دائمی عارو ننگ اس کے ساتھ ہے۔(۹۰)
مَوْسُومَةً بِغَضَبِ الْجَبَّارِ وَ شَنارِ الْاَبَدِ،
اور یہ اللہ تعالیٰ کے غضب کی نشانی ہو گی اور ساتھ ابدی عار و ننگ ہو گا۔
مَوْصُولَةً بِنارِ اللَّهِ الْمُوقَدَةِ الَّتی تَطَّلِعُ عَلَى الْاَفْئِدَةِ.
یہ اس آتش سے وابستہ ہے جو اللہ نے بھڑکائی ہے جس کی تپش دلوں تک پہنچتی ہے۔
فَبِعَیْنِ اللَّهِ ما تَفْعَلُونَ،
تمہارا یہ سلوک اللہ کے سامنے ہے
وَ سَیَعْلَمُ الَّذینَ ظَلَمُوا اَىَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُونَ،
ظالموں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام کو پلٹ کر جائیں گے
وَ اَنَا اِبْنَةُ نَذیرٍ لَکُمْ بَیْنَ یَدَىْ عَذابٌ شَدیدٌ،
اور میں اس کی بیٹی ہوں جو تمہیں شدید عذاب کی آمد سے پہلے تنبیہ کرنے والا ہے۔
فَاعْمَلُوا اِنَّا عامِلُونَ،
تم نے جو کرنا ہے وہ کر لو ہم بھی اپنا عمل انجام دیں گے
وَ انْتَظِرُوا اِنَّا مُنْتَظِرُونَ.
تم بھی انتظار کرو۔ ہم بھی انتظار کریں گے۔
خواتین سے خطاب
فَقُلْنَ لَهَا كَيْفَ أَصْبَحْتِ مِنْ عِلَّتِكِ يَا اِبْنَةَ رَسُولِ اَللَّهِ فَحَمِدَتِ اَللَّهَ وَ صَلَّتْ عَلَى أَبِيهَا ثُمَّ قَالَتْ
خواتین مدینہ نے کہا: اے دختر رسولؐ! آپؑ کی علالت کا کیا حال ہے؟حمد خدا اور اپنے پدر بزرگوار پر درود بھیجنے کے بعد فرمایا:
أَصْبَحْتُ وَ اَللَّهِ عَائِفَةً لِدُنْيَاكُنَّ قَالِيَةً لِرِجَالِكُنَّ، لَفَظْتُهُمْ بَعْدَ أَنْ عَجَمْتُهُمْ وَ سَئِمْتُهُمْ بَعْدَ أَنْ سَبَرْتُهُمْ
میں نے اس حال میں صبح کی کہ تمہاری اس دنیا سے بیزار ہوں اور تمہارے مردوں سے متنفر ہوں، جانچنے کے بعد میں نے انہیں دھتکار دیا، امتحان کے بعد مجھے ان سے نفرت ہو گئی۔
فَقُبْحاً لِفُلُولِ اَلْحَدِّ وَ اَللَّعِبِ بَعْدَ اَلْجِدِّ وَ قَرْعِ اَلصَّفَاةِ وَ صَدْعِ اَلْقَنَاةِ وَ خَطَلِ اَلْآرَاءِ وَ زَلَلِ اَلْأَهْوَاءِ وَ بِئْسَ مٰا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنْفُسُهُمْ أَنْ سَخِطَ اَللّٰهُ عَلَيْهِمْ وَ فِي اَلْعَذٰابِ هُمْ خٰالِدُونَ
کس قدر زشت ہے دھاروں کی کندکاری اور کتنی بری لگتی ہے سنجیدگی کے بعد بازی گری، اور بے سود سنگ کوبی، اور نیزوں کی شکستگی ، اور کتنا قبیح ہے نظریات کا انحراف اور کتنی بری ہیں خواہشات کی لغزشیں، اور انہوں نے اپنے لئے جو کچھ آگے بھیجا ہے وہ نہایت برا ہے جس سے اللہ ان سے ناراض ہوا اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے۔
