سیرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا اُن بندوں پر خاص کرم ہوتا ہے جو اُس کے خاص بندوں سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے مخصوص ترین و محبوب ترین بندے سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں۔ آپؐ سے جس کا جتنا زیادہ تعلق ہوگا اتنا ہی وہ اللہ کا بھی زیادہ مکرّم ہوگا۔ پیغمبر اکرم ﷺ کے ساتھ جو تعلق سید النساء حضرت فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیہا السلام کو ہے وہ کسی اور کو نہیں۔ جناب سیدہ خود نقل فرماتی ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ”رسول خداؐ کو اُس طرح نہ پکارو جیسے تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو“ (نور 63) تو میں گھبرا گئی کہ رسول اللہ کو ”بابا“ کہہ کر پکاروں۔ میں نے بھی دوسروں کی طرح یا رسول اللہ ﷺ کہہ کر پکارا۔ آپ ﷺ نے ایک، دو، تین بار تو توجہ نہ فرمائی۔ پھر فرمایا اے فاطمہ یہ آیت آپ، آپ کے خاندان اور نسل کے بارے میں نازل نہیں ہوئی۔ آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے ہوں۔۔۔ پھر فرمایا:
”قُولِی: یَا ابَتِ! فَانَّها احْیا لِلْقَلْبِ وَ ارْضی لِلرَّبِّ“ (61 ص)
مجھے بابا کہو جو میرے دل کی حیات اور رب کی رضا کا سبب ہے۔ یہ رشتہ اور تعلق فقط اور فقط جناب سیدہ کو حاصل ہے۔ (مناقب ابن شہر آشوب ج3 ص 320)
اس فرمان کے بعد رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں اور رحلت کے بعد بھی ہر جملے میں فرماتیں۔ ”اے بابا“
جناب سیدہ کے لیے پیغمبر اکرم ﷺ کا یہ فرمان شیعہ سنی نے لکھا ہے۔ ”فاطمة أم أبيها“ ایک ایسا تعلق ہے کہ ابھی تک لکھنے والے اس کی حقیقت کو درک نہیں کر سکے۔ قرآن کی لغت کی مشہور کتاب مفردات اور التحقیق میں کہا گیا کہ اُم کا معنیٰ ہے اصل یا مقصود ہے۔
قرآن مجید میں ”مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الْـکِتٰبِ”۔ آیات محکمات کو اُمّ الکتاب کہا گیا۔ جن آیات کے مفاہیم سمجھ نہ آئیں متشابہات ہیں اُن کے سمجھنے کے لیے اُن محکمات کی طرف پلٹ کر آنا ہے۔ سیدہ امّ ابیھا ہے یعنی ذاتِ مصطفیٰ کو سمجھنا ہے تو جناب فاطمہ کو سمجھنا لازم ہے۔ فاطمہ میرا ٹکڑا ہے۔ یعنی فاطمہ ہوگی تو خواتین کے لیے میرا حصہ بن کر نمونہ ہوگی۔ فاطمہ سمجھنے آئے تو مصطفیٰ سمجھ میں آئے۔
جناب پیغمبر اکرمؐ کے عظمتِ سیدہ میں سینکڑوں فرامین اپنی جگہ اگر پیغمبر اکرمؐ کے کردار کو دیکھا جائے تو آپؐ سیدہ کے گھر آتے ہیں تو دروازے پر کھڑے ہو کر آیت تطہیر پڑھ کر اجازت مانگتے ہیں۔ اور جب سیدہ آپ کے ہاں آتی ہے تو آپؐ اُن کے استقبال کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ کردار مصطفیٰ سمجھ نہیں آتا وہ ذات سیدہ کہا سمجھ آئے گی۔
بس جو تصور کی انتہا کا احترام ہے وہ کر سکیں یہی انسان کا اختیار ہے۔ پیغمبر اکرم ﷺ کی زبان و عمل سے فضائل مفصّل کتابوں میں موجود ہیں۔ قرآن مجید نے جناب سیدہ کی جو عظمت بیان کی ہے وہ خود ایک عظیم موضوع ہے یہاں پر فقط اس پر اشارہ کیا جاتا ہے کہ سیدہ کی طہارت و عصمت کے لیے آیت تطہیر گواہ ہے اور حدیث کساء اِسی آیت کی تفسیر ہے جہاں جناب پیغمبر اکرم و امیر المؤمنین کا تعارف حسنین شریفین هم فاطمة و ابوها و بعلها و بنوها سے کرایا گیا۔ صداقت و توحید کی محافظت اور سید الانبیاء کی تصدیق اور جناب عیسیٰ و جناب مریم کی پاک دامنی کے لیے آیتِ مباہلہ شاہد ہے۔ اجرِ رسالت کے طور پر اس خاندان کی مودّت کا لزوم آیتِ قربیٰ سے ثابت ہے اور قربیٰ میں سرفہرست جناب سیدہ ہیں۔ آیتِ صلوٰة اِن کی عظمتوں کا نشان ہے اور سورہِ دہر میں روزے اور روٹی اِن کی سخاوت کی دلیل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید نے ایک لفظ میں جناب سیدہ کی عظمتوں کو معراج عطا فرما دی۔ رسول اللہؐ کی بعثت کو اللہ سبحانہ نے مومنین پر احسان کے طور پر پیش کیا تو جناب سیدہ کی ولادت کو رسول اللہؐ کے لیے بطور عطا و کرم بیان فرمایا۔ ارشاد فرمایا : «إِنَّا أَعْطَيْناكَ الْكَوْثَرَ» امیر المؤمنینؑ کے کلام میں جناب سیدہ کی عظمت بارہا بیان ہوئی۔ نہج البلاغہ کے جس خط کو سید رضی ؒنے بہترین خط قرار دیا اس میں اپنے فضائل کے بیان میں فرماتے ہیں۔ ”منّا خیر نساء العالمین“ عالمین کی افضل ترین خاتون ہم سے ہے۔ پس پس خاتم الانبیاء درجنوں بار سیدة نساء العالمین فرماتے یہ لفظ بول کر وہی اظہار یہاں جناب امیر المؤمنین علیہ السلام کر رہے ہیں۔
ایام فاطمیہ جہاں جناب سیدہ کے مناقب و مصائب کے بیان کا بہترین موقع ہے۔ وہیں جناب مخدومہ کی سیرت کو جاننے اور اُسے اپنی زندگیوں کے لیے نمونہ عمل بنانے کی بھی بہترین فرصت ہے۔ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی عورتوں کے لیے کامل نمونہ ہے ساتھ ہی مردوں کے لیے بھی بہت سے اعمال میں راہنما ہے۔ اپنی زندگیوں کو سنوارنے کے لیے مخدومہ کونین کی سیرت سے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ اس موضوع پر اچھی کتاب آیت اللہ ابراہیم امینی کی اسلام کی مثالی خاتون۔ یقیناً صاحبان و عالمہ کے لیے مفید ثابت ہوگی۔ اس مقالے میں مرحوم محمد دشتی کی کتاب فرھنگ سخنان فاطمہ سے بہت استفادہ کیا گیا۔
(1) عبادت خدا۔ شیخ مفید نے ارشاد میں لکھا ہے کہ شادی کی پہلی رات جناب سیدہ نے جناب امیر المؤمنین علیہ السلام سے درخواست کی آپ کو اللہ کی قسم دیتی ہوں آئیں نماز کے لیے کھڑے ہوں اور اس رات ایک ساتھ اللہ کی عبادت کریں۔ اگر عبادت کا یہ جذبہ کنیزان زہراء میں پیدا ہو جائے تو واقعا اُس نے کنیز کی سند حاصل کر لی۔
(2) قرآن سے تعلق۔ اس گھرانے کا قرآن سے تعلق حدیث ثقلین میں پیغمبر اکرمؐ نے بارہا مختلف الفاظ میں واضح فرمایا۔ کہ میں اپنے بعد دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں قرآن اور اہل بیت۔ یہ دونوں ہم وزن ہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوں گے اور ان سے تمسک و تعلق رکھنے والے کبھی گمراہ نہیں ہوگا۔ جناب سیدہ نے اللہ کی اس کتاب سے محبت کے بارے میں فرمایا: اس دنیا سے مجھے تین چیزیں بہت محبوب ہیں۔ اللہ کی کتاب کی تلاوت، رسول اللہ کے چہرے کی طرف دیکھنا، اور اللہ کی راہ میں خرچ۔ امیر المؤمنینؑ کو آخری وصیت کا ایک حصہ میں فرمایا۔ مجھے دفن کرنے کے بعد میرے سرہانے قبلہ کی طرف بیٹھ جانا اور زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت کرنا اور دُعا کرنا یہ وہ وقت ہوتا ہے جب میت زندوں کے انس و محبت کا محتاج ہوتا ہے۔ زندگی اور بعد از حیات قرآن۔
