نہج البلاغہ مقالات

نہج البلاغہ اور ختم نبوت

تحریر: مولانا مقبول حسین علوی دام عزہ

نہج البلاغہ میں امیر المؤمنین علیہ السلام نے نبوت کے موضوع کو بڑے منفرد انداز میں بیان فرمایا ہے۔ اس موضوع کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک عام انبیاء کی بحث اور اُن کے حالات و واقعات و سیرت اور دوسری خصوصی بحث جس میں حضرت محمد ﷺ کے حالات کو بیان کیا گیا ہے۔

پیغمر اکرم ﷺکی زندگی اور نبوت کے متعدد پہلوؤں پر تفصیل سے بحث کی ہے مثلاً آپؐ کے آباء و اجداد، آپؐ کی سیرت، آپؐ کا وطن، آپؐ کی بعثت کے وقت کے حالات، تبلیغ میں آپؐ کی مشکلات اور آپؐ کے غسل و کفن اور دفن کی تفصیل کا تذکرہ کیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر پیغمبر اکرم ﷺ کی معرفت کا کوئی بہترین ذریعہ ہے تو وہ علی علیہ السلام ہیں اس لیے کہ علی علیہ السلام کی آنکھ کھلی اور تربیت ہوئی تو نبی اکرم ﷺ کی گود میں اور نبیؐ کی آنکھ بند ہوئی تو علی علیہ السلام کی گود میں۔

اپنے بچپنے کے بارے میں علی علیہ السلام فرماتے ہیں۔
وَ قَدْ عَلِمْتُمْ مَوْضِعِیْ مِنْ رَّسُوْلِ اللهِ ﷺ بِالْقَرَابَةِ الْقَرِیْبَةِ، وَ الْمَنْزِلَةِ الْخَصِیْصَةِ: وَضَعَنِیْ فِیْ حِجْرِهٖ وَ اَنَا وَلَدٌ یَّضُمُّنِیْۤ اِلٰی صَدْرِهٖ، وَ یَكْنُفُنِیْ فِیْ فِرَاشِهٖ، وَ یُمِسُّنِیْ جَسَدَهٗ، وَ یُشِمُّنِیْ عَرْفَهٗ. وَ كَانَ یَمْضَغُ الشَّیْءَ ثُمَّ یُلْقِمُنِیْهِ، وَ مَا وَجَدَ لِیْ كَذْبَةً فِیْ قَوْلٍ، وَ لَا خَطْلَةً فِیْ فِعْلٍ۔
تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہ ﷺ سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام ان کے نزدیک کیا تھا۔ میں بچہ ہی تھا کہ رسول ﷺ نے مجھے گود میں لے لیا تھا، اپنے سینے سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کرتے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سنگھاتے تھے۔ پہلے آپؐ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منہ میں دیتے تھے۔ انہوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی۔
(نہج البلاغہ، افکار اسلامی، خطبہ ۱۹۰، ص ۵۵۸)

اور پیغمبر اکرم ﷺکی رحلت کے بارے میں آپؑ نے ارشاد فرمایا:

وَ لَقَدْ قُبِضَ رَسُوْلُ اللهِ -ﷺ وَ اِنَّ رَاْسَهٗ لَعَلٰی صَدْرِیْ۔
جب رسول اللہ ﷺ نے رحلت فرمائی تو ان کا سر (اقدس) میرے سینے پر تھا۔
(نہج البلاغہ، افکار اسلامی، خطبہ۱۹۵، ص ۵۷۷)

گویا علی علیہ السلام کا بچپنا نبیؐ کے سینے کے ساتھ گزرا اور نبیؐ کی موت علی علیہ السلام کے سینے پر واقع ہوئی۔

اس تعلق اور رشتے کو مد نظر رکھتے ہوئے اہل سنت عالم شارح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید خطبہ 104 جہاں امیر المؤمنین علیہ السلام نے نبی اکرمﷺ کی عظمت بیان فرمائی کی شرح میں لکھتے ہیں۔