لاَ جَرَمَ لَقَدْ قَلَّدْتُهْم رِبْقَتَهَا وَ حَمَّلْتُهُمْ أَوْقَتَهَا وَ شَنَنْتُ عَلَيْهِمْ غَارَاتِهَا فَجَدْعاً وَ عَقْراً وَ بُعْداً لِلْقَوْمِ اَلظّٰالِمِينَ وَيْحَهُمْ أَنَّى زَعْزَعُوهَا عَنْ رَوَاسِي اَلرِّسَالَةِ وَ قَوَاعِدِ اَلنُّبُوَّةِ وَ اَلدَّلاَلَةِ وَ مَهْبِطِ اَلرُّوحِ اَلْأَمِينِ وَ اَلطَّبِينِ بِأُمُورِ اَلدُّنْيَا وَ اَلدِّينِ أَلاٰ ذٰلِكَ هُوَ اَلْخُسْرٰانُ اَلْمُبِينُ
اب ناچار میں نے (فدک کی) رسی انہی کی گردن میں ڈال دی اور اس کا بوجھ بھی انہی کی پشت پر لاد دیا اور انہیں اس کے حملوں کی زد میں قرار دے دیا۔ کٹ جائیں ان کی سواری کی ناک اور کوچیں دور ہو رحمت سے یہ ظالم قوم۔افسوس ہو ان پر، یہ لوگ (خلافت کو) کس طرف ہٹا کر لے گئے رسالت کی محکم اساس سے، نبوت و قیادت کی مضبوط بنیادوں سے، نزول جبرائیل کے مقام سے، دین و دنیا کے امور کی عقدہ کشائی کے لئے لائق ترین ہستی سے، آگاہ رہو یہ ایک واضح نقصان ہے۔
وَ مَا اَلَّذِي نَقَمُوا مِنْ أَبِي اَلْحَسَنِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ نَقَمُوا وَ اَللَّهِ مِنْهُ نَكِيرَ سَيْفِهِ وَ قِلَّةَ مُبَالاَتِهِ لِحَتْفِهِ وَ شِدَّةَ وَطْأَتِهِ وَ نَكَالَ وَقْعَتِهِ وَ تَنَمُّرَهُ فِي ذَاتِ اَللَّهِ
ابو الحسن سے ان کو کس بات کا انتقام لینا تھا؟ قسم بخدا انہوں انتقام لیا ان کی باطل شکن تلوار کا، اور راہ خدا میں اپنی جان سے بی پرواہی کا، اور ان کی شدید استقامت کا، اور دشمن پر ان کی کاری ضرب کا، اور راہ خدا میں ان کی شجاعت کا
وَ تَاللَّهِ لَوْ مَالُوا عَنِ اَلْمَحَجَّةِ اَللاَّئِحَةِ وَ زَالُوا عَنْ قَبُولِ اَلْحُجَّةِ اَلْوَاضِحَةِ لَرَدَّهُمْ إِلَيْهَا وَ حَمَلَهُمْ عَلَيْهَا وَ لَسَارَ بِهِمْ سَيْراً سُجُحاً – لاَ يَكْلُمُ خِشَاشُهُ وَ لاَ يَكِلُّ سَائِرُهُ وَ لاَ يَمَلُّ رَاكِبُهُ
قسم بخدا اگر لوگ راہ راست سے منحرف ہو جاتے اور اللہ کی واضح حجت کو قبول کرنے سے منہ پھیر لیتے تو (ابو الحسنؑ) انہیں پھر سے راہ حق پر لے آتے اور انہیں راہ راست پر چلا لیتے اور انہیں سبک رفتاری کیساتھ (سوئے منزل) لے جاتے، نہ سواری کی نکیل ٹوٹتی، نہ مسافر کو تھکن محسوس ہوتی اور نہ سوار ہونے والے کو خستگی کا احساس ہوتا،
وَ لَأَوْرَدَهُمْ مَنْهَلاً نَمِيراً صَافِياً رَوِيّاً تَطْفَحُ ضَفَّتَاهُ وَ لاَ يَتَرَنَّقُ جَانِبَاهُ وَ لَأَصْدَرَهُمْ بِطَاناً وَ نَصَحَ لَهُمْ سِرّاً وَ إِعْلاَناً وَ لَمْ يَكُنْ يَتَحَلَّى مِنَ اَلدُّنْيَا بِطَائِلٍ وَ لاَ يَحْظَى مِنْهَا بِنَائِلٍ غَيْرَ رَيِّ اَلنَّاهِلِ وَ شُبْعَةِ اَلْكَافِلِ