(3) پردہ۔ عورت کی سب سے بڑی زینت اور عفت و پاکدامنی کا گواہ پردہ ہے۔ سیدہ اور آپ کی بیٹیاں پردے کی عظمت کا نمونہ ہیں۔ جناب سیدہ کو پردے کا کتنا خیال تھا۔ کہ نابینا فرد بھی اجازت کے بعد گھر میں آئے تو بی بی سامنے نہیں آئیں۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں بیٹی یہ نابینا ہے آپ عرض کرتی ہیں وہ نہیں دیکھ سکتے تو میں تو دیکھ سکتی ہوں اور وہ خوشبو تو سونگھ سکتے ہیں۔ یہاں پیغمبر اکرمؐ فرماتے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ میرا ٹکڑا ہیں۔ (بحار ج 43) حجاب و عفت کا وہ مقام کہ عام خاتون تصور ہی نہیں کر سکتی البتہ کنیزان زہراء کو بی بی کی سیرت کے اس پہلو کو اپنی زندگی کا حصہ بنا کر مخدومہ سے عملی محبت کا ثبوت دینا چاہیے۔ اسماء بنت عمیس کی روایت مشہور ہے کہ بی بی غمگین ہو گئی کہ عورت کا جنازہ تخت پر رکھ کر مرد اٹھاتے ہیں۔ مخدومہ فرماتی ہیں اسماء مجھے اس انداز سے عورت کا میت کو اٹھانے سے حیا آتی ہے۔ اور پھر امیر المؤمنینؑ سے عرض کی اے ابن عم میرے میت کے لیے تابوت بنانا جیسے فرشتوں نے مجھے اس کی تصویر دکھائی ہے اسماء نے ۔۔۔۔۔بننے دیے تابوت کی تفصیل بتائی تو سیدہ خوش ہو گئیں۔ میت کے پردے کا بھی خیال، ہای سیدہ کی بیٹی پر کیا گزری ہوگی۔ بیان کی طاقت نہیں۔ کنیزان بتول غور کریں۔
(4) گھریلو زندگی۔ گھر کی زندگی میں چکی پیستے پیستے سیدہ کے ہاتھوں پر چھالے کتابوں میں لکھے ہیں مگر سیدہ کائنات کے شوہر کے شکوے کہیں نہیں لکھے۔ بھوک برداشت کی مگر امیر المؤمنینؑ سے سوال نہیں کیا۔ فقیرانہ زندگی قبول کی مگر عمل سے کچھ نہ مانگا۔بکری کے چمڑے کے بستر پر وقت گزارا مگر رسول اللہؐ نے مجھے منع کیا تھا کہ آپ سے کچھ نہ مانگو اگر کوئی چیز لے آئے تو قبول کرنا ورنہ سوال نہ کرنا۔
(5) ولایت کا دفاع۔ جناب سیدہ کی سیرت دفاعِ ولایت کے لیے ایک عظیم تربیت گاہ ہے اور یہی تربیت آپ نے اپنی بیٹی جناب زینب کی کی، اور انہوں نے کربلا اور پھر کوفہ و شام میں وقت کے امام اور ولی کا دفاع کیا۔ اس دفاع کے لیے عورتوں کی زمہ داری بھی واضح ہوتی ہے ولایت کے دفاع میں زخم کھانے پڑتے ہیں، طمانچے اور دھمکیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ جناب زینب کی طرح قید و بند کی صعوبتوں کو سہنا پڑتا ہے۔ جناب زہراء و جناب زینب کے تمام درد و ولایت کے دفاع میں تھے اور امام وقت کے مقصد ۔۔۔۔کی تکمیل کے لیے ہیں۔
اور اس دفاع میں سرفہرست ولایت کی اطاعت تھی امیر المؤمنینؑ نے فرمایا۔ بد دُعا نہیں کرنی تو نہیں کی۔ جناب امام حسنؑ نے فرمایا پردہ کا خیال رکھنا باہر نہیں آنا تو جب تک خیمے تھے حکم امام کی اطاعت کی اور باہر نہ آئی۔ بابا کے سرہانے رو کر بابا سے پوچھ رہی تھی۔ ”من لعلی اخیک” (بحار ج 43) آپ کے بھائی علی کا کون ہوگا۔
(6) تسبیح فاطمہ سلام اللہ علیہا۔ جناب سیدہ کی تسبیح عظمتِ توحید کا بیان ہے۔ 34، بار اللّٰہ اکبر، 33بار الحمدللّٰہ، 33بار سبحان اللّٰہ۔ قرآن کی آیت، اللہ کو بہت یاد کیا کرو، کی تفسیر میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں یہ تسبیح ذکر کثیر ہے اور امامؑ فرماتے ہیں ہم اپنے بچوں کو یو نہی سکھاتے تھے جیسے انہیں نماز سکھاتے تھے۔ علماء نے نماز کی تعقیبات اور سونے سے پہلے اس تسبیح کے پڑھنے کو مستحب قرار دیا اور یہ تسبیح بہت سی مشکلوں کا حل ہے۔ اگر کبھی مشکل آئے تو بی بی کی سیرت یہ ہے کہ خدا کو اِن ناموں سے یاد کریں۔