میں نے نقیب ابو جعفر رحمۃ اللہ سے پوچھا کہ میں صحابہ کے خطبوں سے واقف ہوں مگر کسی نے اس شخص (علی علیہ السلام) کی طرح رسول اللہ ﷺ کی عظمت بیان نہیں کی۔ ابو جعفر نے کہا علی علیہ السلام کے علاوہ کسی کے کلام میں ایسی گہرائی کہاں ہے؟ اور کہا: علی علیہ السلام رسول اللہ ﷺ پر قوی ایمان رکھتے تھے اور آپؐ کی تصدیق کرتے تھے۔ وہ ایک جان اور دو پیکر تھے۔ باپ ایک، گھر ایک، اخلاق ایک تھا۔ پس اگر علی علیہ السلام نے نبیؐ کی عظمت بیان کی تو اپنی عظمت بیان کی۔
شرح ابن ابی الحدید، ج۷ ص۱۷۴، از خلاصہ

نہج البلاغہ میں امیر المؤمنین علیہ السلام نے جہاں پیغمبر اکرم ﷺکی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بیان فرمایا وہیں ختم نبوت کے بارے میں بھی تفصیل سے ارشادات موجود ہیں۔

ختم نبوت اسلام کا ایک مسلّمہ اور ضروری مسئلہ ہے۔ جیسے توحید کے بعد نبوت کا عقیدہ ضروری ہے اسی طرح نبی اکرم ﷺ پر نبوت و رسالت کے ختم ہو جانے کا عقیدہ بھی لازم ہے۔ قرآن مجید نے واضح طور پر ختم نبوت کو بیان فرمادیا۔ ارشاد ہوتا ہے۔

﴿مَا کَانَ محمد ﷺ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ﴾
محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں مگر وہ اللہ کے رسول اور انبیاء کے لیے مہر اختتام ہیں۔
(سورہ احزاب ،آیہ ۴۰)

خاتم دو طرح سے لکھا جاتا ہے۔ خاتِم یعنی ختم کرنے والا اور خاتَم یعنی آخری اور مہر۔ مہر بھی چونکہ آخر میں لگائی جاتی ہے اس لیے اسے خاتم کہا گیا ہے۔

خاتمیت کا یہ معنی نہیں ہے کہ اب انسان کو کسی الٰہی قانون یا الٰہی نمائندے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ انسانیت کے کمال کے لیے جو اصول تھے وہ مکمل کر دیے گئے ہیں اور قیامت تک کے لیے ان پر عمل پیرا ہو کر انسان صراط مستقیم کا راہی ہو کر حقیقی منزل کمال کو پا سکتا ہے اور قرآن کی صورت میں جو قانون رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ ہم تک پہنچا وہ دستور کامل ہے اور اس میں کسی قسم کی تحریف کا کوئی امکان نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی کے مختلف مواقع پر اپنے بعد کی رہنمائی کے لیے اس قرآن کی تفسیر کے لیے اپنی عترت کا تعارف کرایا اور حدیث ثقلین کی صورت میں قیامت تک کے لیے راہنما اصول ارشاد فرمائے۔

(۱) اتمام نبوت

نہج البلاغہ میں امیر المؤمنین علیہ السلام نے ختم نبوت کو مختلف پہلوؤں سے بیان فرمایا ۔اور اتمام نبوت ،خاتم النبیین ،ختم وحی،خاتم رسل،تمام حجۃ جیسے الفاظ بیان فرمائے۔

خطبہ (۱) میں فرمایا:
اِلٰۤى اَنْ بَعَثَ اللهُ سُبْحَانَهٗ محمد ﷺا رَّسُوْلَ اللّٰہِﷺ لِاِنْجَازِ عِدَتِهٖ وَ تَمَامِ نُبُوَّتِهٖ۔
یہاں تک کہ اللہ سبحانہ نے ایفائے عہد و اِتمام نبوت کیلئے محمد ﷺ کو مبعوث کیا، جن کے متعلق نبیوں سے عہد وپیمان لیا جا چکا تھا۔
(نہج البلاغہ، افکار اسلامی، خطبہ۱، ص ۹۷)