اور ان کو ایسے خوشگوار صاف چشموں کے کنارے پہنچا دیتے جس کے کنارے چھلکتے ہوں۔ جس کی دونوں اطراف گدلا نہ ہوں صاف ستھری ہوں، پھر انہیں وہاں سے سیراب کر کے واپس کرتے،خلوت و جلوت میں انہیں نصیحتیں کرتے اور اس (بیت المال کی) دولت سے اپنے لیے کوئی استفادہ نہ کرتے نہ اس دنیا سے اپنے لیے کوئی فائدہ اٹھاتے، وہ صرف اس فکر میں رہتے کہ کسی پیاسے کی پیاس بجھا دیں اور کسی بھوکے کا پیٹ بھر دیں۔
وَ لَبَانَ لَهُمُ اَلزَّاهِدُ مِنَ اَلرَّاغِبِ وَ اَلصَّادِقُ مِنَ اَلْكَاذِبِ وَ لَوْ أَنَّ أَهْلَ اَلْقُرىٰ آمَنُوا وَ اِتَّقَوْا لَفَتَحْنٰا عَلَيْهِمْ بَرَكٰاتٍ مِنَ اَلسَّمٰاءِ وَ اَلْأَرْضِ وَ لٰكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْنٰاهُمْ بِمٰا كٰانُوا يَكْسِبُونَ وَ اَلَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْ هٰؤُلاٰءِ سَيُصِيبُهُمْ سَيِّئٰاتُ مٰا كَسَبُوا وَ مٰا هُمْ بِمُعْجِزِينَ أَلاَ هَلُمَّ فَاسْمَعْ وَ مَا عِشْتَ أَرَاكَ اَلدَّهْرَ عَجَباً
اور دنیا کو پتہ چل جاتا بے طمع کون ہے اور لالچی کون ہے سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے۔ اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے، لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کے سبب انہیں گرفت میں لیا۔ (اعراف، ۹۶)۔ اور ان میں سے جنہوں نے ظلم کیا ہے عنقریب ان پر بھی ان کے برے اعمال کے وبال پڑنے والے ہیں اور وہ (اللہ کو) عاجز نہیں کر سکتے (زمر، ۵۱)۔ ذرا ان کی باتیں تو سنو، جتنا جیو گے زمانہ تجھے عجوبے دکھاتا رہے گا۔
وَ إِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ لَيْتَ شِعْرِي إِلَى أَيِّ سِنَادٍ اِسْتَنَدُوا وَ إِلَى أَيِّ عِمَادٍ اِعْتَمَدُوا وَ بِأَيَّةِ عُرْوَةٍ تَمَسَّكُوا وَ عَلَى أَيَّةِ ذُرِّيَّةٍ أَقْدَمُوا وَ اِحْتَنَكُوا لَبِئْسَ اَلْمَوْلىٰ وَ لَبِئْسَ اَلْعَشِيرُ وَ بِئْسَ لِلظّٰالِمِينَ بَدَلاً اِسْتَبْدَلُوا وَ اَللَّهِ اَلذَّنَابَى بِالْقَوَادِمِ وَ اَلْعَجُزَ بِالْكَاهِلِ،
اگر تجھے تعجب آتا ہے تو تعجب انگیز ہیں ان کی باتیں، کاش یہ معلوم ہو جاتا کہ انہوں نے کس دلیل کو سند بنایا ہے اور کس ستون کا سہارا لیا ہے اور کس رسی سے متمسک ہوئے ہیں اور کس ذریت کے خلاف اقدام کیا اور ان کو زک پہنچائی؟ کتنا برا ہے ان کا سرپرست اور ان کے رفیق بھی کتنے برے ہیں اور ظالموں کا بدلہ بھی برا ہوگا۔ ان لوگوں نے اگلے شھپر کی جگہ دم سے کام لیا اور بازؤوں کی جگہ پچھلے حصے سے استفادہ کیا،