(7) سیدہ کے محبّوں سے محبت۔ جابر بن عبداللہ انصاری روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے عرض کی اے فرزند رسول میں آپ پر فدا جاؤ، اپنی جدہ کے بارے کوئی ایسی حدیث بیان فرمائیں جسے سن کر شیعہ خوش ہو جائیں۔ امامؑ نے ایک تفصیلی حدیث بیان فرمائی جس کے چند جملات یہ ہیں۔ کہ اللہ سبحانہ نے محبّان جناب سیدہ کو اُن کا مقام بتاتے ہوئے فرمائے گا۔ دیکھو جس نے آپ سے محبّ فاطمہ ہونے کی وجہ سے محبت کی، جس نے آپ کو محب فاطمہ کی بنا پر کھانا کھلایا، کپڑا پہنایا، پانی کا گھونٹ پلایا، محبت فاطمہ کی وجہ سے آپ کی غیبت ترک کی اُس کا ہاتھ پکڑیں اور اُسے جنت میں لے جائیں۔ ”فاطمة من الحد الي المجد“ (بحوالہ بحار الانوار ص 654 ج 8۔)
اِس حدیث سے واضح ہوا کہ محبت سیدہ میں یہ کام انجام دینا خدا کو پسند ہے اس لیے اس محبت میں دوسروں سے محبت لازمی ہے۔
(8) شیعہ فاطمہ۔ احادیث میں واضح موجود ہے کہ اہل بیتؑ کا شیعہ جنتی ہے مگر جناب سیدہ نے شیعہ کی تعریف کیسے بیان فرمائی یہ ہر کوئی اپنا امتحان کر سکتا ہے۔ علامہ مجلسی نے بحار الانوار ج 65 ص 155 میں لکھا ہے۔ مدینہ میں رہنے والے اہل بیت کے ایک پیروکار نے اپنی زوجہ کو جناب سیدہ کی خدمت میں بھیجا تاکہ پوچھ آئے کہ میں آپ کا شیعہ ہوں یا نہیں۔ جناب سیدہ نے فرمایا۔ ان کنت تعمل بما امرناک و تنھی عما زجرناک۔ ہم جس کا آپ کو حکم دیتے ہیں اُسے بجا لاتے ہو اور جس سے آپ کو روکتے ہیں اُس سے رک جاتے ہو تو ہمارے شیعہ ہیں ورنہ نہیں۔
(9) شوہر داری۔ آج کے زمانے میں میاں بیوی کی اکثریت ایک دوسرے کے سکون کا سبب بننے کے بجائے پریشانیوں کا سبب بن رہے ہیں یہ ایسا موضوع ہے جس کو اگر جناب سیدہ و امیر المؤمنینؑ سے سیکھا جائے تو میاں بیوی کی یہ دنیا بھی جنت بن سکتی ہے اور آخرت کے لیے بھی جنت کا حصول آسان ہو سکتا ہے۔ جناب سیدہ و امیر المؤمنینؑ کی ازدواجی زندگی کا ہر مرحلہ ان مشکلوں کا حل ہے ایک دن امامؑ نے غذا پوچھی نہیں تھی اور سیدہ بھوکی تھیں امامؑ نے فرمایا آپ نے بتایا نہیں تو عرض کی۔ اے ابو الحسنؑ مجھے اپنے رب سے حیا آتا ہے کہ آپ سے کوئی ایسی درخواست کروں جسے آپ پورا نہ کر سکیں، اس ایک عمل کو کئی عنوان سے درس زندگی قرار دیا جا سکتا ہے۔ میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے مہربان، ایک دوسرے کو خود پر ترجیح دینے والے، زندگی کی مشکلات میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے والے، ایک دوسرے کے دکھ بانٹنے والے، مالی مشکلات ہوں تو مل کر ان مشکلات کا سامنا کرنے والے ہونے چاہیں۔ جب مدینہ میں امامؑ کو انتہا کی مظلومیت کا سامنا کرنا پڑا بی بی نے اپنے شوہر کو دیکھا اور عرض کی۔ میری روح آپ کی روح پر فدا اور میری ذات آپ کی ذات کے دکھوں کے لیے ڈھال ہو اے ابو الحسنؑ اگر آپؑ خیر و سلامتی میں ہیں تو میں آپؑ کے ساتھ ہوں اور اگر آپؑ مشکلوں اور مصیبتوں میں ہیں تو میں بھی آپؑ کے ساتھ ہوں۔
