نہج البلاغہ مقالات

سید رضیؒ نے ”نہج البلاغہ“ کیوں لکھی؟

کلام کے کمال کو، زبان کے بیان کی بلندیوں کو، فصاحت کے موتیوں کی مالا کو، بلاغت کے پھولوں کے گلدستوں کو، حکمتوں کے صحیفوں کو، مواعظ کے لقمانی لہجوں کو، راہ حق کے چراغوں کو، ہدایت کی شمعوں کو، قرآنی آیات کی تفسیروں کو، نبوی صداؤں کی محبتوں کو، اپنوں کو بلانے کی اداؤں کو اور دشمن کو للکارنے کی جرأتوں کو سلیقے سے سجا ہوا کہیں یکجا دیکھنا ہے تو اس سر چشمے و خزانے کا نام “نہج البلاغہ” ہے۔

“نہج البلاغہ ”جس کا متکلم کبھی فرماتا ہے:

وَ اِنَّا لَاُمَرَآءُ الْكَلَامِ، وَ فِیْنَا تَنَشَّبَتْ عُرُوْقُهٗ، وَ عَلَیْنَا تَهَدَّلَتْ غُصُوْنُهٗ.
اور ہم (اہلبیتؑ) اقلیم سخن کے فرمانروا ہیں۔ وہ ہمارے رگ و پے میں سمایا ہوا ہے اور اُس کی شاخیں ہم پر جھکی ہوئی ہیں۔ (نہج البلاغہ،خطبہ۲۳۰)

“نہج البلاغہ” جس کا خطیب فرماتا ہے:

اِنِّیْ قَدْ بَثَثْتُ لَكُمُ الْمَوَاعِظَ الَّتِیْ وَعَظَ الْاَنْۢبِیَآءُ بِهَا اُمَمَهُمْ، وَ اَدَّیْتُ اِلَیْكُمْ مَاۤ اَدَّتِ الْاَوْصِیَآءُ اِلٰی مَنْ بَعْدَهُمْ،

اے لوگو! میں نے تمہیں اسی طرح نصیحتیں کی ہيں جس طرح کی انبیاء علیہم السلام اپنی اُمتوں کو کرتے چلے آئے ہیں اور ان چیزوں کو تم تک پہنچایا ہے جو اوصیاءؑ بعد والوں تک پہنچاتے رہے۔ (نہج البلاغہ، خطبہ 180)

اس معدن علم و معرفت کو عالِم جلیل القدسیہ محمد رضیؒ نے کیوں جمع کیا اسے خود سید رضیؒ کے کلام میں ملاحظہ فرمائیں۔

آپ نے یہ تحریر نہج البلاغہ سید رضی کے دیباچہ میں تحریر فرمائی۔

دیباچہ
مؤلف نہج البلاغہ علامہ شریف رضی علیہ الرحمہ

حمد و ستائش اس اللہ کیلئے ہے جس نے حمد کو اپنی نعمتوں کی قیمت، ابتلاؤں سے بچنے کا ذریعہ، جنت کا وسیلہ اور اپنے احسانات کے بڑھانے کا سبب قرار دیا ہے۔

درود ہو اس کے رسول ﷺ پر جو نبی رحمت، پیشواؤں کا پیشوا، اُمت کا چراغ، دودمانِ شرافت کا انتخاب، قدیم ترین بزرگیوں کا نچوڑ، رگ و پے میں سمائے ہوئے فخر کی کھیتی، رفعت و بلندی کی برگ پوش و ثمردار شاخ ہے۔

اور آپؐ کے اہلبیتؑ پر رحمت ہو جو تاریکیوں کے چراغ، اُمت کیلئے سامان حفاظت، دین کے روشن مینار اور فضل و کمال کا بلند معیار ہیں۔ اللہ ان سب پر رحمت نازل کرے، ایسی رحمت جو ان کے فضل و کمال کے شایان، ان کے عمل و کردار کی جزا اور ان کی ذاتی و خاندانی پاکیزگی کے ہم پلہ ہو، جب تک صبح درخشاں لو دیتی رہے اور جگمگاتے ستارے اُبھر کر ڈوبتے رہیں۔