اس خطبے میں امامؑ نے نبوت کے موضوع کو بڑی تفصیل سے بیان فرمایا اور بعثت انبیاءؑ کے مقاصد اور انبیاء کی ذمہ داریوں کو واضح فرمایا ۔اسی خطبہ کے ایک حصہ میں فرمایا۔

”اللہ سبحانہ نے اپنی مخلوق کو بغیر کسی فرستادہ پیغمبرؑ یا آسمانی کتاب یا دلیلِ قطعی یا طریقِ روشن کے کبھی یونہی نہیں چھوڑا۔ ایسے رسولؑ، جنہیں تعداد کی کمی اور جھٹلانے والوں کی کثرت درماندہ و عاجز نہیں کرتی تھی، ان میں کوئی سابق تھا جس نے بعد میں آنے والے کا نام و نشان بتایا، کوئی بعد میں آیا جسے پہلا پہچنوا چکا تھا۔ اسی طرح مدتیں گزر گئیں، زمانے بیت گئے، باپ داداؤں کی جگہ پر ان کی اولادیں بس گئیں۔ یہاں تک کہ اللہ سبحانہ نے ایفائے عہد و اِتمام نبوت کیلئے محمد ﷺ کو مبعوث کیا، جن کے متعلق نبیوں سے عہد وپیمان لیا جا چکا تھا۔“

ان جملات میں امامؑ نے ایک بات واضح فرمائی کہ اللہ کبھی اپنی مخلوق کو حجت خدا کے بغیر نہیں چھوڑتا اور ان کے لیے ہدایت کی راہیں روشن فرماتا ہے۔

اسی مفہوم کو ایک مقام پر امیر المؤمنین علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا:

اَللّٰهُمَّ بَلٰى! لَا تَخْلُو الْاَرْضُ مِنْ قَآئِمٍ لِلّٰهِ بِحُجَّةٍ، اِمَّا ظَاهِرًا مَّشْهُوْرًا، اَوْ خَآئِفًا مَّغْمُوْرًا، لِئَلَّا تَبْطُلَ حُجَجُ اللهِ وَ بَیِّنَاتُهٗ.
ہا ں!مگر زمین ایسے فردسے خالی نہیں رہتی کہ جو خد اکی حجت کو برقرا ر رکھتا ہے چاہے وہ ظاہر و مشہور ہو ،یا خائف و پنہاں۔ تاکہ اللہ کی دلیلیں اور نشان مٹنے نہ پائیں۔
(نہج البلاغہ، افکار اسلامی، کلمات قصار ۱۴۷، ص ۸۷۰)

حجت خدا کے لازمی ہونے کے تذکرے کے بعد امامؑ نے رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا تذکرہ فرمایا اور فرمایا کہ ”اللہ نے آپؐ کو مبعوث کیا تاکہ اپنا وعدہ مکمل کرے اور آپؐ کے ذریعہ اتمام نبوت ہو جائے“۔

یہاں امیر المؤمنین علیہ السلام نے ختم نبوت کے لیے اتمام کا لفظ استعمال کیا جو نبیوں کے پہلے سلسلے کو مکمل اور تمام کرتا ہے اور نبوت اس پر ختم ہو جاتی ہے۔

(ب) ختم نبوت و خلافت

اتمام و ختم نبوت کے ساتھ پیغمبر اکرم ﷺکے دیگر بہت سے اوصاف بیان کرنے کے بعد امیر المؤمنین علیہ السلام نے رسول الل ہﷺ کی رحلت کا تذکرہ فرمایا اور خصوصیت سے آپؐ کے بعد ہدایت انسانی کے لیے خلافت رسول اللہ ﷺ کا تذکرہ بھی فرمایا۔