فَرَغْماً لِمَعَاطِسِ قَوْمٍ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعاً: أَلاٰ إِنَّهُمْ هُمُ اَلْمُفْسِدُونَ وَ لٰكِنْ لاٰ يَشْعُرُونَ- وَيْحَهُمْ: أَ فَمَنْ يَهْدِي إِلَى اَلْحَقِّ أَحَقُّ أَنْ يُتَّبَعَ أَمَّنْ لاٰ يَهِدِّي إِلاّٰ أَنْ يُهْدىٰ فَمٰا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ؟ أَمَا لَعَمْرِي لَقَدْ لَقِحَتْ فَنَظِرَةٌ رَيْثَمَا تُنْتَجُ ثُمَّ اِحْتَلَبُوا مِلْءَ اَلْقَعْبِ دَماً عَبِيطاً وَ ذُعَافاً مُبِيداً هُنَالِكَ يَخْسَرُ اَلْمُبْطِلُونَ وَ يُعْرَفُ اَلْبَاطِلُونَ غِبَّ مَا أُسِّسَ اَلْأَوَّلُونَ
ان لوگوں کی ناک رگڑی جائے، جو یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ٹھیک کر رہے ہیں آگاہ رہو! یہ فسادی ہیں مگر وہ شعور نہیں رکھتے۔ افسوس ہے ان پر: کیا جو حق کی راہ دکھاتا ہے وہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جو خود اپنی راہ نہیں پاتا جب تک اس کی راہنمائی نہ کی جائے۔ تمہیں ہو کیا گیا ہے تم کیسے فیصلے کر رہے ہو؟ مجھے اپنی زندگی کی قسم ہے اقتدار کی اونٹنی حمل سے ہے نتیجہ ظاہر ہونے کا انتظار ہے۔ پھر وہ برتن بھر کر دوہنے جائیں گے (دودھ کی جگہ) تازہ خون اور زہرِ قاتل یہاں پر باطل شعار نقصان اٹھائیں گے پھر آنے والی نسلوں کو معلوم ہو گا کہ ان کے اسلاف نے جو بنیاد ڈالی تھی اس کا کیا انجام ہوا؟
ثُمَّ طِيبُوا عَنْ دُنْيَاكُمْ أَنْفُساً وَ اِطْمَأَنُّوا لِلْفِتْنَةِ جَاشاً وَ أَبْشِرُوا بِسَيْفٍ صَارِمٍ وَ سَطْوَةِ مُعْتَدٍ غَاشِمٍ وَ بِهَرْجٍ شَامِلٍ وَ اِسْتِبْدَادٍ مِنَ اَلظَّالِمِينَ يَدَعُ فَيْئَكُمْ زَهِيداً وَ جَمْعَكُمْ حَصِيداً فَيَا حَسْرَتَى لَكُمْ وَ أَنَّى بِكُمْ وَ قَدْ عَمِيَتْ عَلَيْكُمْ أَ نُلْزِمُكُمُوهٰا وَ أَنْتُمْ لَهٰا كٰارِهُونَ
پھر تم اپنی دنیا سے لطف اٹھاؤ آنے والے فتنوں کے لیے دل کو آمادہ کرو، سنو خوشخبری تیز دھار تلواروں کی اور حد سے تجاوز کرنے والے ظالم کے حملوں کی اور ہمہ گیر فتنہ و فساد کی اور ظالموں کی مطلق العنانی کی۔ وہ تمہارے بیت المال کو بے قیمت بنا دے گا اور تمہاری جمعیت کی نسل کشی کرے گا۔ افسوس تمہارے حال پر،تم کدھر جا رہے ہو تمہارے لیے راہ حق ناپید ہے۔ کیا ہم اللہ کی رحمت پر چلنے پر تمہیں مجبور کر سکتے ہیں جبکہ خود تم اسے ناپسند کرتے ہو۔ (ہود، ۲۸)