میں نے اوائل عمر اور شاخ جوانی کی شادابی میں آئمہ علیہم السلام کے حالات و خصائص میں ایک کتاب کی تالیف شروع کی تھی جو ان کے نفیس واقعات اور ان کے کلام کے جواہر ریزوں پر مشتمل تھی، جس کا غرض تالیف میں نے اسی کتاب کے دیباچہ میں ذکر کیا ہے اور اس میں وہ حصہ جو امیر المومنین امام علی علیہ السلام کے خصائص سے متعلق تھا پایہ تکمیل کو پہنچا، لیکن زمانہ کی مزاحمتوں اور شب و روز کی رکاوٹوں نے بقیہ کتاب پایۂ تکمیل کو نہ پہنچنے دی۔ جتنا حصہ لکھا گیا تھا اسے میں نے چند ابواب و فصول پر تقسیم کیا۔ چنانچہ اس کی آخری فصل حضرتؑ سے منقول شدہ پند و نصائح، حکم و امثلہ اور اخلاقیات کے حسین و مختصر جملوں پر مشتمل تھی، مگر طویل خطبات اور بسیط خطوط درج نہ تھے۔

احباب اور برادرانِ دینی کی ایک جماعت نے اِس کے لطیف و شگفتہ کلمات پر اظہارِ تعجب و حیرت کرتے ہوئے فصل مذکور کے مندرجات پسند کئے اور مجھ سے خواہشمند ہوئے کہ میں ایک ایسی کتاب ترتیب دوں جو امیر المومنین امام علی علیہ السلام کے تمام اسالیب کلام اور اس کے متفرق شعبوں پر حاوی ہو، از قبیل خطبات و خطوط اور نصائح و آداب وغیرہ، اس یقین کے ساتھ کہ وہ فصاحت و بلاغت کے عجائب و نوادر، عربیت کے گہر ہائے تابدار اور دین و دنیا کے متعلق درخشندہ کلمات پر مشتمل ہو گی، جو نہ کسی کلام میں جمع اور نہ کسی کتاب میں یکجا ہیں۔ چونکہ امیر المومنین امام علی علیہ السلام فصاحت کا سرچشمہ اور بلاغت کا مخرج و منبع تھے، فصاحت و بلاغت کی چُھپی ہوئی باریکیاں آپؑ ہی سے ظاہر ہوئیں اور آپؑ ہی سے اس کے اُصول و قواعد سیکھے گئے اور ہر خطیب و متکلم کو آپؑ کی مثالوں پر چلنا پڑا اور ہر واعظِ بلیغ نے آپؑ کے کلام سے خوشہ چینی کی، پھر بھی وہ آپؑ کے برابر کبھی نہیں آ سکے اور سبقت و تقدم کا سہرا آپؑ کے سر رہا۔ اس لئے کہ آپؑ کا کلام وہ ہے جس میں علم الٰہی کا پَرتو اور کلام نبویؐ کی بوباس ہے، چنانچہ اس فرمائش کو میں نے منظور کیا، یہ جانتے ہوئے کہ اِس میں نفع عظیم، نیک نامی اور ذخیرۂ اجر ہے۔

اس تالیف سے مقصود یہ ہے کہ میں امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی فنِ بلاغت میں رفعت و برتری کو ظاہر کروں جو آپؑ کی بے شمار خوبیوں اور ان گنت فضیلتوں کے علاوہ ہے اور یہ کہ آپؑ اس فضیلت کے مقامِ منتہا تک پہنچنے میں ان تمام سلف اولین میں یکتا ہیں جن کا کلام تھوڑا بہت پاشان و پریشان نقل کیا جاتا ہے، لیکن آپؑ کا کلام ایک ایسا امنڈتا ہوا دریا ہے جس کے بہاؤ سے ٹکر نہیں لی جا سکتی اور اتنی خوبیوں کا مجموعہ ہے کہ اس کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ میرے لئے جائز و خوشگوار ہو گا کہ میں حضرتؑ کی طرف اپنے نسبی استناد کی بنا پر فخر و ناز کرتے ہوئے فرزدق کا شعر بطورِ مثل پیش کروں:

یہ ہیں میرے آبا ؤ اجداد اے جریر! جب مجلسیں ہمیں ایک جا اکٹھا کریں تو ذرا ان کی مثال لاؤ‘‘۔

میری نظر میں حضرتؑ کا کلام تین بنیادی قسموں میں دائر ہے:

اوّل: خطبات و احکام
دوسرے: مکتوبات و رسائل
تیسرے: حکم و نصائح

میں نے بتوفیق ایزدی پہلے خطبات، پھر خطوط، پھر حکم و آداب کے انتخاب کا ارادہ کیا ہے اور ہر صنف کیلئے الگ الگ باب تجویز کیا ہے اور ہر باب کے بعد درمیان میں چند اوراق سادہ چھوڑ دیئے ہیں تاکہ جو کلام مجھ سے چھوٹ جائے اور بعد میں ہاتھ آئے اس کا اندراج ان میں ہو جائے اور ایسا کلام جو روز مرہ کی گفتگو یا کسی سوال کے جواب میں یا کسی دوسرے مقصد کیلئے ہو جو اقسام مذکورہ اور میرے قرار دادہ قاعدے سے خارج ہو، اسے اس باب میں درج کر دیا جائے جو اس کیلئے مناسب اور اس کے مقاصد سے اشبہ ہو۔ میرے اس انتخاب میں کچھ فصلیں اور کلمے ایسے بھی آ گئے ہیں جن کے نظم و ترتیب میں برہمی و انتشار ہے، چونکہ میں رموز و دقائق اور درخشندہ کلمات کو صرف سمیٹ رہا ہوں، ربط و ترتیب مقصود نہیں ہے۔

امیر المومنین امام علی علیہ السلام کے ان عجائب و خوارق میں کہ جن میں بلا شرکت غیرے آپؑ منفرد و یکتا ہیں، یہ ہے کہ آپؑ کے وہ کلمات جو زہد و پند، تذکیر و ارشاد اور زجر و توبیخ کے سلسلہ میں ہیں، جب فکر و تامل کرنے والے ان میں دقت نظر اور غور و فکر سے کام لے اور دل سے یہ بات نکال ڈالے کہ یہ ارشادات اس ہستی کے ہیں جس کا مرتبہ عظیم، جس کے احکام جاری و ساری، جس کی حکومت اس دنیا کی گردنوں پر محیط ہے تو اسے قطعاً اس میں شبہ نہ ہو گا کہ یہ ایسے شخص کا کلام ہے جو زہد و تقویٰ کے علاوہ کسی شے سے بہرہ مند نہیں اور اظہارِ عبودیت کے سوا اس کا کوئی مشغلہ نہیں، وہ کسی جھونپڑے کے گوشہ میں سر بگریباں یا کسی پہاڑ کے دامن میں دنیا سے الگ تھلگ پڑا ہوا ہے، جس کے کانوں میں اپنی حس و حرکت کے علاوہ کوئی آواز نہیں پہنچتی اور اپنے سوا اسے کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ بھلا کیونکر اسے یقین آئے گا کہ یہ اس کا کلام ہے جو تلوار سونت کر جنگ کی گہرائیوں میں ڈوب جاتا ہے تو گردنیں کاٹ کر رکھ دیتا ہے اور شہ زوروں کو زمین پر پچھاڑ دیتا ہے اور تلوار لے کر اس طرح پلٹتا ہے کہ اس سے لہو برس رہا ہوتا ہے اور خونِ دل کی بوندیں ٹپک رہی ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود آپؑ زاہدوں میں ممتاز اور ولیوں میں فائق تھے۔

