نہج البلاغہ اور مقامِ اہل بیت علیہم السلام
خطاب: مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ

مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ
سیمینار بعنوان نہج البلاغہ اور مقامِ اہل بیتؑ
منعقدہ از جانب مرکز افکار اسلامی
جامعۃ الکوثر اسلام آباد
مورخہ 14 نومبر 2019
علمائے اعلام! مومنین کرام! سلام اللہ علیکم ۔
مولا کا ایک فرمان ہے: يَا حَارُ هَمْدَانَ، مَنْ يَمُتْ يَرَنِي
اے حارث ہمدانی جو بھی مرتا ہے وہ مجھے دیکھتا ہے۔
میں ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں جناب مولانا مقبول حسین علوی کی خدمت میں۔ جب آپ اس دنیا سے تشریف لے جائیں گے بہت طولِ عمری کے بعد! کسی دن موت نے تو آنا ہے۔ اس وقت آپ کے مولا آپ کے سرہانے حاضر ہوں گے اور آپ سرخرو ہوں گے مولاؑ کے سامنے۔ بہت سرخرو ہوں گے۔ اس کلام کو آپ نے زندہ کیا دوبارہ۔ لوگوں تک پہنچایا۔ یہ مظلوم کلام ہے۔
خود مولا بھی مظلوم ہیں۔ مولا کا ارشاد ہے:
اَنَا اَوَّلُ مَنْ يَجْثُو بَيْنَ يَدَيِ ٱلرَّحْمَنِ لِلْخُصُومَةِ يَوْمَ ٱلْقِيَامَةِ
میں پہلا وہ شخص ہوں گا قیامت کے دن اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں اپنا مقدمہ پیش کرنے کے لیے دو زانو ہوجاؤں گا۔ اَنَا أَوَّلُ مَنْ يَجْثُو
مولا فرماتے ہیں۔ سب سے پہلے۔ اس تمام کائنات میں سب سے پہلے علیؑ اپنی شکایت پیش کریں گے۔ یہ حدیث صحیح بخاری، صحیح مسلم اور مستدرک حاکم وغیرہ سب میں ہے۔ شیعہ مصادر کے علاوہ صحاح میں بھی یہ حدیث موجود ہے کہ مولا سب سے پہلے اللہ کی بارگاہ میں اپنا مقدمہ پیش کریں گے۔ اس لیے مولا مظلوم تاریخ ہیں۔
مولا مظلوم ہیں اپنے چاہنے والوں اور نہ چاہنے والوں دونوں کی طرف سے۔ چاہنے والوں نے بھی حد سے تجاوز کرکے مولا پر ظلم کیا۔ اور نہ چاہنے والوں نے بھی آپ سے روگردانی کرکے، آپ کے احکام کی پیروی نہ کرکے (آپ پر ظلم کیا)
یہ مظلوم تاریخ علیؑ چھ سال کی عمر سے لے کر تا آخرین حیات رسالت مآب ﷺ تک رسالت مآب کے ساتھ رہے۔ اور دن میں دو مرتبہ رسالت مآب ﷺ کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ میں یہ اہلسنت مصادر سے بات کرتا ہوں۔ متفقہ بات کرتا ہوں۔ ایک فرقے کی بات نہیں کر رہا۔ دو بار۔۔۔! ایک بار فجر سے پہلے سحر کے وقت اور ایک رات کی خلوت کے وقت۔ درس دیا کرتے تھے علیؑ کو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ اور اس کے باوجود ہم لوگوں نے کیا کیا۔ ہم جو مولا کو بہت زیادہ چاہتے ہیں۔ اللہ تک اور اللہ سے بھی آگے لے گئے۔ اور دوسرے لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ وہ زیادتی کی۔ چونکہ میں ایک شیعہ ہوں۔ اس لیے اسے فرقہ واریت پر محمول نہ کریں۔ حقائق ہیں حقائق! مولا سے احادیث لوگوں نے نہیں لیں۔ علی علیہ السلام سے احادیث نہیں لیں جس نے پوری عمر پوری زندگی رسالت مآب ﷺ کے ساتھ گزاری۔ سب سے زیادہ علم حاصل کیا۔ اس سے پانچ سو احادیث لی ہیں۔ پانچ سو! صرف پانچ سو! صرف پانچ سو!
حال ہی میں یہ ہمارے مولانا صاحب ہیں۔ منہاج القرآن کے سربراہ۔ ان کی تحقیق ہے۔ انہوں نے تحقیق کرکے نکالا ہے پندرہ ہزار دو سو احادیث منقول ہیں علی علیہ السلام سے سنی مصادر کتب میں۔ پندرہ ہزار دو سو میں سے رائج جو ہیں وہ پانچ سو ہیں صرف۔
اَنَا اَوَّلُ مَنْ يَجْثُو بَيْنَ يَدَيِ ٱلرَّحْمَنِ لِلْخُصُومَةِ يَوْمَ ٱلْقِيَامَةِ
علیؑ مظلوم تاریخ ہیں۔ علیؑ سے روگردانی ہوئی ہے۔ ہم یہی نہج البلاغہ جو دوسرے لوگ کہتے ہیں یہ شیعوں کی کتاب ہے۔ یہ شیعہ بھی کہاں اس کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ ابھی مولانا مقبول صاحب نے نشر کیا ہے تو کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں یہ نہج البلاغہ پہنچ گیا ہوگا۔ ورنہ نہج البلاغہ میں تو تقویٰ کا ذکر ہے، عبادت کا ذکر ہے، خوف خدا کا ذکر ہے۔ کہاں ہمارے مزاج کے ساتھ سجتا ہے یہ نہج البلاغہ۔ ہمارے مزاج کے ساتھ نہیں ہے۔ ہم کو آسانیاں چاہئیے۔ ہم کو آزادی چاہئیے۔ نہج البلاغہ قرآن کی طرح تقویٰ کے بندھوں میں ہمیں بند کرنا چاہتا ہے۔ ہم آزاد رہنا چاہتے ہیں ۔
یہاں چونکہ اس نشست کا موضوع ”علی علیہ السلام کی نظر میں اہلبیت اطہارؑ“ ہے۔ اہلبیت اطہارؑ خود بھی اپنی جگہ۔۔۔!
اب میں یہ چند باتیں کرتا ہوں اور چونکہ میں شیعہ ہوں تو وہ فرقہ واریت پر محمول ہوتی ہیں۔ جبکہ ہیں حقائق! اہلبیت اطہارؑ کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔ تاریخ نے حالات نے!
یہاں پر ایک حدیث ہے: اِنِّي تَارِكٌ فِيْكُمُ ٱلثَّقَلَيْنِ: كِتَابَ ٱللَّهِ وَعِتْرَتِي اَهْلَ بَيْتِي، مَا اِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي
حدیث ثقلین۔ اس حدیث کو تیس سے زائد اصحاب کرام سے روایت ہم تک پہنچی۔ اس وقت! ہم جو موجود ہیں صاحب عبقات الانوار نے تیس سے زائد اصحاب سے نقل کیا ہے۔ فریقین شیعہ سنی دونوں مصادر سے تیس اصحاب سے یہ روایت نقل ہے۔ لیکن پذیرائی نہیں ملتی۔ معذرت کے ساتھ! میں شرمندہ ہوں! لیکن پذیرائی ملتی ہے ”انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و سنتی“ کو۔ جبکہ ”کتاب اللہ و سنتی“ کی کوئی سند ہی نہیں ہے۔ میں نہیں کہتا۔ سعودی عرب میں ایک ادارہ ہے تحقیقاتی ادارہ۔ اس نے یہ اعلان کیا ہے کہ اس کی کوئی سند ہی نہیں ہے۔ لیکن اس کو ٹھیک ٹھاک پذیرائی ملتی ہے لیکن حدیث ثقلین ”کتاب اللہ و عترتی“ کو پذیرائی نہیں ملتی۔
ایک ارشاد ہے نہج البلاغہ میں مولا کا اہل بیت علیہم السلام کے سلسلے میں:
فاَنْزِلُوْهُمْ بِاَحْسَنِ مَنَازِلِ الْقُرْاٰنِ، (نہج البلاغہ، افکار اسلامی، خطبہ 85 ص278)
اہلبیتؑ کو قرآن کی بہترین منزل کے اوپر رکھو۔ بِاَحْسَنِ مَنَازِلِ الْقُرْاٰنِ! قابل توجہ ہے۔ سبحان اللہ۔ اس سے پتا چلتا ہے قرآن نے اہلبیتؑ کو کیا مقام دیا ہے معلوم ہے ہم کو؟ قرآن کے بہترین مقام و منزلت کے اوپر رکھو اہلبیتؑ کو۔ قرآن کے بہترین۔ بِاَحْسَنِ مَنَازِلِ الْقُرْاٰنِ۔ یہ یہی کہ یہ عِدل القرآن ہے۔ فِيكُمُ ٱلثَّقَلَيْنِ: كِتَابَ ٱللَّهِ وَعِتْرَتِي
مَا اِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي۔۔۔ اس کا مفہوم یہی ہے کہ اذا ما تمسکتم بھما تضلوا بعدی۔
یہ اہلبیت اطہار علیھم السلام! آپ کو معلوم ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں۔ اور اس سلسلے میں نہج البلاغہ کا مطالعہ کریں۔ مولا کی زبانی سنیں آپ۔ اگر آپ نہج البلاغہ کو مستند سمجھتے ہیں تو استناد نہج البلاغہ پر کتابیں بھی آپ نے نشر کی ہیں۔ وہ بھی پڑھیں کہ نہج البلاغہ کی سند صحیح ہے۔ مستند ترین کتاب ہے۔ فرامین علی علیہ السلام ہے۔ یہ حجت ہے ہمارے لیے۔ ہم شیعہ ہیں یا سنی ہیں۔
بہرحال میں معذرت چاہتا ہوں آپ کی زیادہ سماع خراشی نہیں کرنا چاہتا۔ میں پھر قدردانی کرتا ہوں جناب مولانا مقبول علوی صاحب قبلہ کی! ان کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص توفیق عنایت فرمائی۔ میں ایک بات ہمیشہ کہا کرتا ہوں طالب علموں میں، توفیق اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ توفیق کیا ہوتی ہے؟ وسائل و اسباب فراہم کرنے کو، کسی کارخیر کی انجام دہی کے لیے وسائل و اسباب کی فراہمی کو توفیق کہتے ہیں۔ وسائل و اسباب اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور کسی کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ پس توفیق بھی اللہ دیتا ہے ۔ اور اللہ جو دیتا ہے وہ اندھی بانٹ نہیں ہوتی، اہل کو توفیق ملتی ہے۔
میں مبارک پیش کرتا ہوں تبریک عرض کرتا ہوں جناب مولانا مقبول حسین علوی صاحب کی خدمت میں کہ وہ اس توفیق کے اہل ثابت ہوئے۔ اور یہ ایک معمولی توفیق نہیں ہے۔ ایک متروک ایک مظلوم امام۔ ایک مظلوم امام!
اسی فرمان سے پتا چلتا ہے: اَنَا اَوَّلُ مَنْ يَجْثُو بَيْنَ يَدَيِ ٱلرَّحْمَنِ لِلْخُصُومَةِ يَوْمَ ٱلْقِيَامَةِ
سب سے پہلے مقدمہ پیش کرنے والے مظلوم امام۔ اس مظلوم امام کی ایک کتاب، کلمات کو، فرامین کو آپ نے نشر کیا، لوگوں تک پہنچایا، بہت بڑا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اس کارہائے خیر میں، اس کی توفیقات خیر میں اضافہ فرمائے، آپ کو صحت و سلامتی عطا فرمائے ۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