(10) حمد خدا۔ جناب سیدہ کی زندگی سے ایک نمونہ حمد خدا ہے۔ اور یہ حمد شاید خوشی میں تو بہت سے لوگ انجام دے لیں مگر مشکلات میں اللہ کی حمد اِس گھرانے کی خاص سیرت ہے۔ مسجد نبوی میں زندگی کے مشکل ترین خطبہ میں جناب سیدہ نے تفصیل سے حمد و ثناء پروردگار بیان فرمائی۔ حقیقی حمد مخصوص ہے اس اللہ کے لیے جس نے نعمتیں عطا فرمائیں، اور اس کے لیے شکر ہے کہ اس نے نفس کو نیک و بد کی تمیز بخشی۔ اور اس کی ثنا ہے کہ اس نے بغیر استحقاق کے نعمتیں عام ہیں۔ اور بندوں کا اپنی کامل نعمتوں سے بہرہ مند فرمایا۔ رسول اللہؐ نے جناب سیدہ کو دیکھا کہ چکی پیس رہی ہیں ہاتھوں پر چھالے۔ آپ کی آنکھوں میں آنسوں بھر آئے جناب سیدہ نے عرض کی اے بابا جان اللہ کی نعمات پر حمد ہے اور اس کی عطا پر شکر ہے۔ ایسے متعدد مقامات ہیں جہاں سیدہ نے حمد کر کے بتایا کہ اللہ کی حمد ہر حال میں ہونی چاہیے اور یہی سیرت سیدہ اگر زندگیوں میں اپنا لی جائے تو پھر شکوے ختم ہو جائیں گے شکر عام ہوگا۔
کھانے کے آداب: انسان کی زندگی پر اس کی غذا کا بہت اثر ہوتا ہے۔ جناب سیدہ سے غذا کے آداب اور غذا کھلانے کے آداب بیان ہوئے ہیں۔ جن میں سے واجب یہ ہیں بی بی فرماتی ہیں دسترخوان پر 12 اچھے کام انجام دینے چاہیے۔ ان میں سے 4 واجب 4 مستحب اور 4 ادب ہیں۔ (1) واجب ہے کہ اس رب کی معرفت ہے جو یہ دینے والا ہے (2) اللہ کی دی ہوئی نعمات پر راضی رہا جائے (3) آغاز میں بسم اللہ کہہ جائے (4) آخر میں الحمدللہ کہا جائے۔
(11) مہمان و ہمسایہ سے برتاؤ۔ جناب سیدہ کی زندگی میں ہمسایوں اور مہمانوں کا اہمیت بڑی واضح ہے۔ مسجدنبوی میں ایک مسلمان کھڑا ہو کر کہتا ہے مجھے بھوک نے تنگ کر رکھا ہے کوئی مجھے مہمان بنائے پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا کون اسے مہمان بنائے گا۔ امیر المؤمنینؑ نے فرمایا میں یا رسول اللہؐ۔ امامؑ انہیں گھر لے گئے جناب سیدہ سے پوچھا غذا ہے میں بھوکا مہمان لایا ہوں بی بی نے فرمایا: فقط ایک بچہ کی غذا جتنا کھانا ہے مگر ہم آج رات بھوک برداشت کریں گے مگر مہمان کو کھانا کھلائیں گے۔ آج کے دور میں جناب سیدہ کی اس سیرت کو دہرانا لازمی ہے۔ اور اگر بھوکا ہمسایہ ہے تو یہ فریضہ اور بڑھ جاتا ہے۔ امام حسن علیہ السلام نے جناب سیدہ سے نقل کرتے ہیں کہ پہلے ہمسایہ پھر گھر والے۔
جناب سیدہ کی زندگی سے اپنی زندگیوں کو سنواریں۔ اخلاص، راہ خدا میں خرچ، دین کے لیے فداکاری، پردہ، ولایت کا دفاع، بچوں کی تربیت، دعا، قرآن، سادگی، صبر، عبادت، حضرت فضہ کے ساتھ کاموں کی تقسیم ایک دن فضہ ایک دن سیدہ یعنی کنیزوں کا بھی خیال، علی امیر المؤمنینؑ کے ساتھ تقسیم کہ باہر کے کام علیؑ گھر کے سیدہ۔
زوجہ و شوہر کی تعریف۔ خواتین کو ایک چیز سیکھنی چاہیے کہ شوہر کی تعریف جو ساری زندگی سیدہ نے انجام دی، رسول اللہؐ جناب سیدہ سے پوچھتے ہیں علیؑ کو کیسا شوہر پایا فرمایا بہترین شوہر اور پیغمبر اکرم ؐنے امیر المؤمنینؑ سے پوچھا زہراء کو کیسا پایا فرمایا۔ اللہ کی اطاعت پر بہترین مددگار ہیں۔ میاں بیوی کے لیے یہ بہترین اصول ہیں۔
مصائب سیدہ، رسول اللہ ؐروئے، علیؑ روئے، ملائکہ روئے، علیؑ کا قبر پر گریہ والا خطبہ درج ہے۔
اقبال نے دو نظموں میں تفصیل سے فضائل بیان کئے اور آیات و روایات اشعار میں پیش کیا۔ ان دونوں نظموں کے بعض حصے پیش کئے جا رہے ہیں۔
کوشش کرنی چاہیے۔ آل محمدؑ کی عظمت میں بیان ہونے والی آیات و روایات اور معصومینؑ کے اپنے خطبات و فرامین خود یاد کئے جائیں۔ بچوں کو یاد کرائے جائیں اور تحریری صورت میں دوسروں تک پہنچائے جائیں یہ بہترین کار خیر اور صدقہ جاریہ ہوگا۔
عِنْدَ دَفْنِ سَیِّدَةِ النِّسَآءِ فَاطِمَةَ عَلَیْھَا السَّلَامُ:
اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا رَسُوْلَ اللهِ عَنِّیْ،وَ عَنِ ابْنَتِكَ النَّازِلَةِ فِیْ جِوَارِكَ، وَ السَّرِیْعَةِ اللَّحَاقِ بِكَ! قَلَّ یَا رَسُوْلَ اللهِ! عَنْ صَفِیَّتِكَ صَبْرِیْ، وَ رَقَّ عَنْهَا تَجَلُّدِیْ، اِلَّاۤ اَنَّ لِیْ فِی التَّاَسِّیْ بِعَظِیْمِ فُرْقَتِكَ،وَ فَادِحِ مُصِیْبَتِكَ، مَوْضِعَ تَعَزٍّ،فَلَقَدْ وَسَّدْتُّكَ فِیْ مَلْحُوْدَةِ قَبْرِكَ،وَ فَاضَتْ بَیْنَ نَحْرِیْ وَ صَدْرِیْنَفْسُكَ.﴿اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ﴾، فَلَقَدِ اسْتُرْجِعَتِ الْوَدِیْعَةُ، وَ اُخِذَتِ الرَّهِیْنَةُ! اَمَّا حُزْنِیْ فَسَرْمَدٌ، وَ اَمَّا لَیْلِیْ فَمُسَهَّدٌ، اِلٰۤی اَنْ یَّخْتَارَ اللهُ لِیْ دَارَكَ الَّتِیْۤ اَنْتَ بِهَا مُقِیْمٌ.وَ سَتُنَبِّئُكَ ابْنَتُكَ بِتَضَافُرِاُمَّتِكَ عَلٰی هَضْمِهَا، فَاَحْفِهَاالسُّؤَالَ، وَ اسْتَخْبِرْهَا الْحَالَ،هٰذَا وَ لَمْ یَطُلِ الْعَهْدُ، وَ لَمْ یَخْلُمِنْكَ الذِّكْرُ.وَ السَّلَامُ عَلَیْكُمَا سَلَامَ مُوَدِّعٍ،لَا قَالٍ وَّ لَا سَئِمٍ، فَاِنْ اَنْصَرِفْفَلَا عَنْ مَّلَالَةٍ، وَ اِنْ اُقِمْفَلَا عَنْ سُوْٓءِ ظَنٍّ بِمَاوَعَدَاللهُالصَّابِرِیْنَ.
سیّدۃ النساء حضرت فاطمہ (ع) کے دفن کے موقع پرفرمایا:
یا رسول اللہؐ! آپؐ کو میری جانب سے اور آپؐ کے پڑوس میں اترنے والی اور آپؐ سے جلد ملحق ہونے والی آپؐ کی بیٹی کی طرف سے سلام ہو۔ یا رسول اللہؐ! آپؐ کی برگزیدہ (بیٹی کی رحلت) سے میرا صبر و شکیب جاتا رہا، میری ہمت و توانائی نے ساتھ چھو ڑ دیا، لیکن آپؐ کی مفارقت کے حادثہ عظمیٰ اور آپؐ کی رحلت کے صدمہ جانکاہ پر صبر کرلینے کے بعد مجھے اس مصیبت پر بھی صبر و شکیبائی ہی سے کام لینا پڑے گا، جبکہ میں نے اپنے ہاتھوں سے آپؐ کو قبر کی لحد میں اتارا اور اس عالم میں آپؐ کی روح نے پرواز کی کہ آپؐ کا سر میری گردن اور سینے کے درمیان رکھا تھا۔
انا للہ و انا الیہ راجعون، اب یہ امانت پلٹا لی گئی، گروی رکھی ہو ئی چیزچھڑا لی گئی، لیکن میرا غم بے پایاں اور میری راتیں بے خواب رہیں گی، یہاں تک کہ خداوند عالم میرے لئے بھی اسی گھر کو منتخب کرے جس میں آپؐ رونق افروز ہیں۔
وہ وقت آگیا کہ آپؐ کی بیٹی آپؐ کو بتائیں کہ کس طرح آپؐ کی اُمت نے ان پر ظلم ڈھانے کیلئے ایکا کر لیا۔ آپؐ ان سے پورے طور پر پوچھیں اور تمام احوال و واردات دریافت کریں۔ یہ ساری مصیبتیں ان پر بیت گئیں، حالانکہ آپؐ کو گزرے ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہو اتھا اور نہ آپؐ کے تذکروں سے زبانیں بند ہوئی تھیں۔
آپؐ دونوں پر میرا سلامِ رخصتی ہو، نہ ایسا سلام جو کسی ملول و دل تنگ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اب اگر میں (اس جگہ سے) پلٹ جاؤں تو اس لئے نہیں کہ آپؐ سے میرا دل بھر گیا ہے اور اگر ٹھہرا رہوں تو اس لئے نہیں کہ میں اس وعدہ سے بدظن ہوں جو اللہ نے صبر کرنے والوں سے کیا ہے۔
در معنی اینکہ سیدة النساء فاطمة الزہرا اسوۂ کاملہ ایست برای نساء اسلام
مریم از یک نسبت عیسی عزیز
از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز
اس مضمون کی وضاحت میں کہ سیدۃ النساء فاطمۃ الزہراء (علیہا السلام) مسلم خواتین کے لیے اسوہ کا ملہ ہیں۔
حضرت مریم (علیہا السلام) ایک نسبت سے محترم ہیں ؛ سیدہ فاطمہ (علیہا السلام) تین نسبتوں سے محترم ہیں۔
نور چشم رحمة للعالمین
آن امام اولین و آخرین
ایک یہ کہ وہ جناب رسول پاک (ﷺ) جو اوّلین اور آخرین تھے، کی صاحبزادی ہیں۔
آنکہ جان در پیکر گیتی دمید
روزگار تازہ آئین آفرید
آپ (ﷺ) نے زمانے کے پیکر میں نئی روح پھونک دی؛ اور ایک ایسا دور وجود میں لائے جس کا آئین تازہ و جدید ہے۔
بانوے آن تاجدار ”ہل اتی“
مرتضی مشکل کشا شیر خدا
جو سیدنا علی المرتضی (علیہ السلام) کی زوجہ محترمہ تھیں۔آپ (علیہ السلام) سورہ الدہر جو ہل اتی سے شروع ہوتی ہے کی آیہ (8) کے مصداق تھے، سیدنا علی (رضی اللہ) کا لقب مشکل کشا اور شیر خدا ہے۔
پادشاہ و کلبہ ئی ایوان او
یک حسام و یک زرہ سامان او
وہ بادشاہ تھے مگر حجرہ ان کا محل تھا؛ اور ان کا سارا سامان ایک تلوار اور ایک زرہ پر مشتمل تھا۔
مادر آن مرکز پرگار عشق
مادر آن کاروان سالار عشق
ان کی تیسری نسبت یہ ہے کہ وہ سیدنا حسین (علیہ السلام) کی والدہ تھیں جو پرکار عشق کے مرکز اور کاروان عشق کے سالار تھے۔
آن یکی شمع شبستان حرم
حافظ جمعیت خیر الامم
آپ سیدنا حسین (رضی اللہ) کی بھی والدہ تھیں جو شبستان حرم کی شمع تھے، اور جنہوں نے خیر الامم (امت مسلمہ) کے اتحاد کی حفاظت فرمائی۔
تا نشیند آتش پیکار و کین
پشت پا زد بر سر تاج و نگین
انہوں نے حکومت کو ٹھکرا دیا تاکہ امت مسلمہ کے اندر سے خانہ جنگی اور دشمنی کی آگ ختم ہو جائے۔
وان دگر مولای ابرار جہان
قوت بازوی احرار جہان
اور وہ دوسرے بھائی دنیا کے نیکوں کو آقا اور احرار کے لیے قوّت بازو تھے۔
در نوای زندگی سوز از حسین
اہل حق حریت آموز از حسین
سیدنا حسین (علیہ السلام) کے اسوہ سے نوائے زندگی میں سوز پیدا ہوا اور اہل حق نے آپ سے حریّت کا درس لیا۔
سیرت فرزند ہا از امہات
جوہر صدق و صفا از امہات
مائیں بیٹوں کی سیرت کردار بناتی ہیں اور انہیں صدق و صفا کا جوہر عطا کرتی ہیں۔
مزرع تسلیم را حاصل بتول
مادران را اسوۂ کامل بتول
سیدنا فاطمہ (رضی اللہ) تسلیم و رضا کی کھیتی کا حاصل اور ماؤں کے لیے اسوہ کاملہ ہیں۔
بہر محتاجی دلش آنگونہ سوخت
با یہودی چادر خود را فروخت
ایک مسکین کے لیے آپ (علیہ السلام) کا دل اس طرح تڑپا کہ اپنی چادر یہودی کے پاس فروخت کر کے (اس کی مدد کی)۔
نوری و ہم آتشے فرمانبرش
گم رضایش در رضای شوہرش
نوری اور آتشے سب آپ (علیہ السلام) کے فرمانبردار تھے؛ آپ (علیہ السلام) نے اپنی رضا میں گم کر دیا تھا۔
آن ادب پروردۂ صبر و رضا
آسیا گردان و لب قرآن سرا
آپ (علیہ السلام) نے صبر و رضا کی ادب گاہ میں پرورش پائی تھی؛ ہاتھ چکّی پیستے اور لبوں پر قرآن پاک کی تلاوت ہوتی تھی۔
گریہ ہای او ز بالین بے نیاز
گوہر افشاندی بدامان نماز
آپ (علیہ السلام) کے آنسو تکیے پر کبھی نہ گرے (آپ (علیہ السلام) نے تنگیء حالات پر کبھی آنسو نہ بہائے) البتہ نماز کے دوران آپ (علیہ السلام) کے آنسو موتیوں کی طرح ٹپکتے تھے۔