یہ فضیلت آپؑ کی اُن عجیب فضیلتوں اور لطیف خصوصیتوں میں شامل ہے کہ جس کی وجہ سے آپؑ نے متضاد صفتوں کو سمیٹ لیا اور بکھرے ہوئے کمالات کو پیوند لگا کر جوڑ دیا۔ اکثر برادرانِ دینی سے اس کا ذکر کر کے انہیں حیرت و استعجاب میں ڈالتا ہوں۔ یہ عبرت کی جگہ اور تفکر و تدبر کا مقام ہے۔

اس انتخاب میں کہیں کہیں الفاظ و مطالب کا تکرار بھی ہو گیا ہے جس کیلئے یہ عذر ہے کہ آپؑ کے کلام کی مختلف صورتوں سے روایت کی گئی ہے تو کبھی ایسا ہوا ہے کہ ایک کلام منتخب کو ایک روایت میں جس طرح پایا اسی طرح اسے نقل کر دیا پھر وہی کلام کسی اور روایت میں دوسری وضع و صورت میں پایا گیا یوں کہ اس میں کچھ قابل انتخاب اضافہ تھا یا الفاظ کا اسلوب و نہج زیادہ حسین و دلکش تھا، لہٰذا صورت حال اس کی مقتضی ہوئی کہ انتخاب کے مقصد کو زیادہ کامیاب بنانے کیلئے اور کلامِ نفیس و پاکیزہ کو ضائع ہونے سے محفوظ رکھنے کیلئے اس کا پھر سے اعادہ کیا جائے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ جو کلام پہلے نظر انتخاب میں آ چکا تھا اس سے بعید العہد ہو جانے کی وجہ سے اس کی تکرار ہو گئی، یہ بھول چوک کی وجہ سے ہے جس میں قصد و اختیار کو دخل نہیں تھا۔

مجھے یہ دعویٰ نہیں کہ میں نے حضرتؑ کا کلام ہر طرف سے سمیٹ لیا ہے اور کوئی اکا دکا جملہ اور بھولا بھٹکا فقرہ بھی چھوٹنے نہیں پایا، بلکہ میں یہ بعید نہیں سمجھتا کہ جو مجھ سے رہ گیا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہو جو مجھ تک پہنچا ہے اور جو میرے احاطۂ علم و تصرف میں ہے وہ اس سے کہیں کم ہو جو میری دسترس سے باہر ہے۔ میرا کام جد وجہد اور بقدر وسعت سعی و کوشش کرنا ہے، یہ اللہ سبحانہ کا کام ہے کہ وہ راہ سہل و آسان کرے اور منزل کی طرف رہنمائی فرمائے۔ ان شاء اللہ!

اس جمع و انتخاب کے بعد میری رائے ہوئی کہ اس کتاب کا نام ’’نہج البلاغہ‘‘ رکھا جائے۔ اس لئے کہ یہ کتاب دیکھنے والے کیلئے بلاغت کے بند دروازے کھولے گی اور اس کیلئے راہ تلاش قریب کرے گی۔ اس سے عالم و متعلم اپنی ضرورتیں پوری کریں گے اور صاحبِ بلاغت و تارک علائق دنیا اپنے مقاصد پائیں گے۔ اس کتاب میں توحید، عدل اور خدا وند عالم کے جسم و جسمانیات سے منزہ و مبرّا ہونے کے متعلق عجیب و غریب کلام ملے گا جو ہر تشنگی کی سیرابی، ہر مرض کی شفا اور ہر شبہ کا دافع ہے۔

میں اللہ سے توفیق اور بے راہ روی سے بچاؤ کا طالب ہوں اور عمل کی درستگی اور اعانت کا خواستگار ہوں اور لغزشِ زبان سے پہلے لغزشِ دل و دماغ سے اور لغزشِ قدم سے پہلے لغزش کلام سے پناہ مانگتا ہوں۔ وہی میرے لئے کافی اور اچھا کارساز ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button