ثُمَّ اخْتَارَ سُبْحَانَهٗ لِمحمد ﷺ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَ اٰلِہٖ لِقَآئَهٗ،وَ رَضِیَ لَهٗ مَا عِنْدَهٗ، وَ اَكْرَمَهٗ عَنْ دَارِ الدُّنْیَا، وَ رَغِبَ بِهٖ عَنْ مُّقَارَنَةِ الْبَلْوٰى، فَقَبَضَهٗ اِلَیْهِ كَرِیْمًاﷺ، وَ خَلَّفَ فِیْكُمْ مَا خَلَّفَتِ الْاَنبِیَآءُ فِیْۤ اُمَمِهَا، اِذْ لَمْ یَتْرُكُوْهُمْ هَمَلًا، بِغَیْرِ طَرِیْقٍ وَّاضِحٍ، وَ لَا عَلَمٍ قَآئِمٍ۔
پھر اللہ سبحانہ نے محمد ﷺ کو اپنے لقاء و قرب کیلئے چنا، اپنے خاص انعامات آپؐ کیلئے پسند فرمائے اور دارِ دنیا کی بود و باش سے آپؐ کو بلند تر سمجھا اور زحمتوں سے گھری ہوئی جگہ سے آپؐ کے رخ کو موڑا اور دنیا سے باعزت آپؐ کو اٹھا لیا۔ حضرتؐ تم میں اسی طرح کی چیز چھوڑ گئے جو انبیاءؑ اپنی اُمتوں میں چھوڑتے چلے آئے تھے۔ اس لئے کہ وہ طریق واضح و نشانِ محکم قائم کئے بغیر یوں ہی بے قید و بند انہیں نہیں چھوڑتے تھے۔
(نہج البلاغہ، افکار اسلامی، خطبہ۱، ص ۹۷)

رحلت رسول اللہ ﷺ کو مختلف الفاظ میں بیان کرنے کے ساتھ ساتھ امیر المؤمنین علیہ السلام نے واضح فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ سے پہلے انبیاء بھی امتوں کو بغیر راہنمائی کے نہیں چھوڑ گئے اور آپؐ بھی بغیر راہنمائی و نشاندہی کے نہیں گئے۔

حدیث ثقلین کے مطابق رسول اللہ ﷺ جہاں قرآن چھوڑ گئے وہیں عترت کی طرف بھی رہنمائی فرمائی۔امیر المؤمنین علیہ السلام بھی نہج البلاغہ کے مختلف مقامات پر عترت و آل پیغمبر کو بطور راہنما ذکر فرمایا۔

ایک مقام پر عترت نبی کی عظمت بیان کرتے ہوئے ان کی پیروی کی تاکید کی اور انہی قرآن مجید کا ہم پلّہ و ہم مقام قرار دیا۔

﴿فَاَیْنَ تَذْهَبُوْنَ﴾ وَ ﴿اَنّٰی تُؤْفَكُوْنَ﴾! وَ الْاَعْلَامُ قَآئِمَةٌ،وَ الْاٰیَاتُ وَاضِحَةٌ، وَ الْمَنَارُ مَنْصُوْبَةٌ، فَاَیْنَ یُتَاهُ بِكُمْ؟ بَلْ كَیْفَ تَعْمَهُوْنَ وَ بَیْنَكُمْ عِتْرَةُ نَبِیِّكُمْ؟ وَ هُمْ اَزِمَّةُ الْحَقِّ، وَ اَعْلَامُ الدِّیْنِ، وَ اَلْسِنَةُ الصِّدْقِ! فاَنْزِلُوْهُمْ بِاَحْسَنِ مَنَازِلِ الْقُرْاٰنِ، وَ رِدُوْهُمْ وُرُوْدَ الْهِیْمِ الْعِطَاشِ۔
اب تم کہاں جا رہے ہو؟ اور تمہیں کدھر موڑا جارہا ہے؟ حالانکہ ہدایت کے جھنڈے بلند، نشانات ظاہر و روشن اور حق کے مینار نصب ہیں اور تمہیں کہاں بہکایا جارہا ہے اور کیوں ادھر ادھر بھٹک رہے ہو؟ جبکہ تمہارے نبی ﷺ کی عترتؑ تمہارے اندر موجود ہے جو حق کی باگیں، دین کے پرچم اور سچائی کی زبانیں ہیں۔ جو قرآن کی بہتر سے بہتر منزل سمجھ سکو وہیں انہیں بھی جگہ دو اور پیاسے اونٹوں کی طرح ان کے سر چشمہ ہدایت پر اترو۔
(نہج البلاغہ، افکار اسلامی، خطبہ ۸۵، ص ۲۷۸)

