خطبات

خطبہ (۱۰)

10- طلحہ و زبیر کے بارے میں

(۱٠) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۱۰)

اَلَا وَ اِنَّ الشَّیْطٰنَ قَدْ جَمَعَ حِزْبَهٗ، وَ اسْتَجْلَبَ خَیْلَهٗ وَرَجْلَهٗ، وَاِنَّ مَعِیْ لَبَصِیْرَتِیْ. مَا لَبَّسْتُ عَلٰى نَفْسِیْ وَ لَا لُبِّسَ عَلَیَّ. وَایْمُ اللهِ! لَاُفْرِطَنَّ لَهُمْ حَوْضًا اَنَا مَاتِحُهٗ، لَا یَصْدُرُوْنَ عَنْهُ وَ لَا یَعُوْدُوْنَ اِلَیْهِ.

شیطان [۱] نے اپنے گروہ کو جمع کر لیا ہے اور اپنے سوار و پیادے سمیٹ لئے ہیں۔ میرے ساتھ یقیناً میری بصیرت ہے نہ میں نے خود (جان بوجھ کر) کبھی اپنے کو دھوکا دیا اور نہ مجھے واقعی کبھی دھوکا ہوا۔ خدا کی قسم میں ان کیلئے ایک ایسا حوض چھلکاؤں گا جس کا پانی نکالنے والا میں ہوں، انہیں ہمیشہ کیلئے نکلنے یا (نکل کر) پھر واپس آنے کا کوئی امکان ہی نہ ہو گا۔

۱؂جب طلحہ و زبیر بیعت توڑ کر الگ ہو گئے اور حضرت عائشہ کی ہمراہی میں بصرہ کو روانہ ہوئے، تو حضرتؑ نے یہ کلمات ارشاد فرمائے جو ایک طویل خطبہ کے اجزا ہیں۔

ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ: اس خطبہ میں ’’شیطان‘‘ سے مراد شیطان حقیقی بھی لیا جا سکتا ہے اور معاویہ بھی مراد ہو سکتا ہے، کیونکہ در پردہ معاویہ ہی طلحہ و زبیر سے ساز باز کر کے امیر المومنین علیہ السلام سے لڑنے کیلئے آمادہ کر رہا تھا، لیکن شیطانِ حقیقی مراد لینا موقع و محل کے اعتبار سے مناسب اور زیادہ واضح ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button