اشک او بر چید جبریل از زمین
ہمچو شبنم ریخت بر عرش برین
جبریل امین (علیہ السلام لیہ) آپ (علیہ السلام) آنسو سمیٹ لیتے اور انہیں عرش بریں پر شبنم کی طرح ٹپکاتے۔
رشتۂ آئین حق زنجیر پاست
پاس فرمان جناب مصطفی است
شریعت حقہ کے احکام میرے پاؤں کی زنجیر بنے ہوئے ہیں ؛ مجھے جناب مصطفے (ﷺ) کے فرمان کا پاس ہے۔
ورنہ گرد تربتش گردیدمی
سجدہ ہا بر خاک او پاشیدمی
ورنہ میں سیدہ فاطمہ (علیہا السلام) کی تربت کے گرد طواف کرتا اور ان کی قبر پر سجدہ ریز ہوتا۔
خطاب بہ مخدرات اسلام
اے رد ایت پردۂ ناموس ما
تاب تو سرمایۂ فانوس ما
خواتین (پردہ نشینان ) اسلام سے خطاب۔
اے مسلمان خاتون تیری چادر ہمارے ناموس کا پردہ ہے؛ تیری روشنی سے ہماری فانوس روشن ہے۔
طینت پاک تو ما را رحمت است
قوت دین و اساس ملت است
تیری پاک طینت ہمارے لیے رحمت اور ہمارے دین کے لیے قوّت اور ہماری ملّت کی بنیاد ہے۔
کودک ما چون لب از شیر تو شست
لاالہ آموختی او را نخست
جب ہمارے بچے نے تیرے دودھ سے اپنے لب تر کیے تو تو نے سب سے پہلے اسے لاالہ سکھایا۔
می تراشد مہر تو اطوار ما
فکر ما گفتار ما کردار ما
تیری محبت ہمارے اطوار یعنی ہمارے فکر ، ہماری گفتار اور کردار کی تربیت کرتی ہے۔
برق ما کو در سحابت آرمید
بر جبل رخشید و در صحرا تپید
تیرے آغوش کے بادل میں ہماری جو بجلی آسودہ تھی وہ پہاڑوں پر چمکی اور صحراؤں میں تڑپی۔
اے امین نعمت آئین حق
در نفسہای تو سوز دین حق
تو آئین حق یعنی شریعت محمدی (ﷺ) جیسی نعمت کی امین ہے؛ تیرے سانس میں دین حق کا سوز ملا ہوا ہے۔
دور حاضر تر فروش و پر فن است
کاروانش نقد دین را رہزن است
دور حاضر عیّار و مکّار ہے اس کا کاروان متاع دین کو لوٹنے والا ہے۔
کور و یزدان ناشناس ادراک او
ناکسان زنجیری پیچاک او
اس کی عقل اندھی اور خدا نا شناس ہے؛ ناکس اس کے پھندے میں پھنس جاتے ہیں۔
چشم او بیباک و ناپرواستی
پنجۂ مژگان او گیراستی
اس کی آنکھ میں بے باکی اور بے حیائی ہے؛ اس کی پلکوں کا پنجہ اپنے شکار کو چھوڑتا ہے۔
صید او آزاد خواند خویش را
کشتۂ او زندہ داند خویش را
(مگر لطف یہ ہے ) کہ اس کا شکار اپنے آپ کو آزار کہتا ہے اور اس کا مارا ہوا اپنے آپ کو زندہ سمجھتا ہے۔
آب بند نخل جمعیت توئی
حافظ سرمایۂ ملت توئی
اے مسلمان خاتون تو ہی ہماری جمیعت کے درخت کی آبیاری اور ملّت کے سرمائے کی حفاظت کرنے والی ہے۔
از سر سود و زیان سودا مزن
گام جز بر جادۂ آبا مزن
تو معاملات کو دینوی نفع و نقصان کے لحاظ سے نہ جانچ ؛ صرف اپنے آباء کے راستے پر گامزن رہ۔
ہوشیار از دستبرد روزگار
گیر فرزندان خود را در کنار
زمانے کی دست برد سے ہوشیار ہو جا اور اپنے بچوں کو اپنے آغوش میں لے لے۔
این چمن زادان کہ پر نگشادہ اند
ز آشیان خویش دور افتادہ اند
ہمارے چمن کے یہ نو زائیدہ پرندے جنہوں نے ابھی پر نہیں کھولے؛ اپنے آشیانے سے دور جا پڑے ہیں۔
فطرت تو جذبہ ہا دارد بلند
چشم ہوش از اسوۂ زھرا مبند
تیری فطرت میں بلند جذبات موجود ہیں؛ تو اپنی ہوشمندی کی آنکھ سیدنا فاطمۃ الزہراء (علیہا السلام) کے اسوہ پر رکھ۔
تا حسینی شاخ تو بار آورد
موسم پیشین بگلزار آورد
تاکہ تیری شاخ بھی حسین (علیہ السلام ) جیسا پھل پیدا کرے؛ اور اسلام کے دور اوّل کو موسم (بہار ) ہمارے گلزار میں واپس لائے۔