ختم نبوت کے موضوع کے ساتھ جو ضروری موضوع ہے وہ آپؑ کی خلافت کا موضوع ہے جسے پیغمبر اکرم ﷺزندگی بھر بیان فرماتے رہے اور نہج البلاغہ میں امیر المؤمنین علیہ السلام نے بھی درجنوں جگہ پر وضاحت فرمائی۔

(۲) خاتم نبوت

اَللّٰهُمَّ دَاحِیَ الْمَدْحُوَّاتِ، وَ دَاعِمَ الْمَسْمُوْكَاتِ، وَ جَابِلَ الْقُلُوْبِ عَلٰی فِطْرَتِهَا: شَقِیِّهَا وَ سَعِیْدِهَا، اجْعَلْ شَرَآئِفَ صَلَوَاتِكَ، وَ نَوَامِیَ بَرَكَاتِكَ، عَلٰی محمد ﷺ عَبْدِكَ وَ رَسُوْلِكَ، الْخَاتِمِ لِمَا سَبَقَ، وَ الْفَاتِحِ لِمَا انْغَلَقَ، وَ الْمُعْلِنِ الْحَقَّ بِالْحَقِّ، وَ الدَّافِعِ جَیْشَاتِ الْاَبَاطِیْلِ، وَ الدَّامِغِ صَوْلَاتِ الْاَضَالِیْلِ۔
“اے اللہ! اے فرش زمین کے بچھانے والے اور بلند آسمانوں کو (بغیر سہارے کے) روکنے والے! دلوں کو اچھی اور بُری فطرت پر پیدا کرنے والے! اپنی پاکیزہ رحمتیں اور بڑھنے والی برکتیں قرار دے اپنے عبد اور رسول محمد ﷺ ﷺ کیلئے جو پہلی (نبوتوں کے) ختم کرنے والے اور بند (دل) کھولنے والے اور حق کے زور سے اعلانِ حق کرنے والے، باطل کی طغیانیوں کو دبانے والے اور ضلالت کے حملوں کو کچلنے والے تھے۔”
(نہج البلاغہ، افکاراسلامی، خطبہ۷۰، ص ۲۴۷)

اس خطبہ میں امامؑ نے پیغمبر اکرم ﷺ پر صلوٰۃ کا طریقہ بتایا اور آپؐ کے بیس اوصاف و فضائل بیان فرمائے۔ تیسری صفت ختم نبوت کو قرار دیا کہ آپؐ وہ ہیں جن پر پہلی نبوتیں ختم ہو گئیں یا جن پر پہلی شریعتیں ختم ہو گئیں۔ یہاں امامؑ نے ختم نبوت کو پہلے خطبے کے الفاظ سے ”الخاتم لما سبق“ الگ الفاظ میں بیان کیا۔

معلوم ہوتا ہے علامہ اقبال نے اپنے فارسی شعر میں اسی جملہ کا ترجمہ کیا ہے۔

اے ترا حق خاتم اقوام کرد برتو ہر آغاز را انجام کرد
وہ جسے حق نے اقوام کا خاتم بنایا اور تجھ پر ہر آغاز کا انجام قرار دیا ۔

(۳) خاتم النبیین

ایک مقام پر ارشاد فرمایا:

اَیُّهَا النَّاسُ! خُذُوْهَا عَنْ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ ﷺ: “اِنَّهٗ یَمُوْتُ مَنْ مَّاتَ مِنَّا وَ لَیْسَ بِمَیِّتٍ، وَ یَبْلٰی مَنْ بَلِیَ مِنَّا وَلَیْسَ بِبَالٍ”.
اے لوگو! خاتم النبیین ﷺ کے اس ارشاد۱ کو سنو کہ (انہوں نے فرمایا:) “ہم میں سے جو مر جاتا ہے وہ مردہ نہیں ہے اور ہم میں سے (جو بظاہر مر کر) بوسیدہ ہو جاتا ہے وہ حقیقت میں کبھی بوسیدہ نہیں ہوتا”۔
نہج البلاغہ،افکاراسلامی، خطبہ۸۵،ص ۲۷۸)

اس فرمان میں جناب امیر المؤمنین علیہ السلام نے اہل بیت علیہم السلام کی موت و حیات سے متعلق ایک فرمان رسول خداؐ نقل کیا اور اس میں پیغمبر اکرم ﷺکی جس صفت کو بیان کیا وہ آپؐ کا خاتم النبیین ہونا ہے۔

پھر امیر المؤمنین علیہ السلام نے ثقلین یعنی قرآن و اہل بیت علیہم السلام کا بھی ذکر کیا۔

(۴) اتمامِ حجت

نہج البلاغہ کا مشہور “خطبہ اشباح” امامؑ کے بلند پایہ خطبوں میں سے شمار ہوتا ہے اور اس میں معرفت خدا کے خوبصورت جملے ارشاد فرمائے۔

اس خطبے میں اللہ سبحانہ کے احسانات کو یاد دلاتے ہوئے فرمایا:

فَاَهْبَطَهٗ بَعْدَ التَّوْبَةِ لِیَعْمُرَ اَرْضَهٗ بِنَسْلِهٖ،وَ لِیُقِیْمَ الْحُجَّةَ بِهٖ عَلٰی عِبَادِهٖ، وَ لَمْ یُخْلِهِمْ بَعْدَ اَنْ قَبَضَهٗ، مِمَّا یُؤَكِّدُ عَلَیْهِمْ حُجَّةَ رُبُوْبِیَّتِهٖ، وَ یَصِلُ بَیْنَهُمْ وَ بَیْنَ مَعْرِفَتِهٖ، بَلْ تَعَاهَدَهُمْ بِالْحُجَجِ عَلٰۤی اَلْسُنِ الْخِیَرَةِ مِنْ اَنْبِیَآئِهٖ، وَ مُتَحَمِّلِیْ وَدَآئِعِ رِسَالَاتِهٖ، قَرْنًا فَقَرْنًا، حَتّٰی تَمَّتْ بِنَبِیِّنَا محمد ﷺ- حُجَّتُهٗ، وَ بَلَغَ الْمَقْطَعَ عُذْرُهٗ وَ نُذُرُهٗ.
چنانچہ توبہ کے بعد انہیں جنت سے نیچے اتار دیا، تاکہ اپنی زمین کو ان کی اولاد سے آباد کرے اور ان کے ذریعے بندوں پر حجت پیش کرے۔ اللہ نے آدم (ع) کو اٹھا لینے کے بعد بھی اپنی مخلوق کو ایسی چیزوں سے خالی نہیں رکھا جو اس کی ربوبیت کی دلیلوں کو مضبوط کرتی رہیں اور بندوں کیلئے اس کی معرفت کا ذریعہ بنی رہیں اور یکے بعد دیگرے ہر دور میں وہ اپنے برگزیدہ نبیوں اور رسالت کے امانتداروں کی زبانوں سے حجت کے پہنچانے کی تجدیدکرتا رہا، یہاں تک کہ ہمارے نبی محمد ﷺ کے ذریعہ وہ حجت (پوری طرح) تمام ہو گئی اور حجت پورا کرنا اور ڈرا دیا جانا اپنے نقطۂ اختتام کو پہنچ گیا۔
(نہج البلاغہ، افکاراسلامی، خطبہ ۸۹، ص ۲۹۸)

یہاں امام علیہ السلام نے حضرت آدم علیہ السلام کو بھی نبوت کے بجائے حجّتِ خدا کے الفاظ سے یاد کیا اور واضح فرمایا کہ یہ اتمام حجت وہ ہے جو نبوت کی صورت میں تھی اور تمام ہو گئی مگر جیسا کہ کلمات قصار ۱۴۷ کے حوالے سے پہلے بیان ہو چکا ہے کہ رسول اللہﷺ اپنے بعد امت کے لیے راہنما بنا گئے ہیں جو حجت خدا ہیں مگر نبی نہیں ہیں۔

(۵) وحی کا اختتام

ختم نبوت کے موضوع کو مخصوص انداز میں یوں بیان فرمایا:

اَرْسَلَهٗ عَلٰی حِیْنِ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ، وَ تَنَازُعٍ مِّنَ الْاَلْسُنِ، فَقَفّٰی بِهِ الرُّسُلَ، وَ خَتَمَ بِهِ الْوَحْیَ، فَجَاهَدَ فِی اللهِ الْمُدْبِرِیْنَ عَنْهُ، وَ الْعَادِلِیْنَ بِهٖ.
اللہ نے آپؐ کو اس وقت بھیجا جب کہ رسولوں کی بعثت کا سلسلہ رکا پڑا تھا اور لوگوں میں جتنے منہ تھے اتنی باتیں تھیں۔ چنانچہ آپؐ کو سب رسولوں سے آخر میں بھیجا اور آپؐ کے ذریعہ سے وحی کا سلسلہ ختم کیا۔ آپؐ نے اللہ كى راہ میں ان لوگوں سے جہاد کیا جو اس سے پیٹھ پھرائے ہوئے تھے اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھہرا رہے تھے۔
(نہج البلاغہ، افکار اسلامی، خطبہ ۱۳۱، ص ۳۹۳)

اس خطبے میں امیر المؤمنین علیہ السلام نے پیغمبر اکرم ﷺ کے چند اوصاف بیان فرمائے اور ان میں ایک یہ کہ آپؐ کو سب رسولوں سے آخر میں بھیجا یعنی آپؐ کے بعد کوئی رسول نہیں ہے اور آپؐ پر پہنچ کر وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ ان الفاظ سے رسالت و نبوت و وحی کے تمام و ختم ہونے کا واضح ثبوت ہے۔
شیخ محمد جواد مغنیہ اس خطبہ کی شرح میں علامہ اقبال کی کتاب The reconstruction of religious thought in islam کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

و قال الشاعر الفیلسوف محمد اقبال: لابد ان یکون محمد ﷺ خاتم الانبیاء و رسالتہ آخر الرسالات ۔لانہ جاء لیدعوا الی تحکیم العقل فیما یعرض للناس من مشکلات و فیہ مع ما جاء بہ محمد ﷺ الکفایہ ،،
فلسفی شاعر محمد اقبال کہتے ہیں کہ ضروری ہے کہ محمد ﷺ خاتم الانبیاء ہوں آپ کی رسالت آخری رسالت ہو کیونکہ آپ عقل کومحکم کرنے آئے تاکہ اس ذریعہ سے انسانوں کو لاحق مشکلات حل ہوں اور محمد ﷺ جو پیغام لے کر آئے وہ اس کے لیے کافی ہے۔
(فی ظلال نہج البلاغہ،ج۲، ص۲۷۹)

علامہ اقبال کی انگریزی کی یہ کتاب سات مضامین پر مشتمل ہے اردو میں اس کے متعدد ترجمے ہوئے ہیں اور اس کا عربی ،فارسی، جرمنی و فرانسیسی میں بھی ترجمہ ہوا ہے۔ اردو ترجمے کا نام ”تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ“ ہے۔

بہر حال علامہ اقبال اس سے کیا مفہوم لیتے ہیں وہ بحث ہمارا موضوع نہیں ہے۔ چونکہ نہج البلاغہ کی ایک شرح میں اس کا ذکر آیا ہے تو درج کر دیا ہے۔ البتہ علامہ اقبال فارسی کلام ”رموز بیخودی“ میں ”ملت اسلامی کے اساسی ارکان“ کے تحت ”رکن اول“ توحید کو قرار دیا۔ اور ”رکن دوم“ کے طور پر رسالت کو پیش کیا اور وہاں عظمت پیغمبر اکرم ﷺ پر خوبصورت اشعار کے ضمن میں ایک شعر لکھا۔

پس خدا بر ما شریعت ختم کرد بر رسول ما رسالت ختم کرد۔

خدا نے ہم پر شریعت ختم کر دی اور ہمارے رسول پر رسالت ختم کر دی۔
(کلیات اقبال۔ رموز بیخودی، ص ۷۰، اشاعت کتاب خانہ سنائی)

(۶) خاتم الرسل

امیر المؤمنین علیہ السلام اس خطبہ میں پیغمبر اکرم ﷺکے چار اوصاف بیان فرماتے ہیں اور ان میں سے ایک خاتم الرسل ہے۔

اَمِیْنُ وَحْیِهٖ، وَ خَاتَمُ رُسُلِهٖ، وَ بَشِیْرُ رَحْمَتِهٖ، وَ نَذِیْرُ نِقْمَتِهٖ.
وہ اللہ کی وحی کے امانتدار، اس کے رسولوں کی آخری فرد، اس کی رحمت کا مژدہ سُنا نے والے اور اس کے عذاب سے ڈرانے والے تھے۔
(نہج البلاغہ، افکاراسلامی، خطبہ۱۷۱، ص ۴۷۷)

اس فرمان میں امام ؑنے پیغمبر اکرم ﷺ کو آخری رسولؐ کہہ کر یاد فرمایا جس سے واضح ہوا کہ آپؐ پر نبوت بھی ختم ہے اور رسالت بھی ختم ہے۔

(۷) ختم نبوت کے لیے جامع الفاظ

امیر المؤمنین علیہ السلام نے پیغمبر اکرم ﷺکی رحلت کے وقت جو جملات ارشاد فرمائے وہ ختم نبوت کے لیے جامع الفاظ ہیں اور ختم نبوت کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہیں۔

بِاَبِیْۤ اَنْتَ وَ اُمِّیْ یَا رَسُوْلَ اللهِ! لَقَدِ انْقَطَعَ بِمَوْتِكَ مَا لَمْ یَنْقَطِعْ بِمَوْتِ غَیْرِكَ مِنَ النُّبُوَّةِ وَ الْاَنْبَآءِ و اَخْبَارِ السَّمَآءِ۔
“ یا رسول اللہﷺ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں! آپؐ کے رحلت فرما جانے سے نبوت، خدائی احکام اور آسمانی خبروں کا سلسلہ قطع ہو گیا جو کسی اور (نبی) کے انتقال سے قطع نہیں ہوا تھا۔”
(نہج البلاغہ،افکاراسلامی، خطبہ۲۳۲،ص۶۴۹)

امیر المؤمنین علیہ السلام نے یہاں ختم نبوت کو تین الگ الگ مفاہیم سے بیان کیا۔ نبوت کا ختم ہونا ،احکام شریعت کا اختتام اور ملائکہ کے ذریعہ پہنچائے جانے والی عام خبریں ختم ہو گئیں یعنی اب کوئی فرشتہ وحی لے کر نہ آئے گا ساتھ ہی پیغمبر اکرم ﷺکی رحلت پر ان الفاظ سے اظہارِ غم بھی فرمایا۔

نہج البلاغہ کے ان سات موارد میں امیر المؤمنین علیہ السلام نے ختم نبوت کو مختلف اور واضح الفاظ میں بیان کیا ہے اور ساتھ ہی متعدد مقامات پر رسول اللہ ﷺ کے بعد قرآن و عترت کو بطور ہادی و راہنما واضح فرمایا ہے۔ گویا نبی اکرم ﷺ جب اپنی نبوت پر ختم نبوت کا اعلان کرتے ساتھ ہی اپنے بعد کے ہادیوں کا تعارف بھی کراتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی مشہور حدیث ثقلین اس کا بیّن ثبوت ہے اور حدیث منزلت بھی اس کا ایک واضح اعلان ہے۔ حدیث کی کئی معتبر کتابوں میں حدیث منزلت کا یوں تذکرہ ہے۔

اے علی علیہ السلام آپؑ کو میرے ساتھ وہی مقام و منزلت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

علامہ اقبال نے بھی ختم نبوت کے موضوع پر لکھے گئے اشعار میں اس حدیث کو احسان خدا قرار دیا۔

لا نبی بعدی ز احسان خدا است پردہ ی ناموس دین مصطفیٰ است
رسول اللہ کا فرمان لا نبی بعدی اللہ کا احسان ہے اور یہ دین مصطفیٰ کی عزت و ناموس کا پردہ ہے۔
(کلیات اقبال، رموز بیخودی، ص۷۰، اشاعت کتابخانہ سنائی)

مقبول حسین علوی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button