(٩) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۹)
وَ قَدْ اَرْعَدُوْا وَ اَبْرَقُوْا وَ مَعَ هٰذَیْنِ الْاَمْرَیْنِ الْفَشَلُ، وَ لَسْنَا نُرْعِدُ حَتّٰى نُوْقِعَ، وَ لَا نُسِیْلُ حَتّٰى نُمْطِرَ.
وہ [۱] رعد کی طرح گرجے اور بجلی کی طرح چمکے، مگر ان دونوں باتوں کے باوجود بزدلی ہی دکھائی اور ہم جب تک دشمن پر ٹوٹ نہیں پڑتے گرجتے نہیں اور جب تک (عملی طور پر) برس نہیں لیتے (لفظوں کا) سیلاب نہیں بہاتے۔
۱اصحاب جمل کے متعلق فرماتے ہیں کہ: وہ خوب گرجتے، گونجتے، دندناتے ہوئے اٹھے، مگر جب رن پڑا تو تنکوں کی طرح اڑتے ہوئے نظر آئے۔ کہاں تو وہ زمین و آسمان کے قلابے ملاتے کہ یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے اور کہاں یہ بودا پن کہ میدان چھوڑتے بنی۔ اور اپنی کیفیت یہ بیان فرماتے ہیں کہ: ہم لڑائی سے پہلے نہ دھمکیاں دیا کرتے ہیں اور نہ شیخیاں بگھارا کرتے ہیں اور نہ خواہ مخواہ کا ہلڑ مچا کر دشمن کو مرعوب کرنے کی کوشش کیا کرتے ہیں، کیونکہ بہادروں کا یہ وتیرہ نہیں ہوتا کہ وہ ہاتھ کے بجائے زبان سے کام لیں۔ چنانچہ آپؑ نے اس موقعہ پر اپنے ساتھیوں سے فرمایا:
اِيَّاكُمْ وَ كَثْرَةَ الْكَلَامِ، فَاِنَّهٗ فَشَلٌ.
زیادہ باتیں بنانے سے اجتناب کرو، کیونکہ یہ بزدلی کی علامت ہے۔[۱]↑
[۱]۔ مناقب ابن شہر آشوب، ج ۳، ص ۱۵